بہاولپور: آئل ٹینکر سانحہ‘ ذمہ دار کون؟

|تحریر: ڈاکٹر یاسر ارشاد|

25 جون کی صبح ایک خبر نے پورے پاکستان حتیٰ کہ ہر زی شعور انسان کو ہلا کر رکھ دیا۔ بہاولپورشہر سے قریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر احمد پور شرقیہ قصبہ کے ساتھ مین ہائی وے پر ایک دل دہلا دینے والا سانحہ رونما ہوا جس میں اب تک 150 سے زائد افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایک آئل ٹینکر جو پیٹرول لے کر کراچی سے لاہور جا رہا تھا کا ٹائر پھٹ گیا، جس کے باعث وہ الٹ گیا اور پیٹرول بہہ نکلا۔ اس وقوعہ کے قریب واقع بستی والوں کو جب اس کی خبر ملی تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد موقع پر پہنچ گئی۔ ڈپٹی کمشنر بہاولپور کے مطابق مقامی مسجد کے مولوی صاحب نے لوگوں کو بذریعہ لاؤڈسپیکر اس حادثے کی خبر دی تھی جس کے بعد جائے وقوعہ پر لوگوں کا رش ہوا۔ لوگوں کے پاس جو برتن تھے وہ اسی میں پیٹرول جمع کرنے میں مصروف ہو گئے۔ یہ معاملہ ابھی جاری تھا کہ اچانک زور دار دھماکہ سے پیٹرول نے آگ پکڑ لی۔ ٹینکر میں قریباً 25 ہزار لیٹر پیٹرول تھا جو اس جگہ کو جہنم بنانے کے لیے کافی تھا۔ آگ کی لپیٹیں دور سے نظر آتی تھیں۔ پیٹرول چونکہ زمین پر بہہ نکلا تھا اور لوگوں کے جسم و برتن پر بھی لگا ہوا تھالہٰذا آگ کافی دور تک پھیل گئی اور متاثرہ علاقہ ایک تنور کی شکل میں تبدیل ہو گیا،جس میں کچھ اور نہیں انسان جل رہے تھے۔

اس واقعہ کے فوراً بعد میڈیا پر یہ واقعہ چھا گیا۔ ہر چینل پر اس واقعہ کی کوریج شروع ہو گئی۔مرنیوالوں کی میتوں سے لے کر ان کے لواحقین کی آہ وبکا تک میڈیا پر خاصی کوریج دی گئی۔ وزیر اعلیٰ و وزیراعظم سمیت اعلیٰ حکام نے بھی علاقہ کا دورہ کیا، چیک تقسیم کیے، امداد کا اعلان کیا اورروایتی مگر مچھ کے آنسو بہائے۔

سانحے کے سرمایہ دارانہ سطحی تجزیے:

اس واقعہ کے بعد سرمایہ دارانہ زرائع ابلاغ پر براجمان اینکر پرسنز سے لے کر سوشل میڈیا پر مڈل کلاس مجاہدین تک، برساتی مینڈکوں کی ایک پوری کی پوری فوج کو طبع آزمائی کا موقع مل گیا۔ مختلف لوگوں نے مختلف الفاظ میں اس واقعہ کا تجزیہ کیا۔ بیشتر نے ان مرنے والوں پر اپنے اندر کا گند و غلاظت اور پراگندگی باہر نکالی اور ہنوز نکال رہے ہیں۔

شاہدمسعود، جس کو قیامت مسعود بھی کہا جاتا ہے، نے کہا کہ لوگ اپنی لالچ کے ہاتھوں مارے گئے۔(یہ نہیں بتایا کہ یہ لالچ لوگوں میں آتی کہاں سے ہے؟) کچھ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اسلام میں چوری کرنا حرام ہے۔کاش کہ یہ لوگ چوری سے دور رہتے تو یہ حادثہ رونما نہ ہوتا۔ (حکمران طبقہ کی چوری سے کون کون سے حادثے رونما ہوتے رہے ہیں،اس پر یہ خواتین و حضرات خاموش تھے)

