اٹلی: گلے سڑے نظام کا لامتناہی بحران

|تحریر: سنیسٹرا کلاس ریولوزیونی، ترجمہ: ولید خان|

اطالوی صدر ماتاریلا اور کوتاریلی

اطالوی سیاسی بحران نئے پیچ و خم کے ساتھ اورزیادہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ صدر ماتاریلا کے پاولو ساوونا کو بطور وزیر معاشیات تعینات کرنے کے خلاف ویٹو کے بعد وزیر اعظم کونتی نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ صدر نے اب حکومت بنانے کی ذمہ داری کارلو کوتاریلی (سابق IMF افسر) کو سونپ دی ہے۔ 

to read this article in English, click here

یہ کہنا درست ہو گا کہ یہ نئی صورتحال بالکل غیر متوقع ہے اور اس کی صرف پارلیمانی سیاسی گٹھ جوڑ کے آئینے میں تشریح نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سالوینی (سابق شمالی لیگ اور موجودہ انتہائی دائیں بازو کی لیگ کا قائد ) کے لئے پانچ ستارہ تحریک (5 Star Movement/M5S) کے ساتھ اتحاد تکلیف دہ تھا اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ نئے انتخابات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک ماتاریلا (اطالوی جمہوریہ کا صدر) کا تعلق ہے تو وہ اس خیال سے ہی خوفزدہ تھا کہ لیگ۔M5S مخلوط حکومت اگلا ریاستی بجٹ بنائے گی۔ اس نے پاولو ساوونا کی بطور وزیر تعیناتی کو ویٹو کر کے کامیابی کے ساتھ ’’غیر جانبدار حکومت‘‘ کے خیال کو زندہ کر دیا ہے جس کی اس نے کئی ہفتوں پہلے تجویز پیش کی تھی اور اپنی اس کوشش میں ناکام رہا تھا۔

لیکن اس حکمت عملی کی تمام تر بنیاد انتہائی کمزور ہے۔نام نہاد ’’مضبوط قوتیں‘‘ (اطالوی سرمایہ داری کا سنجیدہ دھڑا) بھی ماتاریلا کی اس چال کے ممکنہ اثرات سے پریشان ہیں۔ کونفین دوستریا (مالکان کی کنفیڈریشن)پہلے سے ہی پیلی۔ہری(لیگ۔M5S)حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہو چکی تھی، ایک ایسا تعلق جو پر امن تو نہ ہوتا لیکن جس سے متعلق عملیت پسند اطالوی سرمایہ داروں کا یہ خیال تھا اسے قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ فرانسیسی صدر میکرون۔۔لبرل اور کٹر یورپ نوازوں کا ایک اہم ستون۔۔نے کونتی کو ایک غیر رسمی فون کال میں یورپ میں تعاون کی پیشکش بھی کر دی تھی۔

’’منڈیاں‘‘ تعین کرتی ہیں

ممکنہ لیگ۔M5Sحکومت کے خیال سے ہی روایتی سیاسی بائیں بازو کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ بہر حال، ان کی حالت جو بھی ہوئی ہو، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لاکھوں، کروڑوں عوام۔۔چاہے ان کی امیدیں کتنی ہی کم یا زیادہ رہی ہوں۔۔یہ دیکھنے کے لئے بے تاب تھے کہ ’’سب بدل دو‘‘ کیا واقعی پنشن، صحت، معاشی عدم تحفظ اور غربت، اور دس سال کی خوفناک سماجی کٹوتیوں کی پالیسیوں کے حوالے سے کوئی حقیقی اقدامات کر پائے گی یا نہیں؟

تبدیلی کی خواہش کو رجعتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، خاص طور پر لیگ کی جانب سے، مگر عوام کی ریاستی اشرافیہ سے نفرت اور غم و غصے میں کمی نہیں آئی

کیا یہ امیدیں غلط تھیں؟ یقیناً۔ کیا ان امیدیں کو رجعتی مقاصد کے لئے ، خاص طور پر لیگ نے استعمال کرنے کوشش کی اور اب بھی کر رہی ہے؟ کوئی شک نہیں۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے اس امید کے ساتھ 4 مارچ کو ووٹ ڈالا کہ ان کی سماجی حالت تبدیل ہو گی، اس یقین کے ساتھ کہ ڈیموکریٹک پارٹی (PD)، فورزا اطالیا اور تمام قوتیں، جو ان کا گھیراؤ کئے بیٹھی ہیں، تبدیلی کی یلغار میں تنکوں کی مانند اڑ جائیں گے۔

