کراچی: ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

رپورٹ: |امجد بلوچ|
مورخہ 29مئی بروز اتوار ملیر آفس میں پروگریسیو یوتھ الائنس(PYA) کے زیر اہتمام ایک روزہ مارکسی سکول منعقد ہواجو دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا عنوان ’’ریاست کا مارکسی نظریہ‘‘ جبکہ دوسرے سیشن کا موضوع ’’جمہوری مرکزیت‘‘ تھا۔

Regional Marxist School, Karachi May 2016 (09)پہلے سیشن کو احمد تشنہ نے چیئر کیا جبکہ لیڈ آف تصور قیصرانی نے دی۔ تصور نے لیڈ آف میں ریاست کے بورژوا اور نصابی تصور کو مسترد کرتے ہوئے تاریخی مادیت کے سائنسی اصولوں کی روشنی میں ریاست کی تعریف و تشریح کی اور تاریخ میں مختلف معاشی نظاموں کے اندر ریاست کی شکلوں کی مخصوصیت کو زیرِ بحث لائے۔ مزید برآں انہوں نے واضح کیا کہ ریاست کے غیر جانبدار ہونے کا جو تاثر دیا جاتا ہے وہ سراسر غلط اور بے معنی ہے۔ ریاست ہمیشہ ایک طبقے کے ہاتھ میں دوسرے طبقے پر جبر کرنے کا آلہ ہوتی ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں یہ طبقہ سرمایہ دار ہوتا ہے ۔ انہوں نے سوشلسٹ ریاست کے بھی عمومی خدوخال پر مختصر روشنی ڈالی۔ سوالات کے بعد میزان، علی اوسط اور پارس جان نےِ بحث کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے ریاست کے ازلی ہونے کے تصور کو رد کیا اور ابتدائی اشتراکیت میں غیر ریاستی سماج کو انسانی تاریخ کے ایک طویل ترین دورانیے سے معمور کیا۔انہوں نے کہا کہ ریاست کا ایک وقت میں نمودار ہونا اس بات کی غمازی تھی کہ سماج ناقابلِ حل تضادات کا شکار ہو چکا ہے مگر ساتھ ہی یہ ایک ترقی کی طرف مائل سماجی ارتقا کا ناگزیر تقاضا بھی تھا۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ سرمایہ دارانہ ریاست محض مسلح جتھوں کے ذریعے ہی محنت کشوں پر حکومت نہیں کرتی بلکہ اسے مسلسل ترقی کرتے ہوئے اجتماعی شعور کو بھی یرغمال بنانا پڑتا ہے۔کیونکہ سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار میں تیار ہونے والی جنس، پیدا کرنے والے سے اپنے پیداواری عمل میں ہی لاتعلق ہو جاتی ہے اسلیئے یہ استحصال کی واضح تصویر بن جاتی ہے۔ اور اس ننگے استحصال کو فطری ثابت کرنے کے لیئے صرف قانونی یا آئنی حربے ناکافی ہوتے ہیں اسلیئے مذہب اور اخلاقیات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اس کے بعد تصور نے سم اپ کرتے ہوئے آج کے عہد میں عالمی سرمایہ داری کے زوال کی وجہ سے قومی ریاستوں کے بحران کو بے نقاب کیا اور ایک سوشلسٹ ریاست کے لیئے جدوجہد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
Regional Marxist School, Karachi May 2016 (04)کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کو صمد خان نے چیئر کیا جبکہ لیڈ آف فارس راج نے دی۔ فارس نے لیڈ آف میں کہا کہ بالشویک پارٹی نہ صرف اپنے نظریات بلکہ جمہوری مرکزیت کے طریقہ کار کی وجہ سے ہی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ریاضیاتی اصولوں کے تحت جمہوری مرکزیت کو نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ اصول جدلیاتی طریقے کی پیداوار ہے۔ اس پر عملدرآمد کے لیئے ضروری ہے کہ انقلابی تنظیم غیر معمولی سیاسی معیار کی حامل ہو۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور مرکزیت کے مابین شرحِ توازن کا فیصلہ تنظیم کی قوتوں اور معروضی صورتحال کو مدِ نظر رکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ سوالات کے بعد تصور اور صمد نے بحث میں حصہ لیا جبکہ پارس جان نے سولات کی روشنی میں سکول کا سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم میں ہونے والی حالیہ پھوٹ نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اس موضوع کو اس کے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ زیرِ بحث لائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طریقہ کار کا فقدان ہی تو تھا جس کی وجہ سے حقیقی انقلابی کیڈر کی جگہ شخصیت پرست، اندھی تقلید کرنے والے لوگ تیار کیئے جا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور مرکزیت جب ایک دوسرے کے ساتھ ایک جدلیاتی تعلق میں جڑتے ہیں تو دونوں کا کردار یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔’بات کرنے کی آزادی اور عمل میں یکسانیت‘ یہ تنظیم کے کام کا معیاری پیمانہ ہے۔ جب سب کو اپنی باتوں اور خیالوں کو زیرِ بحث لانے کا موقع دیا جاتا ہے تو اس کے بعد ووٹنگ کے ذریعے ہونے والے فیصلے پر سب کو عمل کرنا چاہئے ورنہ تنظیم ایک ڈسکشن کلب میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک مختلف تناظر اور طریقہ کار رکھنے والے شخص یا رجحان کو بھی متعلقہ اداروں میں بات کرنے کا حق ہی بالشو ازم کا حقیقی حسن ہے۔ سیاسی مسائل کی وجہ سے تنظیم سے کسی کو بھی نکالنا خالصتاً آمرانہ روش ہے جسکی انقلابی تنظیموں میں کوئی گنجائش نہیں۔اس کے بعد انٹرنیشنل گا کر سکول کا اختتام کیا گیا۔



Comments are closed.