سعودی عرب: گہرے ہوتے بحران میں بکھرتا شاہی خاندان

|تحریر: ولید خان|

(نوٹ: یہ تحریر ہفتے کی رات ولی عہد محمد بن سلمان کی تطہیری مہم کے شروع کرنے سے پہلے لکھی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اینٹی کرپشن کے نام پر اس تطہیری مہم میں اب تک تقریباً دو درجن سابق وزیر، چار حاضر سروس وزیر اور گیارہ شہزادوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس میں مشہور عالمی سرمایہ کار سعودی شہزادہ ولید بن طلال بھی شامل ہے۔ اس کے بعد شہزادہ محمد بن سلمان، سعودی عرب کے پہلے فرمانروا شاہ محمد بن عبدالعزیز کے بعد سے ملک کا طاقت ور ترین انسان گردانا جا رہا ہے۔ اس نئی کیفیت سے تحریر کا تجزیہ یا تناظر تبدیل نہیں ہوا اور عمومی دھارے کا رخ وہی ہے۔ )

2007ء میں شروع ہونے والے سرمایہ دارانہ بحران نے پوری دنیا کو ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہر خطے میں پرانے طور طریقے، روایات اور منظم ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ نئے سماجی مظاہر ہفتوں میں تشکیل پا کر دنوں میں افادیت کھو دیتے ہیں۔ حکمران طبقہ، تاریخ میں متروک ہوئے دیگر حکمران طبقات کی طرح اقتدار سے چمٹنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ آئے دن طبقاتی کشمکش کی بڑھتی شدت کی وجہ سے حکمران طبقہ جہاں پوری قانونی و غیر قانونی کوششوں کے ساتھ محنت کش طبقے پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے وہیں پر روزانہ پہلے سے زیادہ مضحکہ خیز اور ناقابل عمل معاشی، سماجی اور سیاسی پروگرام مرتب کر کے اپنی تاریخی متروکیت کا اظہار کر رہا ہے۔ کچھ ایسے خطے موجود تھے جن پر 2007ء کے عالمی معاشی بحران کے اثرات براہ راست نہیں پڑے۔ کچھ خوش فہم تجزیہ نگاروں کے مطابق اپنے بے پناہ قدرتی وسائل کی وجہ سے ان کی معیشتیں کبھی بحران کا شکار ہونی ہی نہیں تھیں اور کچھ سادہ لوح کے مطابق کسی مافوق الفطرت قوت کی مہربانی کی وجہ سے انہیں ہمیشہ قائم و دائم رہنا تھا۔ لیکن عالمی منڈی کا اصول ہے کہ اس سے منسلک ہر منڈی، ہر خطہ اس کے مثبت اور منفی اثرات سے بچ نہیں سکتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بحران کا کینسر ہر شریان اور ہر حصے میں پہنچ جانے کے بعد ہی اچانک اپنا معیاری اظہار کرتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سے اس وقت سعودی عرب دوچار ہے۔

شطرنج کے شکست خوردہ کھلاڑی

ویسے تو آج کل مشرق وسطیٰ سے روزانہ ہی کئی خبریں اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی زینت بنی رہتی ہیں لیکن سیاسی حوالے سے سعودی بادشاہ سلمان بن سعود کا اکتوبر کے اوائل میں روس کے دورے کا سب سے زیادہ چرچا رہا۔ سماجی حوالے سے سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ دہائیوں کی سخت گیر پالیسی میں نرمی لاتے ہوئے خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت مل گئی ہے، گو کہ لائسنس کا حصول ایک پرپیچ عمل ہے۔ معاشی حوالے سے سب سے بڑی خبر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں 2030 Vision کے پہلے مرحلے کا آغاز تھی جس کے زیر اثر سعودی عرب کو صرف تیل بیچنے والی معیشت سے تبدیل کر کے مختلف شعبہ جات کو ترقی دے کرتیل پر انحصار کو بدتریج ختم کرتے ہوئے موجودہ بحران سے باہر نکالنا ہے۔ تمام خبروں کے پیچھے سعودی عرب کے اندر بڑھتا ہوا سیاسی و سماجی دباؤ، خطے میں سامراجی طاقتوں کا بدلتا ہوا توازن اور عالمی معاشی بحران کے اثرات کار فرما ہیں۔  

