نئے سال پر لال سلام! انقلابی اور ردِانقلابی تحریکوں سے بھرپور سال کی آمد!

|تحریر: آدم پال|

لال سلام کے تمام قارئین کو نئے سال کی بہت بہت مبارک باد!

2017ء عالمی سطح پر انتہائی ہنگامہ خیز رہا اور سرمایہ دارانہ نظام پر محنت کش طبقے کے حملے پوری شدت کے ساتھ جاری رہے۔ سال کا آغاز امریکہ میں صدر ٹرمپ کی تقریب حلف برداری سے ہوا جس کیخلاف امریکہ کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ ٹرمپ کی مزدور دشمن پالیسیوں اور خاص کر خواتین کی جانب اس کے ہتک آمیز رویے کیخلاف امریکہ میں 45لاکھ کے قریب لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور حکمران طبقے کی حاکمیت کو چیلنج کیا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں اور امریکہ کے حکمران طبقے کیخلاف نفرت کا اظہار پورا سال مختلف واقعات میں نظر آتا رہا۔ اسی طرح امریکی حکمران طبقے کے داخلی تضادات بھی پوری دنیا پر عیاں ہو گئے اور مختلف اداروں کی باہمی لڑائی شدت اختیار کرتی گئی۔ امریکی ریاست کے تضادات میں شدت کے ساتھ ساتھ اس کی سامراجی طاقت کے خصی پن کا اظہار بھی پورا سال نظر آتا رہا۔ ایک جانب شمالی کوریا امریکہ کی طاقت کی حدود دنیا پر عیاں کرتا رہا اور دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی شکستوں اور ہزیمت کا سلسلہ جاری رہا۔

سب سے بڑی تحریکیں یورپ میں دیکھنے میں آئیں جہاں فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے انتخابات نے سیاسی زلزلے برپا کر دیے۔ دہائیوں سے بر سر اقتدار انتہائی مستحکم نظر آنے والی سنٹرسٹ پارٹیوں کی شکستیں اور انتہائی دائیں اور بائیں بازو کی تحریکوں اور پارٹیوں کا ابھار ایک نئے عہد کی غمازی کرتا ہے۔ سپین میں سیاسی میدان میں جہاں پوڈیموس کا ابھار ایک زلزلہ تھا وہاں کیٹالونیا کی تحریک نے ریاست کی بنیادوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور صدیوں پرانی ہسپانوی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کا آغاز کر دیا۔

مشرقِ وسطیٰ میں سعودی عرب کی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور شاہی خاندان میں جاری خانہ جنگی خبروں کی زینت بنتی رہی۔ شام، یمن، عراق اور لیبیا کی تباہی و بربادی کے بعد خانہ جنگیوں اور سامراجی جنگوں کی آگ اب خلیجی ممالک تک پہنچ رہی ہے اور بہت تیزی سے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ سعودی قطر تنازعہ، یمن میں عبداللہ صالح کا قتل، شام میں روس اور ایران کی وقتی کامیابیوں، ترکی میں اردوگان کا بڑھتا ہوا ریاستی جبر اور امریکہ سے تنازعہ، کردوں کی مزاحمت اور عراقی کردستان میں آزادی کا ریفرنڈم سالِ رفتہ میں خطے کا بحران مزید گہرا کرتے رہے۔ ٹرمپ کے اسرائیل اور سعودی عرب کے دورے اور ان کی باہمی دوستی کی پینگیں بھی عالمی منظر نامے میں تبدیلی کا عندیہ تھی۔ لیکن یہ تمام واقعات اسٹیٹس کو کے ٹوٹنے اور ایک نئے عہد کی سیاست کا اظہار ہیں۔ ایک ایسا عہد جس میں تمام پرانے ادارے، ڈھانچے، پارٹیاں، ریاستیں اور عالمی طاقتیں ختم ہو رہی ہیں اور ان کے خلا پُر کرنے کے لیے مختلف قوتوں کے پاس مواقع موجود ہیں۔

