مارکسزم اور ریاست (دوسرا اور آخری حصہ)

|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: آفتاب اشرف|

(یہ مضمون ایلن ووڈز نے 2008ء میں تحریر کیا تھا۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ہم اس کا اردو ترجمہ اپنے قارئین کیلئے شائع کر رہے ہیں)

مارکسزم اور ریاست(حصہ اول)

پرتگال 1974ء

1974ء کا پرتگیزی انقلاب زیر تجزیہ عوامل کی نہایت شاندار مثال ہے۔ یہاں ان تمام عوامل کو نہایت واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پہلے سالازار اور پھر کیٹانو کے زیر تسلط تقریباً پچاس سال تک قائم رہنے والی آمریت کسی گلے ہوئے سیب کی طرح گر گئی۔ حکومت کو کمزور کر دینے والے اندرونی تضادات ریاستی مشینری میں اپنا اظہار کر رہے تھے، جس کی سب سے واضح علامت فوجی افسران میں ایک حزب اختلاف کی تخلیق تھی۔ 

انگولا، موزمبیق اور گنی بساؤ میں لڑی جانے والی لامتناہی اور خون ریز نو آبادیاتی جنگوں نے اس سلسلے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ پرتگیزی فوجی افسران کی پرت دیگر سامراجی ریاستوں کی افواج سے مختلف تھی۔ عام طور پر فوجی افسران امیر خاندانوں کے بیٹے ہوتے ہیں جو کہ اپنے دفاتر میں ایک محفوظ اور آرام دہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ لیکن یہاں پر صورتحال مختلف تھی۔ افریقہ میں لڑی جانے والی جنگوں نے فوجی سروس کو ایک پر خطر کام بنا دیا تھا جس میں امرا کے بیٹوں کیلئے کوئی خاص کشش نہیں تھی۔ اسی لئے زیادہ تر افسر درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ’’وردی پہنے ہوئے طلبا‘‘ تھے۔ ان افسران کے کچھ حصے مارکسزم کے نظریات پڑھنے لگے اور ان کے زیر اثر آ گئے۔ نو آبادیاتی جنگوں اور کرپٹ آمرانہ حکومت کی مخالفت میں وہ خفیہ طور پر سوشلزم، کمیونز م اور ماؤازم کی طرف راغب ہونے لگے۔ 

اسی لئے 25اپریل 1974ء کو ہونے والی فوجی بغاوت نے ایک مخصوص شکل اختیار کی۔ انقلاب لانے کا دعوی کرتے ہوئے کیٹانو کا تختہ الٹنے والے نوجوان افسروں نے ایک عوامی تحریک کیلئے راہ ہموار کر دی لیکن وہ خود بھی اس عمل کا واضح شعوری ادراک نہیں رکھتے تھے۔اس سب کے نتیجے میں ہمیں دہائیوں کے فاشسٹ اور بوناپارٹسٹ جبر کے بعد پرتگالی محنت کشوں کی ایک شاندار تحریک دیکھنے کو ملی۔ یکم فروری 1974ء کو 80لاکھ کی کل آبادی میں سے 30لاکھ محنت کش سڑکوں پر تھے۔ مزدوروں کے ساتھ ساتھ فوج کے سپاہی اور بحریہ کے ملاح بھی اپنے ہتھیاروں سمیت ان مظاہروں میں شامل تھے۔ 

ایسی صورتحال میں ’’خانہ جنگی‘‘ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خانہ جنگی ہونے کیلئے لازمی ہے کہ ایسی قوتیں موجود ہوں جو سٹیٹس کو کے دفاع کی خاطر لڑنے کو تیار ہوں۔ 25اپریل کے بعد ایسی قوتیں اپنا وجود کھو چکی تھیں۔ ’’مسلح افراد کے جتھوں‘‘ والا فارمولا یہاں لاگو نہیں ہوتا۔ محنت کش طبقے کا مقابلہ کرنے کیلئے کونسی قوتیں تیار تھیں؟ اگر ہم ٹھوس طور پر یہ سوال پوچھیں تو یہ اپنا جواب خود دیتا ہے۔ مسلح افراد کے جتھے محنت کشوں کی طرف تھے۔ صرف ایک مثال ہی سے ساری صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ جب لزبن کے لزنیو نامی بڑے شپ یارڈ کے محنت کشوں نے وزارت محنت کا گھیراؤ کیا تو فوج کو طلب کر لیا گیا۔ لیکن جب فوجیوں کا سامنا ’’سپاہی مزدوروں کے بیٹے ہیں، کل کو سپاہیوں نے بھی مزدور بننا ہے اور سپاہی کی بندوق مزدوروں کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیئے‘‘ جیسے نعرے بلند کرتے پانچ ہزار سے زائد شپ یارڈ ورکرز سے ہوا تو ان کی ہمدردیاں مکمل طور پر مزدوروں کے ساتھ ہو گئیں اور انہوں نے اپنے کمانڈر کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ 

25اپریل کے بعد پرتگال میں سرمایہ داری کو بچانے والی قوت فوج نہیں بلکہ ’’کمیونسٹ‘‘ پارٹی کی قیادت تھی، جس نے فوری طور پر اعلان کیا کہ نام نہاد ’’ترقی پسند‘‘ جنرل سپینولا کی حمایت کرنا ضروری ہے۔ عبوری حکومت کے پردے میں سپینولا رد انقلاب کی تیاری کر رہا تھا۔ ایک سال بعد اس نے ایک فوجی بغاوت کرنے کی کوشش کی۔ اس کے پاس کیا قوتیں تھیں؟ سپاہیوں کا محض ایک چھوٹا گروہ جو کہ فوج کے سب سے پسماندہ حصے یعنی چھاتہ برداروں پر مشتمل تھا۔11مارچ کو چھاتہ برداروں نے لزبن میں آر اے ایل۔1 نامی انتہائی ریڈیکل رجمنٹ کی بیرکوں کا محاصرہ تو کر لیا لیکن وہ (چھاتہ بردار) فائر کھولنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ چھاتہ بردار سپاہیوں کے ساتھ گھل مل کر ان سے اپیل کرنے والی محنت کشوں اور دیگر سپاہیوں پر مشتمل ایک خودرو تحریک نے بہت جلد بغاوت کا خاتمہ کر دیا۔ چند ہی گھنٹوں میں چھاتہ بردار سپاہی وضاحتیں دے رہے تھے کہ ’’ہم فاشسٹ نہیں ہیں۔ ہم تو تمہارے ساتھی ہیں۔‘‘ ’’غلام آقاؤں کی بغاوت‘‘ انتہائی مختصر وقت میں ہی ختم ہو گئی۔

مارکس نے کہا تھا کہ انقلاب کو رد انقلاب کے چابک کی ضرورت ہوتی ہے۔ سپینولا کا ناکام رد انقلاب محنت کشوں کو تحرک میں لانے کا سبب بنا۔ بنک ملازمین نے بینکوں پر قبضہ کر لیا اورایم ایف اے حکومت سے بینکوں کو قومی تحویل میں لینے کا مطالبہ کیا۔ ان کی دیکھا دیکھی انشورنس سیکٹر کے محنت کشوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ نتیجتاً بائیں بازو کے افسران نے بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے لیا جو کہ 60فیصد سے زائد معیشت کی ملکیت رکھنے کی بدولت رجعت کی حقیقی بنیاد تھیں۔ اس سے پرتگال میں نہ صرف رجعت بلکہ سرمایہ داری پر بھی کاری ضرب لگی۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے ’’دی ٹائمز‘‘ نے اپنے اداریے کا عنوان ’’پرتگال میں سرمایہ داری مر چکی ہے‘‘ رکھا۔اور یقیناً ایسا ہی ہوتا۔ سپینولا کی رد انقلابی فوجی بغاوت کی زبردست شکست کے بعد طاقت مزدوروں اور سپاہیوں کے ہاتھوں میں تھی۔ لیکن ایک مرتبہ پھر، صرف کمیونسٹ پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی کی قیادت کی بزدلی اور غداری نے سرمایہ داری کو بچا لیا۔ سوشلسٹ پارٹی، جو انقلاب سے ایک سال قبل تک صرف دو سو ممبران پر مشتمل ایک نہایت چھوٹی پارٹی تھی، اب ایک بڑی قوت بن چکی تھی۔ عوامی دباؤ کے تحت سوشلسٹ پارٹی کی قیادت کو لفاظی کی حد تک ہی سہی، لیکن ایک ریڈیکل پالیسی اختیار کرنی پڑی۔ ماریو سواریز اپنی تقریروں میں ’’پرولتاریہ کی آمریت‘‘ قائم کرنے کی باتیں کرتا تھا۔ سوشلسٹ پارٹی کے اخبار میں ٹراٹسکی کی تحریریں چھپتی تھیں۔ پچاس سالوں میں ہونے والے پہلے جمہوری انتخابات میں 91فیصد ووٹرز نے حصہ لیا۔ سوشلسٹ پارٹی کو کل ووٹ کا 37.8فیصد، کمیونسٹ پارٹی کو 12.5فیصد اور اس کی اتحادی ایم ڈی پی کو 4.1فیصد پڑا۔ یعنی ، ڈالے گئے ووٹوں کا 54.4فیصد محنت کشوں کی نمائندہ پارٹیوں کو ملا۔ 

ایسی صورتحال میں پرتگال کے انقلاب کو نہ صرف پر امن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا تھا بلکہ یہ کام پارلیمنٹ کے ذریعے کیا جا سکتا تھا۔ مارچ کی فوجی بغاوت کی زبردست ناکامی کے بعد بورژوازی مکمل طور پر ہار چکی تھی۔ سپینولا، برازیل بھاگ چکا تھا۔ محنت کش طبقہ متحرک تھا۔ اوپر سے کسی راہنمائی کے بغیر فیکٹریوں میں محنت کشوں کی کونسلیں منتخب کی جا رہی تھیں۔ ثقافتی مراکزپھل پھول رہے تھے۔ بیروزگار محنت کش دیہاتوں میں ہاتھ بٹا رہے تھے۔ بچے بڑوں کو پڑھنا سکھا رہے تھے اور انقلابی نتائج اخذ کرنے والے محنت کشوں نے سینکڑوں فیکٹریوں اور زرعی اراضی کو مالکان سے چھین کر اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔

