نوعِ انسان کی داستان

|تحریر: عدیل زیدی|

انسان دنیا کا وہ واحد جاندار ہے جو اپنے وجود کا باقی دنیا سے الگ ایک شعور رکھتا ہے اور اسی وجہ سے اپنے وجود کی بنیاد کو جاننے کی جستجو نے انسان کو صدیوں سے لاتعداد توجیہات پیش کرنے پر مجبورکیا ہے۔ انسان نے مختلف علاقوں میں مختلف وقتوں میں اپنے وجود میں آنے پر کافی مختلف وجوہات پیش کیں اور صرف انسان کے وجود پر ہی نہیں بلکہ دنیا کے وجود میں آنے پر بھی مختلف توجیہات پیش کی گئیں۔

قدیم مصریوں کے خیال میں کائنات اور دنیاکایہ سفر اندھیروں اور انتشار میں سے تخلیق پانے سے شروع ہوا۔ شروع میں کچھ نہیں تھا سوا ئے بے مقصدیت کے ساتھ کالے پانی کے اور اس انتشار میں سے بن بن (Ben-Ben) نامی قدیم پہاڑی کا ظہورہوتا ہے جس پر خدا آتوم( Atum) رہتا تھا۔ آتوم اس خلا اور اکیلے پن کو دور کرنے کے لئے اپنے ہی سایہ سے ملن کر کے دو بچے پیدا کرتا ہے، شو(Shu، ہوا کا دیوتا) اور تفنوت(Tefnut، نمی کی دیوی)۔ شو زندگی کے قوانین وضع کرتا ہے اور تفنوت نظم کے قوانین وضع کرتی ہے۔ پھر یہ دونوں دنیا کو ترتیب دینے کی غرض سے اپنے باپ کو بن بن کی پہاڑی پر چھوڑ کر نکل جاتے ہیں۔ ان کا باپ ان کی غیر موجودگی پر افسردہ ہو کر اپنی آنکھ کو ان کی تلاش میں بھیجتا ہے اور وہ ان کو لے کر آتی ہے، بچوں کی واپسی کی خوشی میں آتوم کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکلتے ہیں اور بن بن کی اندھیری اور زرخیز زمین پر گرتے ہیں جس سے انسان (مرد اور عورت) کا جنم ہوتا ہے۔ اس مخلوق (یعنی انسان) کے رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی چنانچہ شو اور تفنوف دو بچے پیدا کرتے ہیں، ایک گیب (Geb) یعنی زمین اور دوسری نوت (Nut) یعنی آسمان۔ گیب اور نوت کے مزیدپانچ بچے ہوتے ہیں جو کہ مصر کو تخلیق کرتے ہیں اور اس کا انتظام چلاتے ہیں۔

اسی طرح سے مختلف علاقوں کی ثقافتوں میں بھی اپنے علاقوں کے مخصوص حالات کی بنیاد پر توجیحات پیش کی گئی ہیں۔ لیکن یورپ میں چودہویں صدی میں نشا ۃِ ثانیہ کے آغاز کے بعد دنیا میں حالات اور واقعات کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کومغربی یورپ کے سترہویں اور اٹھارویں صدی کے سرمایہ دارانہ انقلابات نے مزید تقویت دی اور ایک تیز رفتار صنعتی ترقی نے سائنس اور فلسفہ کو تیز رفتار ترقی دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان بنیادوں پر انسانی معاشرے کی تشریح کے لئے پرانے دیومالائی طریقوں کی بجائے نئے اور جدید سائنسی طریقوں کے استعمال میں تیزی آئی اور کائنات، زندگی اور انسانی وجود کی ابتدا کے صدیوں پرانے سوالات پر سائنسی بنیادوں پر دوبارہ سے تجزیات پیش ہونے شروع ہوئے۔ ان سوالات کے پس منظر میں ایک انقلابی دریافت اگست 1856ء میں جرمنی کی نیئنڈر (Neander) وادی میں ایک فوسل (Fossil) کھوپڑی کی شکل میں ایک غار میں ہوئی جہاں سے مزدور چونا نکالنے میں مصروف تھے۔ انہوں نے اس کھوپڑی کو اپنے سپروائزر کو دکھایا تو اس کو پہلے یہ کوئی نئی چیز نہیں لگی لیکن پھر اس کو کچھ خیال آیا اور اس نے اس علاقے کے ایک سکول ٹیچر کو یہ کھوپڑی دے دی۔ یہ کھوپڑی ایک ایسی نسل کی تھی جو کہ نہ موجودہ انسان تھا اور نہ ہی ایک بندر تھا۔ یہ تقریباً چالیس ہزار سال پرانی تھی اور بعد میں اس نسل کا نام اسی وادی نیئنڈر، جہاں سے اس کی دریافت ہوئی تھی، کی مناسبت سے نیئنڈر تھل(Neanderthal) رکھا گیا۔ اس دریافت نے ارتقا کی سائنس میں انقلابی کردار ادا کیا۔ کچھ لوگوں نے اسی کو انسان کا جدِامجد تصور کیالیکن دوسرے سائنسدان مزید شواہد ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئے۔

