برازیل میں عام ہڑتال: محنت کش کرپٹ تیمر حکومت کے خلاف جدوجہد کیلئے پر عزم

رپورٹ: ورکرنامہ

28اپریل 2017ء کو برازیل کے محنت کشوں ، نوجوانوں اور یونینز نے کرپٹ تیمر حکومت کی خوفناک کٹوتیوں اور اور پنشنوں میں کمی کی پالیسیوں کے خلاف پچھلی دو دہائیوں میں پہلی بار عام ہڑتال کردی ہے۔ کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں نے اس عام ہڑتال میں حصہ لیا اور آخری رپوٹوں تک تمام 26صوبوں میں ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ زیادہ تر شہروں میں ہڑتالیں پر امن تھیں لیکن کچھ جگہوں پر، خاص طور پر بڑے شہروں میں حکمران طبقے نے اپنی رٹ قائم رکھنے کی کھوکھلی کوشش میں مظاہرین پر لاٹھی چارج، ربڑ گولیاں اور آنسو گیس کے شیلوں کی برسات کر دی۔ اس ہڑتال میں برازیلی محنت کشوں اور نوجوانوں کی تقریباً تمام پرتیں جن میں میونسپل ورکر، پبلک ٹرانسپورٹ ورکر، بینک ملازمین، ڈاک خانوں کے ورکر، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، پبلک اور پرائیویٹ سکولوں کے ملازمین اور ٹیکسی ڈرائیور شامل تھے۔

میٹل ورکروں کی یونین نے باقاعدہ اعلان کیا کہ اس کے 60000 ممبران ہڑتال پر ہیں۔ تیمر حکومت اور برازیلی سیاسی اشرافیہ ، برازیلی سرمایہ داری کے کٹر محافظ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے شرح منافع کو قائم رکھنے اور طبقاتی مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے محنت کش طبقے کے خلاف خوفناک معاشی جنگ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ محنت کشوں اور غریبوں کی بھاری اکثریت کیلئے اب زندہ رہنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔

جمعرات کو عام ہڑتال سے ایک دن پہلے برازیلی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ پبلک ملازمین کی اشرافیہ(بیوروکریٹ اور دیگر ریاستی بابو وغیرہ) 140000ڈالر سالانہ سے زیادہ تنخواہ لے سکتے ہیں جبکہ آئین کے مطابق اس حد سے کسی صورت تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں آدھی آبادی، تقریباً 10 کروڑ کی سالانہ آمدن تقریباً 4000 ڈالر ہے۔

تیمر حکومت کی خونخوار کٹوتیوں اور شدید عمومی معاشی گراوٹ کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح 15فیصد تک پہنچ گئی ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ جمعہ کے دن Ibope کی رائے شماری کے مطابق حکومت کی مقبولیت کی شرح 10فیصد پر آ گئی ہے، جبکہ 55فیصد طرز حکومت سے شدید نالاں ہیں۔ احتجاج کرتے ہوئے ایک بینک ملازم نے ٹیلی گراف اخبار کو بتایا کہ ’’ہم اس ناجائز حکومت کو اب مزید برداشت نہیں کر سکتے، اسے اس لئے منتخب نہیں کیا گیا تھا کہ یہ محنت کشوں کے حقوق برباد کر دے۔‘‘

ہفت روزہ برازیل دی فاتو اخبار کے مطابق مظاہرین کی تعداد 3.5کروڑ تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہڑتال برازیل کی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال تھی۔عالمی مارکسی رجحان کے برازیلی سیکشن، Esquerda Marxista کے ممبران کئی شہروں میں مظاہروں میں موجود تھے۔ سانتا کاتارینا صوبے کے سب سے بڑے شہر جوئن ویل میں ایک مقامی یونین سین سیج کے ساتھ مل کر 7000 مظاہرین کی ریلی کی قیادت کی گئی۔ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اور زیادہ میونسپل ورکر، طلبا، ریاستی اور نجی اداروں کے محنت کش، بجلی مزدور، بینکار اور کئی شعبوں اور اداروں سے تعلق رکھنے والے مزدور ریلی میں ساتھ شامل ہوتے گئے اور نعرے لگاتے گئے:’’تیمر اور قومی کانگریس کو باہر نکالو!‘‘ اور ’’اگر زور لگاؤ تو تیمر گرے گا!‘‘اس تمام صورتحال کے باوجود صدر تیمر نے ہڑتال کے بعد یہ اعلامیہ جاری کیا کہ احتجاج صرف ’’چھوٹے گروہوں‘‘ نے کیا ہے اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ ’’قومی قوانین کی جدت کا کام جاری رہے گا۔‘‘

پورے ملک میں عام ہڑتال اور احتجاجوں سے عوامی غم و غصے کا اظہار ہو رہا ہے۔ بے پناہ کرپشن اور معیار زندگی میں بہتری کی ناامیدی کی وجہ سے محنت کش اب معاملات اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کی پرتیں ریڈیکل نتائج اخز کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ بحران سے باہر نکلنے کے انقلابی راستے تلاش کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کی سوشلسٹ تحریکیں، جیسے کہ Liberdade e Luta، جسے Esquerda Marxista کی حمایت حاصل ہے، ماضی میں نوجونوں اور طلبا کو متحد کرنے میں شاندار کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں۔ آنے والے حالات کا درست تجزیہ اور ادراک رکھتے ہوئے ایک سائنسی پروگرام کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ محنت کشوں اور نوجوانوں کی پرتوں کو ساتھ ملاتے ہوئے وسیع بنیادوں پر تیاری کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.