سوشل میڈیا، جس پر لوگ اپنے خیالات کا زیادہ کھل کر اظہار کرتے ہیں، پر درمیانے اور نسبتاً خوشحال طبقے سے تعلق رکھنے والے پیٹی بورژوا ذہنیت کے کچھ لوگوں نے کہا لالچ بری بلا ہے۔ ان لوگوں نے لالچ میں آکر خود اپنی موت کا سامان کیا۔ کچھ نے کہا کے ان جاہل بیوقوف لوگوں کے مرنے پر کسی قسم کا افسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ چور مر گئے، دکھ کس بات کا۔ ایک دو لوگوں کو تو خود راقم نے خس کم، جہاں پاک کہتے بھی دیکھا ہے۔باقی لوگ سطحی اظہار افسوس اور اس کے بعد عید کی رنگینی میں مگن دکھائی دیے۔

دیکھا جائے تو ان سب لوگوں میں کچھ چیزیں مشترک ہیں: 1۔سرمایہ داری نظام کے ازلی اور ابدی ہونے پر یقین 2۔سرمایہ داری نظام کی مخصوص خود غرضی اور کمزور کو حقیر سمجھنے کا رجحان 3۔حکمران طبقے کی کسی نہ کسی پرت سے ان کی غلامانہ نیازمندی و عقیدت 4۔مارکس وادیوں اور سوشلزم سے بدترین نفرت
اسی وجہ سے ہمیں ان کی انسانیت دشمن طعن و تشنیع اور انسانیت دشمن خیالات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

مارکس وادیوں کا نکتہ نظر:

پاکستان تیسری دنیا کے ان سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں شامل ہے جہاں سرمایہ دارطبقہ اپنی تاریخی تاخیرزدگی (Delayed) کی وجہ سے قومی جمہوری انقلاب کا فریضہ سرانجام نہیں دے سکا، مگر جہاں مشترکہ و ناہموار ترقی کے باعث سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے پیداواری رشتے ضرور استوار ہوئے ہیں۔ چنانچہ ترقی یافتہ سرمایہ داری کے وہ پہلو جو بہرحال کسی حد انسانیت کے لیے سہولت کا باعث ہیں، یہ سماج ان ثمرات سے محروم رہا۔نتیجتاً پاکستان اور اس جیسے سماج انسانیت کے لیے ایک جہنمِ ارضی بن چکے ہیں۔

اس ملک کے حکمران طبقے( جس کی دولت کی بنیاد لوٹ مار اور ٹیکس چوری ہے) نے ریلویز کے نظام کو برباد کیا تاکہ روڈ ٹرانسپورٹ سے منافع خوری کر سکے، نتیجہ سڑکوں پر حادثات کی ہوشربا شرح اضافہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ سرمایہ دار اکثر منافع کی ہوس میں اپنی گاڑی پرخرچ کرنے میں پس و پیش کرتے ہیں۔ ایک ہی ڈرائیور سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کی ہوس بھی حادثات کا باعث بنتی ہے۔ وہیکل ایگزامینیشن کے محکمہ کے عمال بھی گاڑیوں کی حالت پر کم اور اپنی جیب پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔ سڑکوں کا پست معیار اور اس کی وجہ ان سڑکوں کی تعمیر میں کرپشن کا عمل دخل بھی حادثات کی وجہ بنتا ہے۔ اگر ہم اس حادثہ کو بھی دیکھیں تو یہ ٹائر پھٹنے سے پیش آیا۔

عوام کو کسی بھی خطرناک مقام سے دور رکھنا،سیکیورٹی اداروں کا فرض ہے۔ واقعہ کے بعد قریباً 40منٹ تک لوگ جائے حادثہ سے پیٹرول حاصل کر رہے تھے۔ اگر ان لوگوں کو روکا جاتا تو سانحہ کو رونما ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ پاکستان جیسے ملکوں میں پولیس کو اصل تربیت لوگوں کو بچانے کی کم اور ان کو دبا کر دہشت زدہ کر کے لوٹ مار کرنے کی ذیادہ دی جاتی ہے۔ واقعہ کی جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ لوگوں روکنا تو درکنار ٹریفک کو بھی نہیں روکا گیا۔ چنانچہ سانحہ وقوع پذیر ہونے تک ٹریفک رواں دواں رہی اور بعد میں بہت سے راہگیر بھی لقمہ اجل بنے۔

