لاہور: تنخواہ 14ہزار اور خرچہ 35ہزار، جینا عذاب بن گیا! ایک محنت کش کے خیالات

|انٹرویو، عدیل زیدی|
subhan-knitwear-lahore-logoشیر علی کوٹ لکھپت لاہور کے صنعتی علاقے میں سبحان نیٹ وئیر نامی ایک فیکٹری کا مزدور ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندگان نے شیر علی سے مزدوروں کے حالات پر بات چیت کی تو شیر علی نے بتایا کہ مجموعی طور پر صنعتی علاقہ کے حالات بہت خراب ہیں، یہاں تک کہ سرکاری طور پر جو سہولیات اور تنخواہ مقرر کی گئی ہیں وہ بھی فیکٹری مالکان نہیں دیتے۔ زیادہ سے زیادہ 1 سے 2 فیصد فیکٹریاں قانون کی پاسداری کرتی ہیں۔ سرکاری طور پر کم از کم اجرت چودہ ہزار پانچ سو مقرر کی گئی ہے، جو کہ بذاتِ خود ایک شرمناک حد تک کم ہے، لیکن یہاں یہ حالت ہے کہ تنخواہ کی شروعات آٹھ ہزار سے ہوتی ہے۔اس کے علاوہ میڈیکل، اولڈ ایج بینیفٹ اور دیگر مراعات بھی محنت کشوں کو میسر نہیں ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ نوکری دیتے وقت کنٹریکٹ میں ڈبل اوورٹائم پر دستخط کروائے جاتے ہیں لیکن دینے کی باری آتی ہے تو سنگل ہی دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اوور ٹائم کے اصول میں تنخواہ کو چھبیس دن پر تقسیم کیا جانا چاہیئے لیکن وہ بھی تیس دن پر تقسیم کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اگر اوور ٹائم گھنٹے کے ایک سو چالیس روپے بنتے ہیں تو حقیقت میں میں پچاس روپے دیئے جاتے ہیں۔اس تنخواہ میں کرائے پر رہنے والا اپنے بجٹ کو کیسے بنائے اور اگر تین بچے بھی ہوں تو؟ جب ہم نے شیر علی کے ساتھ مل کر اس کے ماہانہ اخراجات کا حساب کیا تو کچھ اس طرح سے خرچے سامنے آئے۔ دو بچوں کی سکول فیس 1700، ٹیوشن 600اور ماہانہ سٹیشنری 1000، مکان کا کرایہ ماہانہ 6000، بجلی پانی اور گیس بل 2000، میڈیسن 9000، گھرکا راشن 6000، موٹر سائیکل اخراجات 2000، موبائیل 500 اور متفرق اخراجات 2000۔کل ملا کر اس انتہائی عام سی زندگی جینے کے لئے ماہانہ خرچہ 35,300 آتا ہے۔ جب کہ تنخواہ، جس میں اوسط اوورٹائم ایک سو بیس گھنٹے شامل ہیں، 18,000 بنتی ہے۔اخراجات کو پورا کرنے کے لئے پارٹ ٹائم جلد سازی کا کام کرنا پڑتا ہے، جوکہ اکثر رات کو جاگ کر کیا جاتا ہے۔ مزید بات چیت کرتے ہوئے شیر علی نے کہا کہ لوگ بہتر حالات کا تب سوچیں گے جب ان کے پاس سوچنے کا ٹائم ہو گا۔

شیر علی نے حالات پر مزید کہا کہ مزدور اکثر اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے کام پر لے جانے پر مجبور ہیں تاکہ اپناپیٹ بھر سکیں اور اپنا سسٹم چلا سکیں۔اسی طرح کے حالات اگر رہے تو ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ کوئی بھی نہیں رہے گاکیوں کہ صنعتی علاقے تو پورے ملک میں ہیں اورمزدور طبقہ جس کی تعداد ملکی آبادی میں سب سے زیادہ ہے، ان ہی حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے، اور اگر ان کو بہتر تنخواہیں نہیں ملیں گی تو وہ اپنے بچوں کو نہ پڑھا سکیں گے اور نہ اچھا کھلا سکیں۔ اگر کسی مزدور کا بچہ بیمار ہو جائے اور اسے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے تو ڈاکٹر اس سے پانچ سو روپے فیس مانگ لیتا ہے اور دواؤں کی قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ اکثر مزدوروں کو اپنے بچوں کے لئے صرف پیناڈول کی گولیوں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ان مسائل کے حل کے بارے میں سوال پر شیر علی نے کہا کہ ان مسائل کا حل مزدوروں کے متحد ہو کر جدوجہد کرنے میں ہے۔ مزدوروں کو متحد ہو کر انقلاب برپا کرنا ہو گا اور اس کے لئے ایک انقلابی تنظیم کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.