پابلو نرودا کے جنم دن پر ۔۔۔انتساب

پابلو نرودا اور فیض احمد فیض کی ایک یادگار تصویر

پابلو نرودا اور فیض احمد فیض کی ایک یادگار تصویر

(آج عظیم انقلابی شاعر پابلو نرودا کا جنم دن ہے۔ پابلو نرودا لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں12جولائی 1904ء کوپیدا ہوئے جبکہ23ستمبر 1973ء کو ان کی وفات ہوئی۔ پابلو نروداچلی کی کمیونسٹ پارٹی کے راہنما تھے۔ جب فوجی آمر پنوشے نے11ستمبر 1973ء(9/11)کو امریکی سامراج کی پشت پناہی سے وزیر اعظم الاندے اور ساتھیوں کو قتل کر کے اقتدار پر قبضہ کیا اس وقت نرودا فرانس میں زیر علاج تھے اور چند دن بعد وہاں پر ہی ان کی وفات ہوئی۔ پنوشے کی خونی آمریت میں جہاں ہزاروں انقلابیوں کو قتل کیا گیااور لاکھوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہاں نروداکے گھر اور اس کی کتابوں کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ پابلو نرودا کی112ویں سالگرہ پر ہم ان کے قریبی دوست اور کامریڈ ’’فیض احمد فیض‘‘ کی مشہور نظم ’انتساب‘ شائع کر رہے ہیں۔ یہ نظم فیض نے نرودا کی شاعری سے متاثر ہو کرماسکو میں لکھی تھی۔ ایڈیٹر)

انتساب

آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہ جہاں والئی ما سوا ، نائب فی الارض
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں

ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھا گئے ہیں
ان بیاہتاؤں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں اور گلیوں محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشاک سے چاند راتوں
کو آ آکے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزومند سینوں کی اپنے پسینوں میں جلنے کی بو

پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پرکتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
وہ معصوم جو بھولے پن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے گھٹا ٹوپ بے انت راتوں کے سائے

ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فرداکے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صر صر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے

فیض احمد فیضؔ

Comments are closed.