ٹرمپ کا یروشلم میں امریکی سفارت خانہ بنانے کافیصلہ اور پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس فیصلے کی مذمت عالمی سیاست اور اسٹیٹس کو کے ٹوٹنے کا واضح اظہار ہے۔ ٹرمپ اقوام متحدہ کے ادارے کے پہلے ہی شدید خلاف تھا اور اب اس کی مالی امداد بند کرنے کی باتیں کر رہا ہے۔ اسی طرح وہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، نیٹو اور دیگر عالمی اداروں کو قبلہ درست کرنے اور ان کی مالی امداد ختم کرنے کے بیانات دے چکا ہے۔ اس سے پہلے اس نے ڈبلیو ٹی او، ماحولیاتی آلودگی کے معاہدے، نیفٹا اور دیگر عالمی معاہدوں کی سر عام تذلیل کی ہے اور ان سے امریکہ کو باہر نکال چکا ہے۔ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک امریکہ پر سے انحصار کے خاتمے کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ سب کچھ نئے بحرانوں اور ٹوٹ پھوٹ کا پیش خیمہ ہے جو آنے والے سال میں زیادہ شدت سے اپنا اظہار کریں گے۔ عالمی سطح پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کے ان تمام اہم اداروں کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل مزید شدت اختیار کرے گا۔

چین اور روس بھی عالمی سطح پر امریکی سامراج کو چیلنج کر رہے اور خاص کر چین ایک سامراجی طاقت پر ابھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی اس سال ہونے والی کانگریس میں اس کا واضح اظہار نظر آیا۔ چینی صدر نے نہ صرف داخلی سطح پر تمام مخالفت کو پوری شدت کے ساتھ کچلا بلکہ عالمی سطح پر بھی کھل کر سامراجی عزائم کا اظہار کیا۔ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں کے مقابلے میں اپنے ادارے بنانے کے عمل کو بھی آگے بڑھایا۔ اسی طرح ڈالر کی حاکمیت کو چیلنج کرنے کے لیے یوآن میں عالمی سطح پر تجارت کی کوششوں کو تیز کیا اور اس مقصد کے لیے روس سمیت دیگر ممالک سے اہم معاہدے کیے۔ لیکن اس کے باوجود چین تکنیکی طور پر مغرب سے پسماندہ ہے اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہونے کے باعث اسی نظام پر حاوی مالیاتی طاقتوں اور ان کے وضع کردہ اصولوں کے تحت چلنے پر مجبور ہے۔ عالمی سطح پر اس کی دیگر طاقتوں سے کشمکش سیاسی و معاشی ٹوٹ پھوٹ کو جنم دے رہی ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں شدت آئے گی۔ چین کا محنت کش طبقہ اس سارے عمل میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے اور صدر شی جن پنگ کی اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوششیں حکمران طبقے میں خانہ جنگی کا آغاز کر تے ہوئے ایک دھماکے سے پھٹ سکتی ہیں۔

Embed from Getty Images

سال کا اختتام ایران میں ابھرنے والی عوامی تحریک سے ہوا۔ ایران کو خطے میں ملنے والی کامیابیوں کے باعث یہاں کی ملا اشرافیہ کو سب سے مستحکم اور معقول خیال کیا جا رہا تھا۔ اس کے مقابلے میں سعودی حکمران محمد بن سلمان کو بیوقوف اور پاگل کہا جا رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کا پاگل پن درحقیقت سماجی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹرمپ کی مضحکہ خیز شخصیت اور محمد بن سلمان کا پاگل پن، خونریزی اور غیرمعمولی فیصلے درحقیقت سماجی بحران کا مجسم اظہار ہیں۔ اب ایران کے حکمران طبقے اور ریاست کا بحران بھی سامنے آرہا ہے۔ اس تحریک نے واضح کر دیا کہ سامراجی فتوحات سے غریبوں کا پیٹ نہیں بھرتااور نہ ہی زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا ہوتی ہیں۔ اس تحریک کا آغاز ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد سے ہوا اور یہ تیزی سے تمام شہروں میں پھیل رہی ہے۔ معاشی مطالبات سے شروع ہونے والی تحریک تیزی سے سیاسی مطالبات کی جانب بڑھ چکی ہے جس پر ہمیشہ کی طرح ملا ریاست بد ترین جبر کر رہی ہے۔ سماج کے پسے ہوئے اور نچلے ترین طبقے کی شمولیت اس میں سب سے زیادہ ہے اور اس تحریک میں ہر قسم کے رجحانات موجود ہیں۔ اپوزیشن اور ریاست کے مختلف دھڑے اس کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ امریکہ اور سعودی عرب و اسرائیل بھی اپنے سامراجی مقاصد کے لیے اس میں مداخلت کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ تحریک ان تمام حملوں اور تضادات کے باوجود ابھی تک جاری و ساری ہے۔ اگرمحنت کش طبقہ اگر پورے وزن کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہوتا ہے تو اس کا کردار اور نعرے بالکل تبدیل ہو جائیں گے۔

