بالشویک انقلاب اور قومی سوال

|تحریر: گلباز خان|
99 سال پہلے تاریخ کے اوراق میں ایک ایسے درخشاں باب کا اضافہ ہوا تھا جس نے کم وبیش پوری دنیا پر اثرات مرتب کئے۔ ایک ایسا واقعہ جس کی مخالفت یا حق میں شاید سب سے زیادہ لکھا اور بولا گیا۔ زار شاہی روس میں استحصال زدہ، محروم اور پسے ہوئے طبقات نے صدیوں سے جاری جبر اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر اپنی تقدیر بدلنے کا آغاز کیا۔ صنعتی مزدوروں نے بالشویک پارٹی کی قیادت میں سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے پہلی حقیقی مزدور ریاست کو تخلیق کیا۔ تمام تر صنعت اور جاگیروں کو اجتماعی ملکیت میں لے لیا۔ قومی، طبقاتی اور ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ کیا گیا۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پسے ہوئے طبقات نے سماج کی ترقی کے وہ امکانات پیدا کئے جن کا سرمایہ داری کے تحت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یوں 1917ء کا انقلاب پوری دنیا کے مزدوروں کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہوا۔ اور اس وقت تک رہے گا جب تک سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔

bolshevik-revolution-lenin-painting
روس میں انیسویں صدی کے آخری نصف سے تیز ہوتی ہوئی بیرونی یا غیر ملکی سرمایہ کاری سے صنعت کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا لیکن مجموعی طور پر معیشت پسماندہ ہی رہی۔ آج کے پسماندہ ممالک کی طرح روس کی سرمایہ داری انتہائی کمزور،ر جعتی اور خصی پن کا شکار تھی۔ اسی فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی تھی۔ بیرونی سرمایہ کاری کے نتیجے میں جدید فیکٹریاں قائم ہوئی تھیں لیکن اس کے باوجود جاگیردارنہ اور نیم جاگیردارانہ پیداواری رشتے بھی سماج میں موجود تھے۔ روس میں سرمایہ داری کسی انقلاب کے نتیجے میں نہیں بلکہ سامراجی سرمایہ کاری کے ذریعے سے متعارف کروائی گئی۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے ملغوبے پر قائم زارشاہی ریاست ہر طرح کے استحصال اور جبر کا وہ ذریعہ تھی جو امراء، سرمایہ داروں ، امیر کسانوں اور بیرونی سرمایہ کاروں کی لوٹ اور منافعوں میں اضافے کا باعث تھی لیکن مزدوروں اور بے زمین دیہی کسانوں کی زندگی انتہائی تلخ تھی۔ زار شاہی نے تمام تر جمہوری اور سماجی آزادیاں مکمل طور پر صلب کر رکھی تھیں۔
زارشاہی روس مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ تھا۔ 57فیصد آبادی غیر روسی اقلیتوں پر مشتمل تھی۔ جو 43فیصد روسی قوم کے امتیازی سلوک اور استحصال کا شکار تھیں۔ قومی سوال بنیادی طور پر بورژوا جمہوری انقلاب کے تاریخی فرائض کے ذریعے حل کیا جانا تھا لیکن بورژوازی کی تاریخی کمزوری کے باعث وہ دیگر فرائض کی طرح قومی مسئلے کو بھی حل نہیں کر سکی تھی۔ مزید براں قومی سوال نہ صرف زیادہ پیچیدہ ہوتا چلا گیا بلکہ سوشلسٹ انقلاب کو درپیش چیلنجز میں ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر سامنے آیا۔ ایسے میں بالشویک پارٹی اور لینن نے استحصال اور جبر کی ہرشکل سمیت قومی جبر، نسلی تعصبات اور شاؤنزم کے خلاف ایک انتھک جدوجہد کی اور پرولتاری اور انقلابی مقاصد کا دفاع کیا۔
