کامریڈ اعجاز شاہ کو لال سلام!

کامریڈ اعجاز شاہ

آج انتہائی درد ناک خبر موصول ہوئی کہ ہمارے دلعزیز کامریڈ، دوست، استاد اور انقلابی راہنما کامریڈ اعجاز شاہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔اس خبر سے شدید صدمہ پہنچا اور غم کا سمندر دل میں ٹھاٹھیں مارنے لگا۔نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھیں آنسو ؤں سے بھر آئیں۔پاکستان کی مزدور تحریک اور انقلابی سوشلزم کی سیاست ایک انتہائی قیمتی اور اہم اثاثے سے محروم ہو گئی۔
کامریڈ اعجاز شاہ لاہور کی مزدور تحریک کی جیتی جاگتی تاریخ تھے اور اس کے عروج و زوال کے نہ صرف عینی شاہد تھے بلکہ اس تمام عرصے میں تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اس میں آخری وقت تک سرگرم رہے اور قائدانہ کردار ادا کرتے رہے۔ ضلع سیالکوٹ میں پسرور کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں سے اپنی زندگی کا سفر شروع کرنے والے اعجاز شاہ کو روزگار کی تلاش لاہور کی صنعتوں میں لے آئی ۔ یہاں مزدور دشمن بھیڑیے نما سرمایہ داروں کو مزدوروں کا بد ترین استحصال اور ان پر مظالم دیکھ کر ان کا خون کھولتا تھا۔
کامریڈ اعجاز شاہ اس واقعے کے وقت بھی ایک قریبی فیکٹری میں موجود تھے جب نوازشریف اور شہباز شریف نے اپنی فیکٹری میں ایک مزدور لیڈر کو اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ کرنے پر لوہا پگھلانے والی بھٹی میں زندہ جلا دیا تھا۔ اس واقعے پر پورے علاقے کے محنت کشوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور وہ ان خونی درندوں سے انتقام لینے کے لیے جمع ہو گئے تھے۔اس وقت پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے ان درندوں کو مزدوروں کے غیض و غضب سے بچایا تھا اور انہیں خفیہ طریقے سے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔اسی طرح کے دیگر واقعات نے اعجاز شاہ کو مزدور تحریک کاایک سرگرم کارکن بنا دیا۔ 1960ء اور 70ء کی دہائی اس ملک کی مزدور تحریک میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس وقت مزدور بڑے پیمانے پر منظم ہو رہے تھے۔1968-69ء کی انقلابی تحریک نے مزدوروں کو نیا جوش اور ولولہ دیا تھا اور وہ سرمایہ داروں کے خلاف مطالبات کے حصول کی جدوجہد میں آخری حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔اس وقت ایسے مواقع موجود تھے کہ پاکستان میں سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا جاتا۔ لیکن ایک انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث ایسا نہ کیا جا سکا۔ محنت کش طبقے کی ابھرتی ہوئی تحریک سے ان کی سیاسی روایت نے غداری کی اور اسے ضیاء الباطل کی خونی آمریت کے سپرد کر دیا۔
اس دور میں مزدور تحریک پر بد ترین حملوں کا آغاز ہوا جس میں کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان میں مزدوروں پر گولی چلانے کا واقعہ بھی شامل ہے۔لاہور میں بھی مزدور تحریک سے انتقام لیا گیا اور جو علاقہ ایک وقت میں پیپلز پارٹی اور انقلابی تحریک کا گڑھ تھا اس پر نواز شریف کی رجعتیت کو مسلط کیا گیا۔اس بد ترین دور میں بھی اعجاز شاہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر جدوجہد جاری رکھی اور سرمایہ داروں کے تمام حملوں کا انتہائی دلیری سے مقابلہ کرتے رہے۔