یہ وہ امیدیں ہیں جن کی وجہ سے حکمران طبقہ بے حد خوف زدہ ہے۔ یقیناً ان کو یہ خوف نہیں کہ پاولو ساوونا ویورو کرنسی برباد کر دے گا۔ وہ لاکھوں کروڑوں عوام کی ’’غیر معقول امیدوں‘‘ سے خوفزدہ ہیں، جن کی زندگیاں ایک دہائی کے بحران نے برباد کر کے رکھ دی ہیں اور انہیں بہتری کی کوئی امید نہیں۔ مالکان کی نظر میں ’’عوام‘‘ پر بس اس وقت تک اعتماد ہونا چاہیے جب تک وہ اپنے حالات زندگی پر کسی احتجاج کے بغیر راضی رہیں، ’’درست‘‘ پارٹیوں کو ووٹ ڈالیں اور ان قوانین کی عزت کریں جو ان کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ اگر ’’عوام‘‘ یہ کرنا چھوڑ دے تو فوراً ان پر تہمت لگا کر ان کو جاہل ہجوم بنا کر پیش کیا جائے جن کو اشتعال انگیز اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

27 مئی کو ماتاریلا کا پیغام، جس میں ساوونا کی وزارت کے ویٹو کا پھر تذکرہ کیا گیا، دوغلے پن اور تکبر سے بھرپور تھا، لیکن اپنے بنیادی نکتے میں بالکل واضح۔ منڈیاں، یعنی مالیاتی سرمایہ، فیصلے کرتا ہے۔ ریاستی بانڈ فیصلہ کرتے ہیں۔ یورپی یونین فیصلہ کرتی ہے۔ میں فیصلہ کرتا ہوں اور تم نے ہر صورت تکمیل کرنی ہے۔

بائیں بازو کی بھاری اکثریت فوراً ماتاریلا کے قدموں میں گر گئی جس نے ’’درست‘‘ طور پر اپنے آئینی حقوق کا استعمال کیا ہے۔

یقیناً یہ سچ ہے! صدر نے آئین اور قانون کے عین مطابق اقدامات کئے! اور اب ہم مختلف ’’اپنی مرضی کے آئین سازوں‘‘ کی جانب سے نئے اسباق کا انتظار کر رہے ہیں جو 2016ء کے ریفرینڈم میں رینزی کی شکست کے بعد سے گلے پھاڑ پھاڑ کر ’’دنیا کے بہترین‘‘ اطالوی آئین کا پرچار کر رہے ہیں۔ ان کی نظر میں مسئلہ صرف اس کو ’’لاگو کرنے‘‘ کا ہے۔یہ آئینی فاترالعقل، بائیں بازو میں پچھلے کئی سالوں سے اس طرح کی بیوقوفیاں پھیلا رہے ہیں۔ ان سب کو ایک کمرے میں بند کر کے زبردستی ماتاریلا کا پیغام سنایا جانا چاہیے اور ہر روز سو مرتبہ پچھلی صدی کے سب سے بڑے انقلابی کے یہ آسان لیکن انتہائی اہم الفاظ لکھوانے چاہئیں:

’’سرمائے کی طاقت سب کچھ ہے، اسٹاک ایکسچینج سب کچھ ہے، جبکہ پارلیمنٹ اور انتخابات محض کٹھ پتلیاں ہیں‘‘۔(لینن، ریاست)

