لیون ٹراٹسکی کی شہرہ آفاق، آخری تصنیف ’’سٹالن ‘‘ کا تعارف

تحریر: |لیون ٹراٹسکی|
ترجمہ: |انعم خان|

Trotsky's Stalin
قاری اس بات پر غور کرے گا کہ میں نے سٹالن کے حالیہ سیاسی امور کی بجائے ابتدائی دور کی ترقی پر زیادہ تفصیل سے کام کیا ہے۔ حالیہ دور کے حقائق ہر پڑھے لکھے انسان پر عیاں ہیں۔ اس کے علاوہ سٹالن کے سیاسی رویوں کے متعلق میری 1923 ء سے شروع ہونے والی تنقید ی تحریریں کئی جگہوں پر میسر ہیں۔ اس سیاسی سوانح عمری کو لکھنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ کیسے اس طرز کی شخصیت کی تعمیر شروع ہوئی اورکس طرح اس نے طاقت پر قبضہ کرتے ہوئے اتنا غیر معمولی کردار ادا کیا۔ اسی وجہ سے ایک ایسے وقت کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہ جب سٹالن کی زندگی اور اس کی ترقی کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا، لگ بھگ کچھ نہیں، وہاں پر مصنف نے بکھرے ہوئے حقائق، تفاصیل اور گواہوں کی شہادتوں کامکمل تجزیہ کیا ہے، جبکہ دوسرے دور کا تعین کرتے ہوئے اس نے خود کو پہلے سے بنائی گئی وضاحتوں تک محدود رکھا ہے۔ پہلے سے ہی اس بات کا اندازہ لگاتے ہوئے کہ حقائق، یا کم از کم اصولی حقائق سے قاری ضرورت کے مطابق آشنائی ضرور رکھتا ہے۔
کریملن(روسی حکومت) کے خدمت گارتنقیدنگا ر، اس مرتبہ بھی اعلان کریں گے، جیسا کہ انہوں نے’’ انقلابِ روس کی تاریخ ‘‘ کے متعلق بھی کیا تھا کہ کتب نامے کے حوالہ جات کی غیر موجودگی، مصنف کے دلائل کی تصدیق کو نا ممکن بنا دیتی ہے۔ در حقیقت، سینکڑوں اور ہزاروں روسی اخبارات، رسالوں، یاد داشتوں، بیاضوں اور ایسی کئی لکھتوں میں باہر کے تنقیدی قاری کو، کتب نامہ کے حوالہ جات کے متعلق مواد بہت کم ہی مہیا کرتے ہیں اور لکھت کو محض بوجھل کرتے ہیں۔ جہاں تک روسی تنقید نگاروں کا تعلق ہے تو ان کے لیے سوویت ریکارڈ اور لائبریریاں موجود ہیں۔ اگر میری تحریر وں میں کہیں بھی حقائق کی غلط بیانی، غلط حوالے دینا یا مواد کا کوئی بھی غلط استعمال موجود ہوتا تواس کی نشاندہی بہت کی جا چکی ہوتی۔ در حقیقت، میں ایسی کسی ایک بھی، ٹراٹسکائیٹ مخالفت میں لکھی گئی تحریر کے بارے میں نہیں جانتا کہ جس میں میری طرف سے حوالہ جاتی مواد کے غلط استعمال کی ایک بھی بات کی گئی ہو۔ میں یہ سوچنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ یہی ایک حقیقت ہی، بیرونی قاری کو تصدیق پر مطمئن کرنے کے لیے بطورِ ضمانت کافی رہے گی۔