ضیا کی خونی آمریت کے بعد آنے والے جمہوری ادوار میں بھی مزدور تحریک پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا بلکہ اس دوران سوویت یونین کے انہدام اور دیوار برلن کے گرنے کے بعد پوری دنیا میں مزدور تحریک پسپائی کا شکار تھی۔بینظیر کی پہلی حکومت میں بھی نجکاری کا عمل شروع کر کے مزدور تحریک پر بد ترین حملے کیے گئے۔
اعجاز شاہ 1989ء میں لاہور شیخوپورہ روڈ پر واقع ایمکو ٹائلز ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے جبکہ عارف شاہ کو صدر منتخب کیا گیا۔اس انتخاب کے بعد ان کی انتظامیہ اور سرمایہ داروں سے کھلی جنگ کا آغاز ہو گیا۔انہوں نے مزدوروں کی اجرتوں اور الاؤنسز میں اضافے کا مطالبہ کیا اور ان کے حقوق کے لیے ہر قوت سے ٹکراتے چلے گئے۔ان کی جرات اور دلیری کو دیکھتے ہوئے علاقے کی دوسری صنعتوں کے مزدور بھی ان کے ساتھ جڑتے گئے جن کو منظم کرنے کے لیے عارف شاہ کی قیادت میں پنجاب لیبر فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دوران علاقے کی دو سو کے قریب صنعتوں میں ان کی حمایت یافتہ یونینیں جیتنے لگیں اور سرمایہ داروں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس دوران حکومتی سطح پر بھی مزدور تحریک پر حملے جاری تھے اور گزشتہ دہائیوں کی حاصل کی گئی حاصلات واپس چھیننے کا عمل جاری تھا۔پولیس، انتظامیہ، عدالتیں اور لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت پوری ریاستی قوت سے مزدور تحریک کو کچلا جا رہا تھا جبکہ عارف شاہ اور اعجاز شاہ مزدور تحریک کی شاندار روایات کا دفاع کر رہے تھے اور مزدوروں کے لیے مزید حاصلات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس کے لیے انہیں کئی دفعہ نوکری سے برطرف کیا گیا اور ان پر سینکڑوں جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔سرمایہ دار کسی بھی طریقے سے انہیں شکست دینا چاہتے تھے اور علاقے کا چیمبر آف کامرس ان حملوں میں متحد تھا۔ریاستی اداروں کی آشیر باد سے ان پر قتل کے جھوٹے مقدمات سے لے کر سرکاری کام میں مداخلت جیسے جھوٹے مقدمے بنائے گئے۔لیکن اس کے باوجود وہ انتہائی دلیری سے ان حملوں کا مقابلہ کرتے رہے جبکہ علاقے کے لاکھوں مزدوروں کی حمایت ان کے ساتھ تھی۔اس سے نپٹنے کے لیے سرمایہ داروں نے فیصلہ کن حملے کی منصوبہ بندی کی۔
جنوری 1996ء میں انتہائی عیاری اور منصوبہ بندی سے سرمایہ داروں کی جانب سے عارف شاہ کو شیخوپورہ کے مرکزی چوک میں انتہائی سفاکی سے قتل کروا دیا گیا۔ یہ لاہور اور شیخوپورہ کی مزدور تحریک کے لیے ایک مشکل وقت تھا۔مزدوروں سے ان کی قیادت چھین لی گئی تھی۔یہ پاکستان میں مزدور تحریک کی پسپائی کا دور تھا۔اس دوران بہت بڑے بڑے ٹریڈ یونین لیڈر مایوسی اور بد گمانی کا شکارہو کر سرمایہ داروں سے مفاہمت اور مصالحت کر چکے تھے۔نظریات کی مضبوط بنیادوں کی عدم موجودگی میں مزدوروں تحریک سے غداریاں بھی بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آئیں۔