اس کا اطلاق صرف ’’ماتاریلا کے بائیں‘‘ بازو پر ہی نہیں ہوتا: برسانی، کاموسو، سپیرانزا، فاسینا، فراتویانی اور دیگر (کاموسو CGIL ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کا قائد ہے اور باقی LEU ]لیبری ای اوگوالی ، آزاد اور برابر[ اتحادکے قائدین ہیں)۔ اس کا اطلاق نام نہاد انتہائی بائیں بازو کی پورتیرے ایل پوپولو (تمام طاقت عوام کے لئے)، PRC (کمیونسٹ ری فاؤنڈیشن پارٹی) اور ان تمام پر بھی ہوتا ہے جو ماتاریلا پر ’’جمہوریت اور آئین‘‘ کے نام پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ FIOM (میٹل ورکرز یونین) کے قومی قائدین کے لئے بھی درست ہے جن میں ماتاریلا کی کھلی حمایت کرنے کی ہمت موجود نہیں لیکن وہ ’’ملک کے جمہوری استحکام کے لئے طاقتوں میں تواز ن اور علیحدگی بنیادی شرط ہے‘‘ کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔

یورو پر تصادم

ماتاریلا کی مداخلت نے فوری طور پر یورو کرنسی اور یورپی یونین کے سوال کو سیاسی میدان جنگ کی زینت بنا دیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

اس وقت یورپی یونین شدید بحران کا شکار ہے۔ بینکاری اور ریاستی قرضوں کا بحران صرف دراغی کی پالیسیوں کی وجہ سے سرد خانے میں پڑا ہوا تھا جس نے یورپی مرکزی بینک کو استعمال کرتے ہوئے منڈی کو سود سے پاک پیسوں، قومی اور نجی سیکوریٹیز کی بے پناہ خریداری وغیرہ سے بھر دیا تھا۔ لیکن یہ پالیسیاں تا قیامت نہیں چلائی جا سکتیں، خاص طور پر اس وقت جب امریکہ میں اس کے الٹ پالیسی ابھر رہی ہے۔ دراغی کا اپنا وقت پورا ہو رہا ہے اور وسیع تر حلقوں کا یہ خیال ہے کہ جرمنی ایک ایسے شخص کو اس کی جگہ لے کر آئے گا جو اس طرح کی توسیعی پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہو گا۔

یوروزون کا بحران اب معاشی سے سیاسی ہو چکا ہے۔ یورو نواز پارٹیوں کو اپنی عوامی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے سر توڑ کوشش کرنی پڑ رہی ہے، مختلف ممالک کے مفادات اور بھی واضح انداز میں ایک دوسرے سے متصادم ہوتے جا رہے ہیں، ناقابل حل مسائل کا انبار بڑھتا چلا جا رہا ہے، بینکاری سے لے کر خارجہ پالیسی، تارکین وطن کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ۔

حکمران طبقے اور اس کے نمائندوں کے قابل ذکر حصے نے لوئی جی دی مایو یا پاولو ساوونا کے خو ف سے اقدامات کرنے کا فیصلہ نہیں کیا (ہمیں اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے!) بلکہ یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک لیگ۔M5S حکومت کی وجہ سے موجودہ نازک توازن۔۔خاص طور پر دیو ہیکل عوامی قرضہ اور ہر وقت موجود بینکاری بحران۔۔ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ اگر یہی وجہ ہے تو پھر ہمیں اطالوی اور یورپی بورژوا سیاسی نظام کے بحران میں حقیقی معیاری جست کا سامنا ہے۔ماتاریلا کی جارحیت ان نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی واضح ہو تی ہے۔

کارلو کوتاریلی بڑے سرمائے اور مانیٹری فنڈ کا انتہائی قابل اعتماد آدمی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اطالوی سیاسی تاریخ کی سب سے زیادہ عدم استحکام کی شکار حکومت بنانے جا رہاہے

کارلو کوتاریلی بڑے سرمائے اور مانیٹری فنڈ کا انتہائی قابل اعتماد آدمی ہے۔ لیکن یہ اس کی بدقسمتی ہے کہ وہ اطالوی سیاست کی شاید سب سے زیادہ عدم استحکام کی شکار حکومت کی سربراہی کرنے جا رہاہے۔ یہاں تک کہ اس کی اپنی جمہوری پارٹی (PD) کے قائدین سخت پریشان ہیں کہ انتخابات میں ان کی پہچان یہ ہو گی کہ انہوں نے ایک ایسی حکومت کی حمایت کی جس کے وزیر اعظم کے ماتھے پر’’ماریو مونتی کا سابق شراکت دار۔۔سماجی کٹوتیوں کا ماہر‘‘لکھا ہوا ہے۔