انقلابی کونسلیں

کس چیز کی ضرورت تھی؟ ایک کمیونسٹ۔سوشلسٹ حکومت کی جو کہ انقلاب کو مکمل کر دے۔ زمینداروں، بینکاروں اور سرمایہ داروں کی طاقت کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کے قیام کیلئے صرف چند ایک احکامات کا اجرا ہی کافی ہوتا۔ اجرتوں اور پینشنوں میں اضافے، کام کے اوقات کار میں کمی اور چھوٹے کسانوں اور دکانداروں کے معیار زندگی میں بہتری کیلئے کئے جانے والے فوری اقدامات۔ مزدوروں، کسانوں اور سپاہیوں سے اپیل کہ وہ زمینوں اور صنعتوں پر قبضہ کر لیں، جمہوری منتخب کردہ کمیٹیاں بنائیں اور رد انقلابی عناصر کو گرفتار کر لیں۔پارلیمنٹ کے باہر عوام کی ایک انقلابی تحریک کی موجودگی میں ایسے اقدامات کے ذریعے سماج کی پر امن تبدیلی کو یقینی بنایا جا سکتا تھا۔

کیا ایسی پالیسی کا نتیجہ ناگزیر طور پر ایک خانہ جنگی کی صورت میں نکلتا؟ ہمیشہ کی طرح عوا م کی انقلابی تحریک کا فوج پر گہرا اثر ہوا تھا۔ منتخب شدہ کمیٹیوں کا خیال فیکٹریوں سے فوجی بیرکوں میں پھیل چکا تھا۔ مسلح افواج میں انقلابی نظریات کے پھیلاؤ کو تسلیم کرتے ہوئے ’’گروپ آف نائن‘‘ نامی قدامت پسند افسروں کے ایک گروہ نے لکھا:

’’ہمیں ریاستی ڈھانچوں میں ایک مسلسل گراؤٹ نظر آ رہی ہے۔ ہر جگہ انارکی پھیلی ہوئی ہے حتی کہ مسلح افواج میں بھی۔‘‘

ستمبر میں سپاہیوں کی ایک آزادانہ تحریک کا جنم ہوا جس کا نام ایس یو وی تھا۔ ایس یو وی نے 10ستمبر کو شمالی شہر پورٹو میں ایک احتجاجی مظاہرے کی کال دی:

’’کیونکہ سپاہیوں کو کھلے عام گانا گانے کی اجازت نہیں ہوتی ، لہذا ہم نے سیٹیاں بجانی شروع کر دیں۔ لیکن آخر میں آتے آتے ہر کوئی گا رہا تھا۔انٹرنیشنل گا رہا تھا۔ مظاہرے میں شریک لوگوں کی تعداد ہماری آنکھوں کے سامنے تیزی سے بڑھتی گئی۔‘‘

اندازے کے مطابق اس دن 1500سپاہیوں پر مشتمل دستے کے پیچھے 30000محنت کشوں کا جلوس چل رہا تھا۔ ایس یو وی نے سپاہیوں کے سامنے رجعتی افسروں کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا۔ سپاہیوں نے اپنے اور افسران کے معیار زندگی میں عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی۔ انہوں نے اجرتوں میں اضافے اور مفت ٹرانسپورٹ کیلئے احتجاج شروع کر دئیے۔

’’پورٹو کے جنرل ہیڈکوارٹرز میں تین علیحدہ میس ہال تھے۔ ایک سپاہیوں کیلئے، ایک این سی اوز کیلئے اور ایک افسروں کیلئے۔ پورٹو مظاہرے کے تین دن بعد چند سپاہی اطمینان کے ساتھ افسران کے میس میں کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ اگلے دن تمام سپاہیوں نے افیسر میس پر قبضہ کر لیا۔ اس دن سے علیحدہ میس ہالز کے خاتمے کی جدوجہد جاری ہے۔‘‘

ہمارے پاس جگہ نہیں ہے کہ ہم پرتگیزی انقلاب کی ناکامی کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لے سکیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کنہال اور سواریز کے سیاسی طرز عمل کا اس میں فیصلہ کن کردار تھا۔ ان کے پاس ایک پر امن انقلاب کرنے کے تمام مواقع تھے لیکن انہوں نے انقلاب کو برباد کر دیا اور عوام کی تمناؤں کو خاک میں ملا دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محنت کش طبقے کے راستے میں نئی خوفناک رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی جس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلی مرتبہ انقلاب اتنا پر امن نہ ہو۔ اس کا دارومدار کئی عناصر پر لیکن سب سے بڑھ کر ،پرتگال میں ہماری ایک مارکسی پارٹی تعمیر کرنے کی صلاحیت پر ہو گا۔

ٹراٹسکی کا نقطہ نظر

ترقی یافتہ ممالک کا انقلاب روسی انقلاب کے مقابلے میں بیک وقت آسان بھی ہو گا اور مشکل بھی۔ اکیس سامراجی افواج کے روس پر حملے تک انقلاب روس کو کسی سنجیدہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ اس سامراجی حملے کے نتیجے میں انقلاب کو اپنی بقا کی خاطر مجبوراً تشدد کا استعمال کرنا پڑا۔ لیکن ٹراٹسکی وضاحت کرتا ہے کہ کسی ترقی یافتہ ملک، جیسا کہ امریکہ میں ایسا ہونا لازمی نہیں ہے۔ عالمی جنگ سے پہلے ٹراٹسکی امریکہ کے ٹراٹسکائیٹس کو کیا مشورہ دیتا ہے؟ ٹراٹسکی کے طریقہ کار کی ایک بہترین مثال ہمیں ڈیوی کمیشن کے ریکارڈ میں ملتی ہے:

’’لا فولیٹ: میں ایک اور سوال کرنا چاہوں گا۔ ۔میں اس خیال کے متعلق آپ کی رائے لینا چاہوں گا کہ انقلابی تشدد ناگزیر طور پر تھرمیڈور (رجعتی) تشدد کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ 
ٹراٹسکی: ایسی عمومی شکل میں، میں نہ اسے تسلیم کر سکتا ہوں اور نہ ہی رد کر سکتا ہوں۔ انقلاب میں تشدد کا استعمال طاقت کی نہیں بلکہ کمزوری کی علامت ہوتا ہے۔
لافولیٹ: کمزوری کی؟
ٹراٹسکی: ہاں۔ کمزوری کی۔ کم تر سطح (مادی ترقی کی) پر ہونے والے انقلاب میں بلند سطح پر ہونے والے انقلاب کی نسبت تشدد زیادہ ہو گا۔ کم تر سطح پر ہونے والے انقلاب کو رد انقلاب کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ (لیون ٹراٹسکی کا مقدمہ، صفحہ نمبر372)

لیکن یہ معاملہ یہاں پر ختم نہیں ہوتا۔ ٹراٹسکی اس مسئلے کو کئی مرتبہ زیر بحث لایا۔ اس کی تحریروں سے معمولی آگاہی بھی یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ ٹراٹسکی کی انقلابی تشدد کے متعلق پوزیشن بالکل وہی تھی جو ہماری ہے۔’’اگر امریکہ کمیونسٹ ہو جائے‘‘ نامی پیمفلٹ میں ٹراٹسکی اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے:

’’درحقیقت امریکی سوویتیں روسی سوویتوں سے اتنی ہی مختلف ہوں گی جتنا صدر روزویلٹ کا امریکہ زار نکولس دوئم کی روسی سلطنت سے مختلف ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ میں کمیونزم صرف انقلاب کے ذریعے ہی آ سکتا ہے، ویسے ہی جیسے آزادی اور جمہوریت امریکہ میں آئی تھی۔ لیکن امریکہ کا مزاج تیز و تند ہے اور امریکی، ماہرین اور مدبر ہونے سے پہلے پر جوش کھلاڑی ہیں۔ صف آرا ہوئے بغیر اور سر پھوڑے بغیر ایک بڑی تبدیلی کا آنا امریکی روایات کے خلاف ہو گا۔‘‘ 

لیکن امریکہ کا کمیونسٹ انقلاب روس کے بالشویک انقلاب کے مقابلے میں معمولی (انقلابی تشدد کے معاملے میں) ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک انقلابی خانہ جنگی میں مٹھی بھر امرا نہیں لڑا کرتے۔ وہ پانچ یا دس فیصد، جو کہ امریکہ کی 9/10دولت کے مالک ہیں۔ لیکن یہ مٹھی بھر امرا درمیانے طبقے میں سے ایک رد انقلابی فوج تشکیل دے سکتے ہیں۔ لیکن ان (درمیانے طبقے) کو بھی انقلاب اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، ان پر یہ ثابت کرتے ہوئے کہ سوویتوں کی حمایت ہی ان کی نجات کا واحد راستہ ہے۔

اس گروہ سے نیچے ہر کوئی پہلے ہی معاشی طور پر کمیونزم کیلئے تیار ہو چکا ہے۔ اقتصادی کساد بازاری نے محنت کش طبقے کو برباد کر دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسانوں کو بھی کچل کر رکھ دیا ہے جو کہ پہلے ہی جنگ کے بعد کی دہائی میں زراعت کی زوال پذیری سے زخمی تھے۔ ان گروہوں کی جانب سے انقلاب کوسخت مزاحمت دیے جانے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ ان کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن انقلابی قیادت کو ان کی جانب ایک دور اندیش اور متوازن رویہ رکھنا پڑے گا۔ 

اور کون لڑے گا کمیونزم کے خلاف؟ کیا کروڑ پتی اور ارب پتی لڑیں گے؟ میلون، مورگن، فورڈ اور راک فیلر لڑیں گے؟ جیسے ہی ان کو اپنی جنگ لڑنے کیلئے دوسرے لوگ ڈھونڈنے میں ناکامی ہو گی، وہ مزاحمت ترک کر دیں گے۔

امریکی سوویت حکومت بینکوں، بھاری صنعتوں، ٹرانسپورٹ اور مواصلات سمیت معیشت کے تمام اہم حصوں کو اپنی تحویل میں لے لے گی۔ اس کے بعد وہ کسانوں اور چھوٹے تاجروں وغیرہ کو قومی تحویل میں لی گئی صنعتوں کی بہترین کارکردگی دیکھنے اور اس پر سوچنے کیلئے خوب طویل وقت دے گی۔‘‘

ان جملوں کا کیا مطلب ہے؟ طاقت کے حصول کیلئے انقلابی جدوجہد کی ضرورت کا انکار کئے بغیر (کوئی بھی مارکس وادی ایسا کیسے کر سکتا ہے؟)، ٹراٹسکی امریکی محنت کشوں کو یہ حقیقت بتا رہا ہے کہ ایک نہایت موزوں طبقاتی قوتوں کے توازن کی موجودگی میں ایک سنجیدہ مارکسی قیادت کا چھوٹے کسانوں اور پیٹی بورژوازی کی جانب درست رویہ بڑے سرمایہ داروں کو تنہا اور مفلوج کر کے ہوا میں معلق کر دے گا۔ 1968ء میں فرانس میں بالکل ایسا ہی ہوا اگرچہ ایک مارکسی قیادت موجود نہ تھی۔ لیکن جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ انقلاب کے ساتھ سٹالنسٹوں نے غداری کی۔

