اوم پوری کی وفات پر!

|تحریر: آدم پال|

آج صبح خبر ملی کہ ہندوستانی فلمی صنعت کے معروف اداکار اوم پوری اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اس خبر سے ایک شدید صدمہ پہنچا اور گزشتہ سال لاہور میں الحمرا ہال میں ہونے والی ایک تقریب میں ہوئی ان سے ملاقات یاد آنے لگی۔ اس دن اوم پوری کو ان کی زندگی کا سفر بیان کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ہال نمبر تین ان کے مداحوں سے بھرا ہوا تھا اور یہاں اپنے لیے اتنی عقیدت اور احترام دیکھ کر وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں پا سکے تھے۔ فرطِ جذبات سے کئی دفعہ ان کی آنکھوں میں آنسو آئے اور ان کی تمام تر گفتگو سے یہی تاثر ملا کے وہ اداکاری نہیں کر رہے بلکہ اپنی زندگی کی سچائیوں کو کھل کر سامنے لانا چاہتے ہیں۔ کئی دفعہ انہوں نے ہندوستان کے بٹوارے پر دکھ کا اظہار کیا لیکن ساتھ ہی اس خوشی کو بھی بیان کرنے سے نہیں روک پائے جو انہیں اس ہال میں بیٹھے لوگوں سے دل کی باتیں کر کے مل رہا تھی۔ اس دن ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی برسوں بعد اپنے بچھڑے ہوئے رشتے داروں سے ملا ہو اور اپنی بیتی ہوئی زندگی کے تمام غم اور الم ان کو سناڈالنا چاہتا ہوجو ان کے بغیر اسے تنہا اٹھانا پڑے۔ اپنی زندگی کی تمام تلخیاں روتے ہوئے اپنوں کو کہہ ڈالنا چاہتا ہو تاکہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکے۔ جیسے کوئی پوری زندگی دنیا کی دی گئی تمام ذلتیں اور رسوائیاں اپنے سینے میں سمیٹے ہوئے تھا جو اب اپنے بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے مل کر سب سنا ڈالنا چاہتا ہو۔

اوم پوری الحمرا ہال لاہور میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے

اوم پوری نے بتایا کہ ان کا تعلق ایک انتہائی غریب خاندان سے تھا اور ان کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔ ان کے والد کو چوری کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا جبکہ ان کے خاندان کے لیے رسوائیاں مقدر بن گئیں۔ ان سے ریلوے کا کوارٹر خالی کروا لیا گیا اور وہ لوگ سڑک پر آگئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا سارا بچپن ایک چور کے بیٹے کا طعنہ سنتے ہوئے گزرا۔ ان سے جب کسی انگریزی رسالے نے انٹرویو کے دوران پوچھا کہ ان کی سب سے پہلی نوکری تھی تو انہوں نے یاد کر کے بتایا تھا کہ پانچ سال کی عمر میں ان کی والدہ نے انہیں ایک چائے والے کی دکان پر ملازم رکھوایا تھا۔ اتنے چھوٹے بچے سے چائے والا صرف برتن دھونے کا کام ہی کروا سکتا تھا اور وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے چائے کے برتن دھویا کرتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے وہ اس دنیاکی نابرابری کے متعلق بھی زیادہ سوچتے رہتے تھے۔ شام کو اسٹیشن پر بنے ریلوے کے ایک پل پر چڑھ کر وہ لوگوں کو وہاں سے گزرتے دیکھتے اور مختلف کرداروں کا مشاہدہ کرتے رہتے۔ ساتھ ہی بھگوان سے یہ سوال کرتے کہ دنیا میں امیر اور غریب کیوں پیدا کیے گئے۔

اپنے فنی کیرئیر کے آغاز کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اسٹیج ڈرامے کرنے والوں کا ایک گروپ تھا جو مختلف دیہاتوں میں جا کر ڈرامے کرتا تھا۔ انہیں کچھ نوجوانوں کی ضرورت تھی اور اس طرح وہ بھی اس گروپ میں شامل ہو گئے اور مختلف دیہاتوں میں ان کے ساتھ جا کر ڈرامے کرنے لگے۔ وہاں انہیں پتہ چلا کہ دہلی کے نیشنل سکول آف ڈرامہ (این ایس ڈی) میں اگر داخلہ ہو جائے تو اداکاری کی تربیت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس ادارے میں ان کی ملاقات نصیر الدین شاہ اور دیگر اداکاروں سے ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ نصیر الدین کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور انگریزی بھی خوب جانتے تھے اس لیے ان کے پاس آگے بڑھنے کے زیادہ مواقع تھے لیکن خود ان کی نہ تو شکل و صورت ایسی تھی اور نہ ہی خاندانی پس منظر ایسا تھا کہ انہیں کسی ڈرامے میں ہیرو لیا جاتا یابہتر کرداردیا جاتا۔ انہیں کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی وہاں کے میس کے ملازمین اپنی شفقت سے دے دیا کرتے تھے۔ فلمیں دیکھنے کے لیے وہ قریبی سوویت سینما جایا کرتے جہاں مفت میں فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ اپنے اس دور کے اساتذہ کا ذکر انہوں نے نہایت عقیدت و احترام سے کیا اور بتایا کہ انہوں نے نہ صرف اداکاری سکھائی بلکہ خود ان کی شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

