کشمیر: ایک نہ تھمنے والی تحریک

|تحریر: گلباز خان|

نوآبادیاتی انقلابات کے نتیجے میں دنیا کی بیشتر محکوم اقوام نے براہ راست غلامی سے نجات حاصل کی اور صدیوں سے گلے میں پڑے غلامی کے طوق کو اتار پھینکا۔ حصول آزادی کی جدوجہد کا یہ سفر لا زوال قربانیوں اور بے شمار اسباق پر مشتمل ہے۔ مگر جموں و کشمیر ایک ایسی ریاست ہے جو تقسیم ہند کے بعد منقسم ہو کر علاقائی، سامراجی ریاستوں (پاکستان، ہندوستان) کے سامراجی قبضے کا شکار ہو گئی۔ 1946ء میں برطانوی سامراج اور اس کے مسلط کردہ استحصالی نظام کے خلاف پورا ہندوستان بغاوت پر اتر آیا تھا۔ استعماری قوموں کو شکست کا یقین ہو گیا تھا۔ برطانوی سامراج اور اس کے مقامی وفاداروں نے اپنے طبقاتی مفادات اور پورے نظام کی بقا کے لیے متعصبانہ دو قومی نظریہ کا استعمال کیا۔ جس کے تحت آزادی کا فریب برصغیر کے عوام کے سروں پر ڈال دیا گیا۔ سازگار معروضی حالات اور خاطرخواہ موضوعی قوتوں کے ہونے کے باوجود بھی کمیونسٹ پارٹی نے ردِ انقلابی کردار ادا کیا اور خطے کے کروڑوں انسان تاریکی میں دھکیل دئیے گئے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اسلام کے نام پر ایک حصے ( نام نہاد آزاد کشمیر) پر قبضہ جما لیا جبکہ بھارت نے سری نگر میں بیٹھے کٹھ پتلی حکمرانوں کے ساتھ ساز باز کر کے کشمیریوں کی منشا کے خلاف قابض ہوتے ہوئے بڑے حصے کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا۔

تاریخی فرائض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ابھرنے والے رد عمل کو دبانے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال، قومی جبر اور خارجہ محاذ آرائی حکمران طبقات کا وطیرہ رہا ہے۔ پاک بھارت دشمنی اور کشمیر کے نام پر تین جنگیں دونوں ریاستوں کے حکمران اپنے نظام کو طوالت بخشنے اور عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن سماجی حرکت کے اپنے قوانین ہیں۔ ’’ویکاس‘‘ اور معاشی ترقی کے تمام نام نہاد پیکیجز اور اعلانات یا ریاستی جبر کے ذریعے تحریکوں اور جدوجہد آزادی کو دبایا نہیں جا سکا۔ تضادات مجتمع ہوتے رہتے ہیں اور یک دم دھماکے کی شکل میں اپنے اظہار رکرتے ہیں۔ پچھلے سال جولائی میں بھارتی مقبوضہ وادی میں ابھرنے والے لہر تیسری بڑی تحریک کی شکل اختیا رکر گئی ہے۔ 80ء کی دہائی میں ابھرنے والی مسلح جدوجہد بھی انہی بنیادیوں پر شروع ہوئی تھی مگر غلط طریقہ کار اور بے پناہ قربانیوں کے باوجود منطقی منزل تک نہیں پہنچ پائی۔ لائن آف کنٹرول کی دوسری طرف سے آئی ایس آئی کی جانب سے ملنے والی مجرمانہ اسلامی کمک نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ اگر چہ نام نہاد آزادکشمیر (پاکستانی مقبوضہ کشمیر) میں بھی اس عہد میں ایک تحریک موجود تھی جو متحدہ سیکولر خودمختار کشمیر کی بات کرتی تھی مگر اس کی ڈوریں پاکستانی جرنیلوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کو مسلح جدوجہد کے لیے بھیج کر اور لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کر کے جذبہ حریت کی منافع بخش تسکین کی جاتی رہی۔ سری نگر کی طرف مارچ کرنے کے واضح مطلب تھا کہ ہندوستان کا کشمیر پر قبضہ سامراجی اور ظالمانہ سمجھا جاتا تھا اور شاہد پاکستانی تسلط نسبتاً جائز ورنہ مظفر آباد کی طرف مارچ زیادہ اہم اور ضروری تھا۔ کچھ سٹالنسٹ بائیں بازو کی تنظیمیں بھی اس وقت سرگرم تھیں جو مسلح جدوجہدو کے طریقہ کار کو تو مسترد کر تی تھیں۔ مگر کسی واضح انقلابی پروگرام اورنظریات کے فقدان کی وجہ سے عوام اور خاص کر نوجوانوں کودرست راستہ فراہم کرنے میں نا کام رہیں۔