بے شک ان کی پوی کوشش ہو گی کہ نئے انتخابات سے ہر ممکن پرہیز کیا جائے اور ایسا لگتا ہے کہ اس میں دی مایو کی رضا مندی بھی شامل ہے۔M5S کا قائد ’’پارلیمانی کمیٹیوں کو شروع‘‘ کرنے اور ماتاریلا کے خلاف مواخذے کی کاروائی شروع کرنے کا حامی ہے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ تحلیل ہونے سے بچ سکتی ہے (جمہوریہ کے صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کرتی ہے)۔ دی مایو کو انتخابات کی کوئی جلدی نہیں اور جس طرح کا تھپڑ M5S کے منہ پر پڑا ہے، اس کے بعد تو ویسے ہی اس میں تنازع کو مزید گھمبیر کرنے کی کوئی خواہش موجود نہیں جیسا کہ اس کے محتاط الفاظ سے ثابت ہوتا ہے: ’’ہم مرکزی اطالوی شہروں میں تقریبات منعقد کریں گے، واک، علامتی تحرک، وہ تمام اقدامات جن کے ذریعے ہم پر امن انداز میں اپنا مستقبل تعین کرنے کا دعویٰ کر سکیں۔ جمہوری دن، 2 جون کو میں سب لوگوں کو روم آنے کی دعوت دیتا ہوں‘‘۔ 

واک اور علامتی تحرک۔۔حکومت نہ بننے دینے کے صرف ایک دن بعد یہ اس پارٹی کے قائد تجاویز ہیں جس کے پاس ملک میں سب سے زیادہ ووٹ ہیں! اسی پیغام میں دی مایو نے احتیاط کے ساتھ یہ بات بھی دہرائی کہ وہ کبھی بھی اٹلی کو یورو کرنسی سے علیحدہ نہیں کرے گا اور ہر گز ساوونا کی یہ تجویز نہیں تھی۔

یہ ساری صورتحال واضح کرتی ہے کہ حقیقی تبدیلی کی امیدوں کے سامنے خود دی مایو بھی ڈر کے مارے کانپ رہا ہے۔ ووٹ حاصل کرنا ایک بات ہے، نظام کے آقاؤں کے خلاف عوام کو حقیقی جدجہد کے لئے منظم کرنا بالکل مختلف بات ہے۔

محنت کش بائیں بازو کے حقیقی فرائض

ان 84 دنوں میں ہم نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور موجودہ سیاسی بحران میں یہ اندازہ لگانا بیکار ہو گا کہ آگے چل کر کیا نئے پیچ وخم آ سکتے ہیں۔ اس کے بجائے ہماری بنیادی حقائق اور اس سے بھی زیادہ اہم، اپنے فرائض پر توجہ ہونی چاہیے۔

یہ بات طے ہے کہ یورپی یونین اور یورو کرنسی کے ریفرنڈم میں ماتاریلا کی مداخلت سے آئندہ منعقد ہونے والے انتخابات بنیادی طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ کونفین دوستریا کے صدر بوکیا نے کونتی کے استعفے کے ایک دن بعد اعلان کیا کہ یورو کرنسی سے انخلا ’’ناقابل فہم‘‘ ہے اور اس کی وجہ سے ’’اطالوی معیشت ختم ہو جائے گی‘‘۔ وہ عوام کو ہر طرح کی سماجی اور معاشی تباہی کی منظر کشی کر کے بلیک میل اور ڈرانے کی کوشش کریں گے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ (PD کا قائد) رینزی یورپ نواز فرنٹ کے ایک قائد کے طور پر اکھاڑے میں واپس آنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

لاکھوں عوام، جنہوں نے ان پارٹیوں کے تبدیلی کے (جھوٹے) وعدے پر ووٹ ڈالا، جلد ان کے غم و غصے کا اظہار ایک عوامی تحریک کی صورت میں ہوگا

