بیلجیم: اچانک ہونے والی ہڑتالوں نے حکومت کو ہلا کے رکھ دیا

تحریر: |ایرک ڈیمیسٹر|
ترجمہ: |اختر منیر|
3 جون 2016ء
بیلجیم، ایک ایسا ملک جہاں ایک لمبے عرصے تک اعتدال پسندی اور مصالحت معاشرے کی جینیاتی تشکیل کا حصہ معلوم ہوتی تھی، آج کل شدید سماجی دھماکوں سے دوچار ہے جس کی مثال کم کم ملتی ہے۔
manif2504عوام کٹوتیوں کے مسلسل حملوں سے بیزار اور کام کی جگہوں پر بڑھتے ہوئے بوجھ سے ذہنی ہیجان میں مبتلا ہیں۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں ہے کہ بیلجیم کا محنت کش طبقہ پورے یورپ میں سکون آور ادویات کا سب سے بڑا صارف ہے اور شدید اعصابی تناؤ کا شکار ہے۔ جدید دور کے محنت کش کے لیے ذہنی بیماریاں ایسے ہی ہیں جیسے انیسویں صدی کے محنت کش کے لیے سانس کی بیماریاں ہوا کرتی تھیں۔

جمع شدہ ہیجان اور اذیت جس کا اظہار عام طور پر محنت کشوں میں ذہنی امراض کی شکل میں ہوا کرتا ہے، اب اس کا بیرونی اظہار بھی ہونے لگا ہے جس کا نتیجہ مالکان اور پولیس سے ٹکراؤ اور دن بدن بڑھتی ہوئی خود رو تحریکوں کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔
2014ء میں دو نسلوں کے بعد آنے والی دائیں بازو کی حکومت کے گھناؤنے سرمایہ دارانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ محنت کشوں کی حاصل کی گئی مراعات اور یونینز پر پے در پے وار کر رہی ہے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ ڈیڑھ سال کی عمومی ٹریڈیونین جدوجہد کے بعد( جس میں 21 ملک گیر احتجاج، دوسری جنگِ عظیم کے بعد ہونے والی 24گھنٹوں کی سب سے بڑی عام ہڑتال اور دو بڑے عوامی مظاہرے بھی شامل ہیں جن میں بالترتیب 100,000 اور 120,000 محنت کشوں نے شرکت کی) پچھلے سال نومبر میں تحریک کچھ سست روی کا شکار ہوئی۔ جسے حکومت اور مالکان نے مزدور تحریک کی واضح شکست بنا کر پیش کیا۔
2014 کے سرما سے محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتیں چار یا پانچ روزہ ہڑتالوں کا حصہ رہی ہیں۔ اسی دوران نومبر میں پیرس میں داعش کی جانب سے دہشتگردی کے واقعات ہوئے جنہیں یونین لیڈران نے احتجاج ختم کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا۔ ان حملوں کو بنیاد بنا کر حکومت نے ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کر دی اور برسلز کی گلیوں کوچوں میں فوجی بوٹوں کی چاپ سنائی دینے لگی۔ لیکن یہ حر بے بھی طبقاتی جدوجہد کو جزوی طور پر ہی روکنے میں کامیاب ہو سکے۔ مثال کے طور پر ان حالات کے باوجود ریلوے کے مزدوروں نے جنوری کے مہینے میں دو روزہ ہڑتال میں حصہ لیا۔
22 مارچ کوایک بار پھر برسلز دہشتگرد حملوں کا نشانہ بنا اور ایک ان دیکھا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ لیکن فرانس کے برعکس، بیلجیم کی حکومت اپنے ڈھانچوں اور عوام میں ’قومی یکجہتی‘ کا جذبہ بیدار کرنے میں ناکام رہی جس کی اسے سخت ضرورت تھی، گو کہ فرانس میں، کچھ عرصے کے لیے ہی سہی، ہمیں یہ جذبہ دیکھنے کو ملا تھا۔ حملوں کے بعد کچھ ہفتے تک سیکیورٹی ادارے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہوئے آپس میں گتھم گتھا ہونے رہے۔
