غلام میڈیا

تحریر: آدم پال:-
میڈیا کی آزادی کے بہت چرچے ہوتے رہتے ہیں اور پھر اب تو کچھ اسکینڈلو ں کی غلاظت بھی سامنے آ گئی ہے۔ آئے روز ٹی وی اور اخبارات میں یہ اصطلاح بہت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ میڈیا اور عدلیہ تو اب آزاد ہے۔جب سے نجی ٹی وی چینل پاکستان میں آئے ہیں اور خصوصی طور پر وکلا تحریک میں جب وکلا پر ہونے والے تشدد کو براہ راست دکھایا جاتا تھا اور اس وقت کے آمر مشرف کے خلاف لگنے والے نعروں کی کوریج کی جاتی تھی اس وقت سے بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے۔
جب یہ ٹی وی چینل آئے تو یقینالوگوں کو بہت سے وزیروں، مشیروں اور حکمران طبقات کے افرا د کو ٹی وی پر دیکھنے اور ان کے بوسیدہ خیالات سننے کا موقع ملا۔ ساتھ ہی صحافیوں کے مختلف داؤ پیچ کا بھی اندازہ ہوا جو وہ اپنے ٹاک شو یا خبروں میں کرتے ہیں۔لیکن اس سارے عمل کو میڈیا کی آزادی قرار دینا ایک گھناؤنا مذاق ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ٹی وی چینل اور اخبارات جن میں بی بی سی، سی این این اور الجزیرہ تک شامل ہیں سب قطعاً آزاد نہیں۔ خبروں اور تجزیوں کے یہ تمام وسائل سرمائے کے غلام ہیں۔ان تمام ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے مالکان حکمران طبقے کے انتہائی دولت مند افراد ہیں جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے یہ کاروبار کرتے ہیں اور اس کے لیے مختلف افراد کو ملازم رکھا جاتا ہے۔ یہی دولت مند افراد مختلف طریقوں سے حکومتوں یا اپوزیشن کا بھی حصہ ہوتے ہیں۔
اگر صرف پاکستان میں اس صحافت کا جائزہ لیا جائے تو نظر آئے گا کہ جن مصنوعات کے اشتہارات ہمیں ہر روز دیکھنے کو ملتے ہیں ان کو بنانے والی ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کے خلاف کبھی کوئی خبر نہیں آئی۔کیا جن صنعتوں میں یہ مصنوعات تیار کی جاتی ہیں اور دیگر صنعتوں میں مزدور بہت زیادہ خوشحال ہو چکے ہیں؟ کیا ان کو پوری تنخواہیں دی جا رہی ہیں یا ان کا تنخواہوں میں اضافے کا یا کام کے بہتر حالاتِ کا ر کا کوئی مطالبہ نہیں؟ کیا پاکستان کی کسی صنعت میں کبھی کوئی ہڑتال نہیں ہوتی، احتجاجی مظاہرہ نہیں ہوتا؟ کیا مزدروں کی آواز بلند کرنے والوں پر کوئی جبر کوئی تشدد نہیں کیا جاتا؟ کیا جب عدالتوں میں مزدوروں کے کیس چلتے ہیں تو انہیں مکمل انصاف دیا جاتا ہے؟
یہ ایسے سوالات ہیں جو کبھی کسی ٹاک شو یا اخباری کالم میں نہیں اٹھائے جاتے۔ اور اٹھائے بھی کیسے جائیں جو کمپنیاں کروڑوں روپے کے اشتہارات دیتی ہوں ان کے خلاف خبر کون لگائے گا۔پی ٹی سی ایل کی مثال ہی کافی ہے۔جب سے اس ادارے کی نجکاری کی گئی ہے اور اسے ایک عرب کمپنی اتصلات کو اونے پونے داموں بیچا گیا ہے تب سے اس ادارے کے ہزاروں ملازمین کے احتجاج اور ہڑتال کی کوئی خبر منظر عام پر نہیں آتی۔ایسے بھی مواقع آئے جب پی ٹی سی ایل کے ملک بھر سے ہزاروں ملازمین نے اسلام آباد میں واقع ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا اور انتظامیہ کو مار بھگایا لیکن ان کے لیے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا گیا۔اس کے بعد ان ملازمین نے مشتعل ہو کر اسلام آباد کی سب سے مصروف شاہراہ کو بند کر دیا لیکن پھر بھی یہ سرمائے کا غلام میڈیا ٹس سے مس نہ ہوا اور کسی چینل نے یہ خبر نہیں دی۔