سعودی عرب ان چند ایک ممالک میں سے ہے جس نے نہ صرف 08-2007ء کے معاشی بحران سے اپنے آپ کو بہت عرصہ بچائے رکھا بلکہ خطے میں رونما ہونے والی دیو ہیکل تبدیلیوں سے بھی بہت حد تک محفوظ رہا۔ لیکن 2014ء میں تیل کی قیمتوں میں خوفناک تاریخی کمی نے معیشت پر کاری ضرب لگائی۔ 92 فیصد معیشت تیل کے شعبے سے منسلک ہے۔ اس وجہ سے سعودی عرب کو تلخ معاشی اور سیاسی فیصلے کرنے پڑے جن کے دور رس اثرات پڑ رہے ہیں۔

سعودی خاندان میں محلاتی سازشوں کے نتیجے میں خاندان کی مختلف شاخوں کو فارغ کراتے ہوئے شہزادہ محمد بن سلمان، شاہ سلمان کے نوجوان بیٹے، کو چند ماہ پہلے ولی عہد بنا دیا گیا۔ شہزادے کو عوام اور شاہی خاندان میں منظور نظر بنانے کیلئے بہت پہلے سے کوششیں جاری تھیں جن میں سب سے زیادہ اہم شام اور عراق میں اسلامی دہشت گروں کی پشت پناہی سے طبع آزمائی اور مارچ 2015ء میں یمن خانہ جنگی میں مداخلت شامل تھی۔ گو کہ یہ دونوں کام محمد بن سلمان کے کسی حکومتی عہدے پر براجمان ہونے سے پہلے سے جاری تھے لیکن باپ کے مسند پر براجمان ہونے کے بعد بڑی تیزی سے ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات پر محمد بن سلمان نے اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ پہلے شہزادہ بندر بن سلطان پر شام اور عراق کی مہم جوئیوں میں ناکامی کا الزام لگا کر انٹیلی جنس ایجنسی کی قیادت اس سے لے لی گئی، پھر ولی عہد شہزادہ مقرن کو ولی عہدی سے برخاست کر دیا گیا اور آخر میں نامزد ولی عہد نائف بن عبدالعزیز کو ولی عہدی سے ہٹا کر کر محمد بن سلمان کو ولی عہد بنا دیا گیا۔ ساتھ ہی بطور شاہی دربار کے منظم، وزیر دفاع اور معاشی کونسل کے سربراہ، تمام تر ریاستی طاقت ولی عہد کی ذات میں مختص ہو گئی۔ پھر تمام کلیدی حکومتی اداروں کے سربراہان اور قیادت کو تبدیل کر کے اپنے وفادار اور منظور نظر لگا دیئے گئے۔ اس طرح حکومتی اداروں پر شاہ سلمان اور اس کی خاندانی گرفت مضبوط تر ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی شاہی خاندان میں دوسری اور تیسری نسل کے شہزادے شہزادیوں اور عوام میں منظور نظر بنانے کیلئے ذرائع ابلاغ اور حکومتی حواریوں نے ولی عہد محمد کی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شرو ع کر دیا۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ولی عہد کا کوئی حکومتی یا کاروباری تجربہ یا کارنامہ موجود نہیں تھا جس سے اس کی شخصیت کو طلسماتی و کرشماتی بنا کر پیش کیا جا سکے۔ لہٰذا شہزادے نے اپنے آپ کو ’’نجات دہندہ‘‘، ’’سپہ سالار اعلیٰ‘‘اور ایران کو مشرق وسطیٰ میں منہ توڑ جواب دینے والا واحد ’’عظیم قائد‘‘ منوانے کیلئے بھرپور انداز میں شام، ایران اور یمن میں مداخلت شروع کر دی اور ہر طرف چرچا کیا جانے لگا کہ جوان شہزادہ ہی علاقائی اور عالمی سامراجیوں کی کاسہ لیسیوں سے نجات دلا سکتا ہے۔ اس سارے عمل میں عالمی سامراجیوں، امریکہ اور برطانیہ نے بھرپور عسکری اور انٹیلی جنس معاونت کی۔ یہاں تک کہ شہزادہ اپنی ہی ریاست کی بجائی ہوئی دھن پر یقین کر بیٹھا اور ایک ’’عالمی اسلامی فوج‘‘ کے قیام کا شوشہ بھی چھوڑ بیٹھا۔ لیکن سعودی عرب کو درپیش حقائق نے تمام منصوبے خاک میں ملا دیئے۔ مشرق وسطیٰ میں روس کی مداخلت خاص طور پر فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ جنگ کا ایک بنیادی اصول ہے۔ جو میدان میں موجود ہے، فتح یا شکست اس کا مقدر ہے لیکن جو سرے سے میدان میں موجود ہی نہیں اس کی حتمی کامیابی ممکن نہیں۔ روس، ایران اور ترکی کی پشت پناہی سے موجود عسکری انٹیلی جنس افسروں، جنگجو گروہوں، کرد لڑاکا گروہوں اور بیشتر علاقوں میں عوامی حمایت سے داعش اور سعودی، عمانی، متحدہ عرب امارات وغیرہ کے معاون اسلامی دہشت گردوں کو خوفناک شکست کا سامنا کرنا پڑا، گو کہ سب سے بھاری جانی اور مالی قیمت عوام نے ہی ادا کی۔