Embed from Getty Images

اس تمام تر صورتحال کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں اور آنے والے سال میں جہاں مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں بڑے طوفان اور تحریکیں ابھرنے کے امکان موجود ہیں وہاں پاکستان بھی عالمی سطح پر آنے والی تبدیلیوں سے الگ نہیں رہ سکتا۔

پاکستان میں پورا سال ہنگامہ خیز رہا۔ ریاست کا بحران واضح طور پر نظر آیا اور ٹی وی کی بحثوں سے لے کر اخباروں کی سرخیوں تک دیکھا جا سکتا تھا کہ ریاست مختلف حصوں میں واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہے جس میں وقت کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔ امریکہ و چین کی سامراجی لڑائی ہو یا سعودی عرب اور ایران کی سامراجی جنگیں ہر بحران میں پاکستانی ریاست فٹ بال کی طرح لڑھک رہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ’’بیانیہ‘‘ اصطلاح کی گردان بہت زور و شور سے نظر آئی۔ بہت سے جرنیل، جج، سیاستدان اور کرائے کے دانشور اس اصطلاح کا استعمال کثرت سے کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کے خیال میں بیانیہ بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے وہ خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں۔ یہ اصطلاح درحقیقت منافقت کا دوسرا نام ہے۔ یہ انگریزی اصطلاح ’’Narrative‘‘ کا ترجمہ ہے جو سامراجی طاقتیں استعمال کرتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین پر جو بھی صورتحال ہے اس سے حکمرانوں کو کوئی غرض نہیں۔ ان کے نزدیک اصل اہمیت لوگوں تک پہنچائے جانے والی خبروں، تجزیوں اور سیاسی مؤقف کی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو کچھ بھی جھوٹ بتایا جائے وہ اسے سچ سمجھ کر تسلیم کر لیتے ہیں۔ اگر بتایا جائے کہ عراق پر حملہ کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس کے پاس وسیع تباہی کے ہتھیار ہیں تو لوگ اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس سامراجی جنگ کی حمایت کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ جبکہ ہم نے دیکھا کہ 2003ء میں اس جنگ کیخلاف امریکہ اور یورپ میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لیے نکل آئے تھے۔

پاکستانی حکمران طبقہ بھی سمجھتا ہے کہ عوام کو بتایا جائے گا کہ دہشت گرد وں کی کمر توڑ دی گئی ہے یا پھر اب وہ اچھے اور ذمہ دار شہری بن چکے ہیں تو سب لوگ ایمان لے آئیں گے۔ جس طرح پہلے بتایا جاتا تھا کہ دہشت گرد بہت خطرناک لوگ ہیں اور ریاست کروڑوں، اربوں روپیہ خرچ کر کے ان کیخلاف جنگ کر رہی ہے۔ ان حکمرانوں کے خیال میں لوگ نہیں جانتے کہ یہ دہشت گرد ریاست اور اس کے اداروں کے اپنے پیدا کردہ ہیں اور ریاستی پشت پناہی کے بغیر یہاں کوئی دہشت گردی کی کاروائی نہیں ہوتی۔ جس طرح امریکی سامراج کو، جس کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ اور فوج ہے، تورا بورا کے پہاڑوں میں کلاشنکوف تھامے شخص سے خطرہ تھاجس کے لیے افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ اسی طرح پاکستانی ریاست اور لاکھوں افراد پر مشتمل فوج جس کا ایک ہزار ارب روپے سالانہ سے زائدبجٹ ہے کو چند غنڈوں سے شدید خطرہ ہے۔ غرض ہر قسم کی منافقت اور جھوٹ کو اب بیانیہ کا نام دے دیا گیا ہے۔ جیسے عوام کو بتایا جائے گا کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں جو انہیں نظر ہی نہیں آتیں اور وہ غربت، بیروزگاری اور بھوک کا شور مچاتے رہتے ہیں۔ حکمرانوں کے خیال میں ٹی وی پر بیٹھے مسخرے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہیں گے اور یہاں ابھرنے والی تحریکوں کو میڈیا پر آنے سے روکیں گے تو ملک میں امن اور چین کی بانسری بجتی رہے گی۔ لیکن سماجی حقیقتیں جلد یا بدیر سطح پر اپنا اظہار کرتی ہیں اورپاکستان سمیت پوری دنیا میں سماجی تضادات پک کر پھٹنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان سماجی تضادات کو پھٹنے سے میڈیا یا حکمران طبقے کا کوئی بیانیہ بھی نہیں روک سکتا۔ انقلابی تحریکیں میڈیا، فیس بک یا انٹرنیٹ کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ اپنا رستہ تمام رکاوٹوں کو چیر کر بناتی ہیں۔