یہاں تک کہ اگلے دن کے اخبارات نے بھی ایک سطر کی خبر شائع نہیں کی۔اسی طرح نیسلے،یونی لیور، کوکاکولا، پیپسی، ہنڈا، ٹویوٹا،ایمکو ٹائلز، اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے محنت کشوں کی جدوجہد آج تک کسی ٹی وی چینل یا اخبار میں نظر نہیں آئی۔ میڈیا کی طرح عدلیہ بھی سرمائے کی غلام ہے اور وہ بھی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو لوٹ مار، استحصال اور منافع خوری کی کھلی آزادی دینے پر یقین رکھتی ہے۔ درحقیقت میڈیا اور عدلیہ کے اداروں کا بنیادی مقصد ہی منافع کے خونخوار نظام کا تحفظ ہے۔
یہاں بہت سے ایسے صحافی، کالم نگار اور اینکر پرسن نظر آئیں گے جو آزادی رائے کے دعویدار ہیں اور حکومتوں کو گرانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ کبھی بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار کے متعلق بات نہیں کریں گے۔ یہاں فوج کے نام پر ایسی مقدس گائے کا بھی ذکربارہا کیا جاتا ہے جس کے متعلق کھل کر بات نہیں کی جا سکتی لیکن کبھی اشارے کنائے میں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ مار اور محنت کشوں کے استحصال کی بات نہیں کی جاتی۔
پاکستان میں کاریں اسمبل کرنے والی تین بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے گزشتہ دو سال میں 281ارب روپے سے زیادہ منافع حاصل کیا۔جبکہ ان میں سے دو کمپنیوں نے سرکار کو 8ارب روپے کا منافع ظاہر کیا اور تیسری نے تو ایک ارب سے زائد کا نقصان ظاہر کر دیا۔اسی طرح دیگر بہت سی چھوٹی بڑی کمپنیاں بھی بڑے پیمانے پر منافع خوری کر رہی ہیں۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں IPPs پاکستان سے 45ارب ڈالر لوٹ کے لے جا چکی ہیں جبکہ انہوں نے صرف 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔لیکن اس پر کوئی بات نہیں کرتا بلکہ کہاجاتا ہے کہ حکومت ان کمپنیوں کو رقم ادا نہیں کر رہی۔ یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ ان کمپنیوں کے اثاثے ضبط کر کے سرکاری کنٹرول میں لیے جائیں اور انہیں مزدوروں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے چلایا جائے۔ ایسا کرنے سے ایک دن میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نظام میں منافع کا حصول اور سرمائے کا تحفظ ایک ایسی مقدس گائے ہے جس پر کوئی بات نہیں کر سکتا۔ ہر کالم شروع کرنے سے پہلے یا ٹی وی پر خبر یا ٹاک شو کے آغاز سے پہلے یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ سرمائے کا تحفظ انتہائی اہم مقدس فریضہ ہے جس پر آنچ نہیں آنی چاہیے۔ امیر ہمیشہ سے غریبوں کو لوٹتے آئے ہیں اور ایسے ہی ہمیشہ لوٹتے رہیں گے اس لیے اس تفریق پر غلطی سے بھی بات نہیں ہونی چاہیے۔ دوسرا ہمیشہ یہاں کے حکمرانوں کی تاریخ سامنے لائی جائے اور جھوٹ بولا جائے کہ اس ملک کے محنت کشوں کی کوئی تاریخ نہیں اور وہ کبھی کسی جدوجہد یا انقلاب میں باہر نہیں نکلے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے محنت کش کئی دفعہ انقلاب میں اٹھے ہیں۔ 1968-69ء میں تو انہوں نے ملوں اور جاگیروں پر قبضے بھی کر لیے تھے۔