2010ء میں وادی میں نوجوانوں کی ایک تازہ دم نسل ایک تحریک کا آغاز کرتی ہے جسے ’’سنگ بازوں کی تحریک‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماضی کے تجربات سے اسباق لیتے ہوئے نوجوان اب کی بار مسلح جدوجہد کے بجائے زیادہ ٹھوس انداز میں سیاسی جدوجہد اور ایڈوانس نعروں کے ساتھ آگے بڑھے۔ آزادی اور روزگار کے مطالبے پر مبنی تحریک نے دہلی سرکار کی بنیاوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اور اس کے بعد اب جولائی 2016ء سے شروع ہونے والی تحریک ہے جس کو دبانے کے لئے ابھی تک مختلف حربے استعمال کئے جا چکے ہیں لیکن تحریک کو مکمل طور پر دبایا نہیں جا سکا۔ ریاستی جبرسے دبانے کی کوشش میں اب تک 100 سے زائد کشمیری نوجوانوں کو شہید اور سینکڑوں کو بینائی سے محروم کیا جا چکا ہے۔ فوجی جنتا نے جبر کی انتہا کر دی ہے مگر تحریک کا سیلاب ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اب کی بار سری نگر کے ساتھ ساتھ پورے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں محکوم عوام جدوجہد میں متحرک ہوئے ہیں۔ کرفیو، گھر گھر تلاشی اور تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ لیکن ابھی برف باری اور سردیوں کے موسم کا پوری طرح خاتمہ بھی نہیں ہواکہ سڑکوں پر احتجاج اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور اب خوف اور تشدد کے ہتھکنڈے زائل ہوتے جا رہے ہیں۔ نوجوانوں اور طالب علموں کی تحریک آگے ہی آگے بھڑتی چلی جا رہی ہے مگر بغور جائزہ لیا جائے تو کوئی واضح لائحہ عمل اور منظم قیادت نظر نہیں آتی۔

قربانی اور لگن کے جذبات سے سرشار حالیہ لہرسماج کی ہر ایک پرت کو متاثر کر رہی ہے اور اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے۔ اساتذہ، وکلا اور حتیٰ کے تاجر بھی ہڑتالوں کی طرف ہمدردانہ رویہ رکھتے ہیں۔ ریاست کے باہر ہندوستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں آزادی پسند نوجوانوں کی حمایت میں آواز بلند ہوئی ہے۔ بورژوا میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حریت کانفرنس کی قیادت اس تحریک کی رہنمائی کر رہی ہے۔ لیکن حقیقتاً معاملہ اس کے الٹ ہے۔ دراصل حریت کانفرنس کے ذریعے تحریک کو نرم کرنے اور صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی قیادت کو قابل قبول بنانے اور موثر بنانے کے لیے دونوں دھڑوں کو ایک ساتھ بٹھا کر فوٹو سیشن کا ناٹک بھی رچایا جا تا ہے۔ دیگر سیاسی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی وغیرہ کا کردار پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی سیاسی پارٹیوں کی نسبت مختلف نہیں ہے۔ جو مظفرآبا د کو آزادی کا بیس کیمپ کہتے نہ تھکتے تھے لیکن آج ان کی نجات کا بیس کیمپ اسلام آباد کے ایوان ہیں۔