اپنی کتاب’’انقلابِ روس کی تاریخ ‘‘تحریر کرتے ہوئے میں نے اپنی ذاتی یاد داشتوں کے استعمال سے گریز کیا ہے اور زیادہ تر میں نے پہلے سے اشاعت شدہ مواد کا استعمال کیا ہے اور اسی بنیاد پر تصدیق کے تحت، بشمول میرے اپنے پہلے سے شائع شدہ ثبوتوں کے، ماضی میں ان پر کوئی بھی تنازعہ نہیں ہوا۔ یہ سوانح عمری تحریر کرتے ہوئے میں نے اس انتہائی سخت طریقہ کار سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ یہاں بھی زیادہ تر الجھا ؤ، دستاویزات، یادداشتوں اور دیگر بیرونی ذرائع پر مبنی مواد کی وجہ سے ہے۔ لیکن اُن مقامات پر کہ جہاں کوئی بھی دوسری چیز خود مصنف کی ذاتی یادداشتوں کے ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتی، وہاں میں سمجھتا ہوں مجھے حق ہونا چاہیے کہ میں اپنی طرف سے ذاتی یادوں کے ایک یا کسی دوسرے حصے میں اضافہ کرسکوں، جن میں سے زیادہ تر ابھی تک شائع نہیں ہوئیں۔ ہر جگہ وہ اس بات کو واضح کر رہی ہیں کہ وہاں پر میں محض مصنف کے طور پر ہی نہیں بلکہ گواہ کے طوربھی سامنے آ رہا ہوں۔ اس کے علاوہ یہاں پر بھی میں نے وہی طریقہ کار استعمال کیا ہے جو ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں استعمال کیا ہے۔
میرے کئی مخالفین نے بھی اس بات کو قبول کیا ہے کہ دوسری کتاب میں حقائق کو ماہرانہ انداز سے ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ایک نیو یارک ٹائم کے تجزیہ نگار نے بھی، اس کتاب کے تعصب آمیز ہونے کے تاثر کو رد کیا ہے۔ لیکن اس کے مضمون کی ہر سطر میں یہ واضح جھلکتا ہے کہ وہ روسی انقلاب کا مخالف ہے اور وہ اپنی مخالفت کا رخ تاریخ دان کی طرف بھی موڑ رہا ہے۔ یہ مسئلہ ہر قسم کے لبرل موضوعیت پسندوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ مسلسل طبقاتی جدوجہد کی بڑھوتری کے خلاف صف آراء رہتے ہیں۔ تاریخی عمل کے نتائج سے تنگ ہوتے ہوئے، یہ اُس سائنسی تجزیے کے خلاف غصہ نکالتے ہیں جو ان نتائج کی ناگزیریت کو واضح کرتے ہیں۔ آخری تجزیے میں، مصنف کے طریقہ کار پر جو رائے دی گئی ہے وہ بہت حد تک موزوں ہے کیونکہ کلی طور پر یا جزوی طورپر اسے معروضی نتائج کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ اسی بنیاد پر مصنف کو تنقید کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کتاب کے کام کی تعمیر حقائق اور ٹھوس بنیادوں پر کی گئی ہے۔ کہیں کہیں جزوی یا چھوٹی موٹی خامیاں، غیر اہم غلطیوں پر اسراراور غلط تشریحات بھی موجود ہوں گی جن کی وجوہات موجود ہیں۔ لیکن کسی بھی شخص کو اس میں حقائق کی طرف بے اصولی، دستاویزی شہادتوں کے لیے شعوری بے اعتنائی یا نتائج کی طرف ذاتی تعصبات جیسے رویے نہیں ملیں گے۔ مصنف نے کسی ایک بات، دستاویز یا شہادت کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا کہ جس سے اس کتاب کے ہیرو کو فائدہ ہو۔ اگر ذمہ دارانہ، تفصیلی اور محتاط طریقے سے مرتب کئے گئے حقائق، حتیٰ کہ چھوٹے واقعات، گواہوں کی یادداشتوں کی تصدیق میں تاریخی اور واقعاتی طریقہِ تنقید کا استعمال، اور پھر آخر میں ہیرو کی ذاتی زندگی کے حقائق کواس کے تاریخی عمل میں ادا کئے گئے کردار سے جوڑنا، اگر یہ سب معروضیت نہیں ہے، تو میں پوچھتا ہوں کہ آخر پھر معروضیت ہوتی کیا ہے؟