اپنے فلمی کیرئیر کے متعلق انہوں نے بتایا کہ مجھے جو پہلی فلم ملی وہ ایک بچوں کے لیے بنائی گئی معمولی بجٹ کی فلم تھی جس میں انہیں چور کا کردار دیا گیا تھا۔ کچھ دوستوں نے این ایس ڈی میں میری اداکاری سے متاثر ہو کر کچھ امیر لوگوں سے ملاقات کروائی جنہوں نے مجھے فلم میں چانس دینے کا وعدہ کیا لیکن وہ سب جھوٹے وعدے تھے۔ میں دوستوں سے پیسے ادھار لے کر بمبئی قسمت آزمائی کرنے کے لیے چلا گیا لیکن وہاں بھی بھوک اور غربت میں ہی زندگی گزاری۔ اس دوران وہاں اسٹیج ڈراموں کا آغاز کر دیا جس کے لیے انتہائی محدود بجٹ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پہلا ڈرامہ جب ہم نے وہاں اسٹیج کیا تو سیٹ لگانے کے لیے بھی پیسے نہ تھے۔ اسٹیج کے درمیان میں ایک بڑا میز رکھنا تھا لیکن ہم نے اینٹیں رکھ کر اس پر بیڈ شیٹ بچھا دی۔ اسی طرح باقی چیزیں بھی بمشکل پوری ہوئیں۔ لیکن اس ڈرامے کا موضوع بہت گہرا تھا اور اس میں انسان کے دکھوں کو انتہائی خوبصور ت ڈائیلاگزکے ذریعے بیان کیا گیا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ ڈرامہ دو یا تین دن تک پرفارم ہوگا۔ لیکن جب ہم نے ادکاری کے جوہر دکھائے تو یہ ڈرامہ کئی ہفتے تک چلتا رہا۔

انہوں نے بتایا کہ اس دوران ہندوستان میں متوازی سینما کا آغاز ہو چکا تھا اور خود انہیں بھی اس بات کا بخوبی ادراک ہو چکا تھا کہ وہ کمرشل سینما کے لیے غیر موزوں ہیں۔ اس سینما میں ہیرو کے کردار کا جو سانچہ بنایا گیا ہے اس پر وہ خواہ کتنی ہی اچھی اداکاری کر لیں لیکن اپنی شکل و صورت کی بنا پر پورے نہیں اترسکتے۔ ایک معروف ہدایتکار نے تو مجھے کہا کہ تم ولن کے پیچھے کھڑے غنڈوں کے کردار کے لیے انتہائی موزوں ہولیکن میں نے انکار کر دیا۔ اس دوران بہت سی شارٹ فلموں میں کام کے بعد انہیں متوازی سینما کے لیے ایک فلم’ آکروش‘ میں اہم کردار ملا جس سے ان کے شہرت کے سفر کا آغاز ہوا۔ اس فلم میں سمیتا پاٹیل اور نصیرالدین شاہ نے بھی اہم کردار نبھائے۔ اس فلم میں اداکاری پر انہیں فلم فئیر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس فلم میں ہندوستان میں آباد قبائل میں رہنے والے افراد کی زندگی کی تلخیوں کو بے نقاب کیا گیا تھا اور سماج کا ایک گھناؤنا چہرہ پردہ سکرین پر پیش کیا گیا تھا۔ کمرشل فلموں کی روایتی کہانیوں کی نسبت اس میں زندگی کی سچائیوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اوم پوری نے الحمرا میں بیٹھے سامعین کو بتایا کہ جب انہیں ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تو ججوں کے پینل میں موجود کمرشل فلموں کے ایک معروف ہدایتکار نے ان کی مخالفت کی کہ یہ تو پوری فلم میں بولا ہی نہیں، اسے ایوارڈ کیسے دیا جا سکتا ہے۔

لیکن اس فلم کے بعد انہیں متوازی سینما کی بہت سی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا جن میں ’اردھ ستیہ‘ بھی شامل ہے۔ اوم پوری نے ایک دفعہ کہا تھا کہ امیتابھ بچن بہت بڑے اداکار ہیں اور میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اردھ ستیہ میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس فلم میں ان کے کردار کو بھی بہت پذیرائی ملی جس میں انہوں نے پولیس کے سب انسپکٹر کا کردار ادا کیا تھا۔ لیکن یہاں’ آگھات‘ کا ذکر بھی ضروری ہے جس میں انہوں نے ایک کمیونسٹ ٹریڈ یونین لیڈر کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں ہندوستان کی مزدور تحریک میں بائیں بازو کے مقابلے میں دائیں بازو کی یونینوں کا ابھار دکھایا گیا ہے جسے سرمایہ داروں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ بمبئی کی جرائم اور سیاست کی دنیا پر راج کرنے والے شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کا ابھار بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ جو بمبئی سے منتخب ہونے والے کمیونسٹ پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ اور مزدور تحریک کے راہنما کے قتل میں ملوث تھا۔ اس کے بعد بتدریج ریاستی پشت پناہی اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے بمبئی کی صنعتوں میں بائیں بازو کی یونینوں کے مقابلے میں دائیں بازو کی رجعتی بنیاد پرست یونینوں کو بنیادیں فراہم کی گئیں۔ اس دوران سٹالنسٹ نظریات کی زوال پذیری نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ’آگھات‘ میں اوم پوری کی اداکاری نے اس فلم کو امر کر دیا ہے۔ اوم پوری کو جب بتایا گیا کہ ان کی اس فلم کو پاکستان بھر میں بائیں بازو سے وابستہ نوجوانوں اور مزدوروں میں دکھایا گیا ہے اور اس کے گرد سٹڈی سرکل کیے گئے ہیں تو انہوں نے انتہائی خوشی اور حیرت کا اظہار کیا۔ زیادہ حیرت انہیں اس بات پر ہوئی کہ پاکستان میں بھی بائیں بازو کی تحریک نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ ہندوستان کی مزدور تحریک اور طلبہ سیاست کے تجربات سے اسباق حاصل کرنا چاہتی ہے۔