جو ٹریڈ یونین لیڈر پیسے سے نہیں خریدا جاتا تھا اسے دھونس اور پولیس کے جبر کے ذریعے چپ کروا دیا جاتا تھا۔راوی ریان سمیت علاقے کی اہم صنعتوں کی نجکاری کر دی گئی جبکہ اس دوران بہت سے مزدور لیڈروں نے مزاحمت کی بجائے مفاہمت کا رستہ اپنایا۔ایسے میں عارف شاہ کا قتل مزدور تحریک کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان تھا۔اس کے بعد اعجاز شاہ سمیت دیگر ساتھیوں پر حملوں کی رفتار تیز ہو گئی جبکہ موقع پرستوں کو مزدور وں پر مسلط کرنے کی کوشش جاری رکھی۔اس دوران آئی ایم ٹی نے علاقے کے مزدوروں کا بھرپور ساتھ دیا اور عارف شاہ کے قتل پر عالمی سطح پر ایک کمپئین چلائی تا کہ پاکستان کی مزدور تحریک اور ٹریڈ یونین کا دفاع کیا جا سکے۔اس کا بھرپور رد عمل ملا اور یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں مزدور تنظیموں نے عارف شاہ کے قتل کی شدید مذمت کی اور اس کی جدوجہد کو جاری رکھنے والے ساتھیوں کو بھرپور حمایت کا یقین دلایا۔
اعجاز شاہ اس دوران آئی ایم ٹی کے بہت قریب آچکے تھے اور اس کی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کر رہے تھے۔اس دوران وہ اپنے اوپر قائم ہونے والے جھوٹے مقدمات اور دیگر حملوں کا بھی مقابلہ کرتے رہے اور بغیر کسی لالچ اور خوف کے انتہائی نا مساعد معاشی حالات میں بھی مزدور طبقے کے حقوق کی لڑائی کو جاری رکھا۔
اس دوران مزدور تحریک بھی شدید پسپائی کا شکار ہوتی رہی اور نجکاری سمیت دیگر مزدور دشمن اقدامات بڑے پیمانے پر مزدور تحریک کو پیچھے کی جانب دھکیلتے رہے۔ٹریڈ یونین لیڈروں کی غداریاں روز مرہ کا معمول بن گئیں جبکہ مزدوروں کو ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور بتدریج کام کے اوقات کار میں اضافہ ہونے لگا جبکہ اجرتوں میں مہنگائی کے تناسب سے کمی ہونے لگی۔
اس دوران جب 2005ء میں پی ٹی سی ایل کی ہڑتال کا آغاز ہوا تو اعجاز شاہ نے اس تحریک میں آئی ایم ٹی کے کارکن کی حیثیت سے سرگرم حصہ لیا۔وہ مختلف ایکسچینجوں میں جاتے اور صنعتی مزدوروں کی جانب سے پی ٹی سی ایل کے مزدوروں کا یکجہتی کا پیغام پہنچاتے رہے۔ اسی طرح وہ نجی شعبے میں جاری ظلم اور استحصال سے بھی ان ملازمین کا آگاہ کرتے رہے جو خود اسی نجی شعبے کا حصہ بننے جا رہے تھے۔اس تحریک کے بعد سے کامریڈ اعجاز شاہ نے آئی ایم ٹی کے پلیٹ فارم سے منظم جدوجہد کے نئے دور کا آغاز کیا۔
لاہور کے قریب واقعہ شیر بنگال لیبر کالونی میں انہوں نے رہائش پذیر مزدوروں کو منظم کرنے کے مشکل ترین عمل کا آغاز کیا۔اس دوران یوم مئی کی روایت اس علاقے میں دم توڑ رہی تھی جبکہ دو دہائیاں قبل جب یہاں یوم مئی کے جلوس نکلتے تھے تو میلوں تک سڑکیں مزدوروں کے ہاتھوں میں تھامے ہوئے پرچموں سے سرخ ہو جاتی تھی۔لیکن اب صورتحال مختلف ہو چکی تھی اور یوم مئی کو اس اہم علاقے میں کوئی تقریب نہیں ہوتی تھی۔صرف شیر بنگال کالونی کے پندرہ سو گھروں میں 164فیکٹریوں کے مزدور رہائش پذیر تھے لیکن یہاں کوئی ٹریڈ یونین یا مزدور تنظیم تقریب منعقد نہیں کرتی تھی۔صرف چند این جی اوز فنڈ کھانے کے لیے لاہور کے پر تعیش ہوٹلوں میں کچھ تقریبات منظم کرتی تھیں جن میں چند مزدوروں کو پیسے دے کر مدعو کیا جاتا تھا۔
