اداریہ ورکر نامہ: ہم دیکھیں گے!

اقتدار کی ہوس میں حکمران طبقہ دوسرے کے راز منظر عام پر لاتا جا رہا ہے۔حکمرانوں کے ایوانوں سے آنے والی خبرو ں میں ایک دفعہ پھر بہت گرما گرمی ہے۔ بہت سے جلسے ہو رہے ہیں۔ کچھ حکومت کر رہی ہے اور کچھ نام نہاد اپوزیشن۔ سیاسی تبصروں اور تجزیوں میں بھی تیزی کا رجحان ہے۔لیکن حکمرانوں کی اس ساری سیاست میں عوام کے کسی ایک بھی بنیادی مسئلے کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا ۔ ایسا لگتا ہے ملک میں ایک نہیں دو قسم کی سیاست ہو رہی ہے۔ایک اس ملک کے سرمایہ داروں، وڈیروں،ججوں، جرنیلوں ، سامراج کے ایجنٹوں،ٹی وی اور اخباروں کی سیاست ہے۔ اس سیاست میں اس طبقے کے مختلف چور ایک دوسرے کا احتساب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی چوریاں، ہیرا پھیریاں، فراڈ اور بد عنوانی منظر عام پر لاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور اپنے آپ کو پاکدامن ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ اس سب کا مقصد اقتدار اور خزانے میں اپنے حصے میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ جتنی لوٹ مار وہ پہلے کر رہے ہیں اس سے زیادہ کر سکیں۔جس ریاست پر وہ حکمرانی کر رہے ہیں اس کی لمبی عمر کی خود انہیں توقع نہیں اس لیے تیزی سے اپنی تمام تر دولت اور جائدادیں بیرون ملک محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ایک چور اس سے زیادہ سوچ بھی کیا سکتا ہے۔
لیکن ایک اور سیاست ہو رہی ہے۔محنت کش طبقے کی سیاست۔وہ جن کے پاس شدید گرمی اور لُو میں پنکھے کی سہولت بھی دستیاب نہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے جینا دو بھر کر دیا ہے۔ بجلی نہ ہونے کے باعث پانی بھی ملنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اسی غم و غصے کا اظہار مختلف جگہوں پر احتجاج کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پھر بیروزگاری کا عذاب ہے جو اس سماج کے نوجوانوں کی ایک بھاری اکثریت پر نازل ہو چکا ہے۔ اور بڑے پیمانے پر بر سر روزگار محنت کش تیزی سے اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کیخلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہیں۔ اساتذہ سے لے کر کسان چھوٹی بڑی بکھری ہوئی تحریکوں میں حکمرانوں کے جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسی طرح پورے ملک میں پھیلی ہوئی صنعتوں کے مزدور تنخواہوں کی عدم ادائیگی، ٹھیکیداری اور دیگر بنیادی ضروریات کے لیے اپنی اپنی جگہ لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔ محنت کشوں کی یہ تمام خبریں میڈیا کے لیے غیر اہم تو ہیں ہی، سیاسی پارٹیاں بھی سماج میں موجود اس تمام تر بے چینی سے لاتعلق ہیں۔ کسی بھی پارٹی کے پاس لاکھوں خاندانوں کی سلگتی ہوئی ضرورتوں کے حل کا کوئی پروگرام نہیں۔ ان پارٹیوں اور ان کے قائدین کے لیے طاقت کا سرچشمہ امریکی سامراج ہے۔ ان کی نظریاتی بنیاد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سرمایہ دارانہ پالیسیاں ہیں۔ اس لیے اگر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے نجی بجلی گھروں کو نیشنلائز کرنے کی بات کی جائے گی یا نجکاری کے مکمل خاتمے اور تمام بیروزگاروں کو ریاست کی جانب سے روزگار فراہم کرنے کی بات کی جائے گی، روٹی ،کپڑے، مکان، علاج اور تعلیم کی مفت فراہمی کی بات کی جائے گی تو براہ راست سرمایہ دارانہ پالیسیوں سے ٹکراؤ پیدا ہو گا۔ اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ناراض ہو گئے تو انہیں کبھی اقتدار میں حصہ نہیں ملے گا۔ ساتھ ہی بیرون ملک موجود دولت کے ذخائر کی ضبطگی اور بدعنوانی میں گرفتار ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ اس لیے یہ سیاسی پارٹیاں اپنی غلیظ سیاست کو ہی جاری رکھیں گی۔