سیاسی میدان میں بھی واضح طور پر نظر آیا کہ اسٹیٹس کو ٹوٹ چکا ہے اور پاکستان کے سیاسی افق پر موجود تمام پارٹیوں کی سماج کے کسی بھی حصے سے کوئی جڑت نہیں۔ سب پارٹیاں اس وقت ہوا میں معلق ہیں اور غیر ضروری ہو چکی ہیں۔ ن لیگ کی داخلی خانہ جنگی، ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ، پیپلز پارٹی کا زوال اور قوم پرستوں، مذہبی پارٹیوں اور تحریک انصاف کی مکمل ناکامی اس سال واضح طور پر عیاں ہو چکی ہے۔ جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت اور اس کیخلاف نفرت اس سال زبان زد عام رہی اور مختلف واقعات میں اس کا اظہار کھل کر ہوتا رہا۔ سیاسی میدان میں یہ عمل مختلف رفتار کے ساتھ دنیا کے ہر ملک میں جاری ہے۔ ہندوستان میں 130سال پرانی پارٹی کانگریس اپنی تاریخ کے بد ترین زوال سے گزر رہی ہے اور انہدام کے قریب پہنچ چکی ہے۔ یہی صورتحال دیگر علاقائی پارٹیوں کی ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی سے لے کر جنوبی ہندوستان اور مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹیوں تک اور اتر پردیش میں سماج وادی اور بھوجن سماج پارٹی سے لے کر مشرقی پنجاب میں اکالی دل اور مہاراشٹر میں شیو سینا تک تمام پارٹیاں بدترین بحران کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں بی جے پی اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ لیکن گجرات کے انتخابات میں اس کے ووٹوں میں بڑے پیمانے پر کمی اس کے زوال کی بھی گھنٹی بجا رہی ہے۔ ہندوستان کا معاشی بحران بھی شدت اختیار کر رہا ہے جبکہ محنت کش طبقے کی تحریکیں زیادہ شدت سے ابھر رہی ہیں جو نئی سیاسی تحریکوں کا پیش خیمہ ہیں۔ طلبہ تحریک سمیت کشمیر کی تحریک آزادی بھی اہمیت کی حامل ہے۔

یہی صورتحال دنیا کے دوسرے خطوں میں بھی ہے۔ جنوبی افریقہ میں گزشتہ دو دہائیوں سے بر سر اقتدار افریقن نیشنل کانگریس کا بحران ایک خانہ جنگی میں بدل چکا ہے۔ وینزویلا میں شاویز کی پارٹی میں دائیں اور بائیں بازو کی لڑائی شدت اختیار کر رہی ہے۔ غرضیکہ ہر جگہ پرانی سیاسی روایتیں اور عوامی پارٹیاں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں نئی پارٹیوں کے لیے جگہ بن رہی ہے۔ اس کا سب سے واضح اظہار یورپ میں نظر آتا ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ماں برطانیہ میں ٹوری پارٹی اور لیبر پارٹی ٹوٹ کر بکھرنے کی طرف جا رہی ہیں اور خود سرمایہ داروں کے سنجیدہ تجزیہ نگار نئی پارٹی بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ فرانس کے انتخابات میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بر سر اقتدار رہنے والی دونوں پارٹیاں پہلے تین نمبروں میں بھی اپنی جگہ نہیں بنا سکیں۔ اسپین میں بھی دوپارٹیوں کا اسٹیٹس کو ٹوٹ گیا۔ جرمنی میں بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے میں آیا۔ یہی عمل ہر ملک میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں جانبDSAکے نام سے ایک نئی تحریک ابھر رہی ہے جس کی ممبر شپ اس سال پانچ ہزار سے بڑھ کر تیس ہزار تک پہنچ گئی۔ اس کی بنیاد برنی سیندڑز کی الیکشن کمپئین میں ہے۔ مارکسی رجحان بھی اس میں مداخلت کرتے ہوئے اپنا پیغام نوجوانوں اور محنت کشوں تک پہنچا رہاہے۔

