عہدِ نو میں قومی سوال

|تحریر: پارس جان|

فوٹو: دی اکانومسٹ

امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ خود عالمی سیاست اور سفارتکاری پر سرمائے کے پالیسی سازوں کی مسلسل کمزور ہوتی ہوئی گرفت کی غمازی کرتا ہے وہیں محنت کش عوام کے شعور کی ترقی میں ایک معیاری جست کا آئینہ دار بھی ہے۔ تمام سنجیدہ بورژوا تھنک ٹینکس میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے اور عالمی قوتوں کے تمام تر اجلاسوں اور ملاقاتوں میں مجلسِ عزا کا سا ماحول دکھائی دے رہا ہے۔ کوئی بھی صورتحال کا درست تجزیہ نہیں کر پارہا اور اسے ایک نا گہانی آفت قرار دیا جا رہا ہے۔ جس بات کو سب سے زیادہ تشویشناک قرار دیا جا رہا ہے وہ نام نہاد عالمگیریت کے خاتمے کا اعلان ہے۔ اسے بجا طورپر نیو لبرل سرمایہ داری کے تابوت میں آخری کیل کہا جا رہا ہے اور ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دیا جا رہا ہے کہ ایک دفعہ پھر عالمی سیاست میں تحفظاتی اور قوم پرستانہ رجحانات کی واپسی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ طرزِ ارتقا کے موجودہ مرحلے پر اس قسم کے اندیشے کیا واقعی درست ہیں اور کیا سچ مچ ہم ایک قومی، نسلی و لسانی سیاست کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں؟ ان سب سوالات کا مارکسی نقطہ نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ایک باقاعدہ نظریاتی شکل میں قوم پرستی کے ارتقا اور اہمیت و افادیت کوتاریخی واقعات کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے ہی جدید عہد میں قومی سوال کے کردار کا تجزیہ اور تناظر کو تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

تاریخی پسِ منظر

تنگ نظرپیٹی بورژوا قوم پرستوں میں ایک رجحان خاص طور پر بہت زیادہ پایا جاتا ہے کہ ان میں سے ہر کوئی اپنی قوم، زبان اور ثقافت کو دنیا کی قدیم ترین قوم، زبان اور ثقافت تسلیم کروانے میں لگا رہتاہے۔ حالانکہ لفظ قوم کو جس معنوں میں آج برتا جاتا ہے ان معنوں میں اس کی تاریخ بہت ہی مختصر ہے۔ خاص طور پر قرونِ وسطیٰ کے دور کے یورپ میں جب تقریباً ایک ہزار پانچ سو سال تک قدامت اور رجعت کا دور دورہ رہا۔ جاگیردارانہ مطلق العنانیت نے پاپائیت کے گٹھ جوڑ کے بلبوتے پر انسانوں کی بڑی اکثریت کو نیم غلامی میں جکڑا ہو اتھا۔ جاگیردارانہ نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکا تھا اوراس کے بطن میں مشین اور بھاپ کے انجن کے انقلابی ملاپ کے باعث ایک نئے نظام کی تشکیل و ترویج کے امکانات پنپنا شروع ہو گئے تھے۔ لیکن پرانے نظام کی کوکھ میں پلنے والے اس نئے نظام کو اپنی سماجی شناخت اور فوقیت کو بروئے کار لانے کے لیے انسانی سوچ اور شعور کو مہمیز دینے کی سخت ضرورت تھی۔ جاگیردارانہ سماج نے خود ایک ایسے طبقے کو پروان چڑھایا تھا جس کی بقا اورمفادات کا خود مطلق العنان جاگیردارانہ ریاست سے ٹکراؤ ناگزیر تھا۔ یہ طبقہ بڑے تاجروں، سودخوروں اور نومولود صنعتی آلات و ذرائع پیداوار کے مالکان پر مشتمل تھا۔ ساتھ ہی جاگیرداروں کے براہِ راست استحصال کا شکار قحط زدہ کسانوں کی بھاری اکثریت تھی جو وقتاً فوقتاً عَلم بغاوت بلند کرتے رہتے تھے۔ ان میں سے بڑی تعداد کو زمینوں سے جبری بے دخلیوں کے باعث انتہائی کسمپرسی کی حالت میں شہروں کا رخ کرناپڑ رہا تھا جہاں وہ اپنی قوتِ محنت کو اسی ابھرتے ہوئے بورژوا طبقے کے پاس بیچنے پر مجبور تھے۔ مگر صنعتی پیداواری قوتوں میں اتنی بڑی تعداد میں محنت کشوں کی کھپت کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے پرانے بوسیدہ جاگیردارانہ ڈھانچے کو نیست و نابود کرتے ہوئے ایک نئے معاشی و سیاسی نظام کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت بن گئی تھی۔ ایسے میں ابھرتی ہوئی بورژوازی کو ان محنت کشوں، گھریلو دستکاروں، تاجروں اور کسانوں وغیرہ کو جاگیردارو ں اور چرچ کے خلاف متحد کرنے کے لئے کسی نئے انقلابی نظریے کی ضرورت تھی جس کے بلبوتے پر سوچ اور فکر کی فرسودگی کو چیلنج کیا جا سکتا جو لوگوں کو اطاعت اور غلامانہ فرمانبراداری کا جواز فراہم کرتی تھی۔

Liberty Leading the People – A Historical Painting by Eugene Delacroix

یہی وہ حالات تھے جن کے اندر قوم پرستی کے نظریے کا تاریخی جنم ہوا اور اس نے فکر و دانش میں ایک عقابی روح پھونک کر سماج میں انقلاب برپا کر دیا۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی کے کرام ویل اور فرانسیسی انقلابات اور امریکہ کی جنگِ آزادی کی بنیادیں ’مساوات اور آزادی‘اور ’آزاد متحدہ امریکہ‘ جیسے انقلابی نعروں پر مشتمل تھیں۔ اس سے قبل ان خطوں میں بے شمار قبائل اور چھوٹی چھوٹی دیہی آبادیاں منتشر شکل میں موجود تھیں۔ ان کو جہاں بورژوا پیداوار کے ابتدائی مرحلے میں ایک دوسرے سے جڑنے کا موقع ملا وہیں قومی تشخص کے نظریے نے ان کو ایک مربوط انقلابی کل میں تبدیل کر دیا۔ ان واقعات نے انسانی تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کیے اور دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ تاریخ کے اس مرحلے پرنیشنلزم نے ترقی پسندانہ اور انقلابی کردار ادا کیااور جدید سیکولر قومی ریاستوں کو نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔

قوم اور طبقات

قوم کا تصور شروع سے ہی ابہام اور تضادات سے لبریز تھا اور سب سے بنیادی تضاد سرمائے اور محنت کے مابین طبقاتی تضاد تھا۔ جاگیرداری کے خلاف لڑائی نومولود بورژوا اور محنت کش طبقے دونوں کے لیے بقا اور سالمیت کا مسئلہ بن کر تاریخ کے ایجنڈے پر آ گئی تھی۔ اس لیے وقتی طور پر مشترکہ جدوجہد نے قومی تشخص کو جلا بخشی لیکن اندرونِ خانہ سرمائے اور محنت کا تضاد نہ صرف یہ کہ موجود تھا بلکہ روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ برطانیہ اور فرانس دونوں ایسے ممالک تھے جہاں عملی طور پر سرمایہ دارطبقے کو انقلاب کے بعد حکمرانی ملی اور ابتدائی ایام کی داخلی کشمکش اور متروک جاگیرداری کی باقیات کے خلاف جدوجہد بیک وقت اپنا اظہار کر رہی تھیں۔ مارکس نے بجا طور پر کہا تھا کہ ’سرمایہ داری جب تاریخ کے افق پر نمودار ہوئی تو سر سے پاؤں تک اس کے پور پور سے لہو ٹپک رہا تھا‘ اور وہ لہو صرف جاگیرداری کی متعفن لاش کا ہی نہیں بلکہ نو آموز محنت کش طبقے یعنی پرولتاریہ کے شدید ترین استحصال کی نشاندہی کر رہا تھا۔ قوم کا تصور جو ’سرمایہ دار اور مزدور‘ کے مشترکہ مفادات کا علمبردار تھا وہ ایک مخصوص تاریخی مرحلے پر سماج میں طبقاتی توازن کی بالکل درست عکاسی کر رہا تھا اور صرف اور صرف اسی وجہ سے اسے اس مخصوص عہد کا سب زیادہ انقلابی نظریہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ لیکن وہ مخصوص تاریخی مرحلہ بہت قلیل المیعاد ثابت ہوا اور بورژوازی نے جاگیرداری سے نبردآزما ہوتے ہی اپنے خونی پنجوں کی آہنی گرفت کا سارا زور نامیاتی طور پر نہایت ضعیف پرولتاریہ کی گردن مروڑ کر اس کے جسم سے خون اور پسینے کا ہر قطرہ نچوڑ لینے پر لگا دیا۔ اگرچہ اس وقت بھی پرولتاریہ کی آزادانہ سیاسی لڑائی کے لیے منظم ہونے کی کوششیں ہو رہی تھیں مگر بورژوازی اس کو قانونی شکل دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ پہلے یہ جدوجہد باقاعدہ ہڑتال کی شکل میں نہیں ہو سکتی تھی اور پرولتاریہ کے ابتدائی سیاسی مہم جو تقریباً زیرِ زمین غیر قانونی طور پر ہی منظم ہونے کی کوشش کرتے رہے مگر ان کو غدار قرار دیا جاتا تھا اور ’انقلاب دشمن‘ کا لیبل لگا کر سخت سزائیں اور حتیٰ کہ سزائے موت تک دی جاتی رہی۔