ایک بار پھر، نئے وقت اپنے ساتھ نئی سیاسی اخلاقیات لے کر آئے ہیں۔ اور حیران کن طور پر ( تاریخ کے دھارے) نے کئی حوالوں سے ہمیں نشاط ثانیہ کے عہد میں واپس دھکیل دیا ہے، حتیٰ کہ اپنی سفاکیوں اور وحشتوں کی گہرائی اور وسعت کے سلسلے میں یہ عہداُس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ ایک بار پھر ہمارے سامنے سیاسی سودے بازیاں ہیں، ایک بار پھر طاقت کے حصول کی کشمکش نے دیو ہیکل کردار اپنا لیا ہے، جس کا ہدف اپنے وقت میں ایک شخص کی خاطر زیادہ سے زیادہ حکومتی طاقت کے تحفظ کا حصول ہے، طاقت جو بے رحمانہ حدوں تک پہنچ چکی ہے( وہ حدود جو ماضی میں متعین تھیں اور اس سے پہلے لازمی تصور کی جاتی تھیں)۔ ایک وقت تھا جب میکاولی کے انتہائی محنت کے بعد بنائے گئے سیاسی میکانیات کے قوانین کو مایوس کن حقارت کی انتہا سے دیکھا جاتا تھا۔ میکاولی کے نزدیک طاقت کے لیے کشمکش، شطرنج کی بازی کے جیسی ہے۔ اس کے نزدیک اخلاقیات کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں، جس طرح یہ شطرنج کے کھلاڑی اور کسی بنیے کے لیے بھی وجود نہیں رکھتی۔ اس کا ہدف، مخصوص حالات کے لیے سب سے زیادہ قابل عمل پالیسی کا تعین کرنا ہے اور یہ وضاحت کرنا ہے کہ کس طرح انتہائی بے رحمانہ انداز میں اور ان تجربات کی روشنی میں جو دو بر اعظموں کی سیاسی کسوٹیوں پر پورا اترے ہوں، اس پالیسی پر عمل کروانا ہے۔ اس سوچ کی وضاحت محض اس کے ہدف سے نہیں ہوتی بلکہ اس عہد کے عمومی کردار سے بھی ہوتی جس میں یہ ہدف متعین کیا گیا۔ یہ سوچ بنیادی طور جاگیرداری نظام کی ترقی کے مخصوص مرحلے اور دو مختلف ادوار( مرتی ہوئی جاگیر داری اور نومولود بورژوازی) کے آقاؤں کے مابین طاقت کی کشمکش سے ابھرتی ہے۔
لیکن تمام تر انیسویں صدی میں، جو کہ پارلیمانیت، لبرل ازم اور سماجی اصلاحات( اگرآپ چندبین الاقوامی جنگوں اورخانہ جنگیوں سے اپنی آنکھیں چرا لیں) کی صدی تھی، میکاولی کو انتہائی دقیانوسی اور پرانے خیالات کا تصور کیا جاتا تھا۔ سیاسی رحجان پارلیمانی حدود میں مقید ہو گیا تھا، اور اسی ذریعے سے ہی اس کے کچھ انتہادرجے کے مہم جوئی پر مبنی رحجانات بھی دبے ہوئے تھے۔ اس وقت معاملہ اپنے ہمنواؤں سمیت کسی ایک فرد کے براہ راست طاقت پر قبضہ کرنے کا نہیں تھا بلکہ الیکشن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اضلاع میں مینڈیٹ حاصل کرنے کا تھا۔ وزارتوں کے حصول کی خاطر خود کو قابلِ قبول بنانے کے عہد میں میکاولی ماضی بعید کا قدیم ترین نظریہ دان معلوم ہوتا تھا۔ نئے وقتوں کے آغاز نے ایک نئی اور بلندسیاسی اخلاقیات کو جنم دیا۔ لیکن یہ حیران کن چیز ہے کہ بیسویں صدی (جس نے ہم سے ایک نئے عہد کا وعدہ کیا تھااورجس کی خاطر انیسویں صدی میں بھرپور کاوشیں کی گئیں تھیں) ہمیں کئی حوالوں سے نشاط ثانیہ کے راستوں اور طریقوں کی جانب واپس لے آئی ہے!
