ڈنمارک: ایک پاکستانی محنت کش کے حالات زندگی

تحریر: |راسموس جیپیسن|
ترجمہ: |فاروق بلوچ|

To read this article in English, Click here

Life of a pakistani worker in Denmarkڈنمارک کی سیاست میں موجود ہر قسم کی نحوست کا الزام تارکین وطن، پناہ گزینوں اور تارکین وطن محنت کشوں پہ دھرا جاتا ہے۔ مناسب اجرت اور کام کے بہتر حالات کی وجہ سے ’’ڈنمارک کا ماڈل‘‘ اکثر اوقات بہت ہی منفرد چیز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن محنت کشوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کے لئے اب مناسب اجرت اور کام کے بہتر حالات ایک غیر یقینی خواب ہے۔ ’’REVOLT‘‘ میگزین نے عمران کے ساتھ گفتگو میں، جو کہ پاکستان سے تعلق رکھتا ہے، یہ جاننے کی کوشش کی کہ ڈنمارک میں ایک غیر ملکی محنت کش کے عمومی حالات زندگی کیا ہیں؟
(یہ آرٹیکل پہلے ڈینش مارکسی تنظیم Revolutionary Socialists کی جانب سے نکالے جانے والے ایک انگریزی میگزین میں شائع کیا گیا)
ہم نے عمران کے ساتھ انٹرویو میں، ڈنمارک میں بطور ایک تارک وطن محنت کش، اس کے کام کے حالات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ آئر لینڈ میں، آئی ٹی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد، آئرلینڈ میں رہنے کے لیے اسے ایسی ملازمت کی تلاش تھی جس سے وہ سالانہ تیس ہزار یورو کما سکے۔ ’’ یہ مکمل طور پر ناممکن تھا‘‘عمران نے بتایا۔ مگر2011ء میں اسے ڈنمارک میں کام کی اجازت مل گئی اور وہ کام کی تلاش میں یہاں آگیا۔
’’ڈنمارک میں نوکری تلاش کرنا بہت مشکل تھا‘‘ عمران نے وضاحت کی۔ ’’میں کسی کو نہیں جانتا تھا، اورجب تک ڈینش زبان نہ آتی ہواس وقت تک آپ کی تعلیم کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ سارا وقت معمولی اجرت والی مشکل ملازمت میں صرف ہو جاتا ہے اور مقامی زبان سیکھنے کیلئے وقت ہی نہیں بچتا‘‘۔ چنانچہ ڈنمارک میں اپنے پہلے پانچ ماہ کے دوران، وہ بے روزگار تھا۔اس دوران اس نے آئرلینڈ میں بچائے گئے پیسوں اور دوستوں سے ادھار لے کر گزارا کیا۔
پانچ ماہ بعد اسے کلمپنبورگ میں ایک ریستوران میں برتن دھونے کی ملازمت مل گئی۔ ملازمت صرف اسی صورت میں مل سکتی تھی اگر وہ 60 ڈینش کرونا(ڈنمارک کی کرنسی کا نام) کی معمولی اجرت کے عوض دن سے لے کر رات تک کام کرنے کو تیار ہو۔ کام کے اوقات کا کوئی مخصوص شیڈول بھی نہیں دیا گیا تھا۔ بلکہ آجر اس کو کام پر بلانے کے لئے کسی بھی وقت فون کر دیتا تھا۔
یہ کام عمران کے لئے انتہائی مشقت طلب تھا اور پندرہ دن بعد اس کے مالک نے اس کو کام سے فارغ کر دیا۔کچھ عرصے کی بیروزگاری کے بعد عمران کو ڈنمارک میں پاکستانی کمیونٹی کی مدد سے ایک دوسری ملازمت مل گئی اور یہ نئی ملازمت ایک دوا ساز کمپنی کی کینٹین میں برتن دھونے کی تھی۔
’’یہ مشکل کام تھا۔ یہ بالکل ’باکن‘ کے ریسٹورنٹ جیسا تھا‘‘، عمران نے بتایا۔ ’’میں کینٹین میں پانچ باورچیوں کے ساتھ اکیلے کام کرتا تھا، یہ کافی بڑی جگہ تھی۔ یہ کافی مصروف جگہ تھی اور اگر میں مخصوص اوقات میں اپنا کام مکمل نہیں کر پاتا تھا تو مجھے بغیر معاوضے کے 30، 40منٹ اور کبھی ایک گھنٹہ اضافی کام کرنا پڑتا تھا‘‘۔ عمران نے بتایا کہ اگر وہ بغیر معاوضے کے کام نہ کرتا تو اس کو ملازمت سے نکال دیا جاتا۔
37گھنٹے فل ٹائم کام کرنے کے باوجود عمران ماہانہ 10,000 سے 11,000کرونا ہی کما پاتا۔ ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد فی گھنٹہ اجرت اتنی ہی بنتی تھی جتنی باکن کے ریسٹورنٹ میں دن رات کام کرنے کی بنتی تھی۔
عمران کو دوا ساز کمپنی کی کینٹین میں ملازمت ایک ٹھیکیدار کے ذریعے ملی تھی۔ سات ماہ بعد اس نے اپنے ٹھیکیدار سے معاہدہ کیا کہ وہ تین ماہ کے لئے اپنے خاندان والوں سے ملنے کے لئے پاکستان جا سکتا ہے۔ اُس وقت عمران کو اپنے گھر والوں سے ملے ہوئے چار سال بیت چکے تھے۔