لیکن میڈیا پر سماج میں معاشی تضادات کو دکھانے کے بجائے فروعی تضادات کو ابھارا جاتا ہے جن کا محنت کش کی زندگی سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔اصل میں یہاں رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں کی معاشی پالیسی ایک ہی ہے اور اس پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کی بات ہو یا نجکاری کی، سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہو یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضوں کا حصول اور سود کی ادائیگی تمام پالیسیوں پر یہ تما م جماعتیں متحد ہیں۔اسی لیے تو آج مخلوط حکومت میں مذہبی جماعتوں سے لے کر ایم کیو ایم اور ق لیگ تک سب موجود ہیں۔ جب نظریاتی اختلاف ہی نہ ہو تو اکٹھے ہونا کیا مشکل ہے۔
جب اختلاف کی بنیاد ہی کھوکھلی ہو تو اس تبصرے اور تجزیے میں کیا سچائی ہو گی۔پھر ان جھوٹے تبصروں اور تجزیوں کو عوام پر مسلط کرنے کے لیے لاکھوں روپے تنخواہ بھی دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ یہ اینکر پرسن اور کالم نگار حکمرانوں تک رسائی حاصل کرچکنے کے بعد مختلف حربوں سے دیگر مراعات اور انعامات بھی حاصل کرتے ہیں۔حال ہی میں چل رہے عدلیہ کے ناٹک میں آئے مختلف ناموں کی فہرست کسی سے چھپی نہیں۔ جس میں اس وقت میڈیا پر حاوی اینکر پرسن اور کالم نگاروں پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ملک ریاض سے کروڑوں روپے کی رقم اور بحریہ ٹاؤن میں گھر لے کر اپنے آپ کو بیچا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خود میڈیا میں کام کرنے والوں میں بھی دو طبقے پائے جاتے ہیں۔ایک طبقہ وہ ہے جو حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور جھوٹے اختلافات اور نان ایشوز عوام پر مسلط کرتا ہے۔دوسری طرف ہزاروں کی تعداد میں ایسے افراد ہیں جنہیں ان کے ادارے تنخواہ بھی نہیں دیتے اور وہ مفت میں ان سرمایہ داروں کی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ اپنا ضمیر بیچ کر دولت مند ہونے والے چند صحافیوں کو یہاں مثال بنا کر پیش کیا جا تا ہے اور اس سراب کے حصول کے چکر میں ہزاروں دیگر صحافیوں کو لوٹا جاتا ہے اور ان کو معاوضہ ادا کیے بغیر کام لیا جاتا ہے۔صرف اس لیے کہ ان میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ چھوٹی لوٹ مار سے ایک دن وہ اس بڑی لوٹ مار تک پہنچ جائیں گے جہاں یہ بڑے مگر مچھ موجود ہیں۔
پاکستان فیدڑل یونین آف جرنلسٹ کی بھی یہاں ایک شاندار انقلابی تاریخ ہے جب اس نے ایوب خان اور ضیاء جیسی ظالم آمریتوں میں آزادی صحافت کے لیے جدوجہد کی۔ صحافیوں نے کوڑے کھائے، جیلوں میں گئے اور صعوبتیں برداشت کیں۔لیکن آج خود صحافیوں کے اندر اتنی بڑی طبقاتی تقسیم اور عمومی نظریاتی زوال کے باعث وہ جدوجہد بہت کند ہو چکی ہے۔ صحافیوں میں موجود انہی کالی بھیڑوں نے مشرف آمریت میں ایک رجعتی اور رد انقلابی وکلاتحریک میں میڈیا کی آزادی کی بات کی جو در حقیقت زرد صحافت کو پروان چڑھانے کی آزادی تھی۔اس زرد صحافت کے پروان چڑھتے ہی دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیاکے بھیڑیوں نے عوام پر حملے شروع کر دیے اور اپنی غلیظ سوچ ان پر مسلط کرنی شروع کر دی جس کا مقصد اس ظلم اور بربریت پر نظام کا تحفظ تھا۔
میڈیا آج حقیقی آزادی سے بہت دور ہے۔ گو کہ نوجوان صحافی بہت سی قربانیاں بھی دے رہے ہیں۔ انتہائی نامساعد حالات میں کام کر رہے ہیں، گولیوں کی بوچھاڑ اور بم دھماکوں میں بھی اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔ لیکن جب تک میڈیا کو سرمائے کی غلامی سے نجات نہیں ملتی اس وقت تک کوئی سچی خبر اور تجزیہ منظر عام پر نہیں آ سکتا اور نہ ہی صحافیوں کے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