اس سوال کو کیسے پیش نہیں کرنا چاہیئے

ہم اس سوال کو کیسے پیش کرتے ہیں؟ خانہ جنگی کے متعلق انقلابی بیان بازی کر کے نہیں بلکہ مارکسزم کے بنیادی نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے عوام کو جیتنے کی جدوجہد کر کے ۔ پرولتاریہ کی بے پناہ قوت، خاص کر ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں، جہاں وہ سماج کی فیصلہ کن اکثریت بن چکا ہے، یقینی طور پر سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کیلئے سازگار معروضی حالات پیدا کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کئی مرتبہ وضاحت کی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پیداواری قوتوں کی ترقی اور کسانوں کے تقریباً خاتمے نے محنت کش طبقے کو بے تحاشہ مضبوط کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ طبقہ ابھی اس حقیقت کا شعور نہیں رکھتا اور اصلاح پسند لیڈر پوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ محنت کشوں کو اس بات پر قائل کر سکیں کہ وہ بہت کمزور ہیں جبکہ بورژوازی اور اس کی ریاست بہت مضبوط۔محنت کشوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے یہ کہنا کہ انقلاب ناگزیر طور پر متشدد ہو گا، خانہ جنگی اور خون ریزی ہو گی، اصلاح پسندوں کا پرانا نسخہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انتہائی بائیں بازو کے فرقے بھی ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ یہ سمجھے بغیر کہ وہ بورژوازی اور اس کے اصلاح پسند اتحادیوں کے تیار کردہ جال میں پھنس رہے ہیں۔ کافی عرصہ پہلے، جب کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کو لیبر پارٹی سے نکالا جا رہا تھا تو ایک برطانوی ٹی وی چینل نے ان کا انٹرویو لیا۔ ٹیڈ سے پوچھا گیا:’’کیا آپ تشدد کے حامی ہیں؟‘‘ جواب میں ٹیڈ نے کہا،’’کیا آپ طاعون کے حامی ہیں؟ یقینی طور پر میں تشدد کا حامی نہیں ہوں۔ ہمارا موقف تو یہ ہے کہ لیبر پارٹی کی منتخب حکومت ایک پارلیمانی ایکٹ کے ذریعے بینکوں اور اجارہ داریوں کو قومی تحویل میں لے لے۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ سوال پوچھنے والا نہایت خوش ہوتا اگر اسے اس جواب کے بجائے ریاست کو مسمار کرنے اور خانہ جنگی کی ناگزیریت کے متعلق ایک تقریر سننے کو ملتی۔ 

اہم بات یہ ہے کہ ہم کیسے طاقت (اقتدار) کے سوال کو پیش کریں کہ عوام کی بھاری اکثریت کو سرمائے کے خلاف لڑائی کیلئے جیت لیں۔ ایسا صرف محنت کشوں کی روز مرہ کی جدوجہد (اقتصادی مانگوں) کو بینکوں اور اجارہ داریوں کی ضبطگی کے ساتھ منسلک کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کیلئے ریاست کو مسلح ذرائع سے مسمار کرنے کی تجریدی بحثوں کے بجائے ایک ٹھوس عبوری طریقہ کار اپنانا پڑے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ٹراٹسکی اس سوال کو کیسے پیش کرتا ہے۔

عبوری پروگرام میں، ٹراٹسکی ’’اقتصادی‘‘ مانگوں اور بورژوازی کا تختہ الٹنے کے مابین تعلق کی تفصیلی وضاحت کرتا ہے۔اس سوال کے متعلق ٹراٹسکی کا رویہ ان داخلی بحثوں سے واضح ہو جاتا ہے جن کا مقصد ٹراٹسکائیٹ تحریک کے کیڈر کی تعلیم و تربیت تھا: 

’’پروگرام میں ’’ضبطگی‘‘ کا نعرہ معاوضے کی ادائیگی کو خارج از امکان قرار نہیں دیتا۔ اس حوالے سے ہم ضبطگی کے نعرے کو ’’چھین لینے‘‘ کے نعرے سے مختلف سمجھتے ہیں۔ چھین لینے کا مطلب ہے کہ کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جائے گا لیکن ضبطگی میں معاوضے کی ادائیگی شامل ہو سکتی ہے۔ یہ ایک اور سوال ہے کہ کتنا معاوضہ دیا جائے۔ مثلاً کسی بھی احتجاج کے دوران ہم سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا آپ جائیداد کے مالکان کو بھکاری بنا دینا چاہتے ہیں؟ نہیں، اگر وہ بڑھاپے کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے تو ہم انہیں زندگی بسر کرنے کیلئے مناسب معاوضہ دیں گے۔ یہاں پر روسیوں کی نقالی کرنا لازمی نہیں ہے۔ انہیں کئی سرمایہ دارانہ ریاستوں کی سامراجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے وہ کوئی معاوضہ دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ لیکن امریکہ ایک انتہائی امیر سماج ہے اور جب ہم یہاں اقتدار میں آئیں گے تو بوڑھے مالکان کو معاوضہ دیں گے۔ اس حوالے سے معاوضے کے بغیر چھین لینے کی بات کرنا موزوں نہ ہو گا۔بہتر یہ ہو گا کہ ہم چھین لینے کے بجائے جائیداد کی ضبطگی کی بات کریں کیونکہ ضبطگی میں کچھ معاوضے کی ادائیگی بھی شامل ہو سکتی ہے۔
ہمیں یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ ہم کوئی منتقم مزاج لوگ نہیں ہیں۔ امریکہ جیسے سماج میں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ یہ مادی امکانات کا سوال ہے، لیکن ہم سرمایہ دار طبقے کو جسمانی طور پر تباہ نہیں کریں گے۔‘‘(ٹراٹسکی، عبوری پروگرام، صفحہ نمبر197)

ایک فرقہ پرور ذہن کو یہ ’’اصولی‘‘ طور پر ناقابل اجازت لگتا ہے کہ ایک انقلابی رجحان بورژوازی کو کسی معاوضے کی ادائیگی کی تجویز پیش کرے۔ بالکل ویسے ہی جیسے وہ ’’ناگزیر خانہ جنگی‘‘ کے بغیر محنت کشوں کے اقتدار پر قبضے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ حقیقی ماکسزم اور فارمولا پرستی کے درمیان یہی فرق ہوتا ہے۔ درحقیقت ٹراٹسکی، مارکس اور اینگلز کا ہی طریقہ کار دہرا رہا ہے ، جب انہوں نے کہا تھا کہ مخصوص حالات میں پرولتاریہ سرمایہ داروں (کی جائیداد) کو خریدنے کی پیشکش بھی کر سکتا ہے لیکن اس شرط پر کہ وہ اپنی فیکٹریوں سے پر امن طور پر دست بردار ہو جائیں۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ٹراٹسکی اور انہیں (مارکس اور اینگلز) اس بارے میں کوئی ابہام یا غلط فہمی نہیں تھی کہ سرمایہ دار طبقہ اپنی دولت اور اقتدار کو بچانے کی خاطر ہر ممکن طریقے سے مزاحمت کرنے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ فیصلہ کن مرحلے میں بورژوازی کے پاس مزاحمت کیلئے حقیقی معنوں میں کیا ذرائع میسر ہوں گے اور حتمی تجزئیے میں اس امر کا زیادہ تر دارومدار ایک سنجیدہ اور جرات مند قیادت رکھنے والی انقلابی پارٹی کی موجودگی پر ہو گا۔

مئی 1968ء

حقیقی انقلاب کسی بھی نظریے کا امتحان ہوتا ہے۔ مئی 1968ء ایسی ہی ایک تاریخی مثال ہے۔ یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ محنت کش طبقے کو شکست ’’مضبوط ریاست‘‘ نامی کسی چیز کی وجہ سے نہیں بلکہ اصلاح پسند اور سٹالنسٹ قیادت کی نا اہلی کے باعث ہوئی تھی۔

1968ء میں فرانس میں تاریخ کی سب سے عظیم الشان عام ہڑتال ہوئی تھی۔ اگرچہ صرف 30لاکھ مزدور ٹریڈ یونینوں میں منظم تھے لیکن اس کے باوجود ایک کروڑ نے ہڑتال میں حصہ لیتے ہوئے فیکٹریوں پر قبضہ کر لیا۔ طلبا، اساتذہ، مختلف پیشوں سے وابستہ لوگ، کسان، سائنس دان، فٹ بالر اور فنکار بھی جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ فیکٹریوں، سکولوں، یونیورسٹیوں اور حتی کہ رصد گاہوں پر بھی سرخ جھنڈا لہرا رہا تھا۔ طاقت محنت کشوں کے ہاتھوں میں تھی۔ حکومت ہوا میں معلق ہو چکی تھی۔ چارلس ڈیگال کی ’’مضبوط ریاست‘‘ مفلوج ہو چکی تھی۔ اس طاقت ور تحریک کا جنم بعد از عالمی جنگ معاشی ابھار کے عروج پر ہوا تھا۔

1968ء میں فرانس میں ہونے والے واقعات کی پیش بینی ہمارے رجحان کے علاوہ کسی نے بھی نہیں کی تھی۔ یہ واقعات باقی تمام کیلئے نہایت حیران کن تھے کیونکہ ہمارے علاوہ باقی سب یورپ کے محنت کش طبقے سے مایوس ہو چکے تھے۔ لیکن ہم بائیں بازو کے دیگر رجحانات کے بجائے آغاز بورژوازی سے کرتے ہیں۔ کیا انہیں فرانس میں ایک تحریک کی توقع تھی؟

اکانومسٹ نے مئی 1968ء میں ڈیگال کی حکومت کے دس سال پورے ہونے پر ایک خصوصی ضمیمہ شائع کیا تھا۔ اس ضمیمے کے مصنف نارمن میک رے نے فرانسیسی سرمایہ داری کے گن گاتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس میں معیار زندگی برطانیہ سے بھی بلند ہے کیونکہ فرانسیسی زیادہ گوشت کھاتے ہیں اور ان کے پاس زیادہ گاڑیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ انتہائی کمزور ٹریڈ یونینز کی وجہ سے فرانس کو برطانیہ پر ایک ’’عظیم قومی برتری‘‘ بھی حاصل ہے۔اس آرٹیکل کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی جب فرانس کے محنت کش طبقے نے جدید دور کی سب سے بے مثال عوامی تحریک کے ذریعے دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا۔ 