کامریڈ اعجاز شاہ نے 2008ء میں پہلی دفعہ یہاں دوبارہ یوم مئی کی تقریب منعقد کرنے کا عزم کیا اور اسے انتہائی کامیابی سے منظم کیا۔اس دوران پورے ضلع کے محنت کشوں میں ان کے لیے احترام اور عزت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا کیونکہ وہ ان چند لوگوں میں شامل تھے جو تمام تر جبر، مظالم، لالچ اور بیہودہ ہتھکنڈوں کے باوجود سرمایہ داروں سے مفاہمت نہیں کی تھی۔اس کے بعد اعجاز شاہ کی زندگی کے انتہائی اہم حصے کا آغاز ہوا۔انہوں نے مارکسزم کے نظریات کے لیے مزدوروں کو قائل کرنا شروع کیا اور کوشش کی کہ وہ آئی ایم ٹی میں شامل ہو کر اپنی جدوجہد کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کریں۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ مزدور تحریک کو موجودہ صورتحال میں اپنے تجربات سے اہم اسباق اخذ کرنے کی ضرورت ہے اور اس مشکل وقت سے نکلنے کے لیے انہیں صرف مارکسزم کے نظریات ہی راہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔وہ سوشلسٹ انقلاب کے نظریات سے پہلے کی نسبت زیادہ گہری دلچسپی لینے لگے اور کوشش کرتے رہے کہ یہ مزدوروں کی زیادہ سے زیادہ پرتوں تک تیزی سے پہنچیں۔اپنی زندگی کے آخری دس سال ان کی اسی جدو جہد میں گزرے۔
اس دوران وہ ایمکو ٹائل فیکٹری کی سیاست میں بھی دوبارہ سرگرم ہوئے اور ان کی حمایت یافتہ یونین کو مزدوروں نے بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی۔اس کے ساتھ ہی وہ پورے ضلع کی مختلف صنعتوں کے مزدوروں کو دوبارہ منظم کرنے کی انتھک جدوجہد میں شریک ہو گئے۔مختلف اداروں میں میٹنگوں کا انعقاد کروانا، وہاں جا کر مزدوروں تک انقلابی سوشلزم کا پیغام پہنچانا، ان کے روز مرہ کے مسائل کو غور سے سننا اور ان کے حل کی جدوجہد کرنا ، اپنے تجربے کی روشنی میں انہیں سرمایہ داروں اور انتظامیہ کے ہتھکنڈوں سے آگاہ کرنا، ریاستی جبر اور عدالتی مو شگافیوں کے حربوں سے نپٹنے کے گر بتانا اور سب سے بڑھ کر مزدوروں کو اپنے اکٹھ کو قائم رکھنے کی ترغیب دینا ۔ یہ سب ان کی زندگی کا معمول بن چکا تھا۔ اس دوران وہ مارکسی نظریات سیکھنے کے لیے منعقد ہونے والے سکولوں ، میٹنگوں اور تقریبات میں بھی بھرپور شرکت کرتے اور نوجوانوں کو اپنے تجربات سے آگاہ کرتے رہتے۔تمام نوجوان کامریڈز ان کی بذلہ سنجی اور خوش گفتاری سے ہمیشہ محظوظ ہوتے اور ان کی خواہش ہوتی کہ کامریڈ زیادہ سے زیادہ وقت ان کے ساتھ گزاریں ۔ ان کے ساتھ گزرا وقت تما کامریڈز کو خوشی دیتا تھا۔
اس دوران ینگ ڈاکٹروں کی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد ہو یا واپڈا کے ملازمین کی نجکاری کیخلاف جنگ،لاہور کے صنعتی مزدوروں کی انتظامیہ کیخلاف لڑائیاں ہوں یا غیر منظم مزدوروں کے اجتماع ہوں وہ ہر جگہ جوش و جذبے کے ساتھ موجود ہوتے اور اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے نبھاتے۔ شیر بنگال لیبر کالونی میں ہر سال یوم مئی کی تقریب بھی اسی ولوے اور عزم کے ساتھ باقاعدگی سے منظم ہوتی رہی۔