اسی اثنا میں، کھوپڑی کے ملنے کے تین سال بعد، سب سے اہم پیش رفت چالس ڈارون نے 1859ء میں نظریۂ ارتقا پیش کر کے کی، اس سے پہلے تمام جانوروں کی تمام انواع کو دائمی اورناقابلِ تغیر سمجھا جاتا تھا۔ ڈارون نے بتایا کہ زندگی کا آغاز سمندر میں یک خلوی حیات سے ہوا جو کہ وقت اور حالات میں تبدیلی کے ساتھ کثیرخلوی زندگی میں تبدیل ہوئی۔ اسی کثیر خلوی حیات میں وقت اور حالات کے تحت مزید پیچیدہ اعضا تخلیق ہوئے اور انہی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا میں مختلف حیوانی نسلوں کا وجود ہوا۔ ڈارون نے مزید کہا کہ کوئی بھی نسل مستقل نہیں رہتی اور صرف وہی نسلیں آگے بڑھیں جو کہ حالات اور ادوار کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے سب سے زیادہ موضوع تھیں۔ انہی بنیادوں پر انسان کے آباؤاجداد کا سوال بھی سامنے آنا شروع ہوا کیونکہ انسان بھی انہی جانداروں میں سے تھا اورانسانوں کے لئے اپنے ارتقا کا سوال انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ جسمانی ساخت کی بنیاد پر انسان کے سب سے نزدیک بندر نظر آیا اور بندرکے انسانی اجداد کے ساتھ مشترک ہونے کے شبہات کو سائنسی بنیادوں پر پرکھنے کا کام شروع ہوا۔ اس سلسلہ میں جو سب سے پہلا سوال پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ بندر سے انسان بننے تک کے ارتقا میں درمیانی کڑی کون سی تھی یعنی کہ ایک ’بندر نما انسان‘کے وجود کے بارے میں سوالات اٹھائے جانے لگے۔ ڈارون بذاتِ خود اس سوال کے جواب سے دور رہا لیکن سائنسدانوں کی نئی نسل میں اس تحقیق کو اٹھارہ سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بہت پذیرائی ملی۔ لیکن اس بات کے ٹھوس شواہدڈھونڈے بغیر کہ بندر نما انسان تھا یا نہیں، اس تحقیق کا آگے بڑھنا ناممکن تھا۔ جس کے لئے ایک ایسے علاقے کا رخ کرنا ضروری تھا جہاں بندر اور انسان دونوں رہتے تھے یعنی انڈونیشیا کے گھنے جنگلات کا۔ یوجین ڈیبوا، ایک ڈچ (Dutch) ڈاکٹر، نے 1887ء میں انڈونیشیاکے جزیرے سماٹرا میں انسانی اجداد کی تلاش شروع کی۔ ڈیبوا کو ابتدائی طور پر شدید ناکامیاں ہوئیں یہاں تک کہ اس کی اپنی زندگی خطرے میں پڑ گئی۔ اکتوبر 1891ء میں وہ واپس انڈونیشیا گیا لیکن اس دفعہ جاوا کے جزیرے پرجہاں اب اسے ڈچ فوج کی معاونت بھی مل رہی تھی، اسے ایسے فوسل ملے جو کہ انسانی ارتقا کا جواب دینے کی جانب ایک اہم قدم تھے۔ یہ ایک ایسی کھوپڑی کا فوسل تھا جو کہ انسان اور بندر کے بیچ کے کسی جاندار کی تھی اور یہ کھوپڑی تقریباً آٹھ لاکھ سال پرانی تھی۔ اس فوسل کو علاقے کی مناسبت سے جاوا مین (Javaman) کہا گیا۔

ڈیبوا کے خیال میں انسان اور بندر میں بنیادی فرق دماغ کے حجم کا تھا اور ان دونوں کے درمیان کسی بھی نوع کے دماغ کا حجم انسان اور بندر کے دماغوں کے بیچ میں ہونا چاہیے، یعنی انسانی دماغ کا آدھا اور بندر کے دماغ کا دگنا۔ لیکن اس نے اس کھوپڑی کا حجم جب ناپا تو وہ بندر کی کھوپڑی کے حجم کے دوگنے سے بھی زیادہ بڑا تھا۔ اس وجہ سے اسے اپنا خیال تبدیل کرنا پڑا۔ یہیں ڈیبوا کو ایک عدد ٹانگ کی ہڈی بھی ملی ہے جس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ کسی ایسے جاندار کی ہے جو کہ سیدھا کھڑا ہو کر چلتا تھا۔ وہ اس کا نام پیتھکانتھروپس اِریکٹس (Pithecanthropus Erectus) رکھتا ہے یعنی کھڑے ہو کر چلنے والا ’بندر نما انسان‘۔ یہ وہ انسان نما نسل تھی جو آج تک کے انسانوں کی سب سے کامیاب ترین نسل رہی ہے اور اس وقت یہ افریقہ میں بھی موجود تھی، جسے آج ہومو اریکٹس (Homo Erectus) کہا جاتا ہے یعنی کھڑے ہو کر چلنے والا۔ یہ نسل افریقہ، ایشیا اوریورپ تک آباد ہوئی۔ لیکن سائنس کی دنیا نے ڈیبوا کی دریافت کو قبول نہیں کیا۔ ڈیبوا کے کام کی اہمیت کوسائنس نے کئی دہائیوں بعد سمجھا۔ لیکن اس دوران درمیانی کڑی کی تلاش جاری رہی اور کئی بوگس دریافتیں بھی سامنے آئیں جن میں سے ایک برطانیہ میں 1909ء میں ہوئی اور اس کی بنیاد پہلے سے تسلیم شدہ نتیجے یعنی کہ بندر اور انسان کے درمیان کی نسل کا دماغ بڑا ہونا چاہئے اور باقی چہرہ بندر جیسا ہونا چاہئے پر رکھی گئی۔ کیونکہ اس وقت برطانیہ کی سائنسی اشرافیہ یہ سمجھتی تھی کہ انسان اپنے دماغ کے بڑے ہونے کی وجہ سے انسان بنا اور اس دریافت کو زبردستی اس نتیجے کے ساتھ جوڑا گیاجس کی ایک وجہ اس دریافت کا برطانیہ میں ہونا تھا۔