لینن نے زار شاہی ریاست کی مظلوم اور محکوم اقوام کے رضا کارانہ اتحادکو ہمیشہ بنیادی اہمیت دی۔ قومی اقلیتوں کے لیے مکمل برابری کے حقوق کی ضمانت فراہم کئے بغیر سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کا تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ مارکسزم قومی حق حودارا دیت کو تسلیم کرتا ہے اور کسی بھی قومیت کو اس کی مرضی کے خلاف کسی ریاست کی حدود میں رکھے جانے کو مسترد کرتا ہے۔ جس طرح مارکس نے کہا تھا کہ کسی قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی دوسری قوم پر جبر کرے۔ لیکن حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے سے کبھی بھی یہ مراد نہیں ہوتی کہ مزدوروں کی ہم آہنگی اور بھائی چارے پر مبنی طبقاتی جڑت کی جدوجہد کو لمحے بھر کے لیے بھی نظر انداز کیا جائے اور بورژوا قوم پرستی کے ساتھ مصالحت کر لی جائے یا اسے بے نقاب نہ کیا جائے۔ سوویت انقلاب کی معماروں لینن اور لیون ٹراٹسکی نے کبھی بھی زبان، رنگ ، نسل اور قومی ثقافت جیسی عصبیتوں کو رعایت نہیں دی بلکہ ان کی تمام تر لڑائی پرولتاری ثقافت اور مزدوروں کی بین الاقوامیت پر مبنی انقلابی مقاصد کے حصول کے لیے تھی۔

map_of_the_soviet_union_russian

حق خود ارادیت کی حمایت کا مقصد یہ تھا کہ ظالم اور مظلوم قوموں کے مزدوروں اور عوام کے آپسی اتحاد کو یقینی بنایا جائے۔ یہ کوئی دھوکہ دہی نہیں تھی بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی ملک کے محنت کشوں کو دوسرے ملک کے محنت کشوں کا معاشی یا قومی استحصال کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی نہ یہ انکے مفاد میں ہوتا ہے۔ طبقاتی سماجوں کے اندر یہ حکمران طبقہ یا ملکیت رکھنے والے طبقے کی ہوس ہوتی ہے جس کی تسکین، منڈیوں کے حصول اور قدرتی وسائل کی لوٹ کے لیے توسیع پسندی یا سامراجی جارحیت کی جاتی ہے۔ اپنی قوت محنت کے علاوہ محنت کش طبقے کے پاس کوئی ملکیت نہیں ہوتی لہذٰا ان کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ ہر قوم کے اندر ایک طبقاتی تفریق ہوتی ہے۔ اسی قوم کے سرمایہ داروں ، مالکان اور حکمرانوں کی لوٹ اور استحصال سے اس قوم کے محنت کش غریب سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں اور سرمائے کی محنت پر برتری ان کو غلام اور محکوم رکھتی ہے۔ اس حوالے سے ٹراٹسکی نے لکھا تھا ’’انسانیت کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرنا کبھی بھی ہمارا مقصد نہیں رہا۔ یہ درست ہے کہ قومی جبر کے خلاف حتمی اور موثر ترین ضمانت کے طور پر بالشواز م اس بات پر اصرار کرتا تھا کہ ہر قوم کو علیحد گی کا حق حاصل ہولیکن حق حاصل ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ علیحدگی فرض ہوگئی ہے۔ بالکل ویسے جیسے حق طلاق حاصل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ طلاق ہر صورت میں ہونی چاہئے۔ لیکن انفرادی قومی خصوصیات کو مصنوعی طور پر محفوظ کرنے کا خیال بالشوازم کے لیے بالکل اجنبی تھا۔ یہاں تک کہ کسی ڈھکے چھپے، نفیس ترین اور غیر محسوس طور پر کیے جانے والے قومی جبر یا ذلت کو بھی لازمی طور پر مختلف قومیتوں کے مزدوروں کے انقلابی اتحاد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ انھیں تقسیم کرنے کے لیے۔