حقیقت تو یہ ہے کہ سرمائے کے پالیسی ساز مئی 1968ء کے واقعات کی پیش بینی کرنے میں ناکام رہے تھے۔ لیکن سٹالنسٹ اور اصلاح پسند قیادت تو اس سے بھی زیادہ کوتاہ نظر نکلی۔ انہوں نے اس تحریک کو پٹری سے اتارنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، جس کی تیاری میں انہوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ 

فرانس میں بکثرت پائے جانے والے نیم مارکسی فرقوں کے حالات تو سب سے برے تھے۔ یہ دانش ور خواتین و حضرات (جن میں زیادہ تر نے دہائیاں مسلح جدوجہد اور سرکشی وغیرہ کی بحثوں میں گزاری تھیں) نہ صرف اس عوامی تحریک کی پیش بینی کرنے میں بالکل ناکام رہے بلکہ انہوں نے سختی سے ایسے کسی بھی امکان کو رد کر دیا۔ چلیں ہم ان کے صف اول کے ’’نظریہ دان‘‘ آندرے گورز کی مثال لے لیتے ہیں۔ اس شخص نے ایک آرٹیکل لکھا (جو ستم ظریفی سے تحریک کے عین وسط میں شائع ہوا) جس میں اس نے کہا کہ،’’مستقبل قریب میں یورپی سرمایہ داری کا کوئی ایسا ڈرامائی بحران نظر نہیں آتا جو محنت کشوں کی اکثریت کو انقلابی ہڑتالوں اور مسلح بغاوتوں کی جانب دھکیل دے۔‘‘ (آندرے گورز، اصلاح اور انقلاب، سوشلسٹ رجسٹر 1968ء)

گورز اپنی کوتاہ بینی میں اکیلا نہیں تھا۔ ارنسٹ مینڈل نے ان عظیم واقعات سے محض ایک ماہ پہلے لندن میں ایک میٹنگ سے خطاب کیا۔ اپنے لیکچر میں اس نے دنیا کی ہر چیز کے متعلق بات کی لیکن فرانس میں محنت کش طبقے کی صورتحال کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔ جب ہمارے ایک کامریڈ نے اس تضاد کی جانب نشاندہی کی تو اس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ فرانس میں اگلے بیس سال تک محنت کشوں کی کوئی تحریک نہیں اٹھے گی۔ 

مئی میں تحریک کے دوران یونیورسٹیوں پر طلبہ کا قبضہ تھا۔ مرکزی احاطے میں بہت سارے سٹال لگے تھے جہاں بائیں بازو کے تمام گروپوں کے جرائد دیکھے جا سکتے تھے۔ وہ سب ماہانہ جریدے تھے اور کسی کے پاس ہڑتال کے آغاز کے بعد نیا ایڈیشن شائع کرنے کا وقت نہیں تھا۔ کسی استثنا کے بغیر تمام تحریروں کے صفحہ اول پر ویت نام، بولیویا، کیوبا، چی گویرا، ماؤزے تنگ، غرض یہ کہ فرانسیسی محنت کش طبقے کے سوا دنیا کی ہر چیز کا ذکر تھا!

ان تمام رجحانات میں سے کسی کو بھی تحریک کی توقع نہیں تھی کیونکہ یہ سب ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے محنت کشوں سے مایوس ہو چکے تھے اور اسے ’’کرپٹ‘‘ اور ’’سرمایہ دار نما‘‘ سمجھتے تھے۔ بدقسمتی سے ہمارے پاس فرانس میں اس وقت کوئی گروپ موجود نہیں تھا جو ان واقعات میں مداخلت کر سکتا۔ 1968ء کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ ایک دفعہ جب محنت کش طبقہ حرکت میں آ جائے تو پھر ایک انقلابی تنظیم بنانے کیلئے بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس تنظیم کی تعمیر عظیم واقعات کے آغاز سے پہلے ہی کی جا سکتی ہے۔

1968ء ایک انقلاب تھا

یہ صرف کسانوں کے غائب ہو جانے کا ہی سوال نہیں ہے ۔ صنعتی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ پرولتاریہ بذات خود 1930ء کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مضبوط ہے۔1931ء میں بھی تقریباً دو تہائی کے قریب صنعتیں اجرتی مزدوروں کا استعمال نہیں کرتی تھیں اور مزید ایک تہائی صنعتوں میں دس سے بھی کم مزدور کام کرتے تھے۔ صرف 0.5فیصد صنعتوں میں سو سے زیادہ مزدور کام کرتے تھے۔ اس بنیادی تبدیلی کا اظہار 1968ء میں رینالٹ جیسی بڑی فیکٹریوں کے محنت کشوں کی جانب سے ادا کئے گئے مرکزی کردار سے ہوتا ہے۔ اس بڑی فیکٹری میں دس ہزار پانچ سو مزدور کام کرتے تھے جن میں سے کم از کم پانچ ہزار روزانہ ہونے والی فیکٹری میٹینگز میں شریک ہوتے تھے۔

1936ء میں جب طبقاتی قوتوں کا توازن کہیں کم موزوں تھا اور صورتحال سیاسی طور پر 1968ء سے کہیں پسماندہ تھی، تب بھی ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کسی خاص مزاحمت کا سامنا کئے بغیر اقتدار پر قبضہ کر سکتی تھی:

’’اگر لیون بلم کی پارٹی واقعی سوشلسٹ ہوتی تو وہ عام ہڑتال کی بنیاد پر نہایت تھوڑی قربانیوں اور تقریباً خانہ جنگی کے بغیر جون میں ہی بورژوازی کا تختہ الٹ سکتی تھی۔ لیکن بلم کی پارٹی ایک بورژوا پارٹی ہے اور گلے سڑے ریڈیکل ازم کی چھوٹی بہن ہے۔‘‘ (لیون ٹراٹسکی، فرانس پر،صفحہ نمبر 178)

1968ء میں طبقاتی قوتوں کا توازن کہیں زیادہ موزوں تھا۔ ایک پرامن تبدیلی ممکن تھی اگر کمیونسٹ پارٹی کی قیادت ویسا ہی کرتی جیسا کہ مارکس وادیوں کو کرنا چاہیئے۔ اس امر پر زور دینا ضروری ہے لیکن ساتھ میں یہ بتانا بھی نہایت اہم ہے کہ نہایت ہی موزوں معروضی حالات میں بھی اقتدار پر قبضہ کرنے سے انکار کرنے والے سٹالنسٹوں کی غداری کی قیمت فرانس کے محنت کشوں کو مستقبل میں ایک خانہ جنگی کی صورت میں ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔

مئی کے واقعات ایک عام ہڑتال سے کہیں بڑھ کر تھے۔ یہ ایک انقلاب تھا جس کے ساتھ سٹالنسٹوں نے غداری کی۔ جو کوئی بھی یہ سمجھنے سے قاصرہے وہ درحقیقت کچھ بھی نہیں سمجھتا۔ پرولتاریہ کا ہر حصہ جدوجہد میں شامل تھا۔ تحریک کی وسعت، پھیلاؤ اور شدت فرانسیسی محنت کش طبقے کی بہترین انقلابی روایات سے مطابقت رکھتی تھی۔ اور یہ سب کچھ سوشلسٹ پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی رہنمائی کے بغیر ہوا تھا۔ 

انقلاب کیا ہوتا ہے؟ ٹراٹسکی وضاحت کرتا ہے کہ انقلاب ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جب عام طور پر بیگانگی کے شکار مرد و زن کی بھاری اکثریت سماجی زندگی میں براہ راست حصہ لینا شروع کر دیتی ہے۔ جب وہ اپنی طاقت کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں اور اپنے مقدر کو اپنے ہاتھوں میں لینے لگتے ہیں۔ یہی انقلاب ہوتا ہے اور یہی سب کچھ 1968ء میں فرانس میں ایک وسیع پیمانے پر ہوا تھا۔ 

طبقاتی قوتوں کے توازن کا اظہار محض تجریدی اعدا دوشمار کی صورت میں نہیں بلکہ سڑکوں اور فیکٹریوں میں حقیقی قوتوں کی صورت میں ہوا تھا۔ فرانسیسی محنت کش اپنے ہاتھوں میں موجود بے پناہ طاقت کا ادراک حاصل کر گئے تھے۔جدوجہد کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد محنت کشوں نے ایسے اقدامات کرنے شروع کئے جو کہ ایک عمومی ہڑتال کی حدود سے کہیں باہر تھے۔ ناشرین اور صحافیوں نے پریس پر ایک طرح سے مزدوروں کا کنٹرول قائم کر دیا۔ بورژوا اخبارات کو چھاپنے سے پہلے اپنے اداریوں کی جانچ پڑتال کروانی پڑتی تھی۔ اس کے علاوہ وہ ورکر کمیٹیوں کے اعلامیے چھاپنے کے پابند تھے۔ ڈیگال کا ریفرنڈم کروانے کا منصوبہ محنت کش طبقے نے ناکام بنا دیا۔ وہ چھاپہ خانوں کے مزدوروں کی ہڑتال کی وجہ سے ریفرنڈم کیلئے بیلٹ پیپر تک نہ چھپوا سکا۔ طبقاتی قوتوں کا توازن محض سماج کے مختلف طبقات کی عددی قوتوں کا سوال نہیں ہوتا۔ ایک مرتبہ جب پرولتاریہ فیصلہ کن انداز میں جدوجہد کے میدان میں اترتا ہے اور پورے سماج میں اپنی طاقت کا لوہا منواتا ہے تو بینکوں اور اجارہ داریوں کے ہاتھوں شدید استحصال کا شکار ہونے والے کسانوں اور چھوٹے تاجروں کی اکثریت اس کی جانب کھچی چلی آتی ہے۔ 1968ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔

ورکرز نے نانٹ نامی شہر میں تیل کی سپلائی کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ شہر کے واحد چالو پیٹرول پمپ پر پکٹ لگا دی گئی اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ پیٹرول صرف ڈاکٹروں کو دیا جائے۔ گردونواح کی کسان تنظیموں کے ساتھ رابطے میں آ کر اشیا خوردونوش کی سپلائی کا بندوبست کیا گیاجن کی قیمتوں کا تعین مزدور وں اور کسانوں پر مشتمل کمیٹیاں کرتی تھیں۔ دودھ کا ایک لیٹر 80کے بجائے 50سینٹائم، ایک کلو آلو 70 کے بجائے 12سینٹائم اور ایک کلو گاجریں 80 کے بجائے 50 سینٹائم میں فروخت کی جا رہی تھیں(ایک فرانسیسی فرانک میں سو سینٹائم ہوتے ہیں)۔ 