ٹھیکیدار نے اسے یقین دلایا کہ ڈنمارک واپسی پراس کو دوبارہ کام پر رکھ لیا جائے گا۔ ’’یہ بات سچ ثابت نہ ہوئی‘‘ عمران نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ایک مرتبہ پھر وہ بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔
فائیو سٹار کام کے حالات
دو مہینے بیروزگار رہنے کے بعد اپنے ایک روم میٹ کی مدد سے عمران کو ایک فائیو سٹار ہوٹل میں برتن دھونے کی ملازمت مل گئی، اور یہی عمران کی موجودہ نوکری ہے۔ دیکھنے میں تو یہ جگہ بڑی عظیم الشان نظر آتی ہے مگر کام کے حالات پہلی ملازمتوں سے بھی بدتر ہیں۔
’’ باضابطہ طور پر توہمیں پارٹ ٹائم معاہدے پر بھرتی کیا گیا ہے جس میں ہم مہینے میں چالیس گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔ مگر حقیقت میں معاہدہ یہ ہے کہ ہمیں مہینے میں 150، 160یا 170گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے، عمران وضاحت کرتا ہے۔ یہاں بھی ایک ٹھیکیدار عمران اور اس کے ساتھ کام کرنیوالوں کا اصل آجر ہے۔عمران بتاتا ہے کہ ٹھیکیدار 40گھنٹے کے رسمی معاہدے کو ملازمین پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کرتا ہے تاکہ وہ کوئی مسئلہ نہ کھڑا کر سکیں۔ ’’اگر کوئی مسئلہ پیدا کرے تو اس کو 40گھنٹے کے باضابطہ معاہدے تک محدود کر دیا جاتا ہے جس پر کوئی گزارانہیں کر سکتا‘‘۔
اس طرح ٹھیکیدار نے ایک ایسا نظام ترتیب دے رکھا ہے کہ کوئی ملازم اس کے خلاف اپنی زبان کھولنے کی یا کوئی مسئلہ بنانے کی ہمت ہی نہیں کرتا۔ ٹھیکیدار کا ہوٹل والوں سے 15-20سال کا معاہدہ ہے، لہذا ہوٹل کے تمام لوگ بھی اس بات سے واقف ہیں کہ وہ کس طرح کام کرتا ہے۔
عمران نے بتایا کہ کیسے اس ٹھیکیدار کے پاس کام حاصل کرنے کیلئے شروع کے کچھ دن بلامعاوضہ اس کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ ’’اگر آپ ٹھیکیدار کو پسند آگئے تو آپ کو کام مل جاتا ہے، اگر آپ پسند نہیں آئے تو آپ فارغ ہیں‘‘۔ ٹھیکیدار ہوٹل میں ہونے والی بڑی تقریبات کے دوران اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور بلامعاوضہ محنت کشوں کو استعمال کر تا ہے۔ پندرہ سو مہمانوں تک کی تقریبات کے لیے صرف دس لوگ کچن میں کام پر معمور ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہم شدید دباؤ میں ہوتے ہیں، اور شدید تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں‘‘۔
سورج ڈوبتے ہی کام شروع
یہ کوئی صبح آٹھ سے شام چھ بجے والی باقاعدہ نوکری نہیں ہے۔ بلکہ عمران کو رات نو بجے سے لے کر صبح چار بجے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح اس کے سونے کی روٹین خراب ہوتی ہے اور دن میں دوسرے کام کرتے ہوئے سخت مشکل پیش آتی ہے۔ ’’میں سارا سال کام کرتا ہوں، حتی کہ سرکاری تعطیلات کے دوران بھی۔ پچھلے دو کرسمس میں نے کام کرتے گزارے‘‘،عمران نے کہا۔
یہاں تنخواہ دیگر جگہوں کے مقابلے میں نسبتاً بہتر ہے اور عمران 115کرونا فی گھنٹہ کما لیتا ہے۔ مگر یہی سب کچھ ہے ۔ ٹھیکیدار باقاعدہ رات کے وقت کام کے لئے، یا اختتام ہفتہ پر یا چھٹیوں پر کام کے لئے کوئی بونس نہیں دیتا۔’’ وہ اضافی کچھ بھی نہیں دیتا۔ مجھے کرسمس پر کام کرنے پر بھی ایک بونس نہیں ملا‘‘۔ ان وجوہات کی بنا پر، عملی طور پر کسی دوسرے شخص کے مقابلے میں کام کی صورت حال کی مناسبت سے عمران بہت کم کما پاتا ہے۔
’’یہاں اپنے ویزے کی باقاعدگی سے تجدید کروانی پڑتی ہے اور میں سالانہ کئی ہزار کرونا یہی کام کرنے میں خرچ کرتا ہوں۔ لیکن اگر آپ بے روزگار ہیں، یا پچھلے عرصے میں کافی کام نہیں کیا تو آپ ویزے کی تجدید نہیں کرا سکتے، عمران نے وضاحت کی۔ یہ سب موجودہ کام کی جگہ پر ایک مستقل خوف کی فضا کو مسلط کئے رکھتا ہے کہ کہیں نوکری سے نہ نکالے جائیں یا بیمار نہ ہو جائیں یا خاندان میں سے کوئی بیمار نہ ہوجائے جس کا خیال رکھنا پڑے۔