سانحہ کے بعد نظام صحت کی بوسیدگی بھی کھل کر عیاں ہوگئی۔ زخمیوں کی بڑی تعداد سے نمٹنے کے لیے احمد پور شرقیہ تحصیل ہسپتال میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کی ایمرجنسی ناکافی تھی اور برن یونٹ(جلنے سے متاثرہ مریضوں کے علاج کا وارڈ)سرے سے نہیں تھا۔ عام سرجیکل وارڈ میں 40 فیصد سے زائد جلے کا مریض عام طور سے نہیں بچتا جبکہ برن یونٹ میں ایسے مریض کا بچ جانا عام سی بات ہوتی ہے۔ صوبے بھر میں برن سینٹرز میں بیڈز کی تعداد 90 سے کم ہے، جو عام حالات میں بھی مکمل بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ مطلب ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کا کوئی انتظام نہیں۔ ویسے بھی حکمران اپنی کرسی کی فکر کریں، اپنی تجوریاں بھریں، آئی ایم ایف کو سود ملکی عوام کو لوٹ لوٹ کر ادا کریں یا عوام کی صحت کی سہولت کی فکر کریں ؟

اب آتے ہیں ان وجوہات کی طرف جس نے لوگوں کو اپنی موت کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا۔

کون نہیں جانتا کے پیٹرول سے آگ لگتی ہے؟ کون نہیں جانتا کہ یہ آتش گیر ہوتا ہے؟ پیٹی بورژوا سوچ رکھنے والے دانشور حضرات کی لوگوں کو بے وقوف سمجھنے والی نفسیات کے برعکس ہم سمجھتے ہیں کہ لوگ جانتے تھے کہ پیٹرول سے خوفناک آگ لگ سکتی ہے۔

پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں عوام سرمایہ دارانہ سامراجی معاشی اداروں،سرمایہ دارانہ ریاست، ملکی وغیرملکی سرمایہ دار طبقہ کے مشترکہ استحصال کا شکار ہیں ،وہاں لوگوں کو چھوٹا سا ریلیف بھی بہت بڑا لگتا ہے اور وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال دینا چاہوں گا۔ اکثر آپ نے دیکھا ہو گا کہ لوگ سستے آٹے کی لائن میں بہت رسوا ہو کر بھی آٹا حاصل کرتے ہیں۔ بعض اوقات دھکم پیل میں کچلے بھی جاتے ہیں۔ پھر بھی لوگ ان جگہوں پر جاتے ہیں۔محنت کش عوام کی جہالت، بیوقوفی اور لالچ کا مذاق اڑانے والے دانشور حضرات اس وقت مکھیوں کی طرح برانڈز کا رخ کرتے ہیں، جب یہ برانڈز سیل کا اعلان کرتے ہیں۔ سیل پر یہ عام حالات سے زیادہ خرچ کر آتے ہیں حالانکہ سیل پر بھی سرمایہ دار خوب منافع بٹور رہا ہوتا ہے۔ بعد میں یہی خواتین و حضرات زیادہ خرچ ہونے پر کف افسوس ملتے بھی پائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کے یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ ان کو کچھ ریلیف ملنے کی توقع ہوتی ہے۔

احمد پور شرقیہ جنوبی پنجاب کی غریب ترین تحصیل ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب محنت کش طبقہ اور چھوٹے کسان تو دور کی بات ماضی کا خوشحال درمیانہ طبقہ بھی معاشی گراوٹ کے اثرات سے متاثر ہے اور شدید بے چینی کا شکار ہے لوگوں کا اس خطرناک جگہ کی جانب لپکنا ایک قدرتی عمل تھا اور ان میں ذیادہ تر کون لوگ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو زندگی کی بنیادی ترین ضروریات سے محروم لوگ تھے۔ دو چار پانچ سو کی دیہاڑی لگ جائے تو عید اچھی گزر جائے گی، سے زیادہ کیا سوچا ہو گا انھوں نے؟ کچھ پیٹی بورژوا دانشور ان کو چور بتا کر اپنی جہالت پر مہر تصدیق لگا رہے تھے۔ یہ خود ان حکمران طبقے کے لوگوں سے ہاتھ ملانے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں،جن کی ہوس اور لوٹ مار نے محنت کش عوام کی زندگی کو موت سے بدتر بنا دیا ہے۔ ایسے لوگوں کی خرافات پر ہم سوائے لعنت کے کچھ نہیں کر سکتے۔

آخر میں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ فریڈرک اینگلز نے کہا تھا، سوشلزم یا بربریت! بہاولپور سانحہ ہو یہ پاراچنار میں ہونے والی مذہبی فرقہ وارانہ دہشت گردی، بربریت ہم دیکھ رہے ہیں۔ آگے بڑھو ساتھیو! اس گلتی سڑتی سرمایہ داری کے سلگتے ہوئے جہنم سے بغاوت کرو۔ سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد تیز کرو۔

Comments are closed.