کیونکہ سکول بند تھے، لہذا اساتذہ اور طلبہ نے ہڑتالیوں کے بچوں کیلئے نرسریوں، پلے گروپس اور مفت کھانوں کا بندوبست کیا۔ ہڑتالی محنت کشوں کی بیویوں پر مشتمل کمیٹیوں نے خوراک کی سپلائی کو منظم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ صرف طلبہ ہی نہیں بلکہ پیشہ ور پرتیں بھی انقلاب کے جراثیم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ ماہرین فلکیات نے ایک رصد گاہ پر قبضہ کر لیا۔ ایک جوہری ریسرچ سنٹر پر ہڑتال ہوئی جہاں کے دس ہزار ملازمین کی بھاری اکثریت سائنس دانوں، انجینئرز اور ٹیکنیشنز پر مشتمل تھی۔ حتی کہ چرچ بھی انقلاب سے متاثر ہوا۔ لاطینی کوارٹر میں نوجوان کیتھولک عیسائیوں نے چرچ پر قبضہ کر لیا اور مطالبہ کیا کہ مذہبی اجتماع کے بجائے ایک مباحثہ کرایا جائے۔

’’مضبوط ریاست‘‘ کا مفروضہ

حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے فرانسیسی حکومت کی منصوبہ بندی ویسی ہی تھی جیسی ماضی میں انقلاب کا سامنا کرنے والے ہر حکمران طبقے کی رہی ہے۔ فروری 1917ء سے پہلے زار نکولس دوئم کی حکومت کے پاس بھی عوام کو قابو میں رکھنے کیلئے مختلف فوجی منصوبوں کی کمی نہیں تھی۔ لیکن وقت آنے پر ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا ایک بالکل مختلف معاملہ ہے۔ انقلابی واقعات کے گزر جانے کے بعد ’’حکومت کے پاس بہت سارے منصوبے تھے‘‘ جیسے جملوں کو دہراتے رہنے سے ہمیں کچھ بھی نہیں پتہ چلتا۔ فرانس سمیت تمام سماجوں میں حکمران طبقے کے پاس ایسی منصوبہ بندی کا موجود نہ ہونا یقیناً حیرت انگیز ہو گا۔ انقلاب میں فیصلہ کن کردار حکومتی منصوبوں کا نہیں بلکہ سماج میں طبقاتی قوتوں کے حقیقی توازن کا ہوتا ہے۔ ڈیگال ایک سمجھدار بورژوا لیڈر ہونے کی وجہ سے حقیقی صورتحال کو سمجھتا تھا(اگرچہ شروع میں اس نے بھی حالات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ باقیوں کی طرح وہ بھی فرانسیسی محنت کشوں سے تحریک کی توقع نہیں کر رہا تھا)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک نے حکمران طبقے کو بے خبری کی حالت میں دبوچ لیاجیسا کہ فرانسیسی وزیر اعظم پومپیڈو اپنی یادداشتوں میں اعتراف کرتا ہے:

’’بحران ہماری توقعات سے کہیں زیادہ گہرا اور سنجیدہ تھا۔ حکومت کو یا تو ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرنا پڑتا یا اس کا تختہ الٹ دیا جاتا۔ لیکن ایک بات طے تھی کہ حکومت کو کابینہ میں چند تبدیلیاں کر کے نہیں بچایا جا سکتا تھا۔ یہ صرف میری وزارت عظمی کا سوال نہیں تھا بلکہ جنرل چارلس ڈیگال، پانچویں جمہوریہ اور خاصی حد تک بذات خود جمہوری طرز حکمرانی کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا۔‘‘

پومپیڈو کا کیا مطلب ہے جب وہ یہ کہتا ہے کہ ’’جمہوری طرز حکمرانی خطرے میں تھی؟‘‘درحقیقت وہ یہ کہہ رہا ہے کہ سرمایہ دار ریاست خطرے میں تھی اور وہ بالکل درست کہہ رہا تھا۔ طلبہ اور مزدور متحد ہو رہے تھے اور صورتحال یہاں تک جا پہنچی تھی کہ خوف کے مارے صدارتی محل خالی کرا لیا گیا تھا۔ 

یہ درست ہے کہ ابتدا میں ڈیگال نے صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے سٹالنسٹ قیادت پر بھروسہ کیا۔ اس نے اپنے نیول اے ڈی سی، فرانسوا فلوہک سے کہا،’’پریشان مت ہو فلوہک، کمیونسٹ ان (عوام) کو قابو میں رکھیں گے۔‘‘ ان الفاظ سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ وہی حقیقت جو ہم ہمیشہ سے بیان کرتے آ رہے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اصلاح پسند اور سٹالنسٹ مزدور قیادت کی حمایت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ حمایت حکمران طبقے کیلئے لاتعداد ٹینکوں اور پولیس والوں سے زیادہ اہم ہے۔ سمجھدار بورژوا لیڈر ہونے کی وجہ سے ڈیگال یہ سب بخوبی سمجھتا تھا۔ لیکن ایک انقلاب کا جوہر یہ ہوتا ہے کہ عوام واقعات میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ڈیگال کی خود اعتمادی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔ پیرس میں تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اسے رومانیہ کا صدارتی دورہ مختصر کر کے فوراً واپس فرانس آنا پڑا۔ چارلس ولیم، ڈیگال کی سوانح عمری میں اس عرصے میں ڈیگال کی ذہنی کیفیت کے متعلق لکھتا ہے:

’’رومانیہ سے واپسی پر فرانس کی صورتحال دیکھ کر جنرل بری طرح ہل کر رہ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ سب کچھ اس کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا۔24 مئی کا صدارتی خطاب بری طرح سے فلاپ ہو گیا۔ خطاب میں جنرل خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے کہا کہ یہ ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ قانون پر عملداری کو یقینی بنائے لیکن نہ اس کی آواز میں وہ پہلے والی گھن گرج تھی اور نہ ہی الفاظ میں پہلے والا اعتماد۔ وہ ایک تھکا ہوا اور زخمی بوڑھا آدمی دکھائی دے رہا تھا۔یہ بات وہ خود بھی جانتا تھا۔ اس نے پومپیڈو سے کہا کہ ’میں صحیح طرح سے بات نہیں رکھ سکا۔‘ جواب میں پومپیڈو صرف اتنا کہہ سکا کہ ’اس سے زیادہ برا بھی ہو سکتا تھا۔‘ 25سے 28مئی تک ڈیگال ایک گہرے غم کے عالم میں رہا۔ 27مئی کو حکومتی وزرا کی ایک میٹنگ کے شرکا نے محسوس کیا کہ اگرچہ جنرل میٹنگ کی صدارت کر رہا ہے لیکن اس کے دل و دماغ کہیں اور ہیں۔ اس کی نظریں اپنے وزرا پر تھیں لیکن وہ انہیں دیکھ نہیں رہا تھا۔ اس کے بازو میز پر بے جان پڑے تھے۔ اس کے کندھے جھکے ہوئے تھے اور وہ اپنے گرد و نواح سے بالکل بے نیاز نظر آ رہا تھا۔‘‘

ایک ہمدردانہ سوانح عمری کے یہ جملے مکمل بے سمتی، گھبراہٹ اور حواس باختگی کی منظر کشی کرتے ہیں۔ وہی ڈیگال جسے ’’ان(عوام) کو قابو میں رکھنے کیلئے‘‘ کمیونسٹوں کی صلاحیت پر مکمل بھروسہ تھااب امریکی سفیر کو کہہ رہا تھا کہ ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔‘‘ کیوں؟ اس لئے کہ ڈیگال انقلابی تحریک کے پھیلاؤ اور شدت کو بھانپ گیا تھا اور اسے یقین نہیں تھا کہ وہ سٹالنسٹ قیادت کی خدمات کے باوجود حکومت کو بچا پائے گا۔

تضادات

فرانسیسی حکمران طبقے کے پاس ابھی بھی جبر کی انتہائی طاقتور مشینری موجود تھی۔ مختلف اقسام کے تقریباً ایک لاکھ چوالیس ہزار پولیس والے جن میں تیرہ ہزار پانچ سو بدنام زمانہ سی آر ایس پولیس بھی شامل تھی۔ دو لاکھ ساٹھ ہزار فوجی جو فرانس اور جرمنی میں تعینات تھے۔ اگر کوئی اس صورتحال کو خالصتاً ایک مقداری حوالے سے دیکھے تو پھر ایک پرامن تبدیلی تو دور کی بات، فرانس سمیت کسی بھی سماج میں انقلاب کرنا ناممکن ہی نظر آتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے تو تاریخ میں کبھی بھی کسی انقلاب کو کامیاب نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ لیکن اس سوال کو ایسے نہیں پیش کیا جا سکتا۔ 

ہر انقلاب میں محکوم طبقے کو تشدد، خون ریزی اور ’’خانہ جنگی کی ناگزیریت‘‘ جیسی باتوں سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کرنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اکتوبر 1917ء میں کامینیف اور زینوویف بھی ایسی ہی باتیں کر رہے تھے:

’’بالشویک پارٹی کی صفوں میں موجود سرکشی کے مخالفین کے پاس مایوس کن نتائج اخذ کرنے کیلئے اچھا خاصہ مواد موجود تھا۔ زینوویف اور کامینیف دشمن کی قوتوں کو کم تر سمجھنے کے خلاف خبردار کر رہے تھے۔ پیٹروگراڈ فیصلہ کرے گا اور پیٹروگراڈ میں دشمن کے پاس اچھی خاصی قوتیں موجود ہیں: پانچ ہزار جنکرزجو مسلح ہیں اور لڑنا بھی جانتے ہیں، اور پھر فوج کا ہیڈکوارٹر، اور پھر طوفانی دستے، اورپھر کوساک، اور پھرگیریژن کا ایک قابل ذکر حصہ اور پھر پیٹرو گراڈ کے گرد پھیلا ہوا دشمن کا توپ خانہ۔ اس کے علاوہ دشمن، سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کی مدد سے فرنٹ سے بھی فوج طلب کرنے کی کوشش کرے گا۔۔۔‘‘

اور ٹراٹسکی ان اعتراضات کا جواب ان الفاظ میں دیتا ہے:

’’یہ فہرست بہت بارعب لگتی ہے لیکن یہ محض ایک فہرست ہے۔ اگر بحیثیت مجموعی فوج سماج کی ہی ایک نقل ہوتی ہے تو پھر انقلاب کے ساتھ ساتھ فوج بھی دو حصوں میں بٹ جاتی ہے۔‘‘ (ٹراٹسکی، انقلاب روس کی تاریخ، صفحہ نمبر 1042)