عمران نے کہا کہ اس کیلئے نام نہاد سوشل ڈیموکریٹک فلاحی ریاست میں رہنے یا خلیجی بادشاہتوں میں رہنے میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔
ڈنمارک میں ویزا قواعد کا مطلب یہ ہے کہ ڈنمارک میں ورک ویزا رکھنے کیلئے آپ کو سالانہ 326,000 ہزار کرونا کمانے ہونگے۔ ’’لیکن قوانین کو مسلسل تبدیل اور سخت کیا جا رہا ہے۔ کون جانتا ہے کہ کب مزید سختی کر دی جائے گی؟‘‘عمران نے تھکے ہوئے انداز سے میز کو تکتے ہوا کہا۔
عمران کو مستقل سکونت کے لئے درخواست دینے کے اہل ہونے کے لیے چھ سال تک انہی شرائط کے تحت کام کرنا ہوگا۔
یونین-یونین کیا ہوتی ہے؟
عمران جیسی صورتحال میں مبتلا محنت کشوں کیلئے کسی ’’بے روزگار فنڈ‘‘ کی رکنیت حاصل کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا کیونکہ بے روزگاری کی صورت میں تو ملک ہی سے باہر پھینک دیا جائے گا۔ مگر یونین(ٹریڈ یونین) بھی کوئی معمول کی چیز نہیں ہے۔ ’’میں نے جن جگہوں پر بھی کام کیا، کہیں بھی یونینز موجود نہیں تھیں‘‘۔
وہ خود کئی سال تک ایک یونین کا رکن رہا ہے، اور اس کے کچھ دوسرے ساتھی بھی منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’ ہمارا ایک ساتھی ایک یونین ’’کریفا(Krifa)‘‘ کا رکن تھا۔ ہم کو کام کے دوران کافی عرصہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، جس کا نتیجہ اس ساتھی اور مالک کے مابین لڑائی کی صورت میں نکلا‘‘، عمران نے بتایا۔ لڑائی کے فوراً بعد اس کے ساتھی کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا اور کریفا یونین نے اس کی مدد کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔
عمران کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ملازمت کی جگہ پر کسی ٹریڈ یونین اور بائیں بازوں کی کسی جماعت کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے۔ ’’ہمیں سرمایہ داروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، اور ریاست کو کوئی پرواہ نہیں‘‘، عمران نے بتایا۔
اصل مسئلہ سرمایہ داری ہے!
عمران وضاحت کرتا ہے کہ اس طرح کے حالات صرف باورچی خانے اور کینٹین کے کاروبار میں نہیں ہیں، بلکہ ہر جگہ اسی طرح غیر ملکی محنت کشوں کا معمولی اجرت کے عوض استحصال کیا جاتا ہے۔’’ سب سے پہلا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ کمپنی ٹھیکیدار کے معاملات کی ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر ٹھیکیدار کی یہ قانون شکنی بے نقاب ہوبھی جائے تو وہ صرف دیوالیہ پن ظاہر کرکے اپنا دھندہ دوبارہ شروع کر لیتا ہے، عمران نے ہمیں بتایا۔ یہ ایک گھن چکر ہے، جس کو توڑ نے کا پہلا قدم یہ ہے کہ بڑی کمپنیاں اپنے ٹھیکیداروں کے معاملات کی ذمہ دار ہوں۔
لیکن مسئلے کی جڑ یہ نظام ہے: ’’ امیگریشن، جو خود دنیا کے مختلف خطوں میں بحرانوں اور جنگوں کی پیدا کردہ ہے، اصل مسئلہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام کے اندر امیگریشن کے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں، حقیقت پسندی نہیں ہے۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے، جبکہ سرمایہ دارانہ نظام تو دنیا بھر میں قومی سرحدوں کے اندر نسلی تنازعات کو حل کرنے کے بھی قابل نہیں ہے؟‘‘،عمران نے پوچھا۔
عمران کے مطابق یہ اتحاد ہوتا ہے جو کہ شکتی دیتا ہے:’’ یونینوں اور بائیں بازو کو بلاامتیاز رنگ و نسل محنت کش طبقے کو یکجا کرنا چاہئے۔ ورنہ دوسری صورت میں ہار صرف محنت کش طبقہ کی ہی ہوگی۔
عمران ایک فرضی نام ہے جو کہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اصل شخص کو ملازمت سے نکال باہر نہ کیا جائے۔ عمران کی اصل شناخت صرف ادارتی عملے کو معلوم ہے۔

Comments are closed.