چند سال قبل شیخوپوری میں یونی لیور کے تھرڈ پارٹی کے ملازمین نے جب آئی ایم ٹی سے رابطہ کیا اور یونین بنانے کی جدوجہد کا آغاز کیا تو اعجاز شاہ نے ہر قدم پر ان کی راہنمائی کی اور ان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔یونین رجسٹر ہونے سے سرمایہ داروں کے جبر کے نتیجے میں عہدیداروں کے خلاف کاروائی اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کی کھلی غنڈہ گردی اور بدمعاشی تک اعجاز شاہ نے ہر حملے کا دلیری سے مقابلہ کیا اور فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک ہوئے۔
گزشتہ سال جنوری میں جب شیخوپورہ میں عارف شاہ کی برسی ایک لمبے عرصے کے بعد منعقد کی گئی تو کامریڈ اعجاز شاہ نے نہ صرف اس میں کلیدی کردار اداکیا بلکہ اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔اس تقریب میں علاقے کی مختلف صنعتوں کے مزدور لیڈر شریک تھے جبکہ نیسلے، ایمکو، ملت ٹریکٹر، شیر بنگال لیبر کالونی سمیت مختلف اداروں سے مزدوروں نے بڑے پیمانے پر شرکت کی تھی۔لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں سے بھی انقلابی طلبہ نے بھی شرکت کی تھی۔اس تقریب میں اعجاز شاہ نے خطاب کرتے ہوئے مزدوروں کو ایک دفعہ پھر یکجا ہو کر سرمایہ داروں کے خلاف لڑنے کا سبق دیا اور تمام تر مشکلات کے باوجود عار ف شاہ کی جدوجہد کوجاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔اس موقع پر عارف شاہ کی تصویر کے ساتھ خصوصی پوسٹربھی شائع کیا گیا تھا جو بڑے پیمانے پر فیکٹریوں میں چسپاں ہوا جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مطالبات کے ساتھ لیف لیٹ بھی شائع کیا گیا تھا۔
اس کے بعد آئی ایم ٹی میں موجود ایک ٹولے کی زوال پذیری اور غداری کا عمل شروع ہوا جو نے انقلابی تنظیم کے تمام لینن اسٹ اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مفاد پرستی، شخصیت پرستی، بیوروکریٹک ہتھکنڈوں اور نظریات سے غداری کی اندھی کھائی میں گر گئے۔انہوں نے مارکسزم کے بنیادی اصولوں کو مکمل طور پر خیر باد کہہ دیا اور موقع پرستی کی انتہا کرتے ہوئے تنظیم کے سب سے بڑے ادارے، کانگریس کے اجلاس کو ہی سبو تاژ کرنے کا اعلا ن کر دیا۔لیکن اس دوران جن قوتوں نے آئی ایم ٹی اور مارکسزم کے نظریات کا بے داغ پرچم بلند رکھا کامریڈ اعجاز شاہ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔اس سال کانگریس کی بجائے آئی ایم ٹی پاکستان کی منعقد ہونے والی یونٹی کانفرنس میں انہوں نے بھرپور شرکت کی اور لینن ازم کے اصولوں پر انقلابی تنظیم کی تعمیر کے سفر کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
اس کے بعد وہ لال سلام کی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کرتے رہے اور انتہائی نا مساعد حالات اور مشکلات کے باوجود گزشتہ سال کا یوم مئی انتہائی کامیابی سے منعقد کروایا۔کامریڈ اعجاز شاہ کا پختہ یقین تھا کا محنت کش طبقہ اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے لازمی طور پردوبارہ تاریخ کے میدان میں قدم رکھے گا اور سرمایہ دار طبقے اور ان کی پروردہ ریاست کے تمام حملوں کا فیصلہ کن جواب دے گا۔ ان کے نزدیک محنت کش طبقے کی طاقت سے مایوس ہونے والے اور مفاد پرستی میں غرق ہونے والوں کی انقلابی سیاست میں کوئی جگہ نہیں اور وہ صرف رد انقلابی قوتوں کے گماشتوں کا کردار ہی ادا کر سکتے ہیں۔