2016ء کے وسط تک آتے آتے حقیقت واضح ہو رہی تھی کہ سعودی عرب اور اس کی پشت پر موجود سامراجیوں کی حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ایران سے ایک جوہری معاہدے کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں معاملات کو چلانے میں ہی عافیت جانی، جو کہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کیلئے ناقابل تلافی نقصان تھا۔ یمن کی جنگ میں بھی سعودی عرب دو سال سے ہزیمت اٹھا رہا ہے اور فتح کے آثار دور دور تک موجود نہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے روس کا دورہ کیا جس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی، سوائے چند ایک جنگی ہتھیاروں اور سرمایہ کاری کے معاہدوں کے جو کہ دورے کا اصل مقصد ہی نہیں تھا۔ فی الحال، وقتی طور پر ہی سہی روس، ترکی اور ایران، شام اور عراق کی حکومتوں کے ساتھ مل کر علاقائی بندر بانٹ میں مصروف ہیں اور سعودی عرب کا موجود ہونا یا نہ ہونا ان کیلئے برابر ہے۔ لیکن یہ اتحادی کب تک ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکر رہتے ہیں اور عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں علاقائی سیاست کیا کروٹ بدلتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔ سردست یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکوؤں کے درمیان اتحاد زیادہ دیر پا کبھی بھی نہیں رہا۔

معاشی جغادری

فروری 2016ء میں IMF کی سربراہ کرسٹینا لیگارڈ نے ابو ظہبی میں عرب فسکل فورم پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل قریب میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی امکان نہیں اور تیل پر منحصر معیشتوں کو آمدن کے دوسرے ذرائع کھوجنے پڑیں گے جن میں ٹیکس، محصولات اور دیگر طریقہ کار شامل ہیں۔ یہ باتیں جہاں پوری دنیا کیلئے حیران کن تھیں وہیں خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں اور عوام کیلئے باعث تشویش تھیں۔ مشرق وسطیٰ میں تیل سے مالا مال ممالک کے حکمران طبقے اور عوام کے درمیان ایک غیر تحریری سماجی معاہدہ ہے۔ غیر منتخب حکمران طبقہ عوام کو ٹیکس کے بغیر تمام آسائش زندگی فراہم کرے گا اور بدلے میں عوام خاموشی سے ان کی حکمرانی برداشت کرے گی۔ لیکن بدلتی معاشی صورتحال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی و سماجی صورتحال نے حکمرانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے ممالک میں مختلف قسم کے ٹیکس لگائیں، سماجی خرچوں میں کٹوتیاں کریں اور ریاست کی بے لگام کرپشن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔ ساتھ ہی اپنی اکثریتی نوجوان عوام کو روزگار فراہم کر کے انہیں خوش کیا جا سکے۔  