وزیر داخلہ اور کچھ اعلیٰ پولیس افسران نے ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے۔ کچھ خفیہ دستاویزات سامنے آنے پر، جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یورپین یونین کی طرف سے خبردار کئے جانے کے باوجود سیکیورٹی سے ’مبینہ‘ غفلت برتی گئی تھی، وزیر مواصلات کو برطرف کر دیا گیا جو کہ ائیر پورٹ سیکیورٹی کا ذمہ دار تھا۔ ’’بیلجئیم، ایک ناکام ریاست‘‘ مباحثوں کا موضوع اور پریشانی کا باعث بن گیا۔ ائیرپورٹس پر بھی بے چینی بڑھنے لگی جہاں سامان بردار مزدوروں کے ساتھ ساتھ کسٹم پولیس اور عام پولیس سٹاف بھی خود رو ہڑتال پر چلے گئے۔
دہشتگردی کا شکار ہونے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہونے والا ملک گیرمظاہرہ، جو دہشتگردی کا شکار ہونے والے ملکوں میں ایک رسم کی طرح ہے، کو برسلز کے میئر اور وزیر داخلہ کے دباؤ پر ’’سیکورٹی وجوہات‘‘ کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا۔ مظاہرہ تو نہ ہوا مگر پولیس نے دائیں بازو کے نسل پرست غنڈوں کو برسلز کے مرکز میں دندنانے کی کھلی چھٹی دے دی، جن کا مقامی لوگوں اور مہاجروں سے ٹکراؤ ہوا۔ ایک ہفتے بعد برسلز کی پولیس نے سینکڑوں کی تعداد میں نسل پرستی اور انتہا پسندی کے مخالفین کو بلا وجہ گرفتار کر لیا جن میں انسانی حقوق کی تنظیم کا صدر بھی شامل تھا۔ اس واقعے نے ایک مرتبہ پھر پورے ملک میں گرما گرم بحث کو ہوا دی اور برسلز کے میئر اور پولیس کے سربراہ کے درمیان ٹکراؤ کا باعث بنا۔
اسی پس منظر کے رد عمل کے طور پر حکومت نے مزید سخت کٹوتیاں لگانے (سرکاری ملازمین کی پنشن میں کمی)اور اس کے ساتھ ساتھ فرانس کے بدنام ’’لوئی ال خومری‘‘ مزدور قوانین کا بیلجین چربہ ’’ویٹ پیٹرز‘‘ متعارف کروانے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں ہفتے میں 38گھنٹے اوردن میں 8گھنٹے کام کے اوقات کار کوختم کر کے اس کی جگہ ہفتے میں 45سے 50گھنٹے اور دن میں 9سے 11گھنٹے کام کے اوقات کار متعارف کروائے جا رہے ہیں۔
برسلز کے مرکزی اخبار ’لی سوئیر‘ کے اداریے میں حکومت کو ان حملوں کے طریقہ کار ، وقت اور شدت کے بارے میں چتاؤنی دی گئی ہے کہ: ’’گزشتہ کچھ دنوں میں ہی بیلجیم کے باسیوں نے اپنی روزمرہ زندگی میں بہت سے مصائب اور پریشانیوں کا سامنا کیا ہے اور اب پانامہ پیپرز ، پینشن میں کٹوتیاں اور کام کے اوقات کار میں اضافہ، یہ سب بغیر کسی عوامی بحث و مباحثے کے کیا گیا ہے جو حالات کو معتدل کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یہ ناقابل برداشت ہے‘‘۔ محنت کشوں کے لئے یہ سب ہضم کرنا بہت مشکل ہے ۔ اس نئے حملے نے یونینز کو نئی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کیا اور اس سلسلے کی پہلی کڑی 24 مئی کو ہونے والا ایک بڑا عوامی مظاہرہ تھا جس میں 80,000محنت کشوں نے شرکت کی۔ اگلا با ضابطہ قدم 24 جون کو24گھنٹوں کی عام ہڑتال ہے جس کی کال سوشلسٹ یونین نے کچھ کرسچین یونینز کی حمایت کے ساتھ دی ہے۔ ستمبر اور اکتوبر میں، جب ’’ویٹ پیٹرز‘‘ کی منظوری دی جائے گی، تمام یونینز کی جانب سے 24 ستمبر کو عوامی مظاہرے اور 7 اکتوبر کو عام ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔
مارچ اور اپریل کے بعد عوامی مزاج یکسر تبدیل ہو چکا ہے۔ ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دہشت گردی کے حملوں کے بعد جو جذبہ عوام پر غالب تھا وہ خوف اور افسوس نہیں بلکہ غصے کا تھا۔ اس غصے کا رخ بلا شبہ دہشتگردوں کی جانب تھا مگر ساتھ ہی عمومی غصہ بھی موجود تھا۔ محنت کشوں کی کچھ پرتیں اپنے اس غصے کا اظہار تلاش کر رہی تھیں ۔ اس کا سب سے پہلا اظہار26 اپریل کو جیل کے حفاظتی عملے کی طرف سیبجٹ میں کی گئی 10 فیصد کٹوتیوں کے خلاف ہڑتال کی صورت میں ہوا تھا۔ اگلے روز برسلز اور جنوبی علاقوں کی کم سٹاف اور کھچا کھچ بھری ہوئی جیلوں کے عملے نے بھی کام پر واپس آنے سے انکار کر دیا۔ اچانک ہی انہوں نے آخر تک لڑنے کا فیصلہ کر لیا ، یعنی غیر معینہ مدت کی ہڑتال جو ابھی تک جاری ہے۔ اوپر سے نیچے تک تمام عملے کا غیر مصالحانہ رویہ قابل دید ہے۔ حکومت کی طرف سے دی جانے والی جزوی مراعات جسے ماضی میں قبول کر لیاجاتاتھاکو مکمل طور پر رد کر دیا گیا۔ کچھ جیل خانوں میں ہڑتالی عملے کی جگہ لینے والے پولیس افسربھی ہڑتال میں شامل ہوگئے۔ جس پر حکومت پولیس کی جگہ فوج کو تعینات کرنے پر مجبور ہو گئی۔
24 مئی کو ملک گیر احتجاج کے بعد ریلوے کے مزدوروں نے بھی اچانک ہڑتال کا اعلان کر دیا جو ابھی تک جاری ہے۔ صنعتی علاقوں کے ساتھ ساتھ یہ ہڑتال شمالی فلیمش اور جنوبی فرنچ علاقوں میں بھی پھیل گئی ہے۔ لیکن شمال میں یونین لیڈران کی جانب سے ہڑتال کو مسلسل سبوتاژ کرنے کی کوششیں جاری ہیں، مگر جنوب اور برسلز میں حالات مختلف ہیں۔ اس کے نتیجے میں جنوب میں ریلوے کا نظام مکمل اور شمال میں جزوی طور پر مفلوج ہے۔ اس تحریک کے ناہموار ہونے کی وجہ سے حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ صرف کاہل اور ہڑتالوں کے شوقین افراد حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر ملک کے دونوں حصوں فلیمش اور فرنچ علاقوں میں عوامی رائے تیزی سے حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف جا رہی ہے۔

مختلف سروے کے مطابق اگر فوری طور پر انتخابات کروائے جائیں تو حکومتی جماعتیں بڑے پیمانے پر اپنی پارلیمانی اکثریت کھو دیں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بائیں بازو کی جماعت پی وی ڈی اے / پی ٹی بی (جو ماضی میں ماؤ وادی اور اب بائیں بازو کی اصلاح پسند جماعت ہے) کی مقبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے پارلیمانی ممبران کی تعداد 2 سے بڑھ کر 10 تک ہونے کی امید ہے۔ اس طرح یہ کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی کو پیچھے چھوڑتی ہوئی جنوب کی تیسری بڑی پارٹی بن جائے گی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ سوشلسٹ پارٹی کی بائیں جانب سے کسی پارٹی کو اتنی مقبولیت ملی ہو۔ یہ محنت کشوں کی ایک وسیع پرت کے بائیں بازو کی جانب رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