آنے والے سال میں یہ عمل زیادہ شدت سے آگے بڑھے گا اور نئی تحریکوں اور نئی پارٹیاں بننے کا عمل آگے بڑھتا ہوا نظر آئے گا۔ لیکن جیسا کہ یونان میں سائریزا اور اسپین میں پوڈیموس کی شکل میں نظر آیا کہ جتنی تیزی سے یہ پارٹیاں ابھرتی ہیں اتنی ہی تیزی سے ان کا زوال بھی نظر آتا ہے۔ ماضی میں یہ عمل کئی سالوں یا دہائیوں پر محیط ہوتا تھا۔ لیکن آج کے عہد میں مہینوں اور سالوں میں پارٹیوں کا ابھار اور زوال نظرآتا ہے۔ اس کی بنیاد اصلاح پسندی یا ریفارم ازم کی ناکامی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ماضی کے بر عکس آج چھوٹی سے چھوٹی اصلاح کی گنجائش بھی موجود نہیں رہی۔ اس لیے بلند و بانگ دعووں کے بعد اقتدار میں آنے کے بعد یا پھر پارلیمنٹ میں جگہ بنانے کے بعد ان اصلاح پسند قیادتوں کو محنت کشوں کے مسائل کے حل کا پروگرام دینا پڑتا ہے۔ لیکن نظام میں گنجائش نہ ہونے کے باعث ان کو ناگزیر طور پر مزدور دشمن اقدامات یا فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ پوڈیموس کیٹالونیا کی تحریک پر واضح مؤقف نہ دینے کے باعث شدید بحران کا شکار ہے۔ یہی کچھ دوسری جگہوں پر بھی نظر آتا ہے۔

اس تمام عمل کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کا مالیاتی بحران ہے۔ 2017ء میں بحالی کے تمام تر دعووں اور اعلانات کے باوجود دنیا بھر میں روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں کیے جا سکے اور نہ ہی معاشی بحران سے مکمل نجات حاصل کی جا سکی۔ بلکہ ایک نئے بحران کی آمد کی پیش گوئیاں سارا سال جاری رہیں اور سالِ نو میں بھی ایک نئے عالمی بحران کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ امیر امیر تر ہوتے گئے اور محنت کش طبقہ پوری دنیا میں غربت اور ذلت کی گہرائیوں میں غرق ہوتا رہا۔ اسی طرح دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز بھی بڑھتا رہا اور بڑی کمپنیاں چھوٹی کمپنیوں کو نگلتی رہیں۔ 2017ء میں 3.4 کھرب ڈالر سے زیادہ کی کمپنیوں کے ادغام ہوئے جو اس بڑی سطح پر ہونے والے ادغاموں کا مسلسل چوتھا سال ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا کی معیشت کم سے کم ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن یہ سب نئے معاشی و مالیاتی زلزلوں کی بنیاد بھی رکھ رہا ہے۔ عالمی تجارت میں کمی کا رجحان اپنی انتہاؤں کو پہنچتا ہوا نظر آیا اور تحفظاتی پالیسیوں میں شدت آئی جو ایک نئے مالیاتی بحران کی بنیاد بن رہی ہیں۔ برطانوی پاؤنڈ میں بڑے پیمانے پر کمی دیکھنے میں نظر آئی۔ اسی طرح یورو بھی غیر مستحکم نظر آیا۔