اپنی ساتھی اداکاری سمیتا پاٹیل کا ذکر بھی انہوں نے انتہائی احترام سے کیا اور کہاکہ ہندوستان کی فلمی تاریخ میں ایسی اداکارائیں کم ہوئی ہیں۔ زچگی کے دوران ناقص طبی سہولیات کے باعث ان کی ہلاکت سے فلمی صنعت ایک انتہائی قابل اداکارہ سے محروم ہو گئی تھی۔ 1947ء کے بٹوارے پر بنائے گئے دور درشن کے ڈرامہ سیریل ’’تمس‘‘ میں بھی اوم پوری نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ویدوں کے فلسفے کے مطابق تمس درحقیقت تیرگی، تاریکی اور ظلمت کا استعارہ ہے۔ مذہبی فسادات کے عام لوگوں کی زندگیوں پر اثرات کو اس ڈرامے میں انتہائی عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ 1982ء میں ریلیز ہونے والی ہالی وڈ کی فلم ’’گاندھی‘‘ میں محض ان کا ایک ڈائیلاگ تھا۔ اس فلم میں بین کنگسلے نے گاندھی کا کردار ادا کیا تھا جبکہ دیگر بہت سے معروف اداکار موجود تھے۔ اس فلم کو آٹھ آسکر ایوارڈ ملے تھے۔ لیکن پوری فلم اور آسکر ایوارڈوں پر ان کا ایک ڈائیلاگ بھاری تھا جسے عالمی سطح پر پذیرائی ملی تھی۔ لیکن جس وقت ان کا ڈائیلاگ دنیا بھر میں ٹی وی پر دکھایا جا رہا تھا وہ بمبئی کے ایک بوسیدہ ہاسٹل کے خستہ حال کمرے میں رہ رہے تھے اور ان کے پاس دیکھنے کے لیے ٹی وی بھی نہیں تھا۔ جب تک انہیں اس بات کا پتہ چلا اور وہ ٹی وی ڈھونڈنے نکلے تو وہ لمحہ گزر چکا تھا۔

الحمرا میں گفتگو کے دوران اوم پوری سے سوال کیا گیا کہ ’’ماچس‘‘ فلم میں انہیں وہ کردار ادا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ غلط کردار ہے۔ اس پر اوم پوری نے کھل کر اس کردار کا دفاع کیا اور کہا کہ وہ شخص اپنے اعمال میں بالکل حق بجانب تھااور اس کردار میں کوئی جھول نہیں۔ یہاں انہوں نے اس فلم کا ایک ڈائیلا گ بھی دہرایا جس میں وہ شخص کہتا ہے کہ؛ آدھا پریوار 47ء میں ختم ہوگیا اور آدھا 84ء کھا گیا۔ اس موقع پر فرط جذت سے اوم پوری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے جیسے وہ کسی کردار کی نہیں اپنی زندگی کی کہانی ایک جملے میں سمیٹ رہے ہوں۔

