انسانی سر کی پیوند کاری‘ سائنس کا ایک نیا کارنامہ

|تحریر: خالد نادر جان|

رواں سال کے اختتام(دسمبر2017ء) کوحیاتیاتی سائنس میں ایک نئے باب کے آغازکے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اطالوی سائنسدان کیناویرو(Canavero) کی سربراہی میں دنیا کا پہلا ہیڈ ٹرانسپلانٹیشن کا تجربہ عمل میں لایا جائے گا۔ اس تجربے میں ایک انسان کے سر، جو کہ ایک فالج زدہ جسم کا حصہ ہے، کو کاٹ کر ایک تندرست جسم پر پیوندکیا جائے گا۔ تاہم تجربہ کے لئے اپنا جسم وقف کرنے والے شخص کا ابھی انتخاب نہیں کیا گیا۔ جبکہ روسی شہری اسپیریڈونو(Spiridonov) کا سر(جو کہ ایک مہلک فالج زدہ جسم کا حصہ ہے) کو تجربہ کے لئے وقف کنندہ تندرست جسم پر پیوند کیا جائے گا۔ اس تجربہ میں 150 سائنسدان حصہ لیں گے۔ یہ آپریشن 36 گھنٹے کے طویل دورانیہ پر محیط ہوگا اور اس پر آنے والے خرچے کی مالیت 10کروڑ روپے ہے۔ یہ رقم کسی عالمی صحت کے ادارے یا حکومت کی طرف سے مختص نہیں کی گئی، بلکہ عوامی چندوں سے اکٹھی کی گئی ہے۔

مارکسسٹوں کے لئے یہ ایک متجسس کرنے والی خبر نہیں۔ اس ایک سائنسی جدت کو سماج سے کاٹ کر کل کی صورت میں دیکھا جائے تو شاید بورژوا نقطہ نگاہ سے یہ ایک نئے باب کا آغاز ہوسکتا ہے۔ مارکسسٹ چونکہ کسی بھی مظہر کو اس کے بننے کے عمل میں دیکھتے ہیں، نہ کہ جامد۔ اسی لئے اس طرح کی سائنسی تحقیق کو جب مجموعی سماجی، سیاسی اور اقتصادی ترتیب کے ساتھ ربط میں دیکھا جائے، تو اس قسم کی ایجادات میں انسان کے لئے تجسس سے زیادہ رائج الوقت نظام کے خلاف لڑنے کا پیغام ہوتا ہے۔

یہ ہیڈ ٹرانسپلانٹیشن آج کے عہد کی مادی پیداواری قوتوں کی انتہائی ترقی کی غمازی کرتا ہے۔ لیکن سماج میں موجود رائج الوقت معاشی نظام اور ذرائع پیداوار کے رشتوں کی فرسودگی اس قسم کی جدید ایجادات کو انسانی دسترس سے بالا رکھتی ہے۔ مثلاً نیوکلئیر پروگرام بھی انسانی مادی پیداواری قوتوں کی انتہا کا عکاس ہے، لیکن سماج میں اس کے کردار کا تعین اس کے سائنسی فارمولے اورریاضیاتی مساواتیں(Mathematical Equations) نہیں کرتیں۔ بلکہ رائج الوقت پیداواری رشتے ہی حتمی تجزیے میں اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ نیوکلئیر پروگرام سے انسانی بہتری کے لئے توانائی حاصل کرنے سے زیادہ ایٹم بم بنانے میں سرمایہ دارانہ مفاد پوشیدہ ہوتا ہے۔ آج کے عہد میں سائنس کا سماجی کردار بھی حکمران طبقے کے مفادات سے جڑا ہے اور اس میں انسانی تباہی لازم ہے۔ یہ ہیڈ ٹرانسپلانٹیشن جس زمین کے اوپر ہورہا ہے وہاں پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں انسان معمولی بیماریوں جیسے بخار، ڈینگی، ملیریا وغیرہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ایسے حالات میں اربوں انسانوں کے لئے یہ ہیڈ ٹرانسپلانٹیشن کی خبر، بخار اور اسی طرح کے بنیادی علاج (جو کہ کئی دہائیوں پہلے ایجادشدہ ہیں) کو حاصل کرنے کے لئے طبل جنگ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ آج بھی پاکستان اور ہندوستان کا صحت کاعمومی نظام آج سے 4000 سال پرانی تہذیب موہنجوداڈو سے ابتر ہے۔ موہنجوداڈو ایک پلاننگ سے بسایا ہوا شہر تھا اور صحت کی دستیاب سہولیات اس عہد کے عام لوگوں کی دسترس میں تھیں۔ برصغیر کے کروڑوں لوگ آج بھی غیر سائنسی طریقہ علاج استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ سائنسی علاج انسان کے لئے ایک ’’مقدس ‘‘چیز بن گئی ہے۔ شاید ہمارے آباؤاجداد بھی اْن چیزوں کو ’’مقدس‘‘ گردانتے تھے جنہیں وہ دیکھ اور چھو نہیں سکتے تھے۔