روسی مارکسسٹوں نے اپنے حکمرانوں اور سرمایہ دار طبقے کی پالیسوں اور ان کے ہاتھوں مظلوم قومیتوں پر جبر کے خلاف زبردست جدوجہد کی تھی۔ اسی بنیاد پر وہ پولینڈ، یو کرائن اور جارجیا وغیرہ کے مزدوروں کو اجتماعی جدوجہد کے لیے جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن یہ یکجہتی اور ہم آہنگی قطعاً جعلی، دھوکہ دہی یا مصنو عی سمجھوتوں کی بنیاد پر نہیں تھی۔ اس میں کوئی سیاسی یا نظریاتی رعایات موجود نہیں تھیں بلکہ ٹھوس انقلابی اور نظریاتی رشتوں پر استوار ہوئی تھی۔ لینن نے کہا تھا کہ ’’اگر ایک یوکرینی مارکسسٹ عظیم روسی غاصبوں سے اپنی نفر ت، جس میں وہ حق بجانب بھی ہے، سے اس حد تک متاثر ہوتا ہے کہ اس نفرت کا ایک ذرہ بھی چاہے یہ عدم دلچسپی ہی کیوں نہ ہو عظیم روسی مزدوروں کے پرولتاری کاز کی طرف منتقل کر دے تو ایسا مارکسسٹ بورژوا قوم پر ستی کی دلدل میں پھنس جائے گا۔ اسی طرح ایک روسی مارکسسٹ اگر وہ لمحہ بھر کے لیے بھی یوکرینیوں کے لیے مکمل برابری یا ایک الگ ریاست تشکیل دینے کے ان کے حق سے نظریں پھیرے گا تو وہ نہ صرف قوم پرستی بلکہ سیا ہ صد والوں کی قوم پرستی کا شکار ہو جائے گا۔ ‘‘ یہ وہ انقلابی بنیادیں تھیں جن پر کھڑے ہو کر بالشو یک انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی مزدور ریاست تخلیق کی گئی جس میں 15 سے زائد علاقائی ریاستیں جن میں 100 مختلف قومیتیں اور 400 علاقائی قبائل شامل تھے۔ ایک پسماندہ ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پرولتار یہ کوہی قومی جمہوری انقلاب کے مسائل کو حل کرنا پڑا۔ جن میں زرعی سوال اور قومی مسئلہ سب سے زیادہ پیچیدہ اور بنیادی نوعیت کے حامل تھے۔
بالشویک انقلاب اپنے کردار اور تکمیل کے حوالے سے ایک ملک کا انقلاب نہیں تھا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والا یہ سوشلسٹ انقلاب اگر چہ ایک پسماندہ ملک میں رونما ہوا تھا لیکن کم حجم کے باوجود سوویت محنت کش طبقے نے شعوری بنیادوں پر سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے اقتدار سو ویتوں ( انقلابی پنچائتوں) کو سونپا تھا۔ جیسا کہ لینن نے کہا تھا کہ سرمایہ داری اپنی کمزور ترین کڑی سے ٹوٹ گئی ہے۔ مفلوک الحال مزدوروں اور کسانوں نے بالشویک پارٹی کی قیادت میں سماج کو آگے لیکر جانے کا فریضہ اپنے کندھوں پر لیا۔ ہر طرح کہ قومی جبر اور معاشی استحصال کا خاتمہ ہوا تھا۔ جب نو مولود مزدور ریاست کو کچلنے کے لیے 22 سامراجی ملکوں نے ننگی جارحیت شروع کر دی تو لینن نے پوری دنیا اور بالخصوص یورپ کے محنت کشوں سے اپیل کی کہ یہ ان کا یعنی پوری دنیا کے مزدوروں کا انقلاب ہے اور وہ اس کے دفاع کے لیے آگے بڑھیں۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس وغیرہ کے محنت کشوں نے عملاً اس انقلاب کا دفاع کرنے کے لیے احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کیں۔ یوں ریڈ آرمی اور عالمی پر و لتاریہ نے رد انقلاب کو شکست دی۔ لینن مرتے دم تک عالمی انقلاب کے لیے جدوجہد کر تا رہا۔ وہ ترقی یافتہ ممالک میں انقلاب کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتا تھا اور انقلاب کے تنہا رہ جانے کے مضمرات سے آگاہ تھا۔ اس کا یقین تھا کہ مغربی یورپ اور بالخصوص جرمنی کا انقلاب عالمی انقلاب کے لیے فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے اسی لیے اس نے ایک کہا تھا کہ اگر جرمنی کے انقلاب کے لیے سوویت انقلاب کو قربان کرنا پڑے تو میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کروں گا۔ جرمنی، چین اور بعد ازاں سپین میں جاندار انقلابی تحریکیں ضرور ابھریں لیکن انقلابی قیادت کے فقدان اور کمزوری کی وجہ سے فتح یاب نہ ہو سکیں۔