چارلی ولسن وار فلم کا ایک منظر

اس موقع پر ایک سوال کیا گیا کہ انہوں نے کچھ فلموں میں پاکستانی کردار نبھائے ہیں اس پر ’’وہ کیسا محسوس کرتے ہیں‘‘۔ اس کے لیے ’’ایسٹ از ایسٹ‘‘ اورہالی وڈ کی فلم ’’چارلی ولسن وار‘‘ کا حوالہ بھی دیا گیا۔ ایسٹ از ایسٹ میں انہوں نے انگلینڈ میں رہنے والے ایک پاکستانی باپ کا کردار نبھایا تھا جو اس ملک میں پروان چڑھنے والی اپنی اولاد کے بارے میں فکرمند ہے۔ چارلی ولسن وار میں انہوں نے ضیا الباطل کا کردار ادا کیا تھا جبکہ معروف اداکار اور آسکر ایوارڈ یافتہ ٹام ہینکس نے چارلی ولسن کا کردار نبھایا تھا۔ چارلی ولسن امریکی پارلیمنٹ کا ممبر تھا جس نے افغانستا ن میں سوویت یونین کے خلاف امریکی سی آئی اے کی جانب سے شروع کیے گئے جہاد کو مالی بنیادیں فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس شخص کو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ اس سوال کے جواب میں اوم پوری نے انتہائی خوبصورت جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی غیر معقول سوال ہے کہ مجھے پاکستانی کردار ادا کرتے ہوئے کیسا محسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اداکاری جذبات کے اظہار کا نام ہے۔ کہانی اور ڈائیلاگ تو مصنف لکھتا ہے لیکن اس میں جذبات کا رنگ بھرنا اداکار کا کمال ہوتا ہے۔ لیکن جذبات کا کوئی مذہب، زبان، رنگ، یا قومیت نہیں ہوتی۔ کبھی کسی نے نہیں سنا کہ یہ اطالوی ہنسی ہے یا یہ فرانسیسی آنسو ہیں۔ خوشی اور غم، محبت اور نفرت سمیت تمام جذبات ہر جگہ ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ صرف مقامی زبان کا لہجہ اورآداب مختلف ہو سکتے ہیں لیکن جذبات میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ کسی کی بے فائی کا دکھ ہو یا محبوب کے ملنے کی خوشی وہ ہر زبان اور قومیت میں ایک جیسی ہی ہو گی۔ ایک دن قبل ہی وہ ہدایتکار مدھر بھنڈارکر کے ساتھ جب واہگہ بارڈر پار کر کے لاہور آ رہے تھے تو بھنڈارکر ایک عجیب سی خوشی سے سرشار تھے اور ہر اک شے کی تصویر بنا رہے تھے۔ صرف بارڈر پر انہوں نے سینکڑوں تصاویربنا ڈالیں۔ اس پر اوم پوری نے کہا کہ سرحد کے اس پار کے پیڑاور ان پیڑوں میں کیا فرق ہے جو تم اتنی تصویریں بنا رہے ہو۔ ان مصنوعی لکیروں نے انسانوں سمیت ہر شے کو تقسیم کر رکھا ہے۔

اوم پوری نے یہ بھی بتایا کہ انہیں کبھی بھی اداکاری کے دوران مصنوعی آنسوؤں کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں اتنے دکھ اور تکالیف ہیں کہ ان کے متعلق سوچ کر ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ حال ہی میں نیپال کے زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی خبر پڑھنے کے دوران ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بننے والی فلموں اور ان میں اپنے کردار کے حوالے سے وہ مطمئن نہیں تھے اور کہا کہ آج مجھ پر تنقید کرنے والوں کو میری 80ء کی دہائی کی فلموں کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ ویسے چند سال قبل ’’چکر ویو‘‘ میں اوم پوری نے ماؤسٹ تحریک کے سرپرست اورنظریہ دان کا ایک مختصر مگر بھرپورکردار ادا کیا تھا۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں انہیں اپنی اداکاری کے بھرپور جوہر دکھانے کے خاطر خواہ مواقع نہیں ملے جس پھر انہیں دکھ تھا۔ تقریب کا اختتام پُرزورتالیوں پر ہوا اور تالیاں بجاتے ہوئے پورے ہال نے کھڑے ہو کر اوم پوری کو خراج تحسین پیش کیا۔ اوم پوری نے کہا کہ وہ پوری زندگی تقریبات میں جاتے رہے ہیں لیکن جو اطمینان، خوشی اور عقیدت انہیں آج ملی ہے وہ بہت کم نصیب ہوئی ہے۔ میں نے آج کوئی جھوٹ نہیں بولا اور نہ ہی اس محفل کے بارے میں بولوں گا کہ شاید یہ میری زندگی کی سب سے اہم تقریب تھی۔ تقریب کے اختتام پر میزبان کی جانب سے اوم پوری کو ایوارڈ بھی دیا گیا لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس سمے ایوارڈ دینے والا کوئی دو فٹ کا بونا ہے اور اوم پوری دس سے پندرہ فٹ کا لمبا چوڑا شخص ہے جو ہال کی چھت سے ٹکرا رہا ہے۔

عہد کا خاتمہ

اوم پوری کی و فات سے بر صغیر میں اداکاری کا ایک اہم باب اختتام پذیر ہو گیا۔ متوازی سینما کب کا ختم ہو چکا ہے اور کمرشل فلمیں بھی پاتال کی گہرائیوں کو چھو رہی ہیں۔ اداکاری اور گلوکاری سے لے کر ہر شعبہ شدید انحطاط کا شکار ہے۔ سرمائے کی غلامی نے فن کا گلا گھونٹ دیا ہے اور آج سرمایہ داری کے شدید ترین زوال کے عہد میں اچھا گیت، اچھی کہانی اور اداکاری شاذ و ناذر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ماضی میں گائے گئے مدھر گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں اور پرانے دور کی فلموں کی کہانیاں آج بھی دلوں کو چھو لیتی ہیں۔ ایسے میں فن کے تمام شعبوں کے زوال کی بنیادیں تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ہندوستانی فلمی صنعت کا آغاز جب 1930ء کی دہائی میں ہوا تو اس وقت بائیں بازو کی تحریک عروج پر تھی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا پورے ہندوستان میں عوامی بنیادیں حاصل کر رہی تھی اور بھگت سنگھ کی پھانسی نے اس تحریک کو ایک نیا جوش اور ولولہ فراہم کر دیا تھا۔ پورے ملک میں نوجوان اور مزدور متحرک ہو رہے تھے۔ اس وقت بمبئی کے علاوہ لاہور اور کلکتہ بھی فلمی صنعت کے اہم مراکز تھے۔