کئی دہائیوں تک سچ تسلیم کی جانے والی یہ دریافت در حقیقت سائنس کی تاریخ کا ایک بہت بڑا فراڈ تھی۔ اس کے بعد 1924ء میں جنوبی افریقہ میں ایک آسٹریلین کالج ٹیچر ڈارٹ(Dart)، جو کہ مسلسل فوسلز جمع کر رہا تھا، کو ایک فوسل ملا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ ایک انسان نما کا فوسل افریقہ سے ملا ہو۔ اس نسل کا سائنسی نام آسٹرالوپیتھِکس افریکانسس ہے اور یہ فوسل بیس لاکھ سال سے زیادہ پرانے تھے۔ ڈارٹ اس موضوع پر ایک پیپر شائع کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے وہ نسل دریافت کر لی ہے جو کہ انسان اور بندر کی درمیانی کڑی تھی اس وجہ سے سائنس کی دنیا میں ایک بہت بڑا تنازعہ کھڑا ہوجاتا ہے کیونکہ یہ دعویٰ برطانیہ میں بیٹھی اس وقت کی سائنسی اشرافیہ کے خیال سے متصادم تھا، جو کہ اپنی ایک جھوٹی دریافت پر بضد تھے۔ اس نئی دریافت کے خدوخال برطانیہ میں ہونے والی تسلیم شدہ دریافت سے متصادم تھے، کیونکہ اس کا دماغ ایک انسان کے دماغ سے چھوٹا تھالیکن جبڑا انسانی جبڑے کی طرح کا تھاجو کہ برطانیہ کی سائنسی اشرافیہ کی خواہشات کے خلاف جاتا تھا اور انہوں نے اس دریافت کو مکمل طور پر رد کر دیا اور اس دریافت کو ایک گوریلے کے فوسل کے طور پر ہی تسلیم کیا۔ اس معاملے میں مسئلہ یہ تھا کہ ڈارٹ ’غلط‘ شخص تھا، وہ برطانوی سائنسی اشرافیہ کا حصہ نہیں تھا اور نہ ہی برطانوی تھا بلکہ ایک آسٹریلین تھا۔ مزیدیہ کہ سائنسی اشرافیہ افریقہ سے انسان کے آباواجداد کے نکلنے کی توقع بھی نہیں کر رہی تھی بلکہ یورپ یا ایشیا کو انسان کی جنم بھومی سمجھتی تھی۔ لیکن 1940ء کی دہائی کے اختتام تک حالات بدل گئے تھے، برطانوی سامراجیت کے زوال کے ساتھ مزید دریافتوں کی بنیاد پر ان نظریات کو رد کرنے کے مواقع ملے اور پچیس سال کی انتھک محنت کے بعد ڈارٹ کو اپنی سچائی ثابت کرنے کا موقع ملا۔

1953ء میں 1909ء کے برطانیہ میں کیے گئے دعوے کا دوبارہ سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا گیااور ان فوسلز کے جعلی ہونے کا واضح ثبوت ملا اور اس کے ساتھ ہی برطانوی سائنسی اشرافیہ کا دہائیوں سے دنیا پر تھوپا ہوا غلط نظریہ کہ انسان کی بنیاد اس کے دماغ کے بڑے ہونے پر ہے کا خاتمہ ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ فریڈرک اینگلز نے اس وقت سے آٹھ دہائیاں پہلے ہی جدلیاتی مادیت کے فلسفے کی بنیادوں پر اپنی کتاب ’’The Part played by Labour in the Transition from Ape to Man‘‘ میں اس بات کو واضح کر دیا تھاکے انسان اپنے دماغ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی محنت کی بنیاد پر بندر سے انسان بنا تھااور اس محنت کو کرنے کے لئے انسانی ہاتھوں کا آزاد ہونا ضروری تھا۔ ہاتھوں کے آزاد ہونے کے لئے چار ٹانگوں کی بجائے دو ٹانگوں پر چلنا ضروری تھا۔ اس با ت کا ثبوت 1959ء میں لیکی نامی برطانوی نے تنزانیہ میں فوسلز کی تلاش میں حاصل کیا۔ لیکی نے سائنس کی دنیا کو یقین دلا دیا تھا کہ انسان ہونے کے لئے اوزار بنانا ضروری تھا۔ بائیس سال کی محنت کے دوران لیکی کو لاتعداد اوزار ملے تھے اور آخر کار اسے اسی جغرافیائی پرت سے جس سے اوزار مل رہے تھے، ایک فوسل ملا جس کا نام اس نے پرانتھروپس بوایزی (Paranthropus Boisei) رکھا، اور شروع میں اسی کو اوزار بنانے والا سمجھا، لیکن ایک سال بعد اسی علاقے سے ایک اور کھوپڑی ملی جو کہ انسانی کھوپڑی سے زیادہ مشابہہ تھی۔ اس نسل کا نام اس نے ہومو ہیبلس (Homo Habilis) رکھا یعنی ہاتھ سے کام کرنے والا۔ اس وقت تک سائنس کی دنیا میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ بندر سے انسان بننے میں صرف ایک ہی درمیانی نسل موجود تھی، لیکن لیکی کے دو نسلوں کی ایک ہی جگہ اور عہد، یعنی تقریباً اٹھارہ لاکھ سال پہلے، کی دریافت نے یہ واضح کردیا کہ ایسا نہیں تھا۔ صرف 1925ء سے 1965ء تک انسان نما نسلوں کے سو سے زائد فوسلز صرف جنوبی افریقہ سے ملے۔ ان دریافتوں کے نتیجہ میں واضح ہوا کہ انسان کے ارتقائی عمل میں بے شمار انسان نما نسلیں ایک ہی علاقہ میں بیک وقت موجود رہیں تھیں اور اس تبدیلی کو ایک سیدھی لکیر کے ماڈل سے بیان کرنا ایک غلطی تھی جیسے بورژوا سائنس پچھلے سو سال سے کر رہی تھی بلکہ انسان نما بے شمار نسلیں لاکھوں سال تک دنیا میں رہی تھیں، جن میں سے کچھ ختم ہو گئیں اور کچھ ارتقا کی اگلی منازل میں داخل ہو گئیں اور لاکھوں سال کے اس عمل کے نتیجہ میں آج کا انسان صرف دو لاکھ سال پہلے وجود میں آیا تھا۔