بالشویک پارٹی نے نومولود مزدور ریاست کا نام یونین آف سوویت سوشلسٹ ری پبلک (USSR) رکھا تھا۔ جو کسی مخصوص ملک یا قومیت سے منسوب نہیں تھا۔ زبان و ثقافت اور اد ب کو یکساں اور آزادانہ طور پر ترقی کے مواقع فراہم کیے گئے۔ ایک پسماندہ ملک میں تنہا رہ جانے اور بعد میں بیوروکریٹک (سٹالنسٹ) زوال پذیری کے باوجود سوویت یونین میں سماج کو زبر دست ترقی ملی۔ جہاں سائنس و ٹیکنالوجی، صنعت و زراعت اور انفرا سڑکچر کے شعبوں نے بے نظیر ترقی دیکھی وہاں قومی جبر کے خاتمے کا بھی حقیقی بنیاد پر آغاز ہوا تھا۔ آج با لشویک انقلاب کی تاریخ کو پڑھنے اور سمجھنے کا مقصد یہی ہے کہ ان تاریخی حالات اور واقعات کو سمجھا جا سکے اور اسباق حاصل کرتے ہوئے آج کے عہد میں انقلابی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔
آج سرمایہ دار ی تاریخ کے بدترین بحران کے عہد سے گزر رہی ہے۔ گہرے معاشی بحران میں دھنس کر سماج کو بر بریت کی طرف دھکیل رہی ہے۔ طبقاتی تفریق تاریخ میں کبھی نہ دیکھی گئی انتہاؤں پر ہے۔ پسماندہ یا نو آبا دیا تی خطوں میں قومی سوال خونریز ہو تا جا رہا ہے۔ عالمی اجارہ داریوں اور گلو بلائزیشن کے حالیہ عہد میں قومی ریاست ایک قطعی رجعتی ادارہ بن چکی ہے اور ذرائع پیداوار کی ترقی میں ایک حتمی رکاوٹ بن چکی ہے۔ یوں سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے سماج مزید ترقی نہیں کر سکتا۔ سکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحد گی کی تحریک، سپین میں کیٹالونیا اور باسک کنٹری کا قومی مسئلہ، یور پی یونین سے برطانوی اخراج پر ریفرنڈم اور امریکہ میں سیاہ فاموں کی تحریک اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ترقی یافتہ ترین سماجوں میں بھی قومی اور لسانی مسائل کو مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکا اور اب سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کے زیر اثر یہ مسائل پھر سر اٹھا رہے ہیں۔
اس تمام تر صورت حال میں اگر پاکستانی ریاست کی بات کی جائے تو اپنی ابتدا سے ہی پاکستان کے حکمران طبقات اپنے سامراجی آقاؤں کی پیروی کرتے چلے آئے ہیں۔ 1946ء کی انقلابی بغاوت کی ناکامی اور تقسیم ہند کے بعد ہندوستانی اور پاکستانی ریاست کا کردار بھی زار شاہی روس سے مختلف نہیں ہے۔ انڈیا کے اندر بھی کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں موجودہیں اور ریاستی طاقت کے ذریعے قومی جبر پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرنے والا بر صغیر آج عملاً محکوم اقوام کی اذیت گاہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ دہلی اور اسلام آباد میں بیٹھنے والی حکومتیں خطے کے دوسرے ممالک میں بھی سامراجی عزائم کے تحت اپنا سامراجی کھلواڑ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں سامراجی دلالی اور اپنا اثرو رسوخ بڑھا نے کے لیے آئی ایس آئی نے ثورانقلاب کو مٹا نے کی خاطر طالبان جیسی جہادی تنظیمیں لانچ کیں اور اربوں ڈالر کمائے لیکن اپنے ہی پالے ہوئے سانپوں نے جب پلٹ کر حملہ کیا تو پورا سماج دھل کر رہ گیا۔ اسی طرح کشمیری، بلوچ، پشتون، سندھی اور سرائیکی قومی مسئلہ پاکستان کی گماشتہ ریاست بورژوا بنیادوں پر نہ حل کر سکی ہے اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کی بے مثال قربانیوں کے باوجود آزادی کی منزل حاصل نہیں کی جا سکی۔ حالیہ عرصہ میں شروع ہونے والی تحریک 100 دن سے زیادہ ہونے کے باوجود پوری شدت سے جاری ہے۔ 2010ء میں بھی سنگ باز نوجوانوں نے آزادی اور روزگار کے مطالبات اور نعروں کے ساتھ سیاسی طور پر زیادہ سنجیدہ جدوجہد کی تھی۔ خود رو تحریک جب زیادہ سنجیدہ مراحل میں داخل ہوتی ہے تو ایک طرف ریاستی جبر کی انتہا کی جاتی ہے دوسری طرف نام نہاد کشمیری قیادت حریت کا نفرنس (جس کی حیثیت غاصب طاقتوں کی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے) کے ذریعے تحریک کو کنفیوز اور زائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نام نہاد آزاد کشمیر (پاکستانی مقبوضہ کشمیر) میں قوم پرستی اپنے سیاسی اور نظریاتی دیوالیہ پن کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے لیکن آزادی کی خواہش موجود ہے۔
مظفر آباد اور اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران یکساں طور پر قابل نفرت سمجھے جاتے ہیں۔ جس طرح ہیگل نے کہا تھا کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جبر کی نوعیت کو سمجھا جائے، اسی طرح معروضی اورمادی حالات کی درست سمجھ بوجھ کے بغیر درست جدوجہد نہیں کی جاسکتی۔ انفرادی دہشت گردی (مسلح جدوجہد) اور بورژ واقوم پرستی کے ذریعے کامیاب لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔ وسیع تر عوام، محنت کشوں اور نوجوانوں کو انقلابی سوشلزم کے درست درست سائنسی نظریات پر جیت کر ہی حقیقی آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ آزادی کے نعرے کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑا جائے۔ کشمیر میں گزشتہ عرصہ میں پیرا میڈیکل اسٹاف ، نرسز اور شاہرات کے مزدوروں نے اپنے مطالبات کے حق میں شاندار جدوجہد کی اور کچھ مطالبات منوانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ پی آئی اے، واپڈا اورینگ ڈاکٹرز کی ہڑ تالیں آنے والے طوفانی واقعات کا عندیہ دے رہی ہیں۔ 2 ستمبر کو 18کروڑ محنت کشوں نے پورا ہندوستان جام کر کے کشمیر سے کنہیا کماری تک پرولتاریہ کو طبقاتی جدوجہد کی ایک لڑی میں پرویا ہے۔ سرمایہ داری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحصال اور قومی جبرکا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی استحصالی نظام اور ریاست کا خاتمہ کر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی حقیقی آزادی اور خوشحال مستقبل کی ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے۔ بر صغیر کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن ہی پسے ہوئے طبقات اور محکوم اقوام کے تمام حقوق کی ضامن ہو گی اور بالشوازم یعنی عالمی انقلاب کا احیا بھی۔

Comments are closed.