برطانوی سامراج کے آنے سے سرمایہ داری نے بھی اس خطے میں قدم رکھا تھا اور پورا سماج قدیم ایشیائی طرز پیداوار سے نکل کر ایک نئے عہد میں داخل ہو چکا تھا۔ ماضی میں مختلف ریاستوں کے راجہ مہاراجہ یا مغل بادشاہ فن سے وابستہ لوگوں کی سرپرستی کرتے تھے۔ ان میں موسیقار اور گویے سر فہرست تھے جنہیں سماج میں خصوصی مقام حاصل تھا۔ اس کے علاوہ شاعروں، رقاصاؤں، مصور وں اور فنون لطیفہ سے وابستہ دیگر لوگوں کو سماج میں خصوصی مقام حاصل تھا۔ لیکن سرمایہ داری کی آمد نے ان تمام پرانے بندھنوں کو توڑ دیا اور روپے پیسے کے رشتے سماج پر حاوی ہونے لگے۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس نے اس کی وضاحت کی تھی کہ کس طرح سرمایہ داری نے استاد، وکیل اور دیگر معزز شعبوں کو روپے پیسوں کے رشتوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہندوستان میں یہ سب کچھ تاخیر سے ہو رہا تھا۔ نئے حکمرانوں کی آمد سے یہ فنکار مالی سرپرستی سے محروم ہو گئے اور روزگار کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔ ایسے میں بہت سے گویوں نے سنگیت سمیلن لگانے شروع کیے جہاں عام دیہاتی لوگوں کو اپنی کلاسیکی موسیقی سے محظوظ کرواتے تھے۔ لیکن اس کے لیے انہیں اپنی موسیقی کو بھی زیادہ دلچسپ اور عوامی بنانا پڑا۔ ولمبت کی جگہ درت انداز گائیکی اور لمبی تانیں غالب آنا شروع ہوئیں۔ کیونکہ یہ عام لوگ موسیقی کے راگوں کے رموز سے نا واقف تھے۔

اسی دوران فلمی صنعت میں ان فنکاروں کے لیے نئے مواقع مہیا کیے۔ گو کہ اس جانب کلاسیکی استادوں کا رویہ آغاز میں مخاصمانہ تھا لیکن اس کے باوجود ان کے بہت سے شاگرد اور فن سے وابستہ افراد نے اس صنعت کی آبیاری کی۔ بائیں بازو کی تحریک نے اس صنعت کو نئے موضوعات سے روشناس کروایا۔ منشی پریم چند نے 1934ء میں ایک فلم کا اسکرپٹ لکھا تو پورے شہر میں ہلچل مچ گئی۔ یہ فلم ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں ہڑتال کے متعلق تھی جس میں ہزاروں محنت کشوں نے شرکت کی تھی۔ بمبئی کے سرمایہ داروں نے اس فلم کو بننے سے رکوایا اور اس صنعت کے آغاز پر ہی اس پر قدغنیں لگانی شروع کیں۔ 1946ء میں پہلی دفعہ ہندوستان کی کوئی فلم عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی۔ یہ میکسم گورکی کے مشہور ڈرامے ’’پاتال‘‘ (The Lower Depths) سے ماخوذ تھی۔ ’’نیچا نگر‘‘ نامی اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح غریبوں کی ایک بستی کو سرمایہ دار اور پراپرٹی مافیا ختم کر کے وہاں امیروں کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے جواب میں غریبوں کی ایک تحریک برپا ہوتی ہے۔ اسی سال ہندوستان میں ہونے والی جہازیوں کی عظیم بغاوت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے سلیل چوہدری نے انقلابی دھنیں بنائیں۔ ان میں ’’چکہ بند‘‘(یعنی ہڑتال) انتہائی خوبصورتی سے کورس کی شکل میں مزدوروں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔

کے ایل سہگل

اس عرصے میں فلمی صنعت کو کے ایل سہگل جیسا گلوکار اور موتی لعل جیسا اداکار ملا جن کا ثانی آج تک پیدا نہیں ہو سکا۔ 1939ء میں دیوداس پہلی دفعہ بنی جس میں سہگل نے مرکزی کردار نبھایا۔ کردارسازی اور موسیقی میں بعد میں بننے والی دونوں فلموں سے یہ بہت بہترتھی۔ اسی طرح انل بسواس جیسے عظیم موسیقار بھی پیدا ہوئے جنہوں نے لتا، کشور اور مکیش جیسے گلوکاروں کو پروان چڑھایا۔ اس دور میں فلمی صنعت کو پروان چڑھانے والوں کی اکثریت بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ تھی جن میں راج کپور سے لے کر ساحر لدھیانوی اور ایس ڈی برمن تک سب کمیونسٹ پارٹی کے باقاعدہ ممبر تھے۔ گرو دت کی ’’پیاسا‘‘ فلم نے ایک دفعہ پھر پوری دنیا میں مچا دی تھی جس میں ساحر کے گیت اور ایس ڈی برمن کی موسیقی آج بھی دل کو چھو لیتی ہے۔