لیکن جوں جوں طبقاتی کشمکش شدت اختیار کرتی گئی توں توں بالخصوص برطانیہ میں صنعتی تنازعات میں بے پناہ اضافہ ہوتا گیا۔ انیسویں صدی کے آغاز سے ہی محنت کشوں کی باقاعدہ ہڑتالوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ ویونگ اور سپننگ کی صنعت اور کان کنی کی صنعت کے پرولتاریہ نے شدید مزاحمت شروع کر دی تھی۔ اس ضمن میں پہلا بڑا پرولتاریہ کا اکٹھ 1819 ء میں مانچسٹر میں نظر آیا جب سینٹ پیٹرزفیلڈ میں 60000 سے زیادہ محنت کش جمع ہو گئے۔ خوفزدہ سرمایہ داروں نے اس اجتماع کو سبوتاژ کرنے کے لیے مسلح جتھے بھیجے اور اس پر تشدد کاروائی میں 11 محنت کش ہلاک ہو گئے جبکہ 400 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ درجنوں کو گرفتار کیا گیا مگر یہ جدوجہد اس واقعے کے بعد کمزور ہونے کی بجائے شدت اختیار کر گئی۔ جب سرمایہ داروں کو اندازہ ہوا کہ اب محنت کشوں کو روکا نہیں جا سکتا تو بالآخر انہوں نے انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں کم سے کم رعایتوں کے ساتھ ٹریڈ یونین کی قانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا۔ اب محنت کشوں کے سیاسی نمائندگان کو قوم کا غدار نہیں کہا جاتا تھا لیکن قوم کے تصور کے طبقاتی کردار کا پردہ فاش ہو چکا تھا اور یہ سادہ سی حقیقت محنت کشوں نے اپنی بقا کی روزمرہ کی جدوجہد، اجرتوں وغیرہ میں اضافے کے مطالبات کے تجربات سے سیکھی تھی کہ ہر قوم میں بنیادی طور پر دو مخالف اور متحارب طبقات موجود ہوتے ہیں جن کے مفادات ہمیشہ ایک دوسرے سے متصادم ہوتے رہتے ہیں اور جلد یا بدیر ان دونوں میں فیصلہ کن معرکہ ناگزیر ہے۔

بورژوازی کی تاریخی نا اہلی

یہ تاریخی حقیقت اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ جدید سیکولر قومی ریاست کی تشکیل بورژوازی کا ایک بہت بڑا تاریخی کارنامہ تھامگر یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ کرۂ ارض کے انتہائی مختصر حصے پر ہی بورژوازی یہ تاریخی کارنامہ سر انجام دے سکی۔ یورپ اور امریکہ کے علاوہ پانچ براعظموں میں آ ج بھی نہ صرف یہ کہ جدید سیکولر قومی ریاست کی تشکیل نہیں ہو سکی بلکہ اسی چھوٹی سی جدید ’پہلی‘ دنیا کے حکمران طبقات نے سامراجیت کی شکل اختیار کر لی اور باقی دنیا کے معدنی وسائل اور محنت کا شدید ترین استحصال شروع کر دیا اور یوں خود ان پسماندہ ممالک میں جدید قومی ریاست کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے۔ یہ بورژوازی کی حکمران طبقے کے طور پر نا اہلی ہی تھی جس نے ان عظیم انقلابات کی حاصلات کو نہ صرف دنیا کے تمام خطوں تک نہیں پھیلنے دیا بلکہ خود ان جدید قوموں کی آبادی کی اکثریت کو بھی ’جدید غلاموں‘ کی ایک بڑی فوج میں تبدیل کر دیا۔ خود فرانس اور برطانیہ میں بھی بورژوازی آزادانہ طور پر یہ کار ہائے نمایاں سر انجام نہیں دے سکی تھی۔ بلکہ مڈل کلاس (جیکوبنز) اور محنت کش طبقے کی سیاسی مزاحمت کو منظم کرتے ہوئے ہی وہ جاگیردارانہ مطلق العنانیت کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہو سکی تھی۔ اس کے باوجود بھی کرام ویل اور نپولین جیسے تاریخی کردار سرمایہ دار طبقے کی ایک طبقے کے طور پر نامیاتی کمزوری کا واضح اظہار ہیں۔ پھر اس کے بعد جرمنی جیسے اہم ملک کے اندر بھی جمہوری طریقے سے سرمایہ دارانہ انقلاب مکمل نہیں کیا جا سکا بلکہ بسمارک کے جبر نے یہ ترقی پسندانہ فریضہ سر انجام دیا۔ بنیادی طور پر قومی ریاست جدید صنعت کی پیداوار کو ابتدائی مرحلے پر درکار منڈی اور اس منڈی کو بیرونی پیداوار کی رسائی سے محفوظ رکھنے کا فریضہ سر انجام دے رہی تھی۔ مگر جب بڑے پیمانے کی صنعت معرضِ وجود میں آئی تو یہی قومی ریاست کی محدود منڈی اس پیداوار کے لیے ناکافی محسوس ہونے لگی تو ان ابتدائی سرمایہ دارانہ ریاستوں کے حکمرانوں نے جدید نو آبادیات کو جنم دیا اور باقی ساری دنیا کو اپنا غلام بنا لیا۔