سائنسی ایجادات اور تحقیقات کا سماج پر ترقی پسندانہ اطلاق صرف اور صرف ایک منصوبہ بند معیشت(جو کہ صرف سوشلزم میں ہی ممکن ہے) میں ہوسکتا ہے۔ سائنس پچھلی صدی کے وسط تک جو ترقی پسند کردار ادا کر رہی تھی، آج ایک مختلف کردار کی حا مل ہوچکی ہے۔ سائنسی ایجادات اور تحقیقات کا کوئی ترقی پسندکردار سماجی ترتیب سے کاٹ کر متعین کیا جائے تو آج کے عہد میں ایسی ایجادات اور تحقیقات میں کچھ سائنسدانو ں کی انا کی تسکین، آپس کی مقابلہ بازی، تحقیق کے نام پر فنڈز کا اجراء اور سرمایہ دار کو مقابلے کی منڈی میں زندہ رکھنے کیلئے پرانی چیزوں اور کھلونوں کو ایجادات کے نام پر رنگا رنگ بنا کر پیش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ سائنس میں سماج سے ہم آہنگ تاریخی ترقی کبھی بھی آج کے عہد کی ننگی نیو لبرل قسم کی سرمایہ داری میں حاصل نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ سرمایہ داری میں سائنس کی ترقی پسند سماجی حاصلات ایک فلاحی قومی ریاست کے فلسفے سے ہی ممکن ہوئی تھیں۔ جس میں کسی حد تک قومیائی گئی(Nationalized) پلاننگ شامل تھی جو کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وسیع سماجی استعمال میں کارگر ثابت ہوئیں۔ اسی عرصے میں سویت یونین کا مقابلہ کرنے اور عوامی ابھار کے ڈر سے بھی مغربی سرمایہ دارممالک نے کئی قومیائے گئے منصوبوں پر کام کیا۔ آج کے عہد میں ایک قومیائی گئی پلاننگ شدہ معیشت کی عدم موجودگی کے باعث سائنس ایک لاوارث کھلونے کی مانند ہے جس سے کچھ سائنس دان کھیل کر جی بہلاتے ہیں۔

سائنس کاسماج میں قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت کے بغیرکردار صرف سرمایہ داروں کی لونڈی کا ہے جسے وہ اپنے منافع کی ہوس بجھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے سماج میں بڑے پیمانے پر پیشرفت صرف اس وقت حاصل کی ہے جب نجی کمپنیوں کی بجائے ریاستی سرپرستی میں تحقیق کو فروغ دیا گیا۔ مثلاً چاند پر انسانی قدم(اپالو مشن)، نیوکلئیر تحقیق، آمدورفت، ٹیلی کمیونیکیشن، ڈیمز وغیرہ کی تکمیل ریاستی سرپرستیسے ہی ممکن ہوپائی تھیں۔