سیتہ جیت رے ہندوستان کی فلمی صنعت میں سب سے بڑے ہدایتکار کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کی بنگالی فلم ’’اپو کی کہانی‘‘ دنیا بھر میں فلم کے طلبہ بغور دیکھتے ہیں۔ فلم ’’جلسہ گھر‘‘ نے پرانے سماج کو ٹوٹتے ہوئے دکھایا اور نوابوں اور پرانے رئیسوں کی جگہ نودلتیوں کے ابھرتے ہوئے کردار کو فلمی سکرین پر پیش کیا۔ اس طرح انہوں نے منشی پریم چند کے مختلف افسانوں کو فلموں کا موضوع بنایا جس میں ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘اہمیت کا حامل ہے۔ اس فلم میں امجد خان نے لکھنؤ کے آخر ی نواب واجد علی خان کا کردار انتہائی خوبصورتی سے نبھایااور شعلے کے گبھر سنگھ کو پیچھے چھوڑ گئے۔ اس دور میں تمام فلموں میں بائیں بازو کے اثرات واضح نظر آتے ہیں جن میں سماج کی طبقاتی تفریق کو واضح طور پر دکھایا جاتا تھا۔ گو کہ انفرادی محبت ہی اکثر فلموں کا موضوع ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود امیر اور غریب کا فرق اس محبت کے حصول میں اکثر حائل رہتا تھا۔ اس کے علاوہ ہیرو کے لیے قلی، کان کن، تانگے والے یا عام مزدورکا کردار معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اسے کامیابی کی ضمانت گردانا جاتا تھا۔

اس دوران ہندوستان میں آرٹ فلموں کے نام سے ایک نئی صنف کا آغاز ہوا۔ اس میں روایتی فلموں سے ہٹ کر ایسی فلمیں بنانے کے تجربے کیے گئے جس میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔ اس دور میں ایسے تجربات یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں پہلے ہی مختلف ناموں سے کیے جا رہے تھے۔ کہیں New Wave کے نام سے یہ تحریک بنی اور کہیں Neo- Realism کے نام سے اسی طرح کے تجربے کیے گئے۔ ہندوستان میں اسے Parallelسینما یا آرٹ فلمیں قرار دیا گیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ روایتی فلموں میں ان موضوعات کی گنجائش کم سے کم ہو تی جا رہی تھی اور ہیرو سمیت دیگر کردار حقیقت سے بہت دور ہو تے جا رہے تھے۔ ہالی وڈ میں بھی اس دور میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہدایتکاروں، مصنفوں، اداکاروں اور دیگر تمام افراد کو چن چن کر نکالا گیاتھا اوران کے خلاف انتقامی کاروائیاں کی گئیں۔ غلاموں کی بغاوت پر بننے والی فلم ’’اسپارٹیکس‘‘ نے اس پابندی کو پہلی دفعہ للکارا تھا۔ اس پر حال ہی میں آنے والی انگریزی فلم ’’ٹرمبو‘‘ میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس دوران دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ داری کو ایک نیا عروج ملا تھا۔ سرمایہ داری نے سولہویں اور سترہویں صدی میں اپنے آغاز میں ہی انفرادیت کو بہت زیادہ اہمیت دی تھی اور ہیروکا کردار تراشا تھا جو ایک ایسا شخص ہے جو اکیلا ہی سماج کا دھارا تبدیل کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے کے سماجوں کے تمام تر ادب میں کبھی بھی انفرادیت کو اتنی اہمیت حامل نہیں تھی اور ہمیشہ اجتماعی کاوشوں کے ذریعے ہی سماج تبدیل ہوتا نظر آتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے ابھار کے بعد اس کردار کو مزید تقویت ملی اور ’’سپر مین‘‘ کا کردار وجود میں آگیا۔ ایک ایسا شخص جو اس دنیا ہی نہیں بلکہ کائنات کا دھارا بھی تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کے اثرات ہندوستان کی فلمی صنعت پر بھی مرتب ہوئے اور ہیرو، غنڈوں کی فوج کو اکیلا ہی پچھاڑ سکتا تھا اور ظلم کا تن تنہا خاتمہ کر سکتا تھا۔ ’’شعلے‘‘ کو اس رجحان کی ایک نمائندہ فلم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں یہی کردار ’’مولا جٹ‘‘ نے ادا کیا۔ جس کے بعد آج تک فلمی صنعت اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکی۔ وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہوتے ہوئے یہ ہیرو زندگی کی حقیقت سے مزید دور ہوتا گیا اور ہوا میں معلق ہو گیا۔ اس کا کام بس زیادہ سے زیادہ غنڈوں کی پٹائی رہ گیا۔ اس کے علاوہ شہر کی ہر حسین لڑکی اس کی دلدادہ ہے۔ خود سماج میں خواتین کے کردار کو بھی محدود کرتے ہوئے صرف اس کا کام ہیرو کی محبت میں بے قرار رہنا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں یہ زوال اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکا ہے اور آج ہیرو پولیس کے تھانیدار کے روپ میں نظر آتا ہے۔ شعلے ہو یا مولا جٹ ہیرو پولیس کیخلاف کاروائیاں کرتا نظر آتا ہے۔ یہ سماج کی حقیقت کے زیادہ قریب ہے۔ موجودہ سماج میں پولیس کے تھانیدار سے زیادہ غلیظ کردار کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔ جو جرائم پیشہ امیر افراد کے آگے سر نگوں ہوتا ہے لیکن مجبور عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالتا ہے۔ در حقیقت تھانیدار آج سماج میں حکمران طبقے کا غلیظ ترین گماشتہ ہے جسے محنت کش طبقے کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن فلموں میں اسے ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح جیمز بانڈ جو خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ ہے اسے بھی ہیرو بنایا جا رہا ہے اور اسی طرز پر یہاں بھی فلمیں بن رہی ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں کے انتہائی غلیظ کردار سے تمام سیاسی کارکنان واقف ہوتے ہیں۔