ماؤ کا ایک مشہور قول ہے کہ، ’’طاقت بندوق کی نال سے برآمد ہوتی ہے۔‘‘ لیکن بندوق کو سپاہی چلاتے ہیں اور سپاہی کسی خلا میں نہیں رہتے۔ عوام کے تحرک اور طرز عمل کا ان پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ کسی بھی سماج میں پولیس عمومی طور پر فوج سے بھی زیادہ پسماندہ ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود دی ٹائمز جریدے کی 31مئی کی شہہ سرخی کے مطابق فرانسیسی پولیس میں ’’بھرپور بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔‘‘’’وہ اپنی جانب حکومتی رویے سے غیر مطمئن تھے۔‘‘ آگے چل کر آرٹیکل لکھتا ہے کہ: ’’طلبا کی سرگرمیوں سے متعلق انٹیلی جنس رکھنے کی ذمہ دار برانچ جان بوجھ کر حکومت سے طلبا قیادت کے متعلق معلومات چھپا رہی ہے۔‘‘’’یہ عدم اطمینان پچھلے چند دنوں میں پیرس پولیس کی سستی کی سب سے اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ پچھلے ہفتے کئی پولیس اسٹیشنز پر تعینات نفری نے چوراہوں پر ڈیوٹی دینے سے صاف انکار کر دیا۔‘‘ (دی ٹائمز 31/05/1968)۔

13مئی کو 80فیصد پولیس والوں کی نمائندہ پولیس یونین نے اپنے ایک اعلامیے میں کہا:

’’ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم کا بیان یہ تسلیم کرتا ہے کہ طلبا برحق تھے اور ساتھ میں یہ بیان پولیس فورس کی جانب سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کی ذمہ داری لینے سے بھی مکمل انکار کرتا ہے جن کے احکامات خود حکومت نے جاری کئے تھے۔ ایسی صورتحال ہمارے لئے حیران کن ہے کہ طلبا کے ساتھ معنی خیز مذاکرات کا آغاز افسوس ناک تصادم ہونے سے قبل کیوں نہیں کیا گیا۔‘‘

اگر پولیس کی یہ صورتحال تھی تو پھر فوج کے عام سپاہی پر انقلاب کا اثر اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہوا تھا۔ خبروں پر قدغن کے باوجود مسلح افواج میں ہیجان اور حتی کہ بحریہ میں ایک بغاوت کی رپورٹیں منظر عام پر آ رہی تھیں۔ ایک طیارہ بردار بحری جہاز جو ایک جوہری تجربے کیلئے بحرالکاہل جا رہا تھا، اچانک کسی ظاہری وجہ کے بغیر واپس آ گیا۔ اطلاعات کے مطابق بحری جہاز میں بغاوت ہو گئی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ کئی ملاح ’’سمندر میں ڈوب‘‘ گئے ہیں (اس واقعے کی ایک تفصیلی رپورٹ 14جون کو ایکشن نامی جریدے میں شائع ہوئی تھی لیکن اسے حکام نے فوراً ضبط کر لیا تھا)۔

سٹراسبرگ کے قریب متزک میں تعینات میکانائزڈ انفنٹری رجمنٹ کے فوجیوں کی جانب سے ایک لیف لیٹ شائع کیا گیا جو نشاندہی کرتا ہے کہ فوج کے کئی حصے عوام کے انقلابی مزاج سے متاثر ہو رہے تھے:

’’تمام فوجیوں کی طرح ہم بھی بیرکوں تک محدود ہیں جہاں ہمیں بطور جابر قوت واقعات میں مداخلت کرنے کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ لیکن مزدوروں اور نوجوانوں کو یہ پتہ ہونا چاہیئے کہ اس دستے کے سپاہی کبھی بھی محنت کشوں پر گولی نہیں چلائیں گے۔ سپاہیوں کی ایکشن کمیٹی فوج کی جانب سے فیکٹریوں کا محاصرہ کرنے کی ہر قیمت پر مخالفت کرے گی۔کل، یا پھر شاید پرسوں، ہمیں ایک اسلحہ ساز فیکٹری کا محاصرہ کرنے کیلئے بھیجا جائے گاجس میں کام کرنے والے 300 مزدور اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سب (سپاہی اور ورکر) آپس میں گھل مل جائیں گے۔رجمنٹ کے سپاہیو، اپنی کمیٹیاں تشکیل دو!‘‘

ایسے لیف لیٹ کا اجرا سپاہیوں میں موجود سب سے انقلابی عناصر کا کام تھا اور یہ یقیناًایک غیر معمولی مثال تھی۔ لیکن ایسے عظیم انقلاب کے دوران عام سپاہیوں کا انقلابی جراثیم سے متاثر ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سرمایہ داری کے عالمی اور فرانسیسی پالیسی سازوں کو اس بات پر کوئی شک نہیں تھا۔ افراتفری کے عالم میں ڈیگال اچانک غائب ہو جاتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ ڈیگال ،جنرل ماسو سے مشورہ کرنے جرمنی گیا ہے۔ یہ جاننے کیلئے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ اس نے کیا پوچھا ہو گا:’’کیا ہم فوج پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟‘‘ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب تحریری شکل میں موجود نہیں ہے۔ دی ٹائمز نے اپنے نمائندے کو فرانسیسی فوجیوں کے انٹرویو کیلئے جرمنی بھیجا۔ ان سپاہیوں میں سے زیادہ تر محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں سے ایک سے جب مزدوروں پر گولی چلانے سے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے کہا:’’کبھی نہیں! میرے خیال میں ان کا طریقہ کار ذرا سخت ہے لیکن میں خود ایک مزدور کا بیٹا ہوں۔‘‘

اپنے اداریے میں دی ٹائمز نے سب سے اہم سوال پوچھا: ’’کیا ڈیگال فوج کو استعمال کر سکتا ہے؟‘‘ اور پھر خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ شاید وہ ایک مرتبہ ایسا کر سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک خونی تصادم فوج کو ٹکڑوں میں توڑ دے گا۔ یہ عالمی سرمائے کے سب سے سمجھدار پالیسی سازوں کا تجزیہ تھا اور ہماری نظر میں اس موقع پر ان کے الفاظ پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔

ڈیگال کو کس نے بچایا؟

یہ ہرگز پولیس اور فوج نہیں تھی جس نے فرانسیسی سرمایہ داری کو بچایا۔ یہ کام سٹالنسٹ اور اصلاح پسند قیادت کی بھیانک غداری نے کیا۔ یہ صرف ہمارا کوئی موضوعی نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے ثبوت ہمیں مختلف ذرائع ،حتی کہ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا سے بھی ملتے ہیں جو کہ مئی 1968ء میں لکھتا ہے:

’’بحران کو قابو کرنا تو دور کی بات، ڈیگال تو اس کی نوعیت کو بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ بہرحال، کمیونسٹ اور ٹریڈ یونین قیادتوں نے اس کو سانس درست کرنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں (قیادت) نے تحریک کے مزید پھیلاؤ کی مخالفت کی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے تحریک کی قیادت ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔‘‘

محنت کشوں کو اقتدار پر قبضہ نہ کرنے کیلئے سٹالنسٹ لیڈر کیسے قائل کر رہے تھے؟ وہ یہ دلیل دیتے تھے کہ ریاست بہت مضبوط ہے، لہذا خانہ جنگی اور تشدد ہو گا۔ کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل والڈک روشے کے مطابق:

’’درحقیقت، مئی میں ہمارے سامنے دو راستے تھے:یا تو ایسا طرز عمل اختیار کیا جائے کہ ہڑتال کے نتیجے میں محنت کشوں کی بنیادی مانگیں پوری ہو جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر آئینی ذرائع سے اہم جمہوری اصلاحات کروانے کیلئے پالیسی بنائی جائے۔ یہ ہماری پارٹی کی پوزیشن تھی۔یا پھر طاقت کو آزمایا جائے ، دوسرے الفاظ میں سرکشی کی جانب بڑھا جائے۔اس کیلئے مسلح جدوجہد کرنی پڑے گی جس کا مقصد بزور طاقت حکومت کا تختہ الٹنا ہو گا۔ یہ بائیں بازو کے بعض انتہا پسند گروہوں کی مہم جو یانہ پوزیشن تھی۔‘‘

ذرا دیکھیے ، یہ سٹالنسٹ لیڈر عوام کے خوف سے کس طرح کھیل رہا ہے۔ ہر جگہ کی مزدور افسر شاہی کی طرح اسے بخوبی پتہ ہے کہ بہت سے مزدور تشدد اور خون ریزی کے امکان سے خوفزدہ ہو تے ہیں۔ یہ حقیقت انتہائی بائیں بازو کے فرقوں کیلئے ایک بند کتاب جیسی ہے جو فوراً بورژوازی اور افسر شاہی کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ ایک اہم وجہ ہے کہ وہ کبھی ایک ہزار سال میں بھی عوام کو نہیں جیت سکتے۔ ریڈیکل لفاظی الٹرا لیفٹ کا طرہ امتیاز ہوتی ہے، درحقیقت محنت کش طبقے پر ان کے عدم اعتماد، ’’مضبوط ریاست‘‘ پر ان توہماتی یقین اور محنت کش طبقے میں کام کرنے کی ان کی نامیاتی نااہلیت کی غمازی کرتی ہے۔

ایسی صورتحال میں ایک حقیقی مارکسی رجحا ن کا کیا طرز عمل ہوتا؟ کیا وہ بس آنکھیں بند کر کے سرکشی اور خانہ جنگی کی نعرے بازی کرتے رہتے جیسا کہ انتہائی بائیں بازو کے فرقے کرتے ہیں؟ یہ سب پیٹی بورژوا انتہائی بائیں بازو کی سیاسی نابالغی اور مہم جوئی کا جوہر ہے جو ہمیشہ دائیں بازو کے مفاد میں جاتا ہے۔ لیکن مارکس وادی ویسا ہی کرتے ہیں جیسا لینن نے کیا تھا۔ وہ انقلاب سے پہلے کے طویل عرصے میں کمیونسٹ پارٹی، ینگ کمیونسٹ لیگ اور ٹریڈ یونینوں میں منظم کام کے ذریعے زیادہ شعور یافتہ پرتوں کی حمایت حاصل کرتے۔ مئی کے واقعات کے دوران مارکس وادیوں کا مرکزی نعرہ جدوجہد کی رہنمائی کیلئے منتخب کمیٹیوں کا قیام اور پھر ان کو مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر منظم کرنے کے متعلق ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کمیونسٹ پارٹی سے اقتدار پر قبضہ کر کے، سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے سماج کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتے۔