اہم بات یہ ہے کہ سرمایہ داری میں یہ صلاحیت کبھی بھی نہیں تھی کہ وہ قومی مسئلے کو مکمل طور پر حل کر سکتی۔ اسی وجہ سے خود سامراجی ممالک کے آپسی تضادات نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں جیسی وحشت کو جنم دیا۔ یہ دونوں جنگیں اور ان سے پہلے، ان کے درمیانی دور اور انکے بعد کے تمام سرحدی تنازعات بھی ان سرمایہ دارانہ ممالک کے قومی مفادات کے ٹکراؤ کا ہی نتیجہ ہیں۔ اب جب سرمایہ داری اپنے فیصلہ کن نامیاتی بحران کی دلدل میں غرق ہونے لگی ہے تو جہاں جہاں قومی مسئلہ نسبتاً حل ہو گیا تھا وہاں بھی یہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے تو بورژوا تجزیہ نگار اپنی تاریخی طبقاتی نا اہلی کو چھپانے کے لیے خود اسی نظریے کو کوس پیٹ رہے ہیں جس کے بلبوتے پر انہوں نے عظیم سرمایہ دارانہ انقلاب برپا کیا تھا۔ آج کے نیو لبرل سرمایہ دار خود قوم پرستی کے آسیب سے خوفزدہ ہیں اور وہ ’مہذب‘یا ’شہری‘ (Civic) نیشنلزم اور ’غیر مہذب‘ یا ’نسلی‘ (Ethnic) نیشنلزم کی اصطلاحات استعمال کر رہے ہیں۔ بورژوازی کے سب سے سنجیدہ جریدے اکانومسٹ کی ٹرمپ کی کامیابی کے بعد پہلی اشاعت کا سرورق نیشنلزم پر ہی ہے۔ اس میں ایک مضمون ’نئی قوم پرستی‘ میں لکھتا ہے کہ ’’قوم پرستی ایک بہت پر فریب تصور ہے یہی وجہ ہے کہ سیاستدان اسے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے آسان راستہ سمجھتے ہیں۔ اپنی معراج پر یہ ملک کو مشترکہ اقدار کی گرد ان کے گرد اقدامات کی تکمیل کے لیے جوڑتا ہے جو لوگ الگ الگ ایک دوسرے سے کٹ کر کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ ’شہری قوم پرستی‘ مصالحانہ اور ترقی پسندانہ ہے۔ یہ ’شہری قوم پرستی‘ آفاقی اقدار جیسا کہ آزادی اور مساوات پر یقین رکھتی ہے۔ اس کا ’نسلی قوم پرستی‘ کے ساتھ ٹکراؤ ہے جو متشدد، مایوس کن اور رجعتی ہے جو نسل کی بنیاد پر یا تاریخ (ماضی )کی بنیادپر خود کو ابھارتا ہے تاکہ قوم کو منفرد اور جداگانہ قرار دے سکے۔ اپنی تاریخ کے بدترین دور یعنی بیسویں صدی کے آغاز میں اسی ’نسلی قوم پرستی‘ نے پہلی عالمی جنگ کو جنم دیا تھا۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ قوم پرستی ایک بورژوا نظریہ ہے اوریہ نام نہاد شہری اور نسلی قوم پرستی سرمایہ داری کے ارتقا کے مختلف ادوار پر حکمران طبقے کے مفادات کے سیاسی اظہار کی شکلیں ہیں۔ انقلابِ فرانس کے وقت اس بورژوا نیشنلزم کے اندر ’آزادی اور مساوات‘جیسے نعروں کی آمیزش اس عظیم انقلاب میں سرمایہ دار طبقے کی نہیں بلکہ نو مولو دپرولتاریہ کی سیاسی شرکت کی وسعت اور سرائیت کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ پرولتاریہ چونکہ ابھی اتنا منظم، اتنا وسیع اور مستعد نہیں تھا کہ اپنی ریاست کو تشکیل دے سکتا، اسی وجہ سے اس نے بورژوازی کی قیادت میں قومی ریاست سے امیدیں وابستہ کیں مگر بورژوازی نے اس محنت کش طبقے سے کیا ہوا اپنا کوئی بھی وعدہ وفا نہیں کیا۔ اسی وجہ سے انقلابِ فرانس کے بعد باقی براعظم تو درکنار خود یورپ میں بھی کوئی کلاسیکل بورژوا انقلاب نہیں ہو سکا۔ اب محنت کش طبقہ کہیں پر ہی بورژوازی کی قیادت پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں تھا بلکہ اپنے آزادانہ طبقاتی تشخص کے حصول کی شعوری یا لاشعوری تگ و دو میں سرگرم تھا اور بورژوازی اپنی تاریخی نا اہلی اور خصی پن کے باعث پرولتاریہ کی سیاسی شرکت کے بغیر انقلابِ فرانس جیسے عظیم واقعے کو جرمنی یا دیگر یورپی ممالک میں دہرا نہیں سکتی تھی، اسی وجہ سے اس نام نہاد ’نسلی نیشنلزم‘ (بسمارک ) نے جنم لیا اور تاریخ کے ایجنڈے پر سرِ فہرست جو فرائض درپیش تھے انکی تکمیل ایک بھونڈے طریقے سے دیکھنے میں آئی۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اسی قسم کا قوم پرست قرار دیا جا رہا ہے۔ اب اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عروج کے دور میں جو شرحِ منافع حاصل کی تھی اسی کے بلبوتے پر ہی ’امریکی قوم پرستی‘ نے نسبتاً ’شہری قوم پرستی‘ کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا۔ بحران کے دنوں میں اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب بورژوا قوم پرستی کی حقیقی نمائندگی امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ، برطانیہ میں نائجل فراج، فرانس میں میرین لی پین، ترکی میں اردوان اور انڈیا میں مودی ہی کر سکتے ہیں۔ دوسرے معنوں میں یہ نام نہاد نیو لبرل معیشت، سیاست اور سفارتکاری کا علی الاعلان خاتمہ ہے اور اس کو تسلیم نہ کرنا کبوتر کی طرح یہ سوچ کر آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہے کہ اگر بلی نظر نہیں آ ئے گی تو وہ اسے نہیں کھا سکے گی، حقیقت میں بلی کو بہت بھوک لگی ہے۔

بریگزٹ اوریورپی یونین کا معمہ

سوویت یونین کے انہدام اور دیوارِ برلن کے گرنے اور چینی بیورو کریسی کے سرمایہ داری کی طرف ’لانگ مارچ‘ کے باعث گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں سامراجی ممالک بہت پر اعتماد تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے فیصلہ کن جنگ جیت لی تھی۔ اب نہ تو کوئی طبقاتی معرکہ آرائی ہو گی اور نہ ہی سامراجیوں کے مفادات میں کسی قسم کا باہمی ٹکراؤ ہو گا۔ اب لوٹنے کو بے پناہ وسائل تھے اوررکاوٹ کوئی بھی نہیں تھی۔ مگر یہ سامراجی اور انکے پالیسی ساز سرمایہ داری کے خمیر میں موجود تضاد کو کبھی سمجھ ہی نہیں پائے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختلف قومی ریاستوں پر مشتمل ایک معاشی اکائی یعنی یورپی یونین کی بنیاد رکھی۔ عروج کے دنوں میں تو یہ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ چین کی سستی محنت کے استحصال میں سب باہمی طور پر شریکِ کار تھے۔ جرمنی نے دو جنگوں سے جو حاصل نہیں کیا وہ یورپی یونین سے ممکن ہو گیا تھا۔ صحیح معنوں میں جرمن سامراج کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں۔ برطانوی سرمایہ داربھی یورپی یونین کو بڑے پیمانے کی برآمدات کے ذریعے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ اسی اثنا میں تقریباً تمام قومی معیشتوں پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا بڑھتا پہاڑ کی شکل اختیار کرتا گیا۔ اور پھر 2008 ء کے عالمی بحران نے عالمی معیشت کے غبارے سے ہوا نکالی تو ساتھ ہی یورپی یونین کے بطن میں موجود تضادات وقتاً فوقتاً دھماکوں کی شکل میں پھٹنا شروع ہو گئے۔ بحران کی شدت نے جس نفسا نفسی کا ماحول بنایا اس میں تحفظاتی پالیسیوں کا اجرا نا گزیر تھا۔ یہی پروٹیکشنزم بڑھتا بڑھتا جنونی نیشنلزم کی شکل اختیار کرتا گیا اور اس ضمن میں سب سے بڑا دھماکہ بریگزٹ کی شکل میں دیکھنے میں آیا۔ اگلے سال فرانس میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی قوم پرستوں کے جیتنے کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی نہ صرف فرانس بلکہ اٹلی اوردیگر یورپی ممالک میں بھی سرمایہ داروں کے لیے غیر متوقع نا خوشگوار واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ یوں پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یورپی یونین اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔

مگر اس بحران نے محض یورپی یونین کو ہی خطرات سے دوچار نہیں کیا بلکہ برطانیہ سمیت سارے یورپ میں بظاہر حل شدہ قومی مسئلے کو ایک نئے سرے سے بھڑکا دیا ہے۔ سکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے علیحدگی کے لیے کیے جانے والے ریفرینڈم میں ’Yes‘ کو پڑنے والا 48 فیصد ووٹ برطانوی حکمران طبقے کے لیے ’سرخ بتی‘ تھی۔ وفاق مخالف جذبات کا درست سیاسی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی معاشی بحران کی وجہ سے یورپ اور امریکہ کی مسلسل سکڑتی ہوئی منڈی کے باعث برطانیہ میں صنعتوں کی بڑے پیمانے پر بندش سے سکاٹ لینڈ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔ اور بیروزگاری کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح اور معیارِ زندگی میں تیز ترین گراوٹ نے نظام سے جس نفرت کو جنم دیا اسکا سیاسی اظہار درست متبادل نہ ہونے کے باعث SNP کے ابھار کی شکل میں ہوا۔ اسی طرح اسپین کے علاقے کیٹا لونیا میں قوم پرستوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثرو رسوخ اور یورپ کے تمام ممالک میں یورپی یونین کے خلاف جذبات میں شدت کی بنیادی وجوہات بھی یہی ہیں۔ بائیں بازو کے سنجیدہ متبادل دستیاب نہ ہونے، سابقہ سٹالنسٹ پارٹیوں کی نظام سے مصالحت اور روایتی پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں کے ناکارہ پن کی وجہ سے عموی شعور میں تبدیلی کا وقتی اظہار قومی جذبات کے اشتعال کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ یورپی مزدوروں کی ایک مخصوص پرت اور درمیانے طبقے کے لیے روزگار کے مواقع کم ہونے کی ذمہ داری تارکینِ وطن محنت کشوں پر ڈالنا روایتی عملیت پسندانہ طرزِ فکر کی غمازی ہے۔ لیکن وہ کیفیت جو تحفظاتی پالیسیاں اپنانے کے رجحان کو جنم دے رہی ہے یا بریگزٹ اور سکاٹ لینڈ میں علیحدگی کی تحریک اور قومی سیاست کے ابھار کا باعث بن رہی ہے وہی کیفیت طبقاتی کشمکش میں بھی شدت لا رہی ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی اس نئی کیفیت سے ہم آہنگ نہیں اور ہر جانب ایک کنفیوژن اور انتشار نظر آتا ہے۔ جہاں سکاٹ لینڈ میں SNP اور برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کی UKIP کا ابھار نظر آتا ہے وہاں لیبر پارٹی میں بھی جیرمی کاربن کی قیادت میں ایک طبقاتی جنگ بھی نظر آتی ہے جس میں لیبر پارٹی پر حاوی سرمایہ دار طبقے کے نمائندوں کو شکست ہوئی۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ برنی سینڈرز، سیاہ فاموں کی اور دیگر تحریکیں بھی نظر آتی ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اس وقت نظام کی شکستگی اور سماج کی تیز ترین ٹوٹ پھوٹ مختلف سیاسی رجحانات کو جنم دے رہی ہے جو ابھی اپنی ابتدائی شکل میں ہیں۔ لیکن ایک بات واضح طور پر کہی جا رہی ہے کہ یورپ اور بہت سے دیگر خطوں میں سنٹر رائیٹ اور سنٹر لیفٹ سیاست کا خاتمہ ہو چکا ہے اور انتہائی دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کے عہد کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایسے میں سطح پر نظر آنے والے قوم پرستانہ اور تحفظاتی سیاست کے ابھار کے پیچھے موجود عوامل جب شدت اختیار کریں گے تو خود اس رجحان میں دائیں اور بائیں بازو کی صف بندی زیادہ واضح انداز میں ہو گی اور اس وقت نظر آنے والا ابہام ٹھوس نظریاتی بنیادیں حاصل کرے گا۔

لیکن یہ سب بیک وقت منجمد عوامی شعور میں دیو ہیکل ہتھوڑے کی کاری ضرب بھی ہے۔ سیاست میں اس وقت موجود عملیت پسندی ہی آنے والے دنوں میں تارکینِ وطن مخالف تحریک کے غبارے سے ہوا نکال کر سرمایہ داری کے حقیقی طبقاتی تضاد کو عوام کی نظروں میں عیاں کرنے کا باعث بنے گی۔ اور آئندہ چند سالوں میں اس پیٹی بورژوا قومی شاونسٹ نعرے بازی کے زوال اور طبقاتی تحریکوں کے ابھار کا واضح تناظر موجود ہے۔ سرمایہ دار اس طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کے لیے جتنا زیادہ قومی شاونزم کا پرچار کریں گے اتنا ہی زیادہ عوام کے سامنے ننگے ہوتے چلے جائیں گے۔ اگرچہ قوم پرستی کا یہ ابھار زیادہ دیرپا نہیں ہے پھر بھی نہ صرف یہ سماج میں طبقاتی توازن کی جز وقتی کیفیت کاواحد ممکنہ اظہار ہے بلکہ ساتھ ہی یہ کامریڈ لینن کی کی گئی قومی سوال کی تعریف کابھی مدلل ثبوت ہے۔ لینن نے وضاحت کی تھی کہ قومی سوال آخری تجزیے میں روٹی کا سوال ہے۔ تیسری دنیا کے برعکس ماضی میں یورپ اور ترقی یافتہ دنیا میں قومی مسئلے کے حل ہو جانے کی وجہ یورپی اقوام کی کوئی جینیاتی برتری نہیں تھی بلکہ مسلسل بلند ہوتا ہوا معیارِ زندگی تھا۔ اب جب وہ ’اچھے دن‘ قصۂ پارینہ بن چکے تو قومی مسئلے کاابھاراس کاوقتی نتیجہ نظر آ رہا ہے۔

نیشنلزم بمقابلہ انٹرنیشنلزم

انیسویں صدی کے آغاز کا دور نیشنلزم کے منطقی عروج کا دور تھا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ اس نظریے کی افادیت متروکیت کی طرف بڑھنے لگی۔ پرولتاریہ کی روز افزوں سیاسی عمل میں مداخلت نے ایسے نظریات کی معروضی ضرورت کو آشکارکرنا شروع کر دیا تھا جو پرولتاریہ کے طبقاتی مفادات کی نمائندگی کر سکتے۔ اور جیسے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فطرت خلا کو پسند نہیں کرتی، اسی طرح اس معروضی ضرورت کا موضوعی اظہارایک طرف تو سوشلزم کے مختلف رومانوی اور یوٹوپیائی تصورات کی تکرار کی صورت میں اور دوسری طرف ’سیاسی معاشیات‘ کے موضوعات پر ہیگل کے شاگردوں کے مابین گرماگرم نظریاتی بحث و مباحثے کی شکل میں ہو رہا تھا۔ اس خلا کو کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے جدلیاتی مادیت کے فلسفیانہ استدلال سے ’سائنسی سوشلزم‘ کے نظریے کو اخذ کرتے ہوئے پُر کیا۔ کارل مارکس نے قومی ریاست کی حدود کو پھلانگتے ہوئے ’دنیا بھر کے محنت کشوں‘ کے اتحاد کا نعرہ پیش کیا۔ بعد ازاں اس نے ’سرمایہ‘ کی شکل میں سرمایہ دارانہ معیشت کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ پرولتاریہ عالمی سطح پر اپنی محنت سے دولت (قدر زائد) کو پیدا کرنے والا واحد طبقہ ہے جبکہ بورژوازی ذرائع پیداوار کی ملکیت رکھنے کی وجہ سے اس پیدا کردہ دولت کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ یوں اجرتوں میں اضافے، بونس اور دیگر مراعات کا حصول اوراوقاتِ کار میں کمی جیسے معاشی مطالبات در اصل اس قدر زائد سے محنت کش طبقے کی اپنا سامانِ حیات اور بنیادی ضروریات کی تکمیل کی کوشش کے علاوہ اورکچھ نہیں۔ اس نے اس عمل کو ’طبقاتی کشمکش‘ کا نام دیا جو دنیا بھر میں مختلف نوعیت اور شدت سے مسلسل نہ صرف موجود ہے بلکہ آخرکار سرمایہ داری کے خاتمے پر ہی منتج ہو گی۔ یوں مارکس نے سرمایہ دارانہ معیشت کے طرزِ ارتقا اور پرولتاریہ کی نامیاتی تشکیل کے جدلیاتی تعلق سے ’پرولتاری بین الاقوامیت‘ کے نظریے کو اخذ کیا۔ اس نظریے نے عالمی سیاست کا حلیہ اور کردار ہی بدل کر رکھ دیا۔

انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں پیرس کمیون (1871ء) اور بیسویں صدی کے آغاز پر اکتوبر انقلاب (1917ء )پرولتاری بین الاقوامیت کے نظریے کا سیاسی مظہربن کر نمودار ہوئے۔ اکتوبر انقلاب نے سرمایہ دارانہ انقلاب کے ادھورے ایجنڈے یعنی قومی مسئلے کوحل کرنے سے سوشلزم کی تعمیر کا آغاز کیا۔ زار کے روس کا نام بدل کر یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (USSR ) رکھ دیا گیا۔ یہ مختلف قومیتوں کی پہلی رضاکارانہ فیڈریشن تھی جس کی بنیاد قومی و طبقاتی جبر اور استحصال کی بجائے پرولتاری بین الاقوامیت پر رکھی گئی تھی۔ بعد ازاں سٹالنسٹ ردِ انقلاب کے باعث بونا پارٹسٹ بیورو کریسی نے ایک دفعہ پھر روسی قوم پرستی کو اپنا وطیرہ بنا لیا اور سوویت یونین کے انہدام کا باعث بنی۔ سٹالنسٹ سوویت یونین کے دنوں میں تمام تر تیسری دنیا کے ممالک میں محنت کش طبقے کی تحریکوں کو عالمی سطح پر جوڑنے کی بجائے انہیں اپنی اپنی بورژوازی کے مفادات کے تابع کرنے کی کوشش کی گئی۔ چین، برِ صغیر اور دیگر نو آبادیاتی ممالک میں آزادی کی تحریکوں کو مقامی بورژوازی کی قیادت کے مرہونِ منت کر دیا گیا۔ بورژوازی نے ان تمام تحریکوں سے غداری کی اور نام نہاد آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی سامراج کی اطاعت اور غلامی کو جاری رکھا۔ یوں سابقہ نو آبادیاتی ممالک میں سے کسی بھی ملک میں جدید قومی ریاست کی تشکیل نہ ہو سکی مگر سٹالنسٹ افسر شاہی کی رہنمائی میں دنیا بھر کے انقلابیوں نے ’ترقی پسند بورژوازی‘ کی تلاش جاری رکھی اوراسی باعث محنت کش طبقے کے بہت سے انقلابات کو خون میں ڈبو دیا گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب تمام مارکس وادیوں کے لیے محبِ وطن ہونا بھی ایک سیاسی لازمہ قرار دیا جاتا تھا۔ سٹالنسٹ افسر شاہی کے’قومی جمہوری انقلاب‘ کے چورن کے ساتھ ساتھ بعد ازاں ماؤاسٹ افسر شاہی کے ’عوامی جمہوری انقلاب‘ کے معجون نے بھی پرولتاریہ کی تحریکوں کو ’سیاسی بدہضمی‘ سے دوچار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ غرضیکہ پاکستان اور انڈیا سمیت تمام پسماندہ ممالک میں نیشنلزم اور مارکسزم کو ایک ہی نظریے کی دو مختلف توضیحات تصور کیا جانے لگا تھا۔ حقیقت میں یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کے بالکل الٹ اور متضاد ہیں۔ ان دونوں نظریات کے ملغوبے پر منحصر بایاں بازو خود محنت کش طبقے کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا تھا۔ اور آج بھی زیادہ تر انقلابیوں کے ہاں یہ سیاسی ابہام بدرجہ اتم موجود ہے۔ حالانکہ آج کے عہد میں ذرائع ابلاغ و مواصلات کی ترقی، محنت کی عالمی پیمانے پر سماجی تقسیمِ کاراور تارکینِ وطن محنت کشوں کا حجم اور کردار یہ سب عوامل مل کر پرولتاری بین الاقوامیت کو مزید تقویت دے رہے ہیں۔ آج1917 ء والی دنیا نہیں ہے۔ اس گزشتہ صدی نے مارکس اور لینن کی پیشن گوئیوں کو من وعن درست ثابت کیا ہے مگر بدقسمتی سے نام نہاد مارکسسٹ اور لینن اسٹ سرمایہ دارانہ پروپیگنڈے کا شکار ہو کر قوم پرستی کی دلدل میں غرق ہو چکے ہیں۔ وہ بھی بورژوا دانشوروں کی طرح ابھی حال ہی میں عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کی درست تشریح کرنے سے قاصر ہیں۔ زیادہ تر مارکس وادی بھی قوم پرستی کے اس وقتی ابھار کو دیرپا اور مستحکم سمجھتے ہوئے ’تیسری عالمی جنگ‘ یا ’فاشسٹ حکومتوں‘ کا تناظر تخلیق کر رہے ہیں۔ موجودہ سرمایہ دارانہ سماج کی طبقاتی تشکیل، بین الاقوامی تجارتی تعلقات کی نوعیت اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی موجودگی یہ سب عوامل مل کر اس قسم کے تناظر کو رد کرتے ہیں۔ مختلف سرحدی تنازعات، جنگوں اور خانہ جنگیوں کی تعداد اور شدت میں اضافے کے باوجود تیسری عالمی جنگ یا فاشسٹ حکومتوں کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تمام سامراجی قوتیں ایک دوسرے سے ٹکراؤ میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے پرمالیاتی انحصار کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ یہ ہمارے نام نہاد مارکسی تجزیہ نگار عوامی شعور کے ارتقا کی سائنس کی الف ب سے بھی نا بلد ہیں اور امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کے پرولتاریہ کو قوم پرست یا نسل پرست سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان کی توقعات کے برعکس حالات کا جبر دنیا بھر کے محنت کشوں کو سیاست کے میدان کی طرف دھکیل رہا ہے۔ وہ اپنے تجربات کے نتیجے میں پیٹی بورژوا تعصبات سے آزاد ہو کر طبقاتی نعروں اور پروگرام کی طرف راغب ہونگے۔ تمام معروضی و موضوعی عوامل عالمی سطح پرانقلابات اور طبقاتی جنگوں کا طبل بجا رہے ہیں۔

سامراجیت کا زوال اور قوم پرستوں کی خوش فہمیاں

اگرچہ سوویت یونین کی موجودگی تیسری دنیا کی قومی تحریکوں میں ایک ترقی پسندانہ عنصر کی موجودگی کا باعث تو تھی مگر زیادہ تر قوم پرست قیادتوں کا سوویت یونین کی طرف جھکاؤ نظریاتی کی بجائے نو آبادیاتی کردار کا حامل تھا۔ ماسکو اور بیجنگ کو قبلہ اور کعبہ تصور کیا جاتا تھااور لکیر کے فقیروں کی طرح ان کی خارجہ پالیسی کے لیے مہروں اور گماشتوں کا کردار ادا کیا جاتا تھا۔ سٹالنسٹ تمام مظلوم قومیتوں کی آزادی کی تحریکوں کی غیر مشروط حمایت کرتے تھے اور قوم پرستوں کا ماسکو اور بیجنگ آنا جانا لگا رہتا تھا۔ یوں قومی آزادی کی تحریکوں میں کمیونسٹوں کی مداخلت سے کوئی مارکسی کیڈر پروان نہیں چڑھ رہے تھے بلکہ تخلیقی صلاحیت سے عاری بنجر اور اطاعت زدہ ذہن تیار ہو رہے تھے جنہوں نے فیصلے اور تجزئیے کرنا نہیں بلکہ محض احکامات کو بجا لانا ہی سیکھا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ان کے قبلے منتشر ہو گئے مگر انکی اطاعت زدہ طبیعت کو نئے آقاؤں کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی تھی یوں انہوں نے امریکی سامراج کو وقت کی ٹھوس اور واحد حقیقت سمجھ کر اپنا سیاسی کعبہ واشنگٹن میں منتقل کر دیا تھا۔ وہ تاریخ کے خاتمے اور سرمایہ داری کی ابدیت پر ایمان لا چکے تھے۔ یوں ان نام نہاد قوم پرستوں کو امریکی سامراج نے گزشتہ اڑھائی دہائیوں سے اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے بے دریغانہ استعمال کیا۔ امریکی سامراج کو بہرحال سوویت یونین کے انہدام کے بعد ایک ایسے مصنوعی دشمن کی بھی ضرورت تھی جس کو دکھا کر مغرب میں اور خود امریکہ کے اندر طبقاتی استحصال کو جاری رکھا جا سکتا۔ یہ نام نہاد لیفٹ تو اب ان کے قدموں میں لیٹ گیا تھا اس لیے انہوں نے بنیادپرستی کا ہوا تخلیق کیا اور القاعدہ اور طالبان جیسی بنیاد پرست جنونی تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں نائن الیون جیسے واقعات کے ذریعے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر اسلحہ ساز کمپنیوں کے منافعوں اور شرحِ منافع میں بے پناہ اضافے کیے گئے۔ اس بنیاد پرستی کے ناسور سے براہِ راست متاثرہ علاقوں کے ترقی پسند اور قوم پرست اپنی سامراجی اطاعت کو جواز فراہم کرنے کے لیے اسی بنیاد پرستی کے سماجی قوت بن جانے کے خوف کو ایک دلیل کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