اس پس منظر میں پاکستان کا معاشی بحران بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گراوٹ سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آچکا ہے جبکہ آنے والے سال میں قدر میں مزید دس فیصد سے زیادہ گراوٹ متوقع ہے۔ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ نئے وزیر خزانہ کے مطابق آئندہ چھ ماہ میں چھ ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ متوقع انتخابات سے پہلے خزانہ مکمل خالی ہو چکا ہوگا۔ ایسے میں ایک نیا عالمی مالیاتی بحران اس ڈوبتی ہوئی کشتی کے لیے جان لیواہو سکتا ہے۔ چین اور دوسرے ذرائع پر انحصار مشکلات میں اضافہ کرے گا جبکہ ٹرمپ سے گماشتگی کی فیس کی وصولی کے لیے مزید کئی ناپسندیدہ احکامات کی بجا آوری کرنی ہو گی۔ ہندوستان اور افغانستان سے تجارت کے فروغ کے لیے بھی ریاست کو بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا۔ جس سے ریاست کا داخلی بحران کئی گنا زیادہ شدت اختیار کرے گا۔ مشرقِ وسطیٰ کا بحران پہلے ہی ملکی معیشت کے لیے زہرِ قاتل بن چکا ہے۔ لاکھوں محنت کش بیروزگار ہو کر واپس آ رہے ہیں اور مزید کئی لاکھ کی واپسی نئے سال میں بھی متوقع ہے۔ اس سے ایک جانب جہاں ترسیلاتِ زر کی آمد میں کمی ہو رہی ہے وہاں بیروزگاری کا عفریت بھی پھیلتا جا رہا ہے۔ پہلے ہی 49فیصد محنت کش بیروزگار ہیں اور مشرقِ وسطیٰ سے لاکھوں محنت کشوں کی واپسی بیروزگاروں کا سیلاب برپا کرے گی۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں بلکہ چین کی معاشی جارحیت سے صنعتیں تیزی سے بند ہو رہی ہیں۔ اس وقت ملک میں گریجوایٹ بیروزگاروں کی تعداد بھی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے جو ایک رپورٹ کے مطابق پچیس لاکھ سے زائد ہے۔ آئندہ سال میں بیروزگاروں کی یہ فوج دائیں اور بائیں بازو کی تحریکوں کے لیے خام مال مہیا کرے گی۔

آنے والے سال کے دوران حکمران طبقہ نجکاری، بیروزگاری اور مہنگائی کے حملوں میں بھی کئی گنا اضافہ کرے گا۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے ساتھ ہی نئے سال کا تحفہ محنت کشوں کو مل چکا ہے۔ لیکن یہ محض ابھی آغاز ہے۔ ان حملوں کیخلاف تحریکوں میں بھی شدت آئے گی اور محنت کش طبقہ اپنے تجربات سے سیکھتا ہوا آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ 2017ء طلبہ تحریک کے لیے بھی اہمیت کا حامل تھا۔ جہاں مردان یونیورسٹی میں مشال خان کا قتل کر کے رجعتی قوتوں نے اپنے وحشی پن کا ثبوت دیا وہاں اس قتل کیخلاف طلبہ کے بھرپور جوابی مظاہروں اور عوامی رد عمل نے انہیں ان کی طاقت کا احساس دلایا۔ اسی طرح دیگر تعلیمی اداروں میں بھی فیسوں میں اضافے کیخلاف تحریکیں ابھرتی رہیں۔ آنے والے سال میں یہ تحریکیں مزید آگے بڑھیں گی۔ اب یہ تحریکیں معاشی مطالبات سے سیاسی مطالبات کی جانب بھی بڑھیں گی اور حکمران طبقے کی حاکمیت کو چیلنج کریں گی۔

انتخابات کو ریاست کے مختلف دھڑے اپنے کنٹرول میں کروانے کی کوشش کریں گے اور اس کے لیے جہاں ماضی کی طرح دہشت گردی کی کاروائیوں کے ذریعے عوام میں خو ف و ہراس پھیلا کر سیاسی عمل سے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی وہاں کٹھ پتلی سیاسی پارٹیوں کی بند ربانٹ میں الجھا کر ایک معلق پارلیمنٹ اور مخلوط حکومت بنانے کی بھی کوشش کی جائے گی۔ لیکن اس عمل کے دوران ریاست کے مختلف دھڑوں کے تضادات اور سامراجی طاقتوں کی لڑائی شدت اختیار کرے گی۔ عالمی سطح پر ہونے والی تیزی ترین تبدیلیوں میں کوئی بھی ریاستی دھڑا واضح سمت اختیار نہیں کر سکے گا اور ایک کے بعد دوسری کھائی میں گرتا چلا جائے گا۔ اس تمام لڑائی میں حکمران طبقے کا حقیقی کردارمحنت کش عوام پر مزید واضح ہوتا چلا جائے گا اور ان کی اس تمام غلاظت سے نفرت میں اضافہ ہو گا۔ یہ نفرت کسی بھی وقت ایک دھماکے کی شکل میں پھٹ سکتی ہے۔ اس تمام عمل میں دائیں بازو کی نئی قوتیں بھی اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتی رہیں گی۔