ایک ایسے انسان کے لیے جسے کل تک بھی یہ اعتماد تھا کہ انسانی تاریخ اوپر کی جانب سیدھی لکیر میں آگے بڑھتے ہوئے مادی اور ثقافتی ترقی کو جنم دیتی ہے، ایسے انسان کو میکاولی ازم کی طرف انتہائی سفاک واپسی نا قابل فہم معلوم ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اس بنیاد پر اب ہم سب یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی کا کوئی بھی عہد اتنا سفاک، بے رحم، دقیانوس نہیں تھا جتنا کہ ہمارا عہد ہے۔ سیاسی اخلاقیات میں، نشاط ثانیہ کے معیار کے مقابلے میں کسی طور بہتری نہیں آئی اور حتیٰ کہ اس سے بھی زیادہ پچھڑے ہوئے عہد وں کے مقابلے میں بھی نہیں۔ نشاط ثانیہ ایک ایسا عہد تھا کہ جس میں دو دنیاؤں کے مابین لڑائیاں تھی۔ سماجی تضادات کی شدت اپنی انتہاؤں تک پہنچ چکی تھی اور اسی بنا پر سیاسی جدوجہد کی شدت بھی۔
انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں سیاسی اخلاقیات کی جگہ مادیت پرستی نے لے لی ( کم از کم کچھ مخصوص سیاست دانوں کے خیال میں )، صرف اسی وجہ سے کہ سماجی تضادات کچھ وقت کے لیے ماند پڑ گئے اور سیاسی جدوجہد غیر اہم ہو گئی تھی۔ اس کی بنیادیں، قوم کی عمومی ترقی میں بڑھوتری اور محنت کش طبقے کی اوپری پرتوں کی حالت بہتر ہونے کی وجہ میں پنہاں تھی۔ لیکن ہمارا وقت اور عہد، نشاط ثانیہ کے عہد سے اس لیے مماثلت رکھتا ہے کیونکہ ہم دو دنیاؤں، ایک بورژوا سرمایہ دارانہ دنیا جو شدید قرب میں مبتلا ہے اورایک نئی دنیا جس نے اس کی جگہ لینی ہے، کی انتہاؤں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ سماجی تضادات نے ایک بار پھر غیر معمولی شدت اختیار کر لی ہے۔
اخلاقیات کی طرح سیاسی طاقت کی ترقی بھی، کسی طور ایک سیدھی لکیر کی صورت میں آگے کی جانب سفر نہیں کرتی، جیسا کہ گزشتہ صدی کے اواخر اور موجودہ صدی کی ابتدائی دہائی میں سوچا جاتا رہا۔ سیاست اور اخلاقیات کو ایک انتہائی پرُ پیچ اور متضاد مدارج سے گزرنا پڑتا ہے۔ اخلاقیات کی طرح، سیاست بھی طبقاتی جدوجہد پر براہ راست نربھر کیا کرتی ہے۔ ایک عمومی اصول کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جتنی تیزی اور شدت طبقاتی جدوجہد میں ہوگی، اتنا گہرا سماجی بحران ہوگا، اور اتنی ہی شدت سیاست کے کردار میں بھی آئے گی، ریاستی طاقت بھی اتنی ہی مجتمع اور بے رحم ہوتی چلی جائے گی اور زیادہ کھل کر کہا جائے تویہ اخلاقیات کا لبادہ بھی اتار پھینکے گی۔
میرے کچھ دوستوں نے گلہ کیا ہے کہ اس کتاب میں حوالہ جات کے ذریعوں اور میری ان پر کی گئی تنقید نے بہت جگہ گھیر رکھی ہے۔ میں اس طرز کے بیانیہ انداز کی مشکلات سے اچھی طرح واقف ہوں۔ لیکن میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ کسی پریہ فرض نہیں کہ وہ مجھ سے بڑھ کر کسی فکر مند مصنف اور مجھ جیسا انسان کہ جو براہ راست اس شخص کے خلاف جدوجہد میں شریک ہے کہ جسے اس کی سوانح عمری لکھنی پڑ رہی ہو، اس کے دعوے پر یقین کرے۔ ہمارا عہد سب سے بڑھ کر جھوٹ کا عہد ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ انسانیت کے باقی ادواربڑی سچائیوں پر مبنی تھے۔ جھوٹ ان تضادات کا پھل ہے جو جدوجہد، طبقوں کے مابین تصادموں، شخصیت کو کچلنے اور سماجی بنتر کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ ان معنوں میں یہ تمام انسانی تاریخ کا وصف ہے۔ ایسے ادوار آتے ہیں جب سماجی تضادات غیر معمولی شدت اختیار کر جاتے ہیں، جب جھوٹ تناسب سے اوپر بڑھ جاتے ہیں اور جب جھوٹ انتہائی شدیدسماجی تضادات کی ایک صفت بن جاتا ہے۔ یہ ہے ہمارا عہد۔ میرا نہیں خیال کہ تمام انسانی تاریخ میں دور دور تک کہیں بھی ایسی مثال ملتی ہو کہ جہاں جھوٹ پیدا کرنے کی اتنی بڑی فیکٹری منظم کی گئی جیسی کہ سٹالن کی قیادت میں کریملن نے پیدا کی تھی۔ اوراس فیکٹری کے بنیادی مقا صد میں سے ایک سٹالن کے لیے نئی سوانح عمری گھڑنا بھی ہے۔ ان میں سے کچھ ذرائع خود سٹالن نے بنائے تھے۔ غلط بیانیوں کے بڑھتے ہوئے انباروں پر تنقید کیے بغیر، قاری کو ایک ایسا مظہر سمجھانا ناممکن ہو جائے گا، جیسا کہ ماسکو مقدمے(Moscow Trials)۔
سٹالن ایک بیس سالہ خاتون کو پیدا ہونے والا چوتھا بچہ تھا، جو اپنے پہلے تین بچے کھو چکی تھی اور جس نے اپنی باقی کی خوفناک زندگی، دھوبن، درزن اور صفائی کر نے والی کے طور پر گزاری۔ بد مزاج اور بے لگام طبیعت کا حامل اس کا باپ، جوتے بنانے والاایک کسان تھا۔ جو اپنی لگ بھگ ساری کمائی کی شراب پی کر اسے بے رحمی سے پیٹتا تھا، جس نے اس کے اند ر’ خدا اورانسان‘کے متعلق بے تحاشا نفرت اور اپنے ہی باپ کے لیے بے تحاشا کراہت کو جنم دیا۔ ریاستی چرچ میں پادری کی تربیت پانے والے، جوتے بنانے والے شرابی کے بیٹے نے خود کو دوسرے پادریوں، حکام اور چھوٹی اشرافیہ کے بیٹوں کے درمیان اچھوت محسوس کیا، اور ابتدائی زندگی میں ہی اپنے دانت پیستے ہوئے اور غصہ چھپاتے ہوئے، بدلہ لینے کے خواب دیکھے۔ سٹالن انقلاب کے ذریعے طاقت میں آیا لیکن اس نے اپنی طاقت کو، نہ صرف بغاوت کچلنے کے لیے بلکہ محض اختلاف رکھنے والے اُن ممالک کے خلاف بھی انتہائی بھیانک اور صفایا کرنے والے اقدامات کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو قائم رکھا، جو اس کے اقتدار سے مکمل وفاداری رکھتے تھے۔ کیسے ممکن ہوا کہ ٹفلس کی گلیوں کا یہ شرارتی، یہ کنٹو، ایک ایسی سلطنت جو زمین کے 1/6 حصے پر محیط ہو، اس کا آقا اور دو سو ملین روحوں کا حاکم بن گیا؟کیا تاریخ میں اس کی کوئی مثال بھی ملتی ہے؟
ہٹلر خصوصاََ اس بات پر زور دیتا ہے کہ صرف روشنی بکھیرتا لفظی بیانیہ ہی قائد کی پہچان ہوتا ہے۔ ماسوائے تقریر کے، کوئی بھی تحریر عوام پر اثر اندازنہیں ہوسکتی۔ تحریر کسی طور بھی قائد اور اس کے لاکھوں مداحوں کے درمیان مضبوط اور زندہ بندھن قائم نہیں کر سکتی۔ ہٹلر کا فیصلہ شک سے بالا تر ہے کیونکہ بڑی حد تک اِس کا تعین اُس کی نہ لکھ سکنے کی حقیقت نے کیا تھا۔ مارکس اور اینگلز نے ساری زندگی میں فنِ تقریر کے بغیر بھی اپنے لاکھوں مداح حاصل کئے۔ یہ سچ ہے کہ اثر و رسوخ بنائے رکھنے کے لیے انہیں کئی سال لگ گئے۔ آخری تجزیے میں لکھاری کے فن کا مرتبہ زیادہ بلند ہے، کیونکہ اس سے گہرائی اور ہیت کی بلندی کے مابین تعلق ممکن ہوجاتا ہے۔ سیاسی قائدین جو محض مقررہونے کے سوا کچھ نہیں ہوتے، مصنوعی ہوتے ہیں۔ ایک مقرر لکھاری پیدا نہیں کر سکتا۔ اس کے بر عکس ایک لکھاری ہزاروں مقررین کو متاثر کر سکتا ہے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ عوام کے ساتھ براہ راست رابطے کے لیے تقریر نا گزیر ہے۔ لینن عوام کے ساتھ براہ راست مخاطب ہونے سے بہت قبل ہی ایک طاقتور اور اثر انگیز پا رٹی کا سربراہ بن چکا تھا۔ 1905 ء میں اس کے عوامی اظہار بہت کم تھے اور جن پر کسی کا دھیان بھی نہیں گیا تھا۔ 1917 ء سے پہلے تک کے عرصے میں لینن عوامی مقرر کے طور پر سامنے نہیں آیا تھا، وہ بھی اپریل، مئی اور جولائی کے انتہائی مختصر وقت کے لیے۔ لینن، ایک مقرر کی حیثیت سے طاقت میں نہیں آیا تھا، بلکہ وہ سب سے پہلے ایک لکھاری، پھر پراپیگنڈہ اور تقریر کرنے والوں کے استاد کے طور پرسامنے آیا تھا، جو اپنے کیڈرز کی تربیت کرتا ہے۔
اس حوالے سے سٹالن ایک انتہائی غیر معمولی مظہر کا اظہار کرتا ہے۔ نہ وہ مفکر یا لکھاری ہے اور نہ ہی مقرر۔ اس سے پہلے کہ عوام، ریڈ سکوائر کے گرد ہونے والے فاتح جلوسوں میں اس کی شخصیت کو دوسروں سے الگ کرنا سیکھ پاتے، اس نے طاقت حاصل کر لی۔ سٹالن نے طاقت ذاتی خوبیوں کی مدد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ غیر ذاتی مشینری کی بنیاد پر حاصل کی تھی۔ اور اس نے مشینری کو تخلیق نہیں کیا تھا بلکہ مشینری نے اسے تخلیق کیا تھا۔ یہ مشینری اپنی طاقت اور اتھارٹی کے ساتھ، بالشویک پارٹی جو نظریات سے پیدا ہوئی، کی طویل اور بہادرانہ جدوجہد کی پیداوار تھی۔ اپنے آپ میں ختم ہونے سے پہلے یہ مشین نظریے کی ترویج کیا کرتی تھی۔ سٹالن نے اس لمحے کے بعد سے مشینری کی قیادت سنبھالی، جب اس نے نظریے جوڑے رکھنے والی بنیادی ناف کو کاٹ ڈالا اور جب وہ اپنے علاوہ ہی کچھ بن چکی تھی۔ لینن نے عوام سے مسلسل رابطے، جو زبانی لفاظی سے نہ سہی تو شائع کردہ لفظوں اور خود براہ راست نہ سہی، تو اپنے شاگردوں کے ذریعے سے مشینری تخلیق کی تھی۔ سٹالن نے مشینری تخلیق نہیں کی تھی بلکہ اس پر قبضہ کیا تھا۔ اس کے لیے خاص قسم کی اور غیر معمولی خوبیاں ہونا ضروری تھا۔ لیکن یہ خوبیاں ایک تاریخی آغاز کرنے والے، مفکر، لکھاری یامقرر کی نہیں تھیں۔ مشینری، نظریات سے بنی تھی۔ سٹالن کی پہلی خوبی نظریات کی طرف حقارت آمیز رویہ تھا۔ نظریات کو۔ ۔ ۔ ۔
(20 اگست 1940ء کے دن، ایک سٹالنسٹ ایجنٹ نے ٹراٹسکی کے سر میں کلہاڑی سے جان لیوا حملہ کیا۔ اگلے دن اس کی موت ہو گئی۔ اسی وجہ سے یہ اور کتاب کے دیگر حصے نامکمل رہ گئے)

مزید پڑھئے:

ٹراٹسکی کی تصنیف، سٹالن ؛ ایک عظیم مارکسی شاہکار!

لیون ٹراٹسکی کا 76 واں یومِ شہادت: محبت فاتحِ عالم

Comments are closed.