کیا یہ سب پرامن طریقے سے کیا جا سکتا تھا؟ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ ٹراٹسکی نے 1936ء میں کہا تھا کہ سوشلسٹ قیادت باآسانی حکمران طبقے کی مزاحمت کا خاتمہ کر سکتی تھی۔ ایسی صورتحال میں وہ کیا کہتا جو 1936ء سے ایک ہزار گنا زیادہ موزوں تھی؟ والڈک روشے جیسے لوگوں کو، جو اپنی تقریروں میں ورکرز کو خون ریزی اور خانہ جنگی سے ڈرا رہے تھے، جواب دیتے ہوئے ہم لینن (1917ء)اور ٹراٹسکی (1936ء) کی طرح نشاندہی کرتے کہ اصلاح پسند اور سٹالنسٹ لیبر قیادت عوام کی بھاری حمایت کے ساتھ ،کسی بھی خانہ جنگی کے بغیر، اقتدار پر قبضہ کر سکتی ہے اور یہی تشدد سے بچاؤ کا واحد طریقہ کار ہے۔ اور یہ بات فرانس پر 1917ء کے روس کی نسبت کئی لاکھ گنا زیادہ صادق آتی ہے۔ یہی انقلاب کیلئے محنت کشوں کی حمایت جیتنے اور سٹالنسٹ قیادت کو شکست دینے کا واحد طریقہ تھا نہ کہ فرقوں کی الٹرا لیفٹ چیخ وپکار۔ 

دفاع اور حملہ

رسمی منطق کے نقطہ نظر سے دفاع اور حملہ دو جامد اور متضاد قطبین ہیں۔ تاہم حقیقت میں وہ اکثر ایک دوسرے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مخصوص حالات میں ایک دفاعی جدوجہد کو جارحانہ حملے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور مختلف کیفیت میں اس کے بالکل الٹ بھی ہو سکتا ہے۔ اقوام کے مابین جنگوں اور طبقاتی جنگوں میں بہت ساری مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ لیکن بہت سے عوامل مختلف بھی ہوتے ہیں۔ ایک پیشہ ور بورژوا فوج کو جنگ کیلئے دہائیوں میں تیار کیا جاتا ہے۔ جنرل سٹاف تصادم کے آغاز کی جگہ اور وقت کا چناؤ کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہاں بھی یہ ایک خالصتاًفوجی سوال نہیں ہوتا۔ کلازویٹزنے وضاحت کی تھی کہ، ’’جنگ دیگر ذرائع سے سیاست کا تسلسل ہوتی ہے۔‘‘ بورژوا حکومتوں کی فوجی حکمت عملی کا تعین بورژوازی کے طبقاتی مفادات کے تحت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس وادیوں نے ہمیشہ نشان دہی کی ہے کہ ،’’کس نے پہلے گولی چلائی؟‘‘ کا سوال ایک ثانوی حیثیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کا جنگ کے ٹھوس کردار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ 

یہ عمومی وضاحت بالکل درست ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ تصادم کے آغاز کی ذمہ داری کا سوال بالکل غیر اہم ہے؟ ایسا سوچنا جنگی حکمت عملی کی مکمل نا سمجھی کی غمازی کرتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہر جنگ میں ہر حکومت جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری دشمن کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے؟ کیا یہ محض ایک حادثہ ہے؟ یا پھر ایک خواہش؟ اس کے برعکس جنگ، محض خالصتاً ایک فوجی مسئلہ نہیں ہوتی اور اس میں سیاست بھی شامل ہوتی ہے۔ جنگ کی حمایت میں رائے عامہ کو ہموار کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اور یہ صرف سیاسی سطح پر کیا جا سکتا ہے۔ اینگلز نے وضاحت کی تھی کہ جنگ میں مورال فوجی طاقت سے تین گنا زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس لئے سفارت کاری کا بنیادی فریضہ ’’رائے عامہ‘‘ کو قائل کرنا ہوتا ہے کہ ان کی فوج ’’دشمن کی ناقابل برداشت جارحیت‘‘ کے پیش نظر صرف اپنا دفاع کر رہی ہے۔ وہ حکومت، جو ایسا نہیں کرتی، وہ ایک ناقابل تلافی غلطی کرتی ہے اور اپنی جنگی کوششوں کو شدید نقصان پہنچانے کا موجب بنتی ہے۔

ایک سوشلسٹ انقلاب میں یہ کئی ہزار گنا مزید درست ہو جاتا ہے۔ حکمران طبقے کے برعکس پرولتاریہ کے پاس فوج نہیں ہوتی اور جب تک بورژوا ریاست قائم ہے ،وہ (پرولتاریہ) اس کے مقابلے کی مسلح قوت تیار نہیں کر سکتا۔ اس لئے جہاں روایتی جنگ بنیادی طور پر ایک فوجی مسئلہ ہوتی ہے جس میں سفارت کاری ایک اہم لیکن ماتحت کردار ادا کرتی ہے، وہیں سوشلسٹ انقلاب کا بنیادی فریضہ عوام اور مسلح افواج کو سیاسی طور پر جیتنا ہوتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ محنت کش طبقے کی زیادہ تر جدوجہد کا ابتدائی کردار ایک دفاعی جدوجہد کا ہوتا ہے: معیار زندگی کے دفاع کی جدوجہد، روزگار اور جمہوری حقوق کے دفاع کی جدوجہد وغیرہ۔ مخصوص حالات میں خاص کر درست قیادت کی موجودگی میں یہ دفاعی لڑائیاں ایک جارحانہ حملے، بشمول ایک عام ہڑتال کی راہ ہموار کر سکتی ہیں۔ تاہم ایک انقلاب کے دوران بھی تشدد کی تمام تر ذمہ داری حکمران طبقے کے کندھوں پر ڈالنا ضروری ہوتا ہے تاکہ عوام کو جیتا جا سکے، صرف محنت کش طبقے کو ہی نہیں بلکہ پیٹی بورژوازی کو بھی۔اس لئے یہ نہ صرف درست ہے بلکہ نہایت اہم ہے کہ ہم تحریک کو ایک دفاعی رنگ دیں۔

تاہم یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ سرکشی تو ایک جارحانہ کردار کی حامل ہوتی ہے۔ ایک عمومی تجرید کے طور پر یہ بات درست ہے۔ دانتون کہا کرتا تھا کہ سرکشی کا نعرہ ’’جرات، جرات اور مزید جرات!‘‘ ہوتا ہے۔ لیکن اس بات کا عمومی طور پر درست ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انقلابی حکمت عملی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ سچائی ہمیشہ ٹھوس ہوتی ہے۔ کسی بھی دوسری جنگ کی طرح طبقاتی جنگ میں بھی یہ تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کن حالات میں جارحانہ اور کن حالات میں ایک دفاعی پوزیشن اپنائی جائے۔ جنگ لڑنا ایک بہت سیدھا سادا معاملہ ہوتا، اگر تمام کیفیات پر ایک ہی اصول لاگو کیا جا سکتا۔ وہ جنرل، جو صرف ’’حملہ کرو‘‘ کا حکم دینا ہی جانتا ہے، بہت جلد اپنی فوج کو برباد کر دیتا ہے۔ یہ سیکھنا ضروری ہے کہ حملہ کیسے کیا جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ منظم انداز سے پسپا ہونا، داؤ پیچ کھیلنا اور غیر موزوں حالات میں تصادم سے گریز کرنا بھی آنا چاہیئے۔ بالشویزم کی پوری تاریخ ایسی ماہرانہ اور لچکدار حکمت عملی کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جس کا نچوڑ ہمیں لینن کی کتاب ’’بائیں بازو کا کمیونزم۔۔ایک طفلانہ بیماری‘‘ میں نظر آتا ہے۔ 

مسئلہ یہ تھا کہ 1917ء کے بعد، کمیونسٹ انٹرنیشنل کے پہلے پانچ سالوں میں کمیونسٹ پارٹیوں کی نوجوان اور ناتجربہ کار قیادت کے پاس بالشویزم کی تاریخ اور انقلاب روس کے اسباق کو اچھی طرح سے سمجھنے کا وقت نہیں تھا۔ انہوں نے’’ریاست اور انقلاب‘‘ اور جنگ کے دوران لینن کی دیگر تحریریں پڑھ رکھی تھیں اور وہ بورژوا ریاست کو مسمار کرنے، خانہ جنگی، اصلاح پسندی اور پارلیمانی سیاست پر تنقید اور سوشل ڈیموکریسی سے اتحاد کے ناممکن ہونے سے متعلق نعروں کو میکانکی انداز میں دہراتے رہتے تھے۔ لیکن جو انہوں نے پڑھا تھا اس میں سے انہیں ایک لفظ کی بھی سمجھ نہیں تھی۔ وہ لینن کے طریقہ کار کو نہیں سمجھتے تھے۔ 1917ء سے لے کر اپنی موت تک لینن انہیں درست کرنے کی کوششیں کرتا رہا، حتی کہ اس نے یہاں تک کہہ ڈالاکہ اگر یہ ’’لیفٹ‘‘ ہیں تو پھر میں ’’رائیٹ‘‘ ہوں۔

اس حقیقت سے آغاز کرتے ہوئے کہ کمیونسٹ پارٹیاں ابھی طبقے کی اکثریت کی حمایت نہیں رکھتیں، لینن نے متحدہ فرنٹ، عوامی تنظیموں میں صبر آزما کام اور بورژوا پارلیمانی سیاست میں شرکت سے متعلق نعرے دینے شروع کر دئیے تاکہ عوام کو سوشلسٹ انقلاب کیلئے جیتا جا سکے۔ لیکن ’’بائیں بازو والے‘‘ اس سے مطمئن نہ تھے۔ انہوں نے ’’عوام کی طرف رخ کرنے‘‘ سے متعلق لینن کی نصیحت کو یہ سوچ کر حقارت سے رد کر دیا کہ ایک انقلابی پارٹی کی پالیسی صرف ’’انقلابی حملہ‘‘ ہونی چاہیئے۔ 