دوسری جانب محنت کشوں کی ابھرنے والی چھوٹی بڑی تحریکوں کی بنیاد سماجی بے چینی اور اس معاشی نظام کا بڑھتا ہوا دیوالیہ پن ہے۔ آنے والے عرصے میں اس میں کمی کی بجائے شدت آئے گی اور یہ سماج کے زیادہ سے زیادہ حصوں کو متاثر کرے گا۔ ایسے میں یہ تحریکیں ناگزیر طور پر پھیلتی جائیں گی۔ گو کہ یہ سب کچھ ایک سیدھی لکیر میں ہوناممکن نہیں لیکن ایک مختصر وقفے کے بعد ایک بڑا دھماکہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ پی آئی اے کے محنت کشوں کی آٹھ روزہ شاندار ہڑتال ایسا ہی ایک واقعہ تھی۔ جب اس ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ محنت کشوں نے انتہائی اہم دفاعی نوعیت کے ادارے کو مکمل طور پر جام کر دیا اور حکمرانوں کو باور کرایا کہ یہ ادارے تم نہیں ہم چلاتے ہیں۔ لیکن اس ملک کی کسی سیاسی پارٹی نے اس ہڑتال اورنجکاری کے خاتمے کے مطالبے کی حمایت نہیں کی۔ یہی رویہ دیگر تمام تحریکوں کی جانب بھی ہے۔
لیکن سماج میں جاری یہ تمام تر عمل جامد و ساکت نہیں بلکہ مسلسل حرکت میں ہے۔ اس ملک کی وسیع تر آبادی کے شدید ترین مسائل کو اگر سیاسی اظہار اور ہئیت نہیں مل رہی تو یہ کیفیت لمبا عرصہ جاری نہیں رہ سکتی۔ امیر اور غریب طبقات پر مبنی سماج میں طبقاتی تضادات جلد یا بدیر تحریکوں اور بغاوتوں کی صورت میں پھٹتے ہیں۔ یہ تحریکیں اپنا آغاز فوری مطالبات سے کرتی ہیں ۔ مختلف چھوٹی تحریکیں ایک دوسرے سے کٹ کر الگ رہتی ہیں تو ان کا کردار مختلف ہوتا ہے لیکن جب حالات کا جبر انہیں ایک دوسرے سے جڑنے کے لیے مجبور کر دیتا ہے تو ان میں معیاری تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں اور ان کا کردار تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ معاشی مطالبات سے آغاز کرنے والی یہ تحریکیں سیاسی مطالبات کی جانب بڑھتی ہیں اور حکمران طبقے کی سیاست کو چیرتے ہوئے سماج پر اپنی سیاست کو حاوی کر دیتی ہیں۔ وہ سیاسی پارٹیاں جو انہیں نظر انداز کر رہی ہوتی ہیں یہ تحریکیں انہیں رد کرتے ہوئے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیتی ہیں اور اپنے سیاسی اظہار کے نئے اوزار تشکیل دیتی ہیں، نئی پارٹیاں بناتی ہیں۔ ایسا اس ملک میں پہلے بھی ہو چکا ہے ۔ دوبارہ بھی ہو گا۔حکمران طبقے کے خلاف ابھرنے والی ان تحریکوں کو، جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں ابھر رہی ہیں، اگر ٹھوس نظریاتی بنیادیں مل جائیں تو صرف حکومت اور چہرے تبدیل نہیں ہو ں گے بلکہ ایک انقلاب برپا ہو گا اور یہ پورا نظام تبدیل ہوگا۔ امیر اور غریب کا نظام ، ظالم اور مظلوم کا نظام، سرمایہ دار اور مزدور کا نظام ، وڈیرے اور ہاری کا نظام، حاکم اور محکوم کا نظام۔اور اس نظام کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک طبقات سے پاک سوشلسٹ نظام قائم کیا جائے گا جو ظلم اور بربریت کی اس طویل داستان کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے گا۔
ہم دیکھیں گے! لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!

Comments are closed.