بہت سے لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اگر میڈیا جھوٹ بولتا ہے تو پھر عوام کو سچ کیسے پتہ چلے گا اور عوامی تحریک کیسے برپا ہو گی۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس سماج میں کتنا ظلم، کتنی نا انصافی اور بربریت ہے۔انقلابات اور عوامی تحریکیں میڈیا کے کہنے سے برپا نہیں ہوتی بلکہ میڈیا جو اس ریاست کا چوتھا ستون ہے اس کے خلاف برپا ہوتی ہیں۔ انقلابی پارٹیاں بھی میڈیا کے ذریعے وجود میں نہیں آتی بلکہ میڈیا کے تسلط خلاف جدوجہد سے مضبوط ہوتی ہیں۔ جب نومبر 1967ء میں پیپلز پارٹی کا تاسیسی اجلاس ہوا تھا تو اس خبر کو دبا دیا گیا تھا۔ لیکن 1968ء میں ایوب کے خلاف ابھرنے والے انقلاب کو نہیں دبایا جا سکا جس نے اس آمریت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ سماج میں موجود حقیقی تضادات کو جھوٹی خبروں کے ساتھ دبایا نہیں جا سکتا۔اگر گندگی کو قالین کے نیچے چھپایا جائے تو ایک وقت میں وہ گینگرین بن جاتی ہے۔مصر اور دیگر عرب ممالک کے انقلابات میں ہمیں یہ واضح نظر آیا۔ جب تحریر اسکوائر میں لاکھوں لوگ جمع تھے تو مصر کا میڈیا دکھا رہا تھا کہ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے اور تحریر اسکوائر میں ٹریفک رواں دواں ہے۔ تمام ٹی وی چینل اور اخبارات انقلاب دشمنوں کے ہاتھوں میں تھے۔ انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مصر کی قدیم تہذیب کے باسیوں نے اکیسویں صدی میں انقلاب کو پھیلانے کے لیے ایک قدیم طریقہ استعمال کیا۔ وہ انسانی آواز کا تھا۔ ایک گلی سے دوسری گلی میں، ایک محلے سے دوسرے محلے اور ایک شہر سے دوسرے شہر انقلابیوں نے خود اپنی آواز کے ساتھ پیغام رسانی کی اور اس انقلاب کو منظم کیا۔
آج پاکستان میں بھی میڈیا میں سوشلزم کا نام لینا جرم بن چکا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بات کرناشجر ممنوعہ ہے۔ اور جوں جوں یہ نظام یہ سماج مزید ظلم اور بربریت پھیلائے گا حکمران طبقات متبادل سوشلسٹ نظام کی جدوجہد اور نظریات پر زیادہ قدغنیں لگائیں گے۔ لیکن کس کے روکے رکا ہے سویرا!اگر حکمرانوں کے ان حربوں سے انقلابی سرکشیاں رکتی ہوتیں تو تاریخ میں کبھی کوئی انقلاب ہی نہ آتا۔ درحقیقت حکمرانوں کے یہ ہتھکنڈے مزید غم و غصے اور اشتعال کو بھڑکانے کا باعث بنیں گے۔
آج پاکستان میں جھوٹے نان ایشوز مسلط کرنے کے باوجود بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری سے سماج میں موجود تضادات پک کر لاوا بن چکے ہیں۔آنے والے عرصے میں یہ لاوا یقیناًایک انقلاب بنے گا جو میڈیا اور حکمرانوں کے چہرے سے نقاب ہٹائے گا اور ان کا حقیقی مزدور دشمن چہرہ عیاں کرے گا۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی میڈیا اور پورے سماج کو حقیقی آزادی دی جا سکتی ہے اور سرمائے کی زنجیروں کو توڑا جا سکتا ہے۔اس وقت اس میڈیا کو سرمایہ داروں کے چُنگل سے آزاد کر کے صحافیوں اور عوام کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے چلایا جائے گا اور میڈیا کی غلامی کا خاتمہ ہو گا۔

Comments are closed.