برطانیہ: حکمران ٹوری پارٹی میں خانہ جنگی اور بحران

|تحریر: راب سیول، ترجمہ: انعم خان|

ٹوری پارٹی کو اب جس صورتحال کا سامنا ہے، یہ ’’گیم آف تھرونز‘‘ کی ایک قسط سے مشابہت رکھتی ہے۔ بے تحاشا سازشیں ہیں اور پس پردہ یہ سازشیں رچانے والے کردار بھی۔ اتحادیوں کے بغیر ’’ہاؤس آف تھریسا مے‘‘ کی بالادستی ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور پڑتی جا رہی ہے اور سرما آنے کو ہے یاکم از کم اکتوبر میں منعقد ہونی والی ٹوری پارٹی کی خوفناک کانفرنس! مگر یہ محض کوئی ٹیلی ویژن پر چلنے والی تصوراتی کہانی نہیں ہے۔

To read this article in English, click here

ٹوری حکومت گہرے بحران کا شکار ہے۔ ہر بار تھریسا مے جب اپنا منہ کھولتی ہے تو کچھ ایسا کہہ جا تی ہے کہ اسے خود پشیمانی ہوتی ہے۔ جاپان میں اپنے دورے کے دوران جب صحافیوں نے اس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوال کیا تو اس نے بھڑکتے ہوئے کہا ’’میں ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘ اوراگلے عام انتخابات میں ٹوری پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے ’’مستقبل بعید تک یہیں رہوں گی‘‘۔اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ فوری ردعمل سامنے آیا۔ ایک سابقہ وزیر نے کہا کہ ’’ سچ پوچھیں تو یہ رویہ اس کے اختتام کو قریب کردے گا۔‘‘

ایک ٹوری ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ مسز مے ’’بدگمانی کا شکار ہے،وہ کمزور ہو چکی ہے۔سچ پوچھیں تو وہ تباہی ہے۔‘‘

مائیکل ہیزلٹائن، جسے حکومت کی جانب سے بریگزٹ کے مشیر کے طور پر برطرف کردیا گیا تھا، کا کہنا تھا کہ ’’تھیریسا مے کے لیے مستقبل بعید میں حکمرانی کرنا مشکل ہے کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ اس کاکوئی مستقبل بھی ہے‘‘۔

بریگزٹ کی تباہیاں

جیسے جیسے وہ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ہی بریگزٹ کے مذاکرات بیہودہ گندگی میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ مذاکرات کرنے والے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں، لیام فوکس بھی کھلے عام یورپی یونین کے قائدین کی ’’بلیک میلنگ‘‘ کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ کسی بھی نقطے پر متفق اورکوئی معاہدے ہوئے بغیر یہ زہریلا ماحول معیشت کو بحران اور تباہ کن بریگزٹ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ بڑے کاروباری اس سے بچنا چاہتے ہیں اور کسی عبوری معاہدے کے خواہاں ہیں۔ لیکن واقعات ان کے بس سے باہر ہو چکے ہیں اور برطانیہ ایک پھسلنے والی ڈھلوان پر موجود ہے۔

ٹریڈ یونین قیادتیں اور اب تو لیبر پارٹی کی قیادت بھی سنگل مارکیٹ (یورپی یونین کے ساتھ مشترکہ منڈی) میں رہنے کی خواہشمند ہے۔ لیکن یہ محنت کش طبقے کے لئے آزاد تجارت اور پروٹیکشن ازم (قومی منڈی کی تحفظاتی پالیسی)سے مختلف نہیں ہے۔’’منڈی‘‘ سے مراد نجکاری، محنت کی منڈی کی لچک(کم تنخواہ پر زیادہ سے زیادہ کام)، پیداوار پر کم لاگت اور بد سے بدترین کی طرف دھکیلتے حالات ہیں۔ مزدور تحریک کو ایک الگ اور آزادانہ طبقاتی نقطہ نظر پر مبنی پوزیشن لینی چاہیے۔ انہیں ایک سوشلسٹ برطانیہ کی بات کرنی چاہیے جس میں معیشت کی ملکیت اور کنٹرول محنت کش طبقے کے پاس ہونا چاہیے اور انہیں یورپ کے محنت کش طبقے سے یکجہتی کے لیے بین الاقوامیت پر مبنی اپیل کرنی چاہیے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم مالکان کے یورپ سے انکاری ہیں! اور سوشلسٹ یورپ کے حق میں ہیں!