اب جب عالمی سطح پر امریکی سامراج کی نامیاتی کمزوری عیاں ہونا شروع ہوئی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک نسل پرست امریکہ کے مسندِ اقتدار پر براجمان ہوا ہے تو یہ امریکہ زدہ قوم پرست شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تمام تر توجہ امریکہ کے داخلی مسائل پر مرکوز کرنے کا اعلان کیا ہے اور امریکہ کے ماضی میں ’عالمی تھانیدار‘ کے کردار سے ہاتھ کھینچ لینے کے اشارے دیئے ہیں۔ ایسے میں امریکی سامراج سے ’آزادی‘ کی خیرات وصول کرنے کے خواہشمند قوم پرست اکابرین شدید ذہنی، روحانی اور اعصابی صدمے سے ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔ ان کی تمام تر خوش فہمیاں ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں اور وہ دم بخود ہیں۔ جو زیادہ سمجھدار تھے انہوں نے تو پہلے ہی اپنی وفاداریوں کا رخ روسی و چینی سامراج کی طرف موڑ دیا تھا۔ مختصر یہ کہ زیادہ تر قومی تحریکوں کی قیادتیں مختلف عالمی و سامراجی قوتوں کی پراکسیوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہ محض امریکی سامراج کے زوال کا عہد نہیں بلکہ یہ سامراجیت کے گلنے سڑنے اور ٹوٹ کر بکھرنے کا عہد ہے۔ ایسی کیفیت میں چین یا کسی بھی نام نہادابھرتی ہوئی سامراجی قوت سے خوش فہمیاں وابستہ کرنا اپنے ہی زخموں پر نمک رگڑنے کے مترادف ہو گا۔

پاکستانیت، ایک سراب!

برِ صغیر کو آزادی انقلاب کے نتیجے میں نہیں بلکہ انقلاب کی شکست خوردگی کے بعد ملی تھی۔ انڈیا اور پاکستان کے سرمایہ دار جدید قومی ریاست تشکیل دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اس لئے یہ عالمی قوتوں پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔ انڈیا کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کا جھکاؤ سوویت یونین کی طرف تھا، اسی بنیاد پر وہاں کسی حد تک زرعی اصلاحات بھی کی گئیں۔ مگر پاکستان میں اس قسم کی کوئی اصلاحات نہیں کی جا سکیں اور ابتدا سے ہی پاکستان کے رجعتی حکمران طبقے کا جھکاؤ امریکی سامراج کی طرف تھا۔ یوں آگے چل کر نام نہاد آزادی حاصل کرنے والے یہ دونوں ممالک سرد جنگ کے دو مختلف فریقین کے آلہ کار بن گئے۔ پاکستان امریکی سامراج کی کالونی بن گیا جبکہ انڈیا سوویت بلاک کا حصہ بن گیا۔ اگر ہم پاکستان کی ریاست کی68 سالہ تاریخ پر غور کریں تو ہمیں دو قومی نظریے کی مسلسل اور بتدریج زوال پذیری نظر آئے گی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے مذہب کے نام پر قوم بنانے کے تجربے کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے تھے مگر بنگالیوں کے بعد بھی پاکستان دیگر کئی قومیتوں کا جیل خانہ تھا اور ان سب قومیتوں کے مصنوعی وفاق کو قائم و دائم رکھنے کے لیے اور ان مظلوم قومیتوں کے استحصال کو جواز فراہم کرنے کے لیے یہاں کے حکمران طبقات کے پاس مذہب کے علاوہ کوئی اور نظریہ نہیں تھا۔ بلوچی، سندھی، کشمیری اور پشتون اگر یہ سوال کرتے تھے کہ ہم اس پاکستان میں کیونکر رہیں تو جواب ملتا تھا کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں اور مسلمان ایک ملت یا قوم ہیں لہٰذا مسلمانوں کی ایک قومی ریاست ہونی چاہئے اور پاکستان ہی وہ مملکتِ خداداد ہے جو اسلام کا قلعہ بن سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن پھر یہ سوال ابھرتا کہ عرب خطے میں مختلف ممالک کا الگ الگ وجود کیوں ہے اور یہ کہ ایران اور عراق اکٹھے کیوں نہیں ہو جاتے۔ لیکن اس کے باوجود اس غیر منطقی اسلامی ریاست کے نظریے کو عوام پر ٹھونسا گیا۔ یوں پاکستانیت کبھی بھی ایک سیکولر نظریے میں ڈھلنے کی اہل ہی نہیں تھی بلکہ اس کا خمیر ہی ’اسلام زدہ‘ تھا اور اسکی بقا بھی اسی میں تھی۔ لیکن ان تمام مظلوم قومیتوں کی اپنی سینکڑوں یا ہزاروں سالہ تاریخ تھی، الگ الگ زبانیں اور ثقافتیں تھیں اور اسلام یا کسی بھی دوسرے مذہب کے پاس ایسی کوئی جادوئی طاقت نہیں تھی جو ان سب مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو ملا کر ایک جدید قوم میں تبدیل کر دیتی۔ در حقیقت تمام جدید یورپی اقوام نے مذہبیت کے خلاف جنگ کرتے ہوئے اور صنعتی انقلابات کے ذریعے اپنا آزادانہ قومی تشخص حاصل کیا تھا۔ مذہب تاریخی طور پر قومی ریاستوں سے پہلے کا سماجی مظہر تھا۔

کشمیر اور پاک بھارت کشیدگی

گزشتہ چار ماہ سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کی سب سے بڑی آزادی کی تحریک جاری ہے۔ اس تحریک کی سب سے بڑی خاصیت اس کا غیر مسلح ہونا اور سیاسی مطالبات کے گرد ہونا ہے۔ بڑھتا ہوا ریاستی جبر تحریک کی شدت کو کم کرنے کی بجائے مزید بھڑکانے کا باعث بن رہا ہے۔ اس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا ملٹری زون بن چکا ہے جہاں ہر چوتھے یا پانچویں کشمیری کے لیے ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ مسئلہ کشمیر درحقیقت برطانوی سامراج کا دانستہ طور پر چھوڑا گیا تنازعہ ہے جس کے گرد پاکستان اور بھارت کے مابین مستقل تضادات کو ابھاراجا سکے اور پاکستان کو خطے میں ایک گماشتہ ریاست کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی آزادی کی تحریک موجود رہی ہے مگر قوم پرستوں کی عمومی زوال پذیری اور غداریوں کے باعث پسپا ہونے کے بعد یہ تحریک ابھی شکست و ریخت سے باہر نکلنے کا رستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ لیکن بھارتی مقبوضہ کشمیر کی حالیہ تحریک سے پاکستانی ریاست بھی خوفزدہ ہے اسی لیے وہ بنیاد پرستی کو دوبارہ کشمیر میں سرحد کے دونوں طرف منظم اور متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس رجعتی ریاست نے ماضی میں بھی کشمیر کی آزادی کی تحریک کو بنیاد پرستی کے زہر آلود خنجر سے کاٹنے کی کوشش کی ہے۔ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کا نعرہ مصنوعی طور پر تحریک میں داخل کروایا گیا مگر آج بھی کشمیری نوجوانوں کی اکثریت اس رجعتی ریاست سے الحاق کی بجائے حقیقی آزادی کی خواہشمند ہے۔ مگر انکے پاس کوئی حقیقی قیادت موجود نہیں۔

