لاہور: اورنج لائن کے تعمیراتی مزدور کئی ماہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف سراپا احتجاج

|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ|

گذشتہ تین روز سے لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین پر کام کرنے والے تعمیراتی مزدوروں کی ایک بڑی تعداد تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ آج بھی بڑی تعداد میں مزدور لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ احتجاجی مزدوروں کا کہنا ہے کہ ان کو گذشتہ کئی ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی اور چند روز قبل جب پراجیکٹ مینیجر سے خرچے کا مطالبہ کیا گیا تو اس نے صاف انکار کردیا اور مزدوروں کو دھمکی دی کہ جو کرسکتے ہو کرلو تنخواہیں تو دور کی بات خرچہ بھی نہیں ملے گا۔ ان حالات سے مجبور ہو کر مزدور احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ مزدور اورنج لائن پیکج ٹو پر شٹرنگ کا کام سرانجام دے رہے ہیں جس کا ٹھیکہ ZKB-Reliable کے پاس ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پیکج ٹو کا ٹھیکہ Maqbool-CALSONکے پاس تھا جس کو بڑے پیمانے پر گھپلے سامنے آنے پر ’بلیک لسٹ‘ کردیا گیا تھا ور ٹھیکہ مذکورہ بالا کمپنی کو دیا گیا تھا۔ 

مزدوروں کا کہنا تھا کہ ان کو بڑی عید کے بعد سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ دن رات کام کرنے کے باوجود بھی ان کے بچے فاقے کرنے پر مجبور ہیں۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ کئی مزدوروں کو تو پچھلے چھ ماہ سے تنخواہ ادا نہیں کی گئی اور اب جب ان حالات سے تنگ آکر مزدور احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں تو ان کو دھمکیاں دی جارہی ہیں اور یہ کہا جارہا ہے کہ پہلے تو تنخواہیں مل ہی جانی تھیں اب تو کسی صورت نہیں دی جائیں گی۔ یہ تو بس پیکج ٹو کے چند سو مزدوروں کی کہانی ہے یہی حال دوسرے مزدوروں کا ہے جو دیگر کام سرانجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی اورنج لائن پر کام کرنے والے یہ مزدور کئی بار تنخواہیں نہ ملنے کے خلاف احتجاج کرچکے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی اپنا خون پسینہ ایک کر کے دن رات غیر انسانی حالات میں کام کرکے یہ بڑے بڑے منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینے والے ان مزدوروں کا ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے اور انہی منصوبوں پر اپنی سیاست چمکائی جاتی ہے۔ اور کیونکہ یہ دور دراز سے آئے دیہاڑی دار مزدور ہیں تو پولیس بھی خوب شیر ہے۔ پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے ان مزدوروں کو پولیس دھمکیاں دے رہی ہے اور ان کو ڈرایا جارہا ہے کہ اگر احتجاج ختم نہ کیا گیا تو ان کے خلاف دہشت گردی کا پرچہ کاٹ کر گرفتار کر لیا جائے گا۔

لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین سی پیک کا فلیگ شپ پراجیکٹ ہے جس کے لئے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کہنے کو تو یہ سرکاری پراجیکٹ ہے مگر سر عام مزدور قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ان مزدوروں کو پانچ سو روپے روزانہ اجرت پر رکھا جاتا ہے جس میں سے 120روپے روزانہ کھانے کی مد میں کاٹ لئے جاتے ہیں اور سرکاری طور پر اعلان کردہ کم از کم اجرت کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ رہائش کے نام پر انتہائی غیر انسانی کیمپوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ کئی سو مزدوروں کے لئے چند باتھ روم ہیں اور وہ بھی اکثر بند رہتے ہیں۔ کسی قسم کی میڈیکل، سوشل سیکیورٹی اور دیگر سہولیات سرے سے فراہم ہی نہیں کی جاتیں اور وہ پیسے سیدھے کنٹریکٹر کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ یونین سازی توکسی اور ہی سیارے کی بات معلوم ہوتی ہے۔ 

سی پیک سے جن دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے آئے روز سننے کو ملتے ہیں ان کی اصل حقیقت یہ ہے: مزدوروں کا ننگا استحصال اور جبر۔ مگر اس پر بات کرتے ہوئے نام نہاد آزاد میڈیا کے پر جلتے ہیں اور یہ ان کے لئے شجر ممنوعہ ہے۔ لوٹ مار اور کرپشن کے ریکارڈ بنائے جارہے ہیں اور ان کا سارا بوجھ ان مزدوروں کی اجرتیں کاٹ کر مزدوروں کے ہی گلے ڈال دیا جاتا ہے۔ حفاظتی اقدامات کی بات کرنا ہی کسی مذاق سے کم نہیں کیونکہ اس منصوبے پر انسان تو کام ہی نہیں کرتے یہ تو بس مزدور اور محنت کش ہیں جن کے ساتھ جو چاہے کیا جاسکتا ہے۔ اب تک کئی مزدور جاں بحق ہوچکے ہیں۔ یہی صورتحال سی پیک کے دوسرے پراجیکٹس پر ہے۔ چینی سامراج اور یہاں کے دلال حکمران، ریاست اور یہ بڑے بڑے سرمایہ دار ظلم، جبر اور استحصال کے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ نیا روزگار پیدا ہونے کی بات کی جاتی ہے مگر جو ان پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں وہ فاقہ کشی کو پہنچ چکے ہیں۔ 

جوں جوں سول ورکس اختتام کو پہنچ رہے ہیں تو ٹھیکیدار یہاں کام کرنے والے سینکڑوں مزدوروں کی اجرتیں ہڑپ کرکے رفو چکر ہونا چاہتا ہے۔ ایک بار پراجیکٹ مکمل ہوگیاتو پھر کون سی اجرت اور کیسی ادائیگی۔ کچھ بھولے بھالے لوگ لیبر ڈیپارٹمنٹ کا نام لیں گے کہ ان سے رجوع کیا جائے تو ہم انہیں بتا دینا چاہتے ہیں کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ اس سے بے خبر ہرگز نہیں بلکہ یہ سب کچھ تو ان کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور ان کو ان کا حصہ برابر پہنچ رہا ہے۔ پولیس کے لئے یہ احتجاجی مزدور ’لا اینڈ آرڈر‘ کا مسئلہ ہیں۔ اور عدالتوں کا بوجھ تو یہ مزدور اٹھا ہی نہیں سکتے۔ وہ دیہاڑی لگائیں یا عدالت میں جاکر پیشیاں بھگتیں۔

مگر سوال تو یہ ہے کہ آخر کب تک؟ ایسا سدا تو نہیں چل سکتا۔ اگر یہ محنت کش ابھی چپ ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ کچھ سیکھ نہیں رہے کچھ جان نہیں رہے۔ ان سرمایہ داروں، حکمرانوں سے لے کر پولیس تک سب کی حقیقت ان پر عیاں ہوچکی ہے اور جس دن یہ حرکت میں آئے تو وہ دن پھر یوم حساب ہوگا۔

Comments are closed.