اس سلسلے میں پچھلے کئی سالوں سے ’’سعودائزیشن‘‘ پروگرام چل رہا ہے جس کے مطابق ریاستی اور نجی شعبوں میں بتدریج تارکین وطن محنت کشوں کو نوکریوں سے برخاست کر کے سعودی نوجوانوں کو نوکریاں دی جارہی ہیں۔ پھر 2011ء کے عرب بہار انقلابات کے زیر دباؤ بڑے بڑے تعمیراتی پراجیکٹس شروع کئے گئے تاکہ روزگار فراہم ہو۔ لیکن 2014ء سے شروع ہونے والی کٹوتیوں، پراجیکٹس کے التوا اور سعودائزیشن کے پروگرام کی وجہ سے اب تک لاکھوں غیر ملکی مزدوروں، جنہوں نے اپنی زندگیوں کی دہائیاں اس ملک کی تعمیر میں لگا دیں، کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا اور زیادہ تر کو بغیر تنخواہ کے برخاست کر دیا گیا۔ سعودی عرب سے پچھلے پانچ سالوں میں واپس آنے والے پاکستانیوں کی تعداد چار لاکھ سے زیادہ ہے۔ باقی انڈین، بنگالی، نیپالی، سوڈانی، یمنی، فلپائنی وغیرہ تمام محنت کشوں کے ساتھ بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔ ان سب کے باوجود جب معاملات سازگار نہیں بن سکے تو تارکین وطن محنت کشوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دیئے گئے تاکہ ایک طرف محصولات بھی اکٹھے ہوں اور دوسری طرف اپنی عوام پر ٹیکس کا بوجھ بھی نہ ڈالا جائے۔ اسی دوران حکومتی اخراجات اور بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے خزانے کا منہ کھول دیا گیا اور محتاط اندازوں کے مطابق اب تک 230ارب ڈالر سے زیادہ خرچہ کیا جا چکا ہے۔ اسلامی بانڈ کے نام سے مارکیٹ میں بانڈ جاری کئے گئے جن کے ذریعے اربوں ڈالر قرضوں میں اٹھائے گئے۔ تارکین وطن محنت کشوں کو نکالنے کے نتیجے میں جہاں پیشہ ورانہ تکنیک سے ملک کی پیداوار کمزور ہو رہی ہے وہیں پر معیشت میں اشیا کے خریداروں کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ پھر بحران اور سرمایہ دارانہ نظام میں عمومی زائد پیداوار اور سرمائے کے کردار میں پچھلے تیس سال سے واقع ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے سرمایہ دار صرف سروسز، فنانس یا پھر فوری منافع (پراپرٹی، سٹاک مارکیٹ، گراں قدر اشیا وغیرہ)کے سیکٹر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔  

اس ساری صورتحال میں پراجیکٹس کی ناکامی یا تعطل کو دیکھتے ہوئے ولی عہد محمد بن سلمان نے 2016ء میں سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے معاون کاروں کی خدمات حاصل کیں جن میں نامی گرامی میک کنزے، بلیک سٹون کمپنی وغیرہ شامل ہیں اور انہیں کام دیا گیا کہ ملک کا تیل پر انحصار کم سے کم تر کیا جائے جبکہ دیگر شعبہ جات کو ملک میں ترقی دی جائے تاکہ معاشی خسارے، بیروزگاری اور ممکنہ عوامی عدم اعتماد سے نمٹا جا سکے۔ اگر یہ کام سرمایہ داری کے حکمت کاروں کو ساٹھ ستر سال پہلے دیا جاتا تو بات کچھ اور ہوتی لیکن سرمایہ دارانہ بحران، فنانس کیپٹل کے خوفناک کردار اور زائد پیداوار کے بحران نے ان حکمت کاروں کی بھی مت مار دی ہے۔ 2016ء کے اواخر میں Vision 2030 کے نام سے معاشی و سماجی اصلاحات کا ایک دیو ہیکل پروگرام تشکیل دیا گیا جسے ولی عہد کی دانائی اور بصیرت کی انتہا قرار دیا گیا۔  