اس تحریک کے ساتھ ساتھ بھارت میں طلبہ اور مزدوروں کی دیگر تحریکیں بھی موجود ہیں۔ حال ہی میں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال بھی انڈیا میں ہی دیکھنے میں آئی۔ ایسے میں مودی سرکار کی بوکھلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے اور ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے سرحدی تنازعات کا روایتی طریقہ کار استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے سرحد پر چھوٹے موٹے تنازعات معمول بن گئے ہیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بھارت چھوٹے پیمانے کی جنگ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے بلکہ کسی حد تک اس کا آغاز بھی کر چکا ہے۔ ایسے میں دونوں طرف حب الوطنی کو ابھارنے کی کوششیں عروج پر ہیں مگر دونوں طرف کے عوام اس آئے روز کے امن اور جنگ کے ناٹکوں سے اکتا چکے ہیں۔ ایسے میں کسی بھی محدود جنگ کا تجربہ بے قابو ہو کر بڑی جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ جنگ ہو یا نہ ہو حالتِ جنگ بھی عوام کے شعور پر اثرا نداز ہوتی ہے۔ اس بار حب الوطنی کے غبارے میں ہوا بھرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ حا لتِ جنگ کی طوالت سے نہ صرف محنت کش طبقے میں اضطراب بڑھے گا بلکہ مظلوم قومیتوں کے اندر بھی غم و غصے میں شدت ہی آئے گی۔ کشمیر کی حالیہ تحریک بھی اس خطے کی عمومی سیاست پر اثر انداز ہو گی۔ ابھی تک تو اسے ایک پاکستان نواز تحریک بنا کر مسخ کر کے دیگر قومیتوں تک پہنچایا جا رہا ہے مگر حقائق کو اتنی آسانی سے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی پاکستانی ریاست کے خلاف ایک تحریک بن سکتی ہے۔ لیکن اس بار ممکن ہے کہ یہ تحریک آغاز میں ہی طبقاتی نعروں کے گرد ابھرے۔ یوں بحیثیتِ مجموعی پاکستانی ریاست میں دیرپا امن اور استحکام کے امکانات مخدوش ہی نظر آتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں بھی چین کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور سی پیک کے خلاف تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ اس سے پہلے آٹے اور دیگر بنیادی اشیا پر حکومت کی جانب سے سبسڈی کے خاتمے پر ایک بہت بڑی عوامی تحریک ابھری جس نے رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں اور فرقہ واریت کو چیرتے ہوئے طبقاتی جڑت کی بنیاد پر عوام کو اکٹھا کیا۔ مختلف سیاسی پارٹیوں نے اس تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی لیکن اس تحریک کے دوران جمہوری طریقے سے بننے والی عوامی کمیٹیوں نے ان تمام سازشوں کو ناکام کر دیا۔ اب پھر طلبہ اپنے حقوق کے لیے سرگرم ہیں اور ریاستی جبر کیخلاف بر سر پیکار ہیں جس پر بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے علاوہ خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے۔ یہاں ریاست کاسب سے بڑاہتھیار شیعہ سنی فرقہ وارانہ تعصبات ہیں جنہیں بڑھکا کر عوامی تحریکوں کو کچلا جاتا ہے۔ لیکن سی پیک کے تمام تر منصوبوں کے باعث یہاں قوم پرستی کے جذبات بھی ابھر کر سامنے آ رہے ہیں اور قوم پرستی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس دشوار گزار اور قلیل آبادی کے خطے میں چھ زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ یہ پاکستان، انڈیا اور چین کی مشترکہ سرحدپر واقع ہے جبکہ وسطی ایشیائی ممالک بھی زیادہ دور نہیں۔ یہاں قومی مسئلہ شدت کے ساتھ موجود ہے لیکن اسے بھی صرف ایک طبقاتی جڑت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ جڑت نہ صرف گلگت بلتستان کے تمام محنت کشوں کو ایک طبقاتی جنگ میں متحد کرے گی بلکہ کشمیر سمیت پورے خطے کے محنت کشوں کو اکٹھا کرتے ہوئے قابض ریاستوں اور حکمران طبقے سے نجات دلائے گی۔

بلوچستان، علاقائی و عالمی سامراجوں کا اکھاڑہ

برِ صغیر کی تقسیم کے وقت بلوچستان کی سیاسی قیادت نے پاکستان کے ساتھ مشروط الحاق کیا تھا۔ قائدِ اعظم کے دستخط شدہ معاہدے کے تحت مطالبے پر پاکستانی ریاست بلوچستان کی آزادانہ حیثیت تسلیم کرنے کی پابند ہو گی مگر کوئی بھی سرمایہ دارانہ ریاست رضاکارانہ طور پر اپنے قومی یا طبقاتی جبر سے دستبردار نہیں ہوتی۔ ایسا ہی ہوا اور بلوچ قیادت کے ساتھ کئی دفعہ دھوکہ کیا گیا اور ان کو آزادی کے مطالبے کے عوض جیلوں میں ڈالا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ بارہا بلوچستان میں فوج کشی بھی کی گئی اور آج بھی ایک بھیانک فوجی آپریشن بلوچستان میں جاری ہے۔ نتیجتاًاس وقت بھی پاکستانی ریاست میں آزادی کی سب سے بڑی آواز بلوچستان میں موجود ہے۔ اگرچہ گزشتہ چند برسوں میں یہ تحریک کافی حد تک پسپا ہوئی ہے مگر پھر بھی اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکااور نہ ہی ختم کیا جا سکے گا۔ بلوچستان بے شمار معدنی دولت سے مالا مال خطہ ہے مگر اس کے باوجود آبادی کی اکثریت جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پاکستانی حکمران طبقات بلوچستان میں فزیکل اور سوشل انفراسٹرکچر تعمیر کرنے میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہے۔ مقامی قبائلی سرداروں نے بھی زیادہ تر اقتدار میں حصہ داری تو کی مگر عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا۔ شاید انکے اپنے طبقاتی مفادات کو بھی بلوچستان کی پسماندگی ہی راس ہے۔ ایسے میں بلوچ عوام میں احساسِ محرومی اور جذبہ حریت کی موجودگی اور اس میں مسلسل اضافہ ایک فطری سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن مسلح جدوجہد کے غلط اور غیر سائنسی طریقِ کار نے ریاست کو مزید جارحانہ اقدامات کا جواز فراہم کیا ہے۔ 25000 کے لگ بھگ بلوچ سیاسی کارکن اس مسلح جدوجہد کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ سیاسی شعور رکھنے والے کارکنوں کی اکثریت کو یا تو مار دیا گیا ہے یا وہ لاپتہ ہیں۔ مگر سیاسی شعور کی بنیادیں معروضی صورتحال میں موجود ہیں اور بلوچستان میں نسل در نسل آزادی کی ضرورت کا ادراک بڑھ رہا ہے۔ مسلح جدوجہد کرنے والے زیادہ تر گروہ یا جماعتیں مختلف سامراجوں کی پراکسی میں بدل چکے ہیں۔ خاص طور پر گوادر میں چینی سامراج کے بندرگاہ کی تعمیر کے منصوبے اور سی پیک نے ردِ عمل کے طور پرامریکی مداخلت کو اور بھی گہرا کر دیا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب ایران کو بلیک میل کرنے کے لیے بلوچستان کو مذہبی جنونیوں کی آماجگاہ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ بلوچ حریت پسندوں کی کمر توڑنے کے لیے پاکستانی ریاست کا ایک حصہ بھی سعودیوں کے اس کھلواڑ میں برابر کا شریک ہے۔ یوں بلوچستان عملاً اس وقت سامراجی قوتوں کے اکھاڑے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بلوچستان کی قومی آزادی کی تحریک کا مستقبل اب نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی مزدور تحریک کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ جبر کے خلاف عالمی سطح پر تحریکوں کے ایک نئے عہد کا آغاز ہو رہا ہے۔ ایسے میں بلوچستان میں بھی تحریک کا احیا ممکن ہے مگر اب کی بار تحریک غیر مسلح اورسیاسی بنیادوں پر ابھر سکتی ہے۔ اس تحریک کو توڑنے کے لیے ریاست مذہبی اور فرقہ وارانہ جبر کے ساتھ ساتھ بلوچ پشتون تنازعے کو بھی ہوا دے سکتی ہے۔ اسی لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے اس تحریک کو قومی بنیادوں سے زیادہ پرولتاری بین الاقوامیت کی بنیاد پرعالمی مزدورتحریک کے ایک جزو کی حیثیت سے منظم کیا جائے۔

