اداریہ ورکرنامہ: برطانیہ میں عوامی تحریک

جون کے آغاز پر برطانیہ میں ’’مئے کا خاتمہ ‘‘(End of May) کا نعرہ لگ رہا ہے۔ مے اس وقت برطانیہ کی وزیر اعظم ہے اور آٹھ جون کو ہونے والے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن کی حریف ہے۔ جب عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا اس وقت تھریسا مے کو جیرمی کوربن پر واضح برتری حاصل تھی اور کوربن اپنی ہی پارٹی کے دائیں بازو کے لیڈروں کے زیر عتاب ہونے کے ساتھ ساتھ تھریسا مے سے مقبولیت میں نصف درجے پر تھا۔ لیکن چند ہی ہفتوں میں صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہے اور اس وقت لاکھوں افراد جیرمی کاربن کے جلسوں جلوسوں میں شرکت کر رہے ہیں۔ کوربن کے منشور کو عوام کے وسیع ترین حصوں کی حمایت میں ملی ہے جس میں اس نے یونیورسٹی کی تعلیم بر سر اقتدار آتے ہی فوری طور پرمفت کرنے کا اعلان کیا ہے تا کہ جو طلبہ اس سال ستمبر کے سیشن میں داخلہ لیں انہیں فیس نہ ادا کرنی پڑے۔ اسی طرح اس نے ریلوے، پانی، ڈاکخانے سمیت اہم ادارے دوبارہ نیشنلائز کر کے قومی تحویل میں لینے کا اعلان کیا ہے۔ ٹریڈ یونین حقوق کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے اس نے اجرتوں کے لیے اجتماعی سودا کاری کے حق کی بحالی کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح اس کے منشور کے مطابق محنت کشوں کی کم از کم اجرت میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا اور تقریباً ساٹھ فیصد کے قریب نوجوان محنت کشوں کی اجرتوں کا تعین ریاست کرے گی۔ سالانہ ایک لاکھ کے قریب گھر ریاست کی جانب سے تعمیر کروا کر محنت کشوں کو دیے جائیں گے تاکہ بے گھر افراد کو در پیش مسائل کا خاتمہ کیا جائے اور کرایوں میں ہونے والے تیز ترین اضافے کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس نے صحت کے بجٹ میں چھ ارب پاؤنڈ اضافے کا بھی وعدہ کیا ہے اور صحت کے شعبے کی ممکنہ نجکاری کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر ریاست کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ اس نے مانچسٹر میں ہونے والے بم دھماکوں کی بھی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ عراق، افغانستان اور دیگر ممالک میں برطانوی سامراج کی جارحیت کا نتیجہ ہے۔ وہ دفاعی بجٹ میں کمی کا حامی ہے اور سامراجی جنگوں کیخلاف گزشتہ چار دہائیوں سے مسلسل آواز بلند کر رہا ہے۔ جبکہ موجودہ وزیر اعظم نے سعودی عرب جیسی رجعتی ریاست کو بڑے پیمانے پر اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کیے ہیں اور سامراجی جنگوں کی حامی ہے۔ اسی طرح برسر اقتدار ٹوری پارٹی نے اپنے منشور میں عوام کے لیے ہونے والے اخراجات میں مزید کٹوتیوں کا اعلان کیا ہے۔ اس میں سے ایک یہ تھا کہ بوڑھے افراد کی پنشن میں کٹوتیاں لگائی جائیں لیکن اس اعلان پر عوام کا شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا جس پر اسے صرف چار دن بعد یہ اعلان واپس لینا پڑا۔