اپنی عمر بھرکی جدوجہد میں وہ انتہائی غربت اور کسمپرسی میں زندگی گزارتے رہے۔چند سال قبل وہ ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے جس کے مہنگے علاج نے ان کی تنگدستی میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔گزشتہ سال جب وہ یوم مئی کی تقریب منعقد کروانے کی تیاریاں کر رہے تھے تو انہیں زوال پذیر ٹولے کی جانب سے رابطہ کیا گیا اور انہیں مراعات کی پیشکش کی گئی تا کہ وہ ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ اس پر کامریڈ اعجاز شاہ نے انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ آج تک کوئی سرمایہ دار اور ریاستی ادارہ ان کو نہیں خرید سکااور اب یہ نام نہاد انقلابی میری عمر بھر کی ایذا رسانیوں کی قیمت لگانے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے غربت میں مرنا قبول ہے لیکن ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کے لیے میں اپنے نظریات کو نیلام نہیں کر سکتا۔
چند ماہ قبل انہیں جگر کے کینسر کی تشخیص کی گئی جس کے بعد ان کے خاندان ، دوستوں اور کامریڈز پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔وہ اپنی بچی کھچی رقم سے علاج کروانے کی کوششیں کرتے رہے لیکن اس کے لیے جتنی بڑی رقم درکار تھی وہ کسی کے پاس موجود نہیں تھی۔اسی جان لیوا بیماری کے ہاتھوں آج صبح ان کا انتقال ہو گیا ۔ ان کی وفات سے یقیناًلاہور کی مزدور تحریک کے ایک اہم باب کا اختتام ہو گیا ۔
لیکن اب ایک دوسرے باب کا آغاز ہورہا ہے۔ایک ایسا عہد جس میں پوری دنیا میں مزدور تحریک دوبارہ ابھر رہی ہے اور اس نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔پاکستان میں بھی محنت کشوں کی مختلف تحریکیں بکھری ہوئی شکل میں موجودہ ہیں اور ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آنے والا وقت ان کی شدت میں مزید اضافہ کرے گا۔ اس وقت اور حالات میں کامریڈ اعجاز شاہ کی زندگی اور ان کی جدوجہد ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جرات دے گی۔ان کی سرمایہ داروں کیخلاف ناقابل مصالحت جدوجہد ہمیں اپنے نظریات پر قائم رہنے کا درس دے گی اور ہمیں وہ ہمت اور حوصلہ دے گی کہ ہم اس استحصالی اور مزدوروں کے خون سے رنگے ہوئے نظام کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیں۔کامریڈ اعجاز شاہ اب ہمارے ساتھ نہیں لیکن ان کی یاد ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی اور آنے والی نسلوں تک ہم ان کا پیغام پہنچاتے رہیں گے۔سچے جذبوں کی قسم آخری فتح محنت کش طبقے کی ہو گی!

جب تک کالی رات رہے گی جنگ رہے گی جنگ رہے !
جب تک بھوک اور ننگ رہے گی جنگ رہے گی رہے گی!

سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!

آدم پال

15 مارچ 2017

Comments are closed.