حقیقت میں آج کے بندر سے انسان نہیں بنا تھا بلکہ آج کے بندر اور انسان کے آباؤ اجداد مشترک تھے۔ ابھی بھی سوال موجود تھا کہ وہ پہلی نسل کونسی تھی جس کو انسانیت کی طرف پہلا قدم کہا جا سکتا تھا۔ 1974ء میں انسانی ارتقا کی سائنسی دریافتوں میں ایک انقلابی دریافت کا اضافہ ہوا۔ امریکیوں کی ایک ٹیم، جس کو ڈونلڈ جوہینسن (Donald Johanson) لیڈ کر رہا تھا، نے ایتھوپیا میں بتیس لاکھ سال پرانی جغرافیائی پرتوں سے ایک فوسل دریافت کیا۔ اس ٹیم نے ماڈرن ٹیکنالوجی کے ذریعے پرتوں کے عہد کو پہلے سے بہتر طریقہ سے ناپا۔ انہیں یہاں بتیس لاکھ سال پرانا فوسل ملا جس کا نام انہوں نے لوسی (Lucy) رکھا اور اس کا سائنسی نام اسٹرالوپیتھِکس افارنسس (Australopithecus Afarensis) ہے۔ لوسی کو شروع میں وہ پہلی جاندار سمجھا گیا جس نے دو پیروں پر چلنا شروع کیا لیکن جدید جینیاتی (Genetics) سائنس کے ذریعے سے پتہ لگایا گیا کہ ایسا نہیں تھا۔ آج جینیاتی سائنس سے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ دو نسلوں میں اپنے مشترک اجداد سے علیحدگی کتنے سال پہلے شروع ہوئی۔ جب انسان اور بندر کی جینیاتی علیحدگی کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ فرق ساٹھ سے ستر لاکھ سال پہلے پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس معاملے پر کوئی فوسل ریکارڈ 1990ء کی دہائی سے پہلے موجود نہیں تھا، کیونکہ اس وقت تک زیادہ تر تلاش مشرقی افریقہ میں ہوئی تھی۔ جہاں چالیس لاکھ سال سے پہلے کے صرف چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہی ملے تھے۔ 1997ء میں ایک فرانسیسی پیلی انٹولوجسٹ (Paleontologist) میشل برونے (Michel Brunet) نے صحارہ کے ریگستان میں تلاش کا فیصلہ کیا اور شمالی چاڈ میں اس کام کو شروع کیا جہاں کبھی کسی نے پہلے یہ کام نہیں کیا تھا۔ کئی سالوں کی محنت کے بعد میشل کی ٹیم نے 2001ء میں ستر لاکھ سال پرانی کھوپڑی دریافت کی۔ انہوں نے اس کا نام ساہلانتھروپس ٹہِڈنسس (Sahelanthropus Tehadensis) رکھا۔ یہ وہ پہلے جاندارو ں میں سے تھے جنہوں نے زمین پر زندگی کی تاریخ میں پہلی دفعہ دو ٹانگوں پر چلنا شروع کیا، اس فرق کے علاوہ اس نسل میں اور باقی بندروں کی نسل میں کوئی فرق نہ تھا۔ دو پیروں پر کھڑے ہونے سے پہلے یہ جاندار درختوں پر رہتے تھے لیکن زمینی موسموں کی تبدیلی نے ان کو میدانوں میں اترنے پر مجبور کیا۔ میدانوں میں دو پیروں پر کھڑا ہونے نے جہاں اس نسل کو خطرات کے سامنے لا کھڑا کیا وہیں ان کو اپنے ہاتھوں کے استعمال کرنے، دور تک سفر کرنے اور اپنے اجداد سے زیادہ دور تک دیکھنے کی صلاحیت عطا کی۔

یہ ان ہزاروں دریافتوں میں سے چند دریافتیں تھیں جنہوں نے تاریخی طور پرہماری انسانی ارتقا کی سمجھ بوجھ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن سائنسی عمل ہمیشہ ایک مسلسل تلاش کا عمل ہوتا ہے جس کی کبھی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ کسی بھی چیز کا سائنسی تجزیہ ہمیشہ مختلف زاویوں کو مدنظر رکھ کر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے انسانی ارتقائی تاریخ کو سائنسدانوں نے جیولوجیکل حالات کے ساتھ جوڑتے ہوئے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس میں ضروری عنصر یہ ہے کہ سائنسی نتائج کو کسی بھی تعریف (Definition) کو صحیح ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنا بڑی غلطی ہوتی ہے بلکہ تعریف کو نئے نتائج کی بنیاد پر مسلسل تبدیل ہوتے رہنا چاہئے۔ آج بھی انسان کو تمام انسان نما نسلوں کا پوری طر ح نہیں پتہ لیکن جو سائنسی دریافتیں ہوئی ہیں ان کی خصوصیات ادوار کی ترتیب کے ساتھ درج ذیل ہیں:

1۔ نسل: ساہلانتھروپس ٹہِڈنسس (Sahelanthropus Tehadensis)
عہد: ساٹھ سے ستر لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: مغربی وسطی افریقہ
خلاصہ: ان کو ابتدائی انسان نما نسل سمجھا جاتا ہے جو کہ دو پیروں پر چلتے تھے۔ ان کا دماغ بندر کے دماغ کے برابر تھااور چھوٹے کینائن دانت(گوشت کاٹنے والے دانت) تھے، جس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کی خوراک میں گوشت شامل نہیں تھا۔

2۔ نسل: اورورین ٹوگِنینسِس (Orrorin Tugenensis)
عہد: اٹھاون سے باسٹھ لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: مشرقی افریقہ(کینیا)
خلاصہ: فوسل سے پتہ چلتا ہے کہ سیدھے کھڑے ہو کر چلنے والا انسان نما تھا، جس کا جسم بندر جیسا تھا جس میں درختوں پر چڑھنے اور چھلانگیں لگانے میں مددگار لمبی مڑی ہوئی انگلیاں تھیں اور جبڑا بھی بندروں کے جیسا ہی تھا۔

3۔ نسل: ارڈیپی تھِکس کڈابا (Ardipithecus Kadabba)
عہد: باون سے اٹھاون لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: مشرقی افریقہ(کینیا)
خلاصہ: اس نسل کو پہلے ارڈیپی تھِکس رِمیڈس(Ardipithecus Ramidus) نامی نسل کا حصہ سمجھا گیا لیکن بعد میں دانتوں کی بناوٹ زیادہ قدیم پائی گئی جس کے بعد اس کو الگ نسل کے طور پر دیکھا گیا۔ اس نسل کے گھنے جنگلات میں پائے جانے کے شواہد نے دو پیروں پر چلنے کا آغاز سوانا(Savanna) میں نہ ہونے کا عندیہ دیا۔

4۔ نسل: ارڈیپی تھِکس رِمیڈس(Ardipithecus Ramidus)
عہد: تقریباً چوالیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: مشرقی افریقہ(ایتھوپیا)
خلاصہ: 2009ء میں ملنے والے ایک مادہ کی کولہے اور ٹانگوں کی فوسل ہڈیوں کے آثار سے یہ نظر آتا ہے کہ یہ سیدھا کھڑا ہو کر چلنے والی انسان نما نسل تھی۔ کنائن دانتوں کے اچھے نمونے سے نظر آتا ہے کہ نر اور مادہ کے حجم میں بہت کم فرق تھا۔

5۔ نسل: اسٹرالوپیتھِکس انامیسس(Australopithecus Anamesis)
عہد: انتالیس سے بیالیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: مشرقی افریقہ (کینیا اور ایتھوپیا)
خلاصہ: پنڈلی کی ہڈی کے اوپری حصے اور ہڈی کی پھیلاؤ سے نظر آتا ہے کہ یہ دو پیروں پر چلنے والی انسان نما نسل تھی اور ایک وقت میں صرف ایک گھٹنے پر وزن ڈالتی تھی۔ یہ نسل دریائی جنگلات میں پائی جاتی تھی۔ اس نسل کی کھوپڑی بندر سے زیادہ قریب ہے جبکہ باقی جسم زیادہ انسانی ہے۔

6۔ نسل: اسٹرالوپیتھِکس ایفارنسس(Australopithecus Afarensis)
عہد: تیس سے اڑتیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: مشرقی افریقہ(ایتھوپیا، کینیا، تنزانیہ)
خلاصہ: اس انسان نما نسل، جس میں لوسی بھی شامل ہے، کا سر اور چہرہ بندر کی طرح کا تھااور مڑی ہو انگلیوں کے ساتھ مضبوط بازوجو کہ درختوں پر چڑھنے کے کام آتے تھے لیکن یہ سیدھے کھڑے ہوتے تھے اور دو پیروں پر چلتے تھے۔ ان خصوصیات نے اس نسل کو مختلف ماحولیاتی تبدیلیوں میں رہنے میں مدد دی۔

7۔ نسل: اسٹرالوپیتھِکس افریکانس (Australopithecus Africanus)
عہد: اکیس سے تینتیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: جنوبی افریقہ
خلاصہ: ڈارت کی دریافت شدہ انسان نما نسل، جو کہ 1924ء میں دریافت ہوئی۔ یہ انسان نما کی پہلی نسل تھی جو کہ افریقہ میں دریافت ہوئی تھی۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر سبزی خور تھے جیسا کہ آج کے چیمینزیوں کی خوراک ہے۔ ان کے دانتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی خوراک سخت چیزوں پر مشتمل تھی۔

8۔ نسل: پیرینتھروپس ایستھروپیکس (Paranthropus Aesthropicus)
عہد: تیئس سے ستائیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: شمالی کینیا کا ٹرکانا کا علاقہ اور جنوبی ایتھوپیا
خلاصہ: سیدھا کھڑا ہونے والا انسان نما۔ اس نسل میں کھوپڑی کے اوپر کی سطح بتاتی ہے کہ چبانے کے پٹھے بہت طاقتور تھے۔ یہ بات بہت زیادہ متوقع ہے کہ یہ نسل پیرینتھروپس بوائزی (Paranthropus Boisie) کی جدِامجد ہو۔

9۔ نسل: اسٹرالوپیتھِکس گارہی (Australopithecus Garhi)
عہد: تقریباً پچیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: مشرقی افریقہ
خلاصہ: سیدھا کھڑا ہونے والا انسان نما۔ اس نسل کے لمبے دانت تھے اور ان کی شکل اسٹرالوپیتھِکس افریکانس (Australopithecus Africanus) جیسی تھی۔ ان کے دانتوں کی کچھ خصوصیات انسان(Homo) سے بھی مماثلت رکھتی تھیں۔ اس کے فوسل ڈانچوں کے آثار سے نظر آتا ہے کہ ران کی ہڈی دوسری اسٹرالوپیتھِکس (Australopithecus ) نسلوں سے زیادہ لمبی تھی لیکن طاقتور لمبے بازو موجود تھے۔ یہ چیز چلنے میں قدموں کی لمبائی میں تبدیلی کی عکاس ہے۔