شمال میں بھی پی وی ڈی اے(PVDA) کا ووٹ بڑھ کر 5 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ مگر یہاں سب سے زیادہ جھکاؤ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت ’’ولامس بیلانگ‘‘ کی طرف ہے جس کی وجہ حکمران فلیمش نیشنلسٹ پارٹی این وی اے(N-VA) ہے۔ کچھ اور دلچسپ اعداد و شمار کے مطابق فلینڈرز کے 45 فیصد عوام یونینز کے نئے پلان کی حمایت کرتے ہیں۔ کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی حلقوں کے ایک تہائی عوام، حکومتی لبرل پارٹی کے 25 فیصد اور یہاں تک کہ دائیں بازو کی قوم پرست این وی اے(N-VA) کے حلقوں کے 16 فیصد عوام یونینز کے پلان کی حمایت کرتے ہیں۔ ان جماعتوں کے پاؤں تلے سے زمین بڑی تیزی سے کھسک رہی ہے۔ 31 مئی بروز منگل کو سرکاری ملازمین نے پورے ملک میں احتجاج کیا۔
اور اب جنوب میں، بس ڈرائیوروں نے بھی مکمل ہڑتال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اسی ہفتے 1917ء کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ مجسٹریٹ بھی ہڑتال پر ہوں گے۔ ایک مکمل عام ہڑتال بھی بہت سے محنت کشوں اور کارکنوں کے مابین زیر بحث ہے۔ ہڑتالوں کے مطالبات بھی مزید انقلابی ہوتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں حکومت سے لی جانے والی چند مراعات کے مطالبات کے برعکس حکومت کی تبدیلی کے مطالبے زیادہ مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔
یہ محض ایک حادثہ نہیں ہے کہ ایک بورژوا اخبار نے اپنے اداریے میں اچانک ابھرنے والی بڑی عوامی تحریکوں کی وضاحت کے لیے فرانس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ان کے خیال میں بیلجیم کے محنت کش ’’فرانسیسی انقلابی وائرس‘‘ کی زد میں آ گئے ہیں۔ فرانسیسی محنت کشوں کی ’’لوئی الخومری‘‘ کے خلاف جاری تحریک نے بیلجیم کے محنت کشوں، بالخصوص فرانسیسی جنوبی علاقے ،کو بہت حد تک متاثر کیا ہے ۔ مگر بیلجیم کی تحریک کے اپنے خال و خد ہیں۔
ان تحریکوں کی سب سے متاثر کن خوبی ان کا اچانک اور دھماکہ خیز ہونا ، بڑے پیمانے پر عام ہڑتال کا پھیلتا ہوا خیال اور محنت کشوں کا ناقابل مصالحت رویہ ہے۔ یونین لیڈران بھی اس کے اثر سے باہر نہیں ہیں، ان میں سے کچھ عوامی سیلاب کے ساتھ بہتے جا رہے ہیں اور کچھ اسے روکنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ آنے والے دنوں میں حالات کس کروٹ بیٹھیں گے۔ مگر ایک خود رو عام ہڑتال کا خیال ہر جگہ گردش کر رہا ہے۔ بہت کچھ فرانس میں ہونے والے واقعات پر منحصر ہے ۔ لیکن بیلجیم کی حکومت کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ کچھ روز قبل وزیر ریلوے نے اعلان کیا کہ وہ ان تمام اقدامات کو واپس لینے کے لیے تیار ہے جنہوں نے ہڑتال کو جنم دیا تھا۔ اس بیان پر اسے فوری طور پر دوسری پارٹیوں اور دائیں بازو کے اخبارات کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ انہوں نے درست طور پر اس بات کی نشاندہی کی کہ اگر اقدامات کو عارضی طور پر بھی واپس لیا گیا تو اس سے محنت کشوں کے حوصلے بلند ہوں گے اور یہ دوسرے شعبوں میں بھی ہڑتال کا باعث بن سکتا ہے۔ جو بھی ہو، ایک بات تو پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے: دھماکہ خیز طبقاتی جدوجہد کا جن بوتل سے باہر آ چکا ہے۔۔۔ بیلجیم میں بھی!

Comments are closed.