لیکن سب سے اہم بائیں بازو اور مارکسی قوتوں کا کردار ہے۔ آنے والا سال مارکسی قوتوں کو آگے بڑھنے کے لیے دنیا بھر میں وسیع مواقع فراہم کرے گا۔ پاکستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ بائیں بازو کا نقاب اوڑھے مفاد پرستوں، ریاست کی فرمانبرداری کے دعویداروں اور سامراج کی گماشتہ لبرل این جی اوز پر مشتمل سیاسی گروہ کا کردار اس سال کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ ایک جانب وہ غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے جیسا گھناؤنا مطالبہ پیش کر کے اپنے مزدور دشمن کردار کی حقیقت عیاں کر چکے ہیں وہاں نواز شریف جیسے مزدور دشمن ڈاکو کو جمہوریت پسند اور حقیقی لیڈر ثابت کرنے کی کوششوں میں ننگے ہو چکے ہیں۔ آنے والے طوفانوں میں انہیں اپنے این جی اوز کے گھناؤنے کاروبار خطرے میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی لیے وہ پوری طاقت سے رجعت رجعت کا شور مچا رہے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر تو اگلے سال میں داخل ہو جائیں گے لیکن ذہنی طور پر 1980ء کی دہائی سے باہر نہیں نکل سکے اور تمام تر سیاست کو انہی فارمولوں کے تحت دیکھتے ہیں۔ ایسے مایوس لوگوں کو ہر تحریک اور ہر اہم واقعہ مزید مایوسی میں مبتلا کرے گا۔

تیزترین بدلتی ہوئی صورتحال میں ایسے قنوطیت پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ سالِ نو ان کو ہی خوش آمدید کہے گا جو انقلابی تحریکوں اور تیز ترین تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کی جرات اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ صرف مارکسی نظریات پر عبور اور محنت کش طبقے کی طاقت پر غیر متزلزل یقین ہی آنے والے عرصے میں مارکسی قوتوں کو وہ بنیادیں فراہم کر سکتا ہے جس میں وہ ہر مشکل اور رکاوٹ کا مقابلہ کر سکیں۔ غیر معمولی حالات غیر معمولی عزم اور ولوے کا تقاضا کرتے ہیں۔ روایتی دانش، ذہانت اور فلسفے زمین بوس ہو چکے ہیں۔ آج جدلیاتی مادیت کا مارکسی فلسفہ ہی دنیا کو سمجھنے اور اس کا درست تناظر تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسرے تمام تجزیوں اور تناظر کو ہر آنے والا دن رد کرتا چلا جائے گا۔ سماجی و سیاسی صورتحال تیزی سے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی جانب بڑھے گی۔ ایسے میں ثابت قدمی سے آگے بڑھنے کے لیے مضبوط بنیاد کی ضرورت ہے۔ اسی کے تحت درست مؤقف اپناتے ہوئے مارکسی قوتوں کی مضبوط بنیادوں کو وسعت دی جا سکتی ہے۔ آنے والے سال میں حقیقی مارکسی قوتوں کی بڑھوتری تمام تر صورتحال میں معیاری تبدیلی کی جانب فیصلہ کن قدم ہو گا۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بربادی اور خونریزی کو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے اور اس تمام جدوجہد میں آنے والا سال عالمی و ملکی سطح پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تمام مارکس وادیوں کو اس سال کے آغاز پر اپنے آپ سے ایک عہد کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشی و سماجی مشکلات میں اضافے کے باوجود انہیں انقلاب کے اس سفر میں مزید قربانیاں دینی ہوں گی تاکہ محنت کش طبقے کی حتمی نجات کی منزل کو یہی نوجوان نسل اپنی زندگیوں میں حاصل کر سکے اور ہمارے آباؤ اجداد سے چلا آ رہا سوشلسٹ انقلاب کا قرض تاریخ کے اس فیصلہ کن موڑ پر اب آئندہ نسل کو منتقل نہ ہو۔

سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہو گی!

لال سلام!

Comments are closed.