10۔ پیرینتھروپس بوائزی (Paranthropus Boisie)
عہد: بارہ سے تئیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: مشرقی افریقہ (ایتھوپیا، کینیا، تنزایہ، ملاوی)
خلاصہ: سیدھا کھڑا ہونے والا انسان نما۔ اس نسل کے باسیوں کی کھوپڑی کے اوپر ابھری ہوئی ہڈی ہوتی تھی جو کہ چبانے کے بڑے پٹھوں کو سنبھالے ہوئے ہوتی تھی اور بڑے جبڑے کو ہلاتی تھی۔ زور کا مرکز داڑھوں پر ہوتا تھا۔ اپنے عہد کے زیادہ تر وقت میں یہ نسل مشرقی افریقہ میں ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) نامی انسانی نسل کے ساتھ رہی، کچھ کھدائیوں سے دونوں نسلوں کے فوسِلز برآمد ہوئے۔

11۔ نسل: اسٹرالوپیتھِکس سیڈیکا (Australopithecus Sedica)
عہد: تقریباً انیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: جنوبی افریقہ

12۔ نسل: ہومو ہیبلس (Homo Habilis)
عہد: چودہ سے ستائیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: مشرقی اور جنوبی افریقہ
خلاصہ: یہ اب تک دریافت ہونے والی سب سے قدیم انسانی نسل ہے۔ اس نسل کا نام ہومو ہیبلس (Homo Habilis)، جس کا مطلب ’ہاتھ سے کام کرنے والا‘ ہے، یہ نام اس لئے رکھا گیا تھاکیونکہ جب 1960ء کی دہائی میں اولڈووائی جارج (Oldovai Gorge) نے اسے دریافت کیا تو اس نسل کو پہلے اوزار بنانے والا تصور کیا گیا۔ لیکن حال ہی میں افریقہ سے تینتیس لاکھ سال پرانے پتھر کے اوزاروں کی دریافت نے ہومو ہیبلس (Homo Habilis) کے سب سے قدیم انسانی نسل ہونے کے سٹیٹس پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

13۔ نسل: ہومو رڈولفِنسِس(Homo Rudolphensis)
عہد: اٹھارہ سے انیس لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ:شمالی کینیا
خلاصہ: پہلے اسے ہومو ہیبلس (Homo Habilis)سمجھا گیالیکن ہومو رڈولفِنسِس(Homo Rudolphensis) میں منفرد بات ان کی کھوپڑی میں دماغ کا حصہ زیادہ بڑا، لمبا چہرا اور بڑی داڑھیں تھیں۔ اس نسل کا ایک بہت اچھا فوسِل کوبی فورا، کینیا سے ملا ہے۔ اس کے دماغ کا حجم 775 کیوبک سینٹی میٹرہے، جو کہ ہومو ہیبلس (Homo Habilis) میں سب سے زیادہ حجم کے برابر ہے۔

14۔ پیرینتھروپس روبسٹ (Paranthropus Robust)
عہد: بارہ سے اٹھارہ لاکھ سال قبل
جغرافیائی علاقہ: جنوبی افریقہ
خلاصہ: سیدھا کھڑا ہونے والا انسان نما۔ یہ مضبوط کھوپڑی اور مضبوط دانت والی نسل تھی۔

15۔ ہومو ایرکٹس (Homo erectus)
عہد: اٹھارہ لاکھ نوے ہزار سال سے ایک لاکھ تینتالیس سال قبل تک
جغرافیائی علاقہ: شمالی، مشرقی اور جنوبی افریقہ، مغربی ایشیا (دمانیسی، جارجیا) اور مشرقی ایشیا (چین اور انڈونیشیا)
خلاصہ: یہ نسل قدیم انسانی نسلوں میںآج تک کی سب سے کامیاب یعنی سب سے لمبے عرصہ زندہ رہنے والی نسل ہے۔ ایسے شواہد ملے ہیں کہ ہومو اریکٹس وہ پہلی نسل تھی جس کی خوراک میں گوشت کی وافر مقدار موجود تھی اور یہ خاطرخواہ مقدار میں گوشت اور ہڈیوں کا گودا کھاتے تھے۔ مزیدایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ اس نسل کے جسمانی بال بھی گرنے شروع ہو گئے تھے اور یہ نسل وہ پہلی نسل تھی جس نے آگ اور چولہے کا استعمال شروع کر دیا تھا۔

16۔ نسل: ہومو ہائیڈلبرگنسس(Homo Heidalbergensis)
عہد: سات سے دو لاکھ سال قبل تک
جغرافیائی علاقہ: یورپ، افریقہ (مشرقی اور جنوبی) اور ممکن ہے کہ چین میں بھی ہوں
خلاصہ: اس نسل کو کچھ جگہ ہومو سیپئین (Homo Sapien) بھی لکھاجاتا ہے۔ یہ وہ پہلے قدیم انسان تھے جنہوں نے یورپ کے سرد علاقوں کی طرف مہم جوئی کی۔ ایسے شواہد بھی موجود ہیں کہ یہ وہ نسل تھی جس نے پہلی دفعہ اپنے لئے پناہ گاہیں بنائیں اور بڑے جانوروں کا شکارلکڑی کے نیزوں سے کرنا شروع کیا۔ اس نسل کے یورپ میں آبادکار براہِ راست نینڈرتھلز (Neanderthals) کے اجداد تھے جبکہ افریقہ میں آباد آبادی کا ہمارے اجدادہونے کا قوی امکان ہے۔ اس نسل کے افریقی فوسِلز کو کچھ ریسرچرز مختلف نسل، ہومو رہوڈِسیئنسس (Homo Rhodensiensis)، کے طورپر بھی لیتے ہیں۔