ٹوری حکومت واضح طور اپنے آخری لمحے گزار رہی ہے۔ ان کے اندر ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم واضح ہے۔ یہ 2022ء تک نہیں چل سکے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اگلے کچھ مہینے بھی نہ نکال پائے۔ لوگوں کی توقعات سے بھی قبل ہمیں نئے انتخابات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 

اسٹیبلشمنٹ مخالف موڈ

رائے شماریوں میں لیبر پارٹی کی حمایت بڑھ رہی ہے، کوربن اگلی حکومت بنا سکتا ہے۔ کولن ویلی سے ٹوری پارٹی کا ہارا ہوا ممبر پارلیمنٹ کہتا ہے کہ ’’اگر آپ موجودہ حکومت سے نالاں ہیں تو آپ کس کی طرف جائیں گے؟ غالباً آپ کوربن کی جانب، کیونکہ وہ بھی ان سے نالاں ہے۔‘‘

ہر خطے کی طرح برطانیہ میں بھی اسٹیبلشمنٹ سے نفرت موجود ہے۔ بڑے کاروبار کی ترجمانی کرنے والے فنانشل ٹائمز نے کولن ویلی میں موجود UKIP کے چالیس سالہ حمایتی سے بڑا دلچسپ انٹر ویو کیا ہے، اس کہنا تھا کہ ’’میں صرف دو سیاست دانوں کو ہی ووٹ دے سکتا ہوں، ایک نائجل فراج اوردوسرا جیرمی کوربن۔ کیوں؟ کیونکہ میں ان پر یقین کرتا ہوں۔‘‘
’’پارٹی سسٹم مقاصد کوحاصل کرنے کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ پھر کچھ توقف کے بعد بولا کہ ’’ہاں، لیکن یہ ’سٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے کے لیے ٹھیک ہے۔‘‘

فنانشل ٹائمز نے سٹیٹس کو کی خصوصیات میں تباہ کن عراق جنگ، پارلیمانی اخراجات کا سکینڈل، 2008 ء کا معاشی بحران اور کٹوتیوں کے سالوں کو شامل کیا تھا۔

برطانیہ میں مزاج تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ جون کے انتخابات سے اب تک نمایاں تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔’’وہ اور ہم‘‘ کی نفسیات پر مبنی جذبات تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یہ ان لوگوں کے خلاف طبقاتی نفرت کا اظہار ہے جو سب کی قیمت پر خود کو امیر کر رہے ہیں۔

قبل از انقلاب کی بحرانی کیفیت

جیرمی کوربن کی شہرت میں اضافہ ہو رہا ہے، یہاں تک کہ خود لیبر پارٹی کے اندر بھی۔ لیبر پارٹی کا دائیاں بازو پیچھے ہٹ رہا ہے۔ کم از کم فی الوقت انہوں نے لیبر پارٹی کو توڑنے کی نیت ترک کر دی ہے۔ اس کے باوجود وہ کوربن کو ہٹانے کے لئے دباؤ ڈالیں گے۔

یقیناً، بڑے کاروبار ی کوربن کے خلاف ہیں۔ وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اور خاص کر ان لاکھوں سیاسی طور پر متحرک لوگوں سے جو اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔ وہ ٹوریز اور بلیرائٹس کو ملا کر یورپ کی حامی ایک سنٹر پارٹی بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔ اس لیے بلیرائٹس، لیبر پارٹی کے اندر موجود غدار ہیں۔ لیکن یہ کاوش بھی کاربن کی لیبر پارٹی کے ابھار کی وجہ سے عارضی طور پر روک دی گئی ہے۔

آج برطانیہ میں قبل از انقلاب کی بحرانی کیفیت کے عناصر موجود ہیں: حکومت کا بحران، حکمران طبقے میں کھلے عام ٹوٹ پھوٹ، شعور میں تیز ترین تبدیلیاں، شدید عدم استحکام اورسیاسی دھارے میں بڑی شمولیت۔ برطانیہ اور عالمی سطح پر معاشی بحران کے رہتے یہ صورتحال کئی سالوں تک چل سکتی ہے۔