لینن اور ٹراٹسکی نے ان ’’نظریات‘‘ کے خلاف ہمیشہ لڑائی لڑی، جیسا کہ ان سے پہلے مارکس اور اینگلز نے لڑی تھی۔ بظاہر بہت زیادہ ’’انقلابی‘‘ نظر آنے کے باوجود اس طریقہ کار کا بالشویزم کے حقیقی طریقہ کار سے کوئی تعلق نہیں جس کا یہ محض ایک مسخ شدہ خاکہ ہے۔ انقلاب روس کی تاریخ سے سرسری آگاہی بھی یہ سب بتانے کیلئے کافی ہے۔ 1917ء میں لینن اور ٹراٹسکی کے مابین سرکشی کی تاریخ کے متعلق اختلاف رائے تھا۔ لینن ستمبر میں ہی اقتدار پر قبضہ چاہتا تھا جبکہ ٹراٹسکی سرکشی کو سوویتوں کی کانگریس تک ملتوی کرنا چاہتا تھا۔ ٹراٹسکی ایسا کیوں چاہتا تھا؟ کیا اس میں جرات کی کمی تھی؟ ہر گز نہیں۔ ٹراٹسکی جانتا تھا کہ ایک انقلاب میں بھی قانونی حیثیت کا سوال عوام کیلئے انتہائی اہم ہوتا ہے۔

بالشویکوں کو کانگریس میں اکثریت حاصل کرنے کا یقین تھا اور یوں وہ عوام کے سامنے ایک قانونی حیثیت کے ساتھ پیش ہو سکتے تھے۔ یہ کوئی ثانوی اہمیت کا حامل مسئلہ نہیں تھا بلکہ اقتدار کی پرامن منتقلی کیلئے انتہائی اہم تھا۔ ایک مرتبہ پھر، اہم ترین عنصر فوجی نہیں بلکہ سیاسی تھا۔ اسی لئے بالشویکوں نے اکتوبر سرکشی کو روس کو انتشار اور خانہ جنگی سے بچانے کی خاطر ایک دفاعی اقدام کے طور پر پیش کیااور یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ اگر آپ ایک جارحانہ حملہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں بھی تو تمام تر ذمہ داری دشمن پر ڈالتے ہوئے اپنے قول و فعل سے یہ ظاہر کرنا لازمی ہو تا ہے جیسے آپ محض ایک دفاعی جدوجہد کر رہے ہیں۔

ہم ایک اور مثال دیتے ہیں۔ 1918ء میں انقلاب روس کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا۔ جرمن سامراج کی فوج حملے کیلئے تیار بیٹھی تھی۔ بالشویکوں کی فوجی قوت ایک سنجیدہ مزاحمت کیلئے ناکافی تھی۔ انقلاب کی مکمل تباہی کے خوف سے لینن جرمنی کے ساتھ فوری طور پر امن معاہدہ کرنے کے حق میں تھا، چاہے اس کیلئے چند علاقوں کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑتی۔ بخارن اس وقت ایک انتہائی بائیں بازو کی پوزیشن لیتے ہوئے جرمنی کے خلاف انقلابی جنگ لڑنے کی وکالت کر رہا تھا۔ یہ پوزیشن بظاہر تو بہت ’’جراتمندانہ‘‘ لگتی تھی لیکن اس مخصوص کیفیت میں اس کا نتیجہ یقیناًانقلاب کی تباہی کی صورت میں نکلتا۔

ٹراٹسکی نے، جو بریسٹ لٹووسک میں مذاکرات کی سربراہی کر رہا تھا، جرمنی میں انقلابی تحریک کی امید میں مذاکرات کو زیادہ سے زیادہ طول دینے کی کوشش کی۔ درحقیقت کچھ ماہ بعد ایسا ہی ہوا لیکن اگر بالشویک فوری امن معاہدہ نہ کرتے تو درمیانی عرصے میں ہونے والے تباہ کن جرمن حملے سے بچنا ناممکن تھا۔ جب جرمن سامراجیوں نے حتمی الٹی میٹم دیا تو ٹراٹسکی، جس نے اب تک جرمنی اور آسٹریا میں انقلابی پروپیگنڈے کی غرض سے مذاکرات کو نہایت مہارت سے استعمال کیا تھا، نے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے مذاکرات کا خاتمہ کر دیا، اگرچہ وہ جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ ایک جرمن حملے کی صورت میں نکلے گا۔

ٹراٹسکی کی پوزیشن بخارن کی انتہائی بائیں بازو کی پوزیشن سے بالکل مختلف تھی۔ اس نے وضاحت کی کہ اس کے اس فعل کا مقصد برطانیہ اور فرانس کے محنت کشوں کو قائل کرنا تھا (جہاں کا حکمران طبقہ لینن پر جرمن ایجنٹ ہونے کا الزام لگا رہا تھا) کہ بالشویک جارحیت کا شکار ہیں اور بریسٹ لٹووسک کا معاہدہ صرف مجبوری کے تحت کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمن حملے کے آغاز کے بعد کئے گئے معاہدے کی شرائط پہلے سے بھی زیادہ سخت تھیں۔ لیکن یہاں پر بھی، ہمیشہ کی طرح ، عالمی انقلاب کا مفاد لینن اور ٹراٹسکی کا مطمع نظر تھا۔ قوتوں کا توازن ایک انقلابی حملے کے خلاف تھا۔ بالشویکوں کو ایک دفاعی پوزیشن اختیار کرنی پڑی اور انقلاب کو بچانے کی خاطر جرمن سامراج سے ایک تکلیف دہ سمجھوتا کرنا پڑا۔

بالشویکوں کو اپنی عالمگیریت پر مبنی پالیسیوں پر مکمل یقین تھا کہ دنیا بھر کے محنت کش ان کی مدد کو آئیں گے۔ بعد میں جب ٹراٹسکی سرخ فوج کی تعمیر کر رہا تھا، اس وقت بھی اسے ایسی کوئی خوش فہمی نہیں تھی کہ انقلاب کو خالصتاً فوجی ذرائع سے بچایا جا سکتا ہے۔ انقلاب کا 21 سامراجی ممالک کی فوجی مداخلت کا کامیاب مقابلہ کرنے میں بنیادی کردار برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کے محنت کشوں کی سامراج مخالف مزاحمت نے ادا کیا نہ کہ سرخ فوج کے ہیروازم نے(اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ بہت اہم تھا)۔ درحقیقت روس بھیجی جانے والی ہر سامراجی فوج کے سپاہیوں نے بغاوت کی۔ 

برطانوی وزیر اعظم لائیڈ جارج نے روس سے برطانوی فوج کے انخلا کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ(برطانوی سپاہی) ’’بالشویک زکام کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔‘‘ انقلاب کرنے میں نہیں، لیکن اس کے دفاع کیلئے سب سے اہم ہتھیار عالمگیریت پر مبنی انقلابی پالیسی تھی۔ یہ وہ ’’خفیہ ہتھیار‘‘ تھا جس نے بظاہر نہایت طاقتور نظر آنے والی فوجی قوتوں کے مقابلے میں انقلاب کی فوجی کمزوری کا مداوا کیا۔ ایک خالصتاً فوجی نقطہ نظر سے تو بالشویک نہ ہی کبھی اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے اور نہ ہی انقلاب کا دفاع۔ 

ایک انقلاب میں سپاہی ہمیشہ سماج کے عمومی موڈ سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بات خاصاً جبری طور پر بھرتی شدہ سپاہیوں کیلئے اور بھی زیادہ درست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس وادی ،پیٹی بورژوازی کے لازمی فوجی سروس کے خاتمے کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتے۔ ہم نوجوان مزدوروں کی فوجی تربیت کے حق میں ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کے ٹریڈ یونین حقوق بحال رہیں اور یہ تربیت مزدور تنظیموں کے زیر انتظام دی جائے۔ پیٹی بورژوا پالیسی کے رجعتی کردار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کئی ممالک کا حکمران طبقہ جبری بھرتی کی پالیسی کو ختم کر کے فوج کو مکمل طور پر پیشہ ور کرنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ اس میں خرچہ کہیں زیادہ ہو گا۔ 

وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیونکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ ایک مخصوص مرحلے پر سماجی دھماکوں کا ہونا ناگزیر ہے۔ ان ممالک کا حکمران طبقہ اس کی تیاری کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ ایک پیشہ ور فوج اس کے مفاد میں زیادہ بہتر رہے گی۔ در حقیقت ان کا یہ بھروسہ غلط ہے۔ جدید دور میں پیشہ ور سپاہیوں کی بھاری اکثریت محنت کش طبقے کے نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے جو بے روزگاری سے بچنے کیلئے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں۔ ان کو وحشی بنانے کی تمام تر کوششوں (جن کی ہم مذمت اور مخالفت کرتے ہیں اور سپاہیوں کو مزدور تحریک سے قریب کرنے کی خاطر ان کیلئے ٹریڈ یونین حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں)کے باوجود جب بھی محنت کش طبقے کی ایک بڑی تحریک برپا ہو گی تو وہ متاثر ہوں گے جیسا کہ 1968ء میں ہوا تھا۔

ہم اس سوال کو کیسے پیش کرتے ہیں

سماج کو تبدیل کرنے کا سوال کیسے پیش کیا جائے؟ اس کا فیصلہ صورتحال کے مطابق ہی کیا جا سکتا ہے۔ عبوری پروگرام کا یہی مطلب ہے۔ یہ زمان و مکان سے بیگانہ تجریدی فارمولوں کا نہیں بلکہ ایک ایسے پروگرام کا سوال ہے جو صورتحال کے حقیقی تقاضوں اور طبقے کے شعور کی ٹھوس کیفیت کو اپنا نکتہ آغاز بنائے۔ ایک مارکس وادی کیلئے انقلابی سیاست ایسے چند تجریدی فارمولوں کا مجموعہ نہیں ہوتی جنہیں آنکھیں بند کر کے کسی بھی صورتحال پر لاگو کیا جا سکے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہمارا کام کہیں زیادہ آسان ہو جاتا۔ ہمیں مارکسزم کی سائنس کو کسی بھی ٹھوس صورتحال پر تخلیقی انداز میں لاگو کرنے کا طریقہ آنا چاہیئے۔ صرف ایسے ہی ہم محنت کش طبقے کو اپنے نظریات پر جیت سکتے ہیں۔

تمام کامریڈوں کیلئے لازمی ہے کہ وہ مارکسزم کے ریاست کے متعلق نقطہ نظر کا تفصیلی مطالعہ کریں، صرف مارکسزم کی کلاسیکی تحریروں میں نہیں، جن کی بھرپور افادیت اپنی جگہ ہے، بلکہ پچھلی ایک صدی میں طبقاتی جدوجہد کی زندہ مثالوں میں بھی، جن کے تجربے کا نچوڑ IMT کے طریقہ کار، پروگرام، حکمت عملی اور عمومی نقطہ نظر میں سمویا ہوا ہے۔

Comments are closed.