لیکن اگر اس پروگرام کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی ایسے دیوانے کا خواب ہے جس میں پچھلے سو سالوں میں سرمایہ داری کی آزمائی ہوئی تمام تر اصلاحات اور فنانس کیپٹل کو ایک جوس کی مشین میں ڈال دیا گیا ہے اور دوسری طرف سے جو عرق اکٹھا ہوا ہے اس کا نام Vision 2030 پروگرام ہے۔ مختصر یہ ہے کہ اس میں نجکاری پروگرام کے ذریعے تمام قومی اثاثوں کی نجکاری، ریاستی سرمایہ داری کے ذریعے مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری، بیرونی سرمایہ کاری کا حصول، نجی شعبے کو کھلی چھوٹ اور فنانس کیپٹل کے پھیلاؤ کے ذریعے معیشت کو چلانا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اول تو بھاری صنعتوں کا اس میں ذکر نہیں اور اگر کہیں پر ذکر ہے بھی تو وہ یا تو تیل سے ہی منسلک ہیں یا پھر ایسی صنعتیں ہیں جن کی بنیادی تکنیک ہی سعودی عرب میں موجود نہیں، جیسے چھوٹے ہتھیاروں کی صنعت لگانے کا ارادہ تو ہے لیکن اس کیلئے میٹالرجی کی تکنیک موجود نہیں۔ اسی طرح تمام تر انحصار، تارکین وطن محنت کشوں پر ٹیکسوں کی بھرمار، فنانس سیکٹر کے پھیلاؤ اور سروسز سیکٹر میں بے تحاشہ بڑھوتری پر ہے۔ باقی تمام دنیا یہ حربے آزما چکی ہے اور اس کا نتیجہ سوائے بحران کو مزید خوفناک کرنے کے اور کچھ نہیں نکلا۔ پروگرام کی سب سے بڑی شیخ چلی حکمت عملی یہ ہے کہ اندرون ملک تمام سیکٹرز کو استحکام دے کر بقایا رقم سے باقی دنیا میں سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے حاصل ہونے والے منافع سے ملک چلایا جائے گا!

عدم استحکام اور ہزیمت 

یہ ناگزیر ہے کہ ایک ایسا سماج، جس کو دنیا کی رجعتی ترین بادشاہت تمام تر استحصال اور مظالم کے ساتھ چلاتی رہی ہے، معیشت کی لبرلائزیشن کے اثرات سے محفوظ رہے۔ جیسے ایک لوہار ہتھوڑا مار مار کر لوہے کو کوئی شکل دیتا ہے اسی طرح شاہی خاندان اپنی بقا کیلئے سعودی سماج کو ہتھوڑے مار مار کر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حال ہی میں خواتین کو گاڑیاں چلانے کی اجازت دی گئی ہے گو کہ اس کا اطلاق اگلے سال جولائی سے ہو گا، اجازت صرف سعودی خواتین کو ہو گی اور اس کیلئے بھی محرم کی اجازت درکار ہو گی! اس وقت ہم سعودی عرب میں اس عمل کو تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جس کا سامنا ہر خطے کے حکمران طبقے کو ہے۔ ایک دھڑا اصلاحات کا خواہش مند ہے تاکہ عوام کو کنٹرول کیا جا سکے تو دوسرا سرے سے اصلاحات کے حق میں ہی نہیں کہ عوام کو کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نظام کا بحران اور تاریخی متروکیت اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ اس میں گلنے سڑنے کا عمل اپنی انتہاؤں کو پہنچ گیا ہے۔ ٹراٹسکی کے مطابق اب یہ جو بھی کریں گے، غلط کریں گے۔ ابھی سے صرف ڈرائیو کرنے کی اجازت دینے پر سعودی سماج میں کئی بحثیں کھل گئی ہیں جن میں عوامی جمہوریت، شخصی آزادی، ریاستی اداروں کی شفاف نگرانی وغیرہ شامل ہیں۔ بے روزگاروں کی فوج میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ ویسے بھی پرانے پراجیکٹس کے تعطل اور نئے کے اعلانات سے روزگار میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس صورتحال کی عکاسی ہمیں پچھلے چند سالوں میں تارکین وطن محنت کشوں اور مقامی باشندوں کی بڑھتی ہوئی احتجاجی سرگرمیوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے، حالانکہ احتجاج کرنے پر شدید ترین ممانعت اور سزائیں موجود ہیں۔  