سندھ میں قومی مسئلے کی پیچیدگی

سندھ، جو آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا صوبہ ہے، بھی قومی محرومی اور استحصال کا شکار ہے۔ یوں تو سندھ میں درجنوں قوم پرست پارٹیاں موجود ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی وسیع عوامی حمایت حاصل نہیں کر پائی۔ ماضی قریب میں سندھی قوم پرستی کا ہدف پنجابی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ سندھ کی سالمیت کو درپیش خطرات اور اس کے خلاف مزاحمتی تحریک بنانے کی کوششوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کراچی، حیدر آباد اور سکھر سمیت سندھ کے زیادہ تر شہری علاقوں میں سندھی آبادی اقلیت میں ہونے کے باعث سندھ کی سالمیت کا نعرہ سندھی پیٹی بورژوازی کے لیے نسبتاً پرکشش ہے۔ اکا دکا قوم پرست پارٹیاں ہی اب سندھو دیش کی بات کرتی نظر آتی ہیں۔ جسقم کو کسی حد تک سندھو دیش کے نعرے کے گرد مڈل کلاس کی وسیع تر پرتوں کی حمایت ملنا شروع ہوئی تھی مگر پھر بشیر قریشی کے مبینہ قتل کے بعد جسقم میں بھی واضح دراڑیں پڑ گئیں۔ مڈل کلاس کی لمپنائزیشن نے اسے بھی بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے پر کشش بنا دیا۔ جسقم مسلح جدوجہد کے طریقِ کار کی وجہ سے ویسے ہی عوام سے مکمل طور پر کٹ چکی ہے۔ یوں قوم پرست پارٹیوں کا سندھ میں کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔ بڑھتے ہوئے احساسِ محرومی کا سیاسی فائدہ پھر پیپلز پارٹی ہی اٹھا رہی ہے۔ اب تو پیپلز پارٹی ایک ملک گیر وفاقی جماعت سے زیادہ سندھی قوم پرست پارٹی میں تبدیل ہو چکی ہے اور اقتدار کی بندر بانٹ میں سندھ کارڈ کا بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ ایم کیو ایم جو اردو بولنے والوں کی نمائندہ پارٹی ہوا کرتی تھی، اس میں بھی شدید ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔ مسلسل اقتدار میں رہنے کی وجہ سے ایم کیو ایم مہاجر آبادی کی ایک مزاحمتی تحریک سے زیادہ موقع پرستوں، پیشہ ور مجرموں اور کالے دھن کے جغادریوں کی آماجگاہ اور محفوظ پناہگاہ میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اسی وجہ سے ایم کیو ایم میں گروہی تعصبات اور تناؤ عروج پر پہنچ چکا تھا اور مختلف ریاستی دھڑوں کی کھینچا تانی نے بھی اس کی ٹوٹ پھوٹ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاک سر زمین پارٹی تو محض ایک آغاز ہے۔ ایم کیو ایم کی شکست و ریخت اب جاری رہے گی۔ مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کراچی میں استحکام آ جائے گا۔ الطاف حسین کی طرف سے لگایا جانے والا’پاکستان مردہ باد‘ کا نعرہ کراچی کی آبادی کے ایک حصے کے جذبات کی درست ترجمانی بھی کرتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف جذبات کراچی میں کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ ریاست کا ایک دھڑا خود سندھی، مہاجر تنازعے کو پھر سے ہوا دینا چاہتا ہے تاکہ کراچی جو محنت کشوں کا سب سے بڑا شہر ہے یہاں پر طبقاتی بنیادوں پر کسی بھی تحریک کو قومی خطوط پر تقسیم کیا جا سکے۔ مستقبل میں کراچی میں نام نہاد امن کے وقفوں کے ساتھ ساتھ نہ صرف قومی و لسانی بلکہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر تشددمیں اضافہ ہو گا۔ لیکن محنت کش طبقے کی ایک تحریک ساری صورتحال کی نفی کرتے ہوئے ایک مختلف سیاسی کیفیت کو جنم دے سکتی ہے۔

پشتون قوم پرستی، ثریا سے زمیں پر

افغانستان کے ثور انقلاب نے پشتون قوم پرستی پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ سوویت یونین کے بھی پشتون قوم پرستوں سے گہرے روابط تھے۔ ANP ایک سیکولر لبرل شناخت رکھتی تھی اور اس کی قیادت افغانستان کے رستے سوویت یونین کی فوج کا خیر مقدم کرنے کے لیے بیتاب تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ANP امریکی سامراج کی گماشتہ پارٹی بن کر سامنے آئی۔ اس کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ صوبہ سرحد کا نام بدل کرپختونخواہ رکھ دیا جائے۔ اس کے علاوہ کوئی سیاسی پروگرام وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ بالآخر صوبے کا نام خیبر پختونخواہ رکھ دیا گیا مگر پشتون آبادی کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کیا جا سکا۔ ادھر سرحد کے اس پار پاکستانی ریاست نے افغانستان کو اپنے ایک صوبے کے طور پر تزویراتی گہرائی کی پالیسی کے تحت استعمال کیا۔ طالبان کے ذریعے وہاں پر اپنی گماشتہ حکومت بنائی گئی تاکہ انڈیا کے اثرو رسوخ کو کم سے کم کیا جا سکے۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے اور معاملات پاکستانی ریاست کے قابو سے نکلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اب پاکستانی ریاست سارا ملبہ افغان مہاجرین پر ڈال رہی ہے اور انہیں جبراً واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ ایسے میں پشتون قومی جذبات مشتعل ہونے کا اندیشہ ضرور ہے مگر کوئی بھی پارٹی اس کے گرد تحریک بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی بھی رسمی نعرے بازی تک محدود ہے۔ عملاً وہ اقتدار کا حصہ ہے اور ڈیورنڈ لائن پر خندق کی تعمیر کا ٹھیکہ بھی اسکی قیادت کے پاس ہی ہے۔ اس سے پشتون قوم پرستوں کا حقیقی کردار عیاں ہوتا ہے۔ پشتونخواہ کے عوام اب عمران خان کے اقتدار کے سیاسی سکول سے بھی اہم اسباق سیکھ رہے ہیں۔ آئندہ برسوں میں پشتونوں کی سیاست میں تیز ترین تبدیلیاں وقوع پذیر ہونگی جو عوامی شعور میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا موجب بنیں گی۔

پاکستانی ریاست کا مستقبل

پاکستانی آج تک ایک قوم نہیں بن سکے اور نہ ہی کبھی بن سکتے ہیں۔ یہاں پر موجود مظلوم قومیتوں کے اندر جذبہِ حریت اور قومی محرومی کا احساس نہ صرف موجود ہے بلکہ بڑھتا چلا جا رہا ہے مگر سرمایہ داری کے ارتقا کے موجودہ مرحلے پر مزید قومی ریاستوں کی تشکیل اول تو ممکن ہی نہیں لیکن اگر مختلف سامراجی قوتوں کی پراکسیوں کے بے قابو ہوجانے کے باعث ایسا ہو بھی جاتا ہے تو ایک مستحکم اور پائیدار قومی ریاست محض ایک خواب اور سراب ہی رہے گی۔ پاکستانی ریاست بھی اپنی تاریخ کے بدترین بحران میں داخل ہو چکی ہے اور آنے والے واقعات کے تھپیڑے اس ریاست کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر سکتے ہیں مگر اس کی ٹوٹ پھوٹ سے مزید قومی ریاستوں کی تشکیل نہیں ہو گی بلکہ انتشار اور لاقانونیت کا دوردورہ ہی ہو سکتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں لیبیا، عراق، یمن اور شام کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ لیکن اس کے متوازی اس ریاست کے ٹوٹ کر بکھر جانے کی ایک شکل محنت کش طبقے کی تحریک اور انقلاب کی صورت میں بھی ممکن ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں بھی اس عمل کا آغاز عوامی بغاوت کے نتیجے میں ہی ہوا تھا مگر کسی انقلابی قیادت کی عدم موجودگی نے موجودہ بحران اور خلفشار کی راہ ہموار کی۔ اگر پاکستان میں اس قسم کی انقلابی تحریک کو قیادت میسر آ گئی توایسی صورت میں پاکستانی جغرافیے پر ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی تشکیل ممکن ہے جو برصغیر کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔

Comments are closed.