ان فلموں کے مقابلے میں جب آرٹ فلموں کا آغاز کیا گیا تو ارادہ یہ تھا کہ اس زوال پذیری سے بچا جائے اور حقیقی زندگی کو فلموں کا موضوع بنایا جائے۔ اس میں دو بیگھہ زمین، غلام عباس کے افسانے پر مبنی فلم منڈی اور دیگر بہت سی فلمیں بنائی گئیں۔ ان فلموں کو عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی جس کا انتہائی بیہودہ جواز گھڑا گیا کہ یہ عام لوگوں کی سوچ سے بالا تر ہیں اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ اگر فن کا کوئی نمونہ یا کوئی ادب عام لوگوں کو سمجھ نہ آسکے تو وہ اعلیٰ نہیں بلکہ گھٹیا ہوتا ہے۔ مشکل مشکل الفاظ کے ڈائیلاگ بولنے اور بے معنی کرداروں پر مبنی اگر کوئی فلم بنا لی جائے جو کسی کی سمجھ میں نہ آئے حتیٰ کہ خود بنانے والے کی سمجھ میں بھی نہ آئے تو وہ اعلیٰ کیسے ہو سکتی ہے۔ یہی کچھ آرٹ فلموں کے ساتھ بھی ہوا۔ آغاز میں عام مزدوروں اورکسانوں کی زندگیوں کو موضوع بنایا گیا لیکن وقت کے ساتھ یہاں بھی دائیں بازو کے نظریات غالب آتے گئے اور کردار مافوق الفطرت حیثیت اختیار کرتے گئے جن کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایسے کردار تخلیق کیے گئے جن کا زندگی کے سلگتے ہوئے معاشی اور دیگر مسائل سے کوئی سروکار نہیں تھا اور وہ صرف محبت کے فلسفے پر ہی گفتگو کرتے ہوئے جہاں سے رخصت ہو جاتے تھے۔

یہاں کے آرٹ پر سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے بھی واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ جہاں دائیں بازو کے مقابلے میں ترقی پسند ادب کو پروان چڑھانے کے لیے خصوصی کاوشیں کی گئی وہاں ایک مخصوص نقطہ نظر بھی اس پر مسلط کیا گیا۔ جس میں ایک خاص قسم کا انجام ہر کہانی پر مسلط کرنا ضروری سمجھا گیا۔ اس سے حقیقت نگاری کو فروغ ملنے اور بڑا آرٹ تخلیق ہونے کی بجائے آرٹ کو صرف پراپیگنڈا تک محدود کر دیا گیا۔ بلراج ساہنی کی ’’گرم ہوا‘‘، شترو گھن سنہا کی ’’کالکا‘‘ اور امیتابھ بچن کی ’’میں آزاد ہوں‘‘انتہائی اہمیت کی حامل فلمیں ہیں جن کے بنانے میں ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ افراد کا کلیدی کردار ہے۔ یہ فلمیں آج بھی دیکھنے والوں کے لہو کو گرماتی ہیں اور ان میں جوش و جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ لیکن اس میں سٹالنسٹ نظریات کی چھاپ واضح نظر آتی ہے جہاں تمام کرداروں کے صرف ایک پہلو کو ہی اجاگر کیا جاتا ہے اور تمام کردار یکطرفہ ہیں۔ یہی کچھ مرزا غالب پر بننے والے ڈرامے کے ساتھ کیا گیا جس میں غالب کا انتہائی مجہول اور یکطرفہ کردار پیش کیا گیا۔ جیسے شاعروں کو حقیقی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ اس وقت کے ہندوستان میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں نے غالب کی شاعر ی پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے اور ان کی شاعری اس عہد کا آئینہ ہے۔ لیکن اس پہلو کو رد کر دیا گیا اور اسے صرف موضوعی کارنامہ بنا کر پیش کیا گیا۔ 1954ء میں منٹو کی کہانی پر مبنی غالب پر بننے والی فلم نسبتاً بہتر تھی جس میں طلعت محمود نے آواز کا جادو جگایا تھا جو جگجیت سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

سوویت یونین کے انہدام کے فلمی صنعت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ جہاں آرٹ فلموں کا بتدریج خاتمہ ہوا وہاں ان فلموں سے وابستہ اداکاروں کو کمرشل فلموں میں روزگار تلاش کرنا پڑا جہاں انہیں انتہائی بیہودہ کردار ادا کرنے پڑے۔ اوم پوری بھی اسی کا شکار ہوئے اور آخری سالوں میں درجنوں فلموں میں کام کرنے کے باوجود کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکے۔
آج یہاں فلمی صنعت ایک اہم دوراہے پر کھڑی ہے اور کشمکش کا شکارہے۔ ایک طرف سرمائے کا مکمل غلبہ ہو چکا ہے اور فلموں کی کامیابی کا معیار جہاں پہلے یہ ہوتا تھا کہ یہ کتنے ہفتے چلتی ہے آج یہ بن چکا ہے کہ یہ کتنے کروڑکماتی ہے۔ فلم کے ہر شعبے کے لیے بہترین پروفیشنل کی خدمات لی جاتی ہیں۔ ڈریس ڈیزائننگ، میک اپ، کوریو گرافی، کمپیوٹر گرافک اور کیمرہ ورک سب شعبے تکنیکی لحاظ سے انتہائی پروفیشنل اور بلند معیار کے حامل ہو چکے ہیں۔ لیکن سب کو ایک کُل میں نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس کے لیے ایک مضبوط کہانی کی ضرورت ہے جس کے لیے پھر ترقی پسند نظریات اور حقیقت نگاری کی ضرورت ہے جو منظر پر کہیں بھی موجود نہیں۔ ایسی کہانی کی عدم موجودگی میں نوجوانوں کے سطحی جذبات اور ہوس کو ابھار کر فلم کامیاب کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گراوٹ کی انتہا یہ ہے کہ عریاں فلموں اور کمرشل فلموں میں فرق ختم ہوتا چلا جا رہا ہے اور ایک ہی اداکار دونوں طرز کی فلموں میں جلوہ گر ہیں۔ اب کھیل اور دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد کی چند کامیابیوں کو موضوع بنا کر ہیروکے خالی پن کو پر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اس ہیروازم میں بھی زندگی کی حقیقتوں کے تمام پہلوؤں کو اجاگر نہیں کیا جا رہا۔ اس کمی کا اظہار اداکاری سے لے کر ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ ویسے بھی اب کردار کو کہانی کے ذریعے ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ بس ایک بڑے نام کو سائن کر لینا ہی کافی ہے جس کے متعلق سب جانتے ہیں کہ یہ ہیرو ہے۔ اسی لیے اداکاری کا معیار بھی انتہائی پست ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ موسیقی کا معیار انتہائی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے جس پر ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے۔ بے سرے گلوکار مقبولیت کی بلندی پر پہنچ چکے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں رہی سہی کسر بھی نکالنے پر تلی ہوئی ہیں۔ نئی دھن بنانے کی بجائے پرانی دھنوں کو ہی بگاڑ کر پیش کر دیا جاتا ہے۔

ایسے میں یہ سب کچھ سماج سے الگ نہیں۔ یہ سب سرمایہ داری کے بد ترین بحران کی غمازی کرتا ہے۔ آج کی سیاست بھی نظریات سے عاری ہو چکی ہے اور وہاں بھی لوٹ مار اور منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نئی سیاست کی گنجائش بھی پیدا ہو رہی ہے۔ ہندوستان میں محنت کش طبقہ تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتالیں کر کے منظر عام پر آنے کا آغاز کر چکا ہے جبکہ طلبہ سیاست میں کئی دہائیوں بعد ایک نیا ابھار آیا ہے۔ سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث کمیونسٹ پارٹیاں شدید ترین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور عام کارکنوں کے ذہنوں میں اہم سوال ابھر رہے ہیں۔ اس کا اظہار ناگزیر طور پر فلموں اور آرٹ کے ہر شعبے میں ہوگا۔ نئے نظریات کے لیے سرگرداں ہندوستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو بہتر مستقبل کی کسی منزل کا پتہ بتانے کے لیے فنکاروں پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہیں سرمائے کی ان زنجیروں سے خود کو آزاد کراتے ہوئے حقیقت نگاری کے نئے افق تلاش کرنے ہوں گے۔ ان کے سامنے ماضی کے بہت سے تجربات موجود ہیں جن سے آج اہم نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔ آنے والے عرصے میں طبقاتی کشمکش کے نئے طوفان ابھریں گے جو سماج کے ہر حصے کو اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ انہی طوفانوں کے اندر سے ایسے فنکار پیدا ہوں گے جو ماضی میں حاصل کی گئی بلندیوں کو بھی مات دیں گے۔ نئے گلوکار، اداکار، موسیقار، کہانی نویس اور ہدایتکارپیدا ہوں گے جو یقیناًفن کی نئی بلندیوں کو چھوئیں گے۔ اسی منزل کا حصول اوم پوری اور ان کی پوری نسل کی فن کے لیے خدمات کو حقیقی خراج تحسین ہوگا۔

Comments are closed.