ہمیں کھل کر بات کرنا ہوگی۔ کوربن کی لیبر حکومت کو گہرے ہوتے ہوئے سرمایہ دارانہ بحران میں شدید معاشی صورتحال اور بریگزٹ پر ناکامی کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت کہ حکومت نظام میں اصلاحات نہیں کر سکتی، سب پر عیاں ہو جائے گی۔ مزید برآں، بڑے کاروباری ’’ سرمائے کی عدم دستیابی‘‘ کے ذریعے لیبر حکومت کو کمزور اور تباہ کرنے کی کاوشیں کریں گے۔

اپنے بائیں بازو کے پروگرام پر عمل درآمد کرنے کے لیے لیبر پارٹی کو بڑے کاروباریوں کے خلاف کھڑے ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ انہیں بڑے کاروباریوں کی پھیلائی گئی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔کلیمنٹ ایٹلی، سٹیفورڈ کرپس اور لیبر پارٹی کی قیادت میں موجود دوسرے لوگوں نے بھی جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی اپنے پروگرام پر عمل در آمد کروانے کے لیے ہنگامی اقدامات اور ’’خصوصی اختیارات عطا کرنے والے قانون ‘‘ کی ضرورت کی بات کی تھی۔ وہ ہاؤس آف لارڈز کو ختم کرنا چاہتے تھے۔

سرمایہ داری کے تحت کوئی حل نہیں

اُس وقت کے لیبر لیڈر ایٹلی نے اپنی کتاب ’’لیبر پارٹی کا تناظر‘‘ میں پارٹی کے نظریات کو حائل خطرے کے بارے میں تنبیہہ کی تھی۔’’ میں نہیں سمجھتا کہ لیبر پارٹی کو اُن نئے لوگوں کو جیتنے کے لیے کہ جو اِس کے سوشلسٹ یقین کو قبول نہیں کرتے، اپنے سوشلسٹ نظریات پر سمجھوتہ کرنا چاہیے۔ اس کے برخلاف مجھے لگتا ہے کہ یہی ایک واضح اور جراتمندانہ پالیسی ہے جو اپنی حمایت جیتے گی۔ کمزور لبرل ازم کی تبلیغ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مکمل سوشلسٹ اعتماد پر مبنی ایک ایسے پروگرام کی ضرورت ہے جسے سمجھا جا سکے۔‘‘

لیبر پارٹی کو ان الفاظ پر توجہ دینا ہوگی۔ برطانیہ میں 150 اجارہ داریاں 78فیصد پیدا واری اثاثوں کی مالک ہیں۔ بینکوں سمیت یہ ساری معیشت کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اگر ہم بڑے کاروباریوں کی گرفت کو توڑنا چاہتے ہیں اور معیشت کو اکثریت کے حق میں ترتیب دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ان پر قبضہ کرنا پڑے گا۔ لیبر پارٹی کوایک جرأتمند سوشلسٹ پرو گرام کو چلانے کی تیاری کرنی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں بڑے کاروباریوں کی جانب سے پہنچنے والے ناگزیر نقصان اور محنت کش طبقے کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے لالچ اور منافع کی طاقتوں سے نبرد آزما ہونے کی تیاری کرنا ہوگی۔

جب ہم مستقبل کی جانب دیکھیں تو ہمیں ماضی کی غلطیوں سے بھی اسباق حاصل کرنے چاہئیں۔ سرمایہ داری کی بنیاد پر محنت کشوں کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ دوسرے کو کچل کر آگے بڑھنے والے اس معاشرے کو جڑ سے اکھاڑپھینکنا ہوگا اور اس کے حصول کے لیے محنت کش طبقے کی طاقت کو کام میں لانا ہوگا۔ واقعات، اس صورتحال کو مزید بائیں جانب موڑتے ہوئے تبدیل اور مزید تبدیل کر دیں گے۔ ایسی صورتحال کے ہوتے مارکسزم کے نظریات تحریک کو واضح نظریات اور وسعت نظر سے لیس کرنے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی کی خاطر سوشلسٹ اپیل جدوجہد کر رہا ہے۔ ہمارا حصہ بنیں۔

Comments are closed.