سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کی زندگی

|تحریر: مدیحہ سیف|

یوں تو تمام تر طبقاتی نظاموں نے عورت کو گھر کی باندی بنا کر رکھا ہے لیکن سرمایہ داری نے تو عورت کے استحصال کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ایک طرف سرمایہ دارانہ ترقی کے گن گائے جاتے ہیں اور بتایا جاتا کہ انسان آج مریخ تک پہنچ چکا ہے لیکن دوسری طرف پھر ہمیں نظر آتا ہے کہ اس تمام تر ترقی اور جدید تکنیک کی بدولت بھی سماج کی اکثریت کی زندگیاں انتہائی کرب اور اذیت میں ہی بسر ہو رہی ہیں اور اگر اس میں جنسی فرق کو بھی مدنظر رکھا جائے تو عورت کا استحصال تو دوہرا تہرا ہو جاتا ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں آج بھی خواتین کی اکثریت کو گھر کے کام اور بچوں کو سنبھالنے سے فرصت نہیں ملتی، اس مصروفیت میں اس کا دن رات گزر جاتا ہے۔ مزدور طبقے کی عورت جو محنت مزدوری کے لئے گھر سے باہر جاتی ہے، اسے اس کام کے بعد بھی واپسی پر گھر کے تمام تر کام سنبھالنا پڑتے ہیں۔

محنت کش کن خواہشات کے تابع اپنی ساری زندگی اس محنت مشقت میں گزار دیتے ہیں؟ یہی کہ ان کی اولاد پڑھے لکھے اور اچھی زندگی گزارسکے۔ لیکن ان خواہشات اور ان خواہشات کی تکمیل کے لئے شدید محنت کے باوجود ان کی اگلی نسل بھی سرمایہ دار کی غلام ہی رہتی ہے۔ یہ کام کرتے ہیں تاکہ دو وقت کی روٹی کھاسکیں، بجلی کا بل ادا کر سکیں، مکان کا کرایہ دے سکیں۔ لیکن اب دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی ان کے لئے یہ بنیادی سہولیات بھی پہنچ سے دور کر دیتی ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنی بنیادی ضروریات پر بھی کٹوتیاں کرنا پڑتی ہیں۔ جیسا کہ بجلی کا بل نہ دے سکنے اور کنکشن منقطع ہونے کے خوف کے تحت محض راتوں کو پنکھا استعمال کریں گے لیکن اس کے باوجود بھی بل استعمال سے زیادہ آتا ہے۔ سو محنت کش اپنی خواہشوں کوکفن میں بندکر دیتے ہیں۔

ہمارے ہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد کو امیروں کے گھروں میں محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ عموماًجو عورتیں سرمایہ داروں اور امیروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں ان کی اگلی نسلوں کو بھی وہی کرنا پڑتا ہے۔ غربت اور مہنگائی سے تنگ ان محنت کش خواتین کو کم عمری میں ہی اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگانا پڑتا ہے تاکہ وہ دو وقت کا کھانا کھا سکیں۔ یہ سب عورت مجبور ہو کر کرتی ہے۔ گھر میں کام کرنے والی عورت کو کسی بھی تہوار کی چھٹی نہیں ملتی، اگر کرے تو اسے کام سے فارغ کر دیا جاتا ہے، اور وہ غلامی کی زندگی گزارتی ہے۔ دوسری طرف اسی محنت کے سر پر سرمایہ داروں اور امیروں کے گھروں میں رونق قائم رہتی ہے۔ سرمایہ دار کے ہاں اگر یہ محنت کرنے والے کام کرنا چھوڑ دیں تو ان کے گھر میں کیڑے پیدا ہوجائیں گے۔ ان کی زندگیاں ہر حوالے سے انہی محنت کشوں کی محنت کے مرہون منت ہیں۔ ان کو نہ کھانا پکانا آتا ہے، نہ صفائی کرنی آتی ہے، یہ مزدور طبقے کے سر پر پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ حالات محنت کشوں کو بار بار سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا کبھی ایسا ہوگا کہ انہیں یہ غلامی نہ کرنی پڑے اور وہ اپنے لیے جی سکیں۔ سرمایہ داری میں تو ہم بس اس لئے زندہ ہیں کہ دن بھر محنت مشقت کریں اور یہ سرمایہ دار پر سکون زندگی گزار سکیں اور حتیٰ کے ہمیں کھانا تک اس لیے ملتا ہے تاکہ ان کا کام کر نے کے لیے زندہ رہیں۔ یہ تمام تر خیالات یقیناًبہت واضح نہیں ہیں لیکن سماج میں موجود ہیں اور ان حالات میں جب انہی محنت کشوں کو بتایا جاتا ہے کہ ایک ایسا نظام ممکن ہے جس میں ہم سب برابر ہوں گے ، کوئی امیر یا غریب نہیں ہو گا، جس میں ایک مٹھی بھر طبقے کی حکومت نہیں ہوگی، سب کو برابر حقوق ملیں گے، لوگوں کے خواب سچے ہو جائیں گے، کہ ایک ایسا نظام ہے جس کے تحت اس سرمایہ داری سے نجات ممکن ہے اور جس کا نام سوشلزم ہے تو یقیناً لوگوں کو کسی قدر حیرت تو ہوتی ہے لیکن اگر ذرا تفصیل سے بات کی جائے تو یہی دن بھر محنت مشقت کرنے والے اس حقیقت کو ناصرف مانتے ہیں بلکہ اس کے لئے لڑنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ایک ایسا وقت آ چکا ہے جب ہمیں بڑے پیمانے پر اپنے طبقے کو منظم کرنا ہو گا تاکہ فیصلہ کن معرکہ لڑا جا سکے، ایک ایسا معرکہ جس میں محنت کش طبقے کے مرد و زن کو مشترکہ لڑائی لڑنی ہو گی اور اس فیصلہ کن معرکے میں ہمارے پاس فتح کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

Comments are closed.