جدید سائنس میں بہت سے میدان صرف اور صرف ایک قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت کے نہ ہونے کی وجہ سے خالی پڑے ہیں۔ مثلاً سہ جہتی (3D) پرنٹر جو کہ نسل انسانی کو سستی اور آسانی سے تیارشدہ چیزیں فراہم کر سکتے ہیں، لیکن موجودہ طرز پیداوار کے شکنجے میں جکڑے ہونے کے باعث یہ سماجی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ سینکڑوں سائنسی میدان ایسے ہیں جن میں ایک ہی وقت میں ہزاروں سائنسدان(جن کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں) ایک ہی چیز پر کام کر رہے ہیں۔ نوبل انعام حاصل کرنے والے سائنسدانوں کی بڑی تعداد ایسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ بے شمار ریسرچز کو ایک دوسرے سے چھپایا جاتا ہے۔ منڈی کی نجی ملکیت کی اخلاقیات علمی میدان میں بھی رچ بس چکی ہیں۔ سائنسدان علمی نجی ملکیت کے حقوق حاصل کرنے کے لئے عدالتی چارہ جوئی بھی کرتے ہیں اور قانون کی کتابوں میں انہیں تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے۔ اگر ایک پلاننگ کے ذریعے ان تمام سائنس دانوں کے تحقیقی کام کو ایک اجتماعی عمل کا حصہ بنایا جائے تو بہت کم وقت اور بہت کم محنت سے بہت زیادہ تحقیقات سرانجام پاسکتی ہیں۔ ’’المختصر آج کا سماجی معاشی نظام سائنس کی راہ میں رکاوٹ ہے اور اس کا دم گھٹنے لگا ہے۔ ‘‘

فطرت میں انسانی محنت ہی وہ چیز ہے جو اپنی قدر سے زیادہ قدر پیدا کرتی ہے۔ علاج، گھر، خوراک، مشینیں وغیرہ (جو انسا نی محنت سے ہی بنی ہیں) کو خریدنے کے لئے دی جانے والی اجرت ہمیشہ کم پڑجائے گی۔ آج دنیا میں موجود امراض دل، گردے، آنکھ، پتھری، زچگی وغیرہ میں مبتلا مریضوں کی کل تعداد، اور ہر مرض کے(جدید ترین علاج کے) لئے درکار رقم کا موازنہ کیا جائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ دنیا میں ان متاثرین کے پاس اتنا پیسہ موجود ہی نہیں کہ ان تمام امراض کا علاج خریدا جاسکے۔ حالانکہ علاج بھی موجود ہے اور مریض بھی وجود رکھتے ہیں۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے، لیکن سرمایہ داری کی اور بہت سی باتیں اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہیں۔

کارل مارکس نے اس سارے مسئلے کا درست تجزیہ اور نشاندہی ایک ٹھوس جدلیاتی سائنسی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے کی تھی۔ جب کسی رائج الوقت نظام میں پیداواری رشتے، پیداواری قوتوں (بشمول سائنس ) کے لئے جکڑ بن جائیں تو ان کا دم گھٹنے لگتا ہے اور حتمی تجزیے میں وہ پھٹ کر اپنا اظہار کرتی ہیں۔ ایک عہد جس میں رائج الوقت سماجی معاشی نظام اپنا تاریخی ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کے بعد اپنے جدلیاتی الٹ میں تبدیل ہوگیا ہو اور اس کی متروکیت ناگزیر ہو جائے، وہاں ایک شعوری جست سے تاریخ کے دھارے کو بدلنے کے علاوہ کوئی اور مقصد انسان کاحقیقی تاریخی فریضہ نہیں ہوسکتا۔ جہاں انسانیت کی لاکھوں سالوں کی اجتماعی محنت سے حاصل ہونے والی سائنس اور تکنیک پر آج مٹھی بھر سرمایہ داروں کا قبضہ ہو، وہاں سائنس میں ہونے والی تحقیق پر متجسس ہونے اور اس میں مزید تحقیقات کرنے سے بھی اہم بات اس کو موت کے سوداگروں سے آزاد کرانا ہے۔ سائنس کی بقاصرف اور صرف انقلابی سوشلزم کے پروگرام میں پنہاں ہے۔ سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

Comments are closed.