عوام کے اندر بڑھتے ہوئے اضطراب، معاشی گراوٹ، محلاتی سازشوں اور مشرق وسطیٰ میں شدید ہزیمت اٹھانے کی وجہ سے شاہی خاندان میں دراڑیں پڑتی جا رہی ہیں۔ شاہی خاندان واضح طور پر مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے جو نہ صرف اندرون ملک اور بیرون ملک بر سر پیکار ہیں بلکہ اپنی بقا کیلئے آپس میں بھی دست و پا ہیں۔ پھر دہائیوں سے ریاستی آشیر باد میں پالی ہوئی ملا اشرافیہ اصلاحات کے نتیجے میں اپنے اثرورسوخ کو گھٹتا دیکھ کر خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔ آئے دن ولی عہد کے مخالفین اور نکتہ چین، چاہے وہ ملا اشرافیہ ہو، عوام ہویا پھر شاہی خاندان کا کوئی ممبر، پابند سلاسل کئے جا رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال سے ریاست اور شاہی خاندان کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری کی عکاسی ہو رہی ہے۔

انقلاب یا بربریت؟

مشرق وسطیٰ ایک ایسی دلدل بن چکا ہے جس میں علاقائی اور عالمی سامراجی پیر رکھتے ہی گردن تک دھنستے چلے جاتے ہیں۔ مختلف قوتیں صبح ایک دوسرے کی اتحادی ہوتی ہیں لیکن شام سے پہلے پہلے ایک دوسرے پر بندوقیں تانی کھڑی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی واقعہ کسی کی حکمت یا منشا کے تابع نہیں۔ امریکہ اپنے روائتی اتحادیوں سعودی عرب، عرب امارات، کویت، اردن وغیرہ سمیت جنگ کی بساط پر پٹ چکا ہے جبکہ روس، ایران اور ترکی، شام اور عراق سمیت معاملات کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں۔ ۔ فی الحال۔ ۔ ابھی داعش اور متحارب قوتوں کو شکست دینے کی خوشی کا احساس مدہم نہیں ہوا تھا کہ خبریں آنی شروع ہو گئی ہیں کہ اتحادیوں کے درمیان علاقائی بندر بانٹ پر چپقلش بننی شروع ہو گئی ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ قیاس آرائیاں ہوں لیکن سرمایہ داری کے بحران، سامراجیوں کی کمزوری اور وسیع پیمانے پر تباہ کاری کے بعد جدید ریاست بنانے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے یہ عمل نا گزیر ہے۔ اور اس سارے معاملے میں سعودی عرب میں مزید معاشی، سماجی اور سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔  

لیکن اس سارے عرصے میں ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا ہو گا۔ 2011ء میں رونما ہونے والی میں عرب بہار نے خطے کے شعور اور احساس کو ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا۔ عراق، یمن، شام، اردن، کویت، بحرین، مصر اور بذات خودسعودی عرب میں احتجاجی مظاہرے بڑھ رہے ہیں۔ عرب ممالک میں بائیں بازو کی شاندار روایات رہی ہیں جن کے نتیجے میں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں مشرق وسطیٰ انقلابات کی آماجگاہ بنا رہا۔ آج پھر تباہی و بربادی کا خوفناک عفریت عام عوام کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنی قسمتوں کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تارکین وطن محنت کش اور مقامی عوام ایک دوسرے کے ساتھ طبقاتی جڑت میں شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور اپنے طبقاتی دشمنوں کو پہچانتے ہوئے ان کے خلاف منظم جدوجہد کریں تاکہ انسانیت اس ظلم و بربریت کے نظام سے چھٹکارا پا کر ایک سرخ سویرے کا آغاز کرے۔۔۔ایک سوشلسٹ سویرے کا آغاز۔  

Comments are closed.