نام نہاد آزاد کشمیر کی طرح مقبوضہ کشمیر میں علیحدگی پسندوں سمیت کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس کوئی واضح نظریہ، پروگرام اور حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ جس کی بنیاد پر اس خواب کی تکمیل کی جا سکے جس کی آرزو میں کشمیریوں کی ایک پوری نسل نے قربانیوں کی ایک بے مثال تاریخ رقم کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جب تک محکومی، جبر اور استحصال کا راج رہے گا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ اور اگر حالیہ تحریک عارضی طور پر ٹھہراؤ کا شکار ہو بھی جاتی ہے تو آنے والے دنوں میں زیادہ شدت کے ساتھ اپنا اظہار کرے گی۔ لڑائی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک بنیادی وجوہات اور تضادات کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کمزوریوں کا جائزہ لیا جائے کہ اتنی طویل لڑائی اور بے انتہا قربانیوں کے باوجود آزادی کی منزل کیوں نہیں حاصل ہو سکی۔ سائنسی نظریات اور معروضی حالات کے درست تجزیہ کے بغیر آزادی اور بہتر زندگی کے خوا ب کی تعبیر ممکن نہیں ہے۔

سری نگر کے ایوانوں میں پی ڈی پی اور بی جے پی کا حکمران اتحاد نریندرا مودی کی طرف دیکھ رہا ہے جو معاشی خوشحالی اور روزگار کی فراہمی کی بڑھک بازی کر کے اقتدار میں آیا تھا۔ سرمایہ داری کے حالیہ عالمی بحران کے عہد میں روزگار، سماجی ترقی اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی ممکن نہیں ہے۔ جمہوری آزادی، آزادئ اظہار اور قومی حقوق کسی اور عہد کی باتیں تھیں۔ نتیجتاً ریاستی تشدد اور استحصال کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں آزادی، امن اور روزگار کی لڑائی کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد کیساتھ منسلک کرنا ہوگا۔ سری نگر میں بیٹھے غلیظ حکمرانوں کو ان کے نظام سمیت اکھاڑ پھینکنا ہو گا۔ قومی آزادی کی جدوجہد کو ہندوستان بھر کے محکوم اور استحصال زدہ محنت کش عوام کی نجات کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ ان 90 کروڑ سے زائد غربت کا شکار محنت کشوں کے ساتھ جواس سرمائے کی حکمرانی کے ستائے ہوئے ہیں۔

نسل انسانی آج عالمی طور پر تیز ترین تبدیلیوں کے عہد سے گزر رہی ہے۔ جبر اور استحصال کی مختلف شکلیں پوری دنیا میں مسترد ہو رہی ہیں۔ طلبہ اور محنت کش نظام کے بحران کی قیمت چکانے سے انکار کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں 2 ستمبر کا دن خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ 2015ء اور2016 ء کے دو سالوں میں 2 ستمبر کے دن پورے ہندوستان میں محنت کش طبقے نے تاریخی ہڑتالوں کے ذریعے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کا آغاز کیا ہے۔ پچھلے سال جواہر لعل نہرو یورنیورسٹی سے شروع ہونے والی طلبہ تحریک نے پورے ہندوستان کے تعلیمی اداروں کواپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ آنے والے دنوں میں ایسے واقعات میں مزید شدت آئے گی۔ کشمیر کی وادیو ں میں گونجنے والا آزادی کا نعرہ اس وقت ایک شعلہ بنے گا جب ہندوستان اور پاکستان کے بڑے شہروں کی فیکٹریوں اور تعلیمی اداروں میں حمایت جیتنے میں کامیاب ہو گا۔ یہ شعلہ جب بھڑکے گا تو اسلام آباد اور دہلی میں موجود استحصال، جبر اور ظلم کی غلیظ علامات، حکمرانوں کے ایوانوں کو جلا کر بھسم کر دے گا۔ سامراجی غاصبانہ قبضے کا خاتمہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سرمایہ داری کے خاتمے سے ہی قومی جبر کو شکست دی جا سکتی ہے۔ سوشلسٹ سماج کے تحت ہی توسیع پسندی، قومی محرومی اور طبقاتی استحصال کی مادی بنیادیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ کشمیر میں ابھرنے والی جدوجہدِ آزادی اگر کامیابی حاصل کر تی ہے تو پورے خطے کے پسے ہوئے محنت کش عوام کے لیے باعث نجات ہو گی۔

Comments are closed.