فیصل آباد: پاور لومز کے ایک مزدور کا خصوصی انٹرویو

(نمائندہ ورکرنامہ سے)

آبادی کے لحاظ سے فیصل آباد پاکستان کا تیسرا اور پنجاب کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فیصل آباد کی آبادی ایک کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے جس کا زیادہ تر حصہ زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبوں سے وابستہ ہے۔ فیصل آباد کو ’پاکستان کا مانچسٹر‘ بھی کہا جاتا ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ شہر پاکستان کی مجموعی پیداوار میں20فیصد کا شراکت دار ہے یعنی 20.55بلین ڈالر سالانہ۔ 2012ء کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کے صنعتی شعبے کے کل مزدوروں کا 20فیصد حصہ فیصل آباد میں ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ ہے۔ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری سالانہ 13.8بلین ڈالر کی پیداوار کرتی ہے۔ ٹیکسٹائل کی بہت سی مصنوعات یورپ، امریکہ اور دنیا کے دوسرے ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں۔

فیصل آباد میں مزدوروں کا ایک بڑا حصہ پاور لوم یا کپڑا بنانے کے شعبے سے منسلک ہے۔ فیصل آباد میں پاور لومز کے بہت سے سیکٹرز میں ہزاروں پاور لومز کی فیکٹریاں چل رہی ہیں جن میں پاکستان کے دور دراز علاقوں سے بھی مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے۔ فیصل آباد میں بے شمار فیکٹریاں ایسی بھی ہیں جن کو رجسٹرڈ ہی نہیں کروایا گیا تاکہ ٹیکس سے بھی بچا جاسکے اور مزدوروں کو سہولیات دینے سے بھی جان چھڑوائی جاسکے۔ ہر فیکٹری میں بارہ بارہ گھنٹے کی دو شفٹیں چلتی ہیں۔ یعنی ہر مزدور کو کم ازکم 12گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔

لوڈشیڈنگ کی بھاری قیمت بھی ان پاورلومز کے محنت کشوں نے چکائی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے باعث بڑی تعداد میں پاورلومز بند ہوئی ہیں جس کے باعث ہزاروں محنت کش بے روزگار ہوئے اور لومز مالکان کئی مہینوں کی تنخواہیں دئیے بغیر رفو چکر ہوگئے۔ اس کے علاوہ ان لومز میں ہونے والے جبر اور استحصال کے خلاف آئے روز یہاں کام کرنے والے محنت کش سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ ان فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کے معاشی اور گھریلو حالات جاننے کے لیے ہم نے ایک مزدور کا انٹرویو کیا ہے جو پچھلے 32سالوں سے پاور لومز میں کام کرتا ہے:

سوال: آپ کا نام کیا ہے اور آپ کہاں رہتے ہیں؟
جواب: میرا نام محمد یوسف ولد سائیں محمد ہے اور میں گلی نمبر 1مدینہ ٹاؤن فیصل آباد کا رہائشی ہوں۔

سوال: آپ کے کتنے بچے ہیں ؟
جواب: میرے چھ بچے ہیں تین بیٹیاں اور تین بیٹے۔

سوال: کیا آپ کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟
جواب: ایک بیٹی جو سب سے بڑی ہے وہ بارہویں جماعت میں پڑھتی ہے اس کے علاوہ ایک بیٹا پرائمری پاس ہے۔

سوال: کیا وجہ ہے کہ آپ نے صرف ایک بچی کو تعلیم دلوائی؟
جواب: میرے اتنے وسائل ہی نہیں کہ میں بچوں کو پڑھا سکوں۔ میں کرایہ کے مکان میں رہتا ہوں، چھ بچے ہیں اور دو ہم میاں بیوی ۔ میں تو اپنے خاندان کی خوراک پوری کرنے سے عاجز ہوں، پڑھائی کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ بعض اوقات ہمارے گھر میں فاقے ہوتے ہیں ایسی صورت حال میں بچوں کو پڑھانے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بیٹی کو جہیز تو دے نہیں سکتا تو سوچا اس کو چار جماعتیں پڑھا دوں شاید کسی اچھی جگہ رشتہ ہو جائے۔

سوال: آپ کی آمدن کتنی ہے اور گھر کا خرچ کیسے چلاتے ہیں؟
جواب: میں اور میرے بیٹے مل ملا کر 25000روپے ماہانہ کما لیتے ہیں۔ جس میں سے 4000روپے مکان کا کرایہ، 2000روپے بجلی اور گیس کا بل۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا دمے کا مریض ہے، ہر ہفتے 1500روپے کی دوائی آتی ہے اس کی۔ میری والدہ کا انتقال 2015ء میں ہو ا تھا جس کے کفن دفن کے لیے فیکٹری سے 30000ایڈوانس لیا تھا۔ یہ ایڈوانس ہر ماہ اپنی تنخواہ میں کٹواتا ہوں۔باقی جو پیسے بچ جاتے ہیں ان کا راشن آجاتا ہے۔

سوال: آپ گھر میں روزانہ کتنا دودھ استعمال کرتے ہیں اور گوشت کتنے دن بعد پکتا ہے؟
جواب: ہمارے گھر میں روزانہ آدھا کلو دودھ آتا ہے جس سے آٹھ کپ چائے بنتی ہے۔ اور گوشت مہینے میں ایک یا دو بار پکتا ہے۔ وہ بھی گوشت کم ہوتا ہے اور شوربا زیادہ۔

سوال: آپ کپڑے لینے کے اخراجات کہاں سے پورے کرتے ہیں؟
جواب: آج سے تین سال پہلے میں نے اپنے لیے ایک سوٹ خریدا تھا اور اس کے ایک سال بعد اپنی بیوی کو ایک سوٹ لے کر دیا تھا۔ بچوں کو سال میں ایک یا دو مرتبہ سوٹ لے دیتا ہوں۔

سوال: آپ اتنی تنگ دستی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا آپ محنت نہیں کرتے؟
جواب: نہیں ایسی بات نہیں میں کام سے چھٹی ہرگز نہیں کرتا۔ میں سن 1984ء سے پاور لوم پر کام کر رہا ہوں۔ کبھی کبھی مجھے سانس لینے میں بہت زیادہ دقت ہوتی ہے۔ آج سے چار سال قبل میں بہت بیمار ہو گیا تھا جس کی وجہ سے میں 12دن تک کام پر نہ جا سکا اور ایک دفعہ بیماری کی وجہ سے 8دن تک بستر پر پڑا رہا اس کے علاوہ میں نے کبھی چھٹی نہیں کی اور روزانہ 12گھنٹے کام کرتا ہوں۔

سوال: آپ کب تک اس طرح کی کسمپرسی کی زندگی گزاریں گے؟ اگر میں کہوں کہ ایک ایسا نظام ہے جس میں آپ کی سب مشکلوں اور تکلیفوں کا حل ہے تو آپ کی کیا رائے ہو گی؟
جواب: کون چاہتا ہے کہ ایسی گھٹن والی زندگی گزارے۔ اگر کوئی ایسا نظام ہوجس میں ہمار ی تمام تکلیفوں اور اذیتوں کا ازالہ ہو توایسے نظام کے لیے میری جان بھی حاضر ہے تاکہ کوئی اور محمد یوسف پیدا نہ ہو!!!

Comments are closed.