17۔ نسل: ہومو نینڈرتھالنسس (Homo Neanderthalensis)
عہد: چار لاکھ سے تیس ہزار سال قبل تک
جغرافیائی علاقہ: یورپ اور جنوب مشرقی ایشیا سے وسطی ایشیا تک
خلاصہ: کھوپڑی کی خصوصیات سے پتا چلتا ہے کہ اس نسل کا چہرا چوڑا، مڑی ہوئی گال کی ہڈیاں اور بہت بڑی ناک تھی، جو کہ ٹھنڈی اور سرد ہوا کو نم کرنے اورگرمانے کے کام آتی تھی۔ ان کے جسم کی بناوٹ گرمی کو اندر محفوظ کرنے کے لئے تھی اور بازو اور ٹانگیں چھوٹی ہوتی تھیں، اوسط قد آج کے انسان سے کچھ چھوٹا تھا لیکن ہڈیاں موٹی اور بھاری تھیں جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بہت طاقتور پٹھے موجود تھے۔ نینڈرتھلز جدید انسانوں سے بہت زیادہ طاقتور تھے اور ہڈیوں کے فوسلز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ نسل انتہائی سخت حالات میں رہتی تھی۔ برفانی ماحول میں رہنے کی وجہ سے نینڈرتھلز وہ پہلے قدیم انسان تھے جنہوں نے کھالوں کے بنے لباس پہننے شروع کیے۔ شواہد کے مطابق یہ پہلی انسانی نسل تھی جو اپنے مُردوں کو دفن کرتے تھے اور ان کے فوسلز کے ساتھ مورتی نما اشیا کی باقیات بھی ملی ہیں۔ نینڈرتھل انسان کا دماغ آج کے انسان سے حجم میں بڑا تھا یعنی 1450کیوبک سنٹی میٹر۔ ان غاروں سے کافی بڑی تعداد میں ہومو ایریکٹس سے زیادہ ترقی یافتہ اوزار اور ہتھیار بھی پائے گئے ہیں۔

18۔ نسل: ہومو فلورینسینسس(Homo Florensiensis)
عہد: پچانوے ہزار سے سترہ ہزارسال قبل تک
جغرافیائی علاقہ: ایشیا (انڈونیشیا)
خلاصہ: یہ قدیم انسانی نسل معدوم ہونے والی انسانی نسلوں میں سب سے آخر میں معدوم ہوئی تھی اور اپنا سارا وقت جدید انسانوں کی پہلو بہ پہلو بسر کیا۔ یہ قدیم انسانوں کی سب سے چھوٹی نسل تھی اور اس کے دماغ کا حجم ہمارے دماغ کا ایک چوتھائی تھا۔ ارتقا کے دوران ان قدیم انسانوں کی جسامت اپنے اجداد سے چھوٹے ہوجانے کی وجہ، اس جزیرے پر وسائل کی شدید کمی ہو سکتی ہے جس کو آئی لینڈ ڈوارفنگ (Island Dwarfing) کہا جاتا ہے، جو کہ دوسرے کافی میملز (mammals) میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جیسا کہ بونے ہاتھی (Pygmy Elephants) جو کہ اسی جزیرے پر پائے گئے ہیں۔

19۔ نسل: ہومو سیپئین یا ہومو سیپئین سیپئین (Homo Sapien or Homo Sapien Sapien)
عہد: تقریباً دو لاکھ سال سے آج تک
جغرافیائی علاقہ: افریقہ میں ارتقائی منزل طے کرنے کے بعد آج پوری دنیا میں آباد ہے۔
خلاصہ: جدید انسان۔ فوسل اور جینیاتی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ ہماری نسل، ہومو سیپئین(Homo Sapien)، افریقہ میں تقریباً دو لاکھ سال قبل ارتقا پذیر ہوئے اور کم از کم ایک لاکھ سال پہلے وہاں سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلنا شروع ہوئے۔ آج ہم پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور انسان کی واحد زندہ نسل ہیں۔