اطالوی بائیں بازو نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ اس چیلنج کو قبول کرنا ان کے بس میں نہیں۔ CGIL اور FIOM کے قومی قائدین کی جانب سے ماتاریلا کی حمایت میں لی جانے والی پوزیشن یہ ثابت کرتی ہے کہ ٹریڈ یونین قائدین، ٹریڈ یونین کے عام کارکنان اور محنت کشوں کے تباہ کن حالات سے مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔ انہیں ابھی تک سمجھ ہی نہیں آئی کہ 4 مارچ کے انتخابات حقیقت میں کیا تھے اور وہ صرف اپنے اداروں اور کونفین دوستریا میں موجود اپنے ہم منصبوں سے چمٹ ہی سکتے ہیں۔ اس طرف سے تو کوئی قابل عمل حکمت عملی آ نہیں سکتی، نہ ہی ٹریڈ یونین اشرافیہ سے منسلک پارٹیوں (جیسے LEU اتحاد میں موجود) سے ایسی کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔

ایک ایسی لڑائی میں، جو 4 مارچ سے بھی زیادہ شدت اختیار کرے گی، ایک طبقاتی پوزیشن کے لئے جگہ جیتنا کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن اس رکاوٹ کو عبور کرنے کے لئے کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ محنت کش بائیں بازو کو اس لڑائی میں ہر صورت ایک واضح اور غیر متزلزل پوزیشن کے ساتھ اترنا پڑے گا: کوئی بھی ایسا پروگرام ، جس کا مقصد سنجیدگی سے محنت کش طبقے ، ریٹائرڈ، بے روزگاروں اور نوجوانوں کے مفادات کا تحفظ ہے،اس کا بنیادی اور ناگزیر حصہ یورو کرنسی اور یورپی یونین سے انخلا ہے۔ 

یہ پوزیشن براہ راست بائیں بازو کی تمام قوتوں پر سوالیہ نشان اٹھاتی ہے (PRC، پوتیرے ایل پوپولو، دی ماجیستریس[نیپلز کا میئر]وغیرہ )، جو ہمیشہ چرب زبانی اور سمجھوتے کے فارمولوں کا سہارا لیتے ہیں، جیسے کہ ’’یورپی معاہدوں میں اصلاحات‘‘ یا ان معاہدوں کو ’’توڑنا‘‘ (یعنی کہ سرمایہ دار انہ یورپی یونین کے ساتھ ان معاہدوں پر از سر نو مذاکرات)، یہاں تک کہ قومی پوزیشن کا دفاع (یورپی یونین سے انخلا اور یورو کرنسی سے پہلے کی کرنسی، لیرا کا قومی سرمایہ دارنہ بنیادوں پر اجرا)۔

اس نکتے پر موجودہ بائیں بازو کے تمام اصلاح پسندوں سے(جو موجودہ صورتحال کی تخلیق میں برابر کے شریک ہیں) سیاسی اور نظریاتی ناطہ توڑنے کے لئے وضاحت انتہائی ضروری ہے۔

سیاسی بحران ایک نہ ختم ہونے والے خوفناک بھنور میں داخل ہو رہا ہے جو یہ آشکار کرتا ہے کہ پورا نظام اپنی جڑوں تک گلا سڑا ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے ادارے اپنی افادیت کھوتے جا رہے ہیں اور حکمران طبقہ سیاسی کنٹرول کو برقرار رکھنے کی کشمکش میں ڈوبتا جا رہا ہے۔

لاکھوں، کروڑوں لوگوں نے ان پارٹیوں کو ووٹ دے کر حل نکالنے کی کوشش کی جن کا وعدہ ’’تبدیلی‘‘ تھا۔ لیکن عوام کو اب سمجھ آ رہی ہے کہ یہ راہ ایک بند گلی ہے۔ کئی سالوں سے عوام کے سب سے زیادہ استحصال زدہ حصوں میں تبدیلی کی دیو ہیکل خواہش اور شدید غم و غصہ، ایک ایسے نظام میں اور بھی زیادہ بھڑک رہے ہیں جو باہر نکلنے کا کوئی راستہ دینے کو تیار نہیں۔ ناگزیر طور پر یہ خواہشات، یہ غم و غصہ جلد یا بدیر براہ راست عوامی تحرک میں پھٹے گا۔

صرف اسی تناظر کے ذریعے ایک نئی محنت کش بائیں بازو کی پارٹی کے جنم کے لئے کام کیا جا سکتا ہے، محنت کشوں اور تمام استحصال زدہ کی پارٹی، جو اس گلے سڑے سیاسی و معاشی نظام کے بحران سے انہیں نجات دلاسکے۔

Comments are closed.