اس تمام تر صورتحال میں جیرمی کوربن کے گرد انتخابی مہم ایک عوامی تحریک بن چکی ہے۔ صرف چند گھنٹہ پہلے اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس جگہ کوربن آ رہا ہے تو عوام کا جم غفیر جمع ہو جاتا ہے اور لوگ پورے جوش و خروش سے اس کے حق میں نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ نوجوانوں کا جوش و خروش سب سے دیدنی ہے۔ لاکھوں نوجوان پہلی دفعہ ووٹ دینے کے لیے اپنی رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔ یہ وہی نوجوان ہیں جو اس سے پہلے کی سیاست سے مکمل طور پر اکتا چکے تھے اور کسی بھی پارٹی کی حمایت نہیں کر رہے تھے۔ لیکن کوربن کے منشور نے ان کے لیے سیاست میں کشش پیدا کی ہے۔ بہت سے انقلابی نوجوان اس عمل میں داخل ہو کر اب کوربن کی اصلاح پسندی سے بھی آگے انقلابی مارکسی نظریات کی جانب تیزی سے راغب ہو رہے ہیں۔

اس صورتحال کا دو سال پہلے ہونے والے عام انتخابات سے موازنہ کیا جائے تو لگتا ہے شاید یہ کوئی دوسرا ملک ہے۔ دو سال پہلے کے انتخابات میں لیبر پارٹی کے امیدوار ملی بینڈ نے جب محض توانائی کی قیمتوں میں کچھ کمی کی بات کی تو اس پر مارکسسٹ ہونے کا الزام لگایا گیا اور ٹوری پارٹی نے اپنی مزدور دشمن پالیسیوں کے باوجود پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لی۔ لیکن 2015ء میں جیرمی کوربن کے لیبر پارٹی کے سربراہ بننے سے اب تک ایک عوامی تحریک اس کے گرد بنتی چلی جا رہی ہے جو اب پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔ برطانوی میڈیا کے کوربن کیخلاف زہریلے پراپیگنڈے کے باوجود اس کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں لیکن یہ واضح ہو چکا ہے کہ پورا سماج دائیں اور بائیں جانب واضح طور پر تقسیم ہو چکا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بائیں بازو کے نظریات کی جانب واضح جھکاؤ رکھتی ہے۔ جیرمی کوربن اور اس کے وزیر خزانہ جان میکڈونل نے اپنی پریس کانفرنس میں کارل مارکس کی عظمت کا اقرار کیا اور اس کے نظریات کو معیشت بہتر بنانے کے لیے کارآمد قرار دیا۔ اس کو ٹوری پارٹی اور اس کے دلال میڈیا نے اپنے لیے سنہرا موقع جانااور ان دونوں پر غلیظ ترین حملوں کی بوچھاڑ کر دی اور کمیونزم کیخلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔ لیکن ان کا یہ پرانا حربہ ناکام ہو گیا اور ان تمام تر کوششوں کے باوجود کوربن کی مقبولیت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی۔ تھریسا مے کوربن کی مقبولیت سے اس قدر خوفزدہ ہو چکی ہے کہ اس نے بی بی سی پر ہونے والے مباحثے میں اس کا سامنا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس تمام تر صورتحال کی عکاسی انتخابات کے نتائج میں ہوگی اور جیرمی کوربن کے جیتنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ لیکن ریاست اور اس کے تمام ادارے ہر ممکن طریقے سے کوربن کو وزیر اعظم بننے سے روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر تھریسا مے جیت بھی گئی تو بھی وہ واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور اسے ایک مخلوط حکومت بنانی پڑ سکتی ہے۔ ایسے میں بریگزٹ اور آنے والے سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم سمیت تمام اہم ایشوز پر اس کو پسپائی اختیار کرنا پڑے گی اور برطانوی ریاست کے بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا۔

برطانیہ کی عوامی تحریک واضح کرتی ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی عوام اس نظام سے شدید تنگ آ چکے ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں کوئی بھی اس نظام کے اندر رہتے ہوئے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے گا اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یونان اور وینزویلا میں اس کا عملی نمونہ دیکھا جا چکا ہے۔ اس نظام سے نجات حاصل کرنے کا واحد طریقہ سوشلسٹ انقلاب ہے جس کے لیے مارکسی نظریات پر بالشویک طرز کی ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر وقت کی اشد ضرورت ہے۔

Comments are closed.