یہ تمام معلومات پچھلے ڈیڑھ سو سال کی ایک مسلسل جدوجہد اور جینیاتی سائنس کی ترقی کے نتیجے میں حاصل ہوئیں ہیں۔ لیکن ضروری امر یہ ہے کہ اس تمام معلومات کو بھی جدلیاتی طریقہ کار سے سمجھا جائے، یعنی معروضی حالات کے ساتھ جوڑ کر ایک کل کے طور پر دیکھتے ہوئے۔ ایک چیز جو ہمیں آج معلوم ہے وہ یہ کہ آج سے ساٹھ سے ستر لاکھ سال قبل زمین پر کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ براعظم افریقہ کے کچھ علاقوں میں درختوں پر رہنے والے بندروں میں سے کچھ بندر زمین پر چار کی جگہ دو ٹانگوں پر چلنے پر مجبور ہوئے۔ بظاہر تو یہ ایک معمولی واقعہ لگ سکتا ہے لیکن اس چھوٹی سی تبدیلی نے زمین پر زندگی کی تاریخ میں ایک بہت بڑا باب کھول دیا، یہ زمین پر زندگی کی تاریخ میں ایک بہت بڑی معیاری تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی نے پہلی دفعہ کسی بھی جاندار کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے ہاتھوں کا آزادانہ استعمال کر سکے۔ اس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ہمیں سترلاکھ سال پہلے زمین پر ہونے والی اور بالخصوص افریقہ میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں پر نظر ڈالنی پڑے گی۔ آج کی جیولوجیکل سائنس میں اتنی ترقی ہوچکی ہے کہ یہ بتایا جا سکتا ہے کہ زمین کے کس حصہ میں کس عہد میں کیسے ماحولیاتی حالات تھے، اسی طرح زمین کی اوپری پرت میں مختلف تہیں موجود ہیں جن کی عمر جانی جا سکتی ہے اور اس کی مدد سے اگر ایک خاص فوسل کسی تہہ میں سے ملتا ہے تو یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے سال پرانا ہے۔ ریسرچ سے آج پتہ چلتا ہے کہ پورا افریقہ کروڑوں سال تک آج کی اپنی حالت سے مختلف ایک ہرا بھرا اور نم براعظم تھا، لیکن لاکھوں سال پہلے یہ حالات تبدیل ہونے شروع ہوئے اور براعظم بتدریج خشک ہونا شروع ہو گیا۔ گھنے جنگلات کا گھناپن وقت کے ساتھ ساتھ کم ہونا شروع ہوگیا، درختوں کے درمیانی فاصلہ بڑھنے لگا اور اس خالی جگہ پر لمبی لمبی گھاس کو اگنے کا موقع ملا۔ ان علاقوں میں رہائش پذیر بندروں کو ایک درخت سے دوسرے درخت تک ایک چھلانگ میں پہنچنا ناممکن ہوتا گیا اور مجبوراً ان کو یہ فاصلہ زمین پر چل کر طے کرنا پڑا لیکن زمین پر لمبی گھاس ہونے کی وجہ سے راستہ دیکھنے کے لئے کھڑا ہونا مجبوری بن گیا تھا۔ اس کے علاوہ مزید تھوریز بھی پیش کی گئی ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ انسان نما اپنی اس حالت میں دنیا کا کمزور ترین جانور تھا اور کھلے میدانوں میں ہر قسم کے خطرے کے سامنے بے بس تھا۔

یہاں پر’’مقداری‘‘ اور ’’معیاری‘‘ تبدیلی پر تفصیلی بات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ قدرت میں مظاہر کبھی بھی سیدھی لکیر میں وقوع پذیر نہیں ہوتے، بلکہ بہت ساری چیزیں لاکھوں سال تک بظاہر تقریباً ایک جیسی یعنی ایک ظاہری جمود میں نظر آتی ہیں اور اس کے بعد’’اچانک‘‘ ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن اس ظاہری جمود کے عرصہ میں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی تبدیلی نہ ہو رہی ہو بلکہ تبدیلی کا ایک مسلسل عمل چلتا رہتا ہے جس کو جدلیات کی زبان میں ’مقداری تبدیلی‘ کہتے ہیں اور ایک لمبے عرصے کی مقداری تبدیلی اچانک ایک معیاری جست کے ساتھ ایک معیاری تبدیلی بن جاتی ہے۔ اسی موضوع پر 1972ء میں نائلز ایلڈریج اور سٹیفن جے گولڈ نے سائنسی ریسرچ کی بنیاد پر تھیوری دی جس کا نام پنکچوایٹڈ ایکوی لیبریا (Punctuated Equilibria) رکھا۔ اس تھیوری کے مطابق کوئی بھی نسل ایک عرصے تک بظاہر تبدیل نہیں ہوتی اور پھر ایک تیز رفتار معیاری جست سے ایک نسل مختلف نسلوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اسی طرح انسانی ارتقا میں بھی شروع کی نسلوں میں بظاہر تبدیلیاں نظر نہیں آتیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ سیدھا کھڑے ہو کر دو ٹانگوں پر چلنا شروع کرنے والوں میں اور چند لاکھ سال بعد اسی نسل میں یقیناًایک فرق تو یہ تھاکہ دو ٹانگوں پر چلنے والوں کی تعداد بڑھ چکی تھی۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ شروع میں چلنے والوں کی جسامت کئی لاکھ سال تک ایک بندر کی ہی تھی لیکن دوٹانگوں پر چلتے چلتے چند لاکھ سال بعد ان کی جسامت بالکل بھی شروع میں دوٹانگوں پر چلنے والوں جیسی نہیں تھی لیکن بظاہر وہ ابھی بھی بندر ہی تھے، ان کا دماغ کا حجم بندر جیسا ہی تھا، ان کی خوراک ابھی بھی بندر جیسی ہی تھی لیکن وہ زیادہ وقت سیدھے کھڑے ہوکر میدانوں میں گزارتے تھے۔ شروع کی نسلیں، جن میں ساہلانتھروپس ٹہِڈنسس اور اورورین ٹوگِنینسِس شامل ہیں، ہر طرح سے ایک’ بندر ‘تھیں سوائے سیدھے کھڑے ہوکر چلنے کے۔ اس وقت یعنی ساٹھ سے ستر لاکھ سال قبل، زمین پر موسمیاتی تبدیلیوں میں اتار چڑھاؤ تیز ہوناشروع ہوا تھا۔ ان خطوں میں آباد بندر کی اس دور کی نسلوں کو اپنے آپ کو بدلتے موسم کے ساتھ بدلنا پڑالیکن یہ تبدیلی ایک ہی طرح کی نہیں تھی بلکہ مختلف علاقوں میں رہنے والی نسلوں کا مختلف ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں میں مختلف انداز میں ارتقا ہوا۔ ان ابتدائی نسلوں نے کچھ لاکھ سال تقریباً ایک ہی طرز میں زندگی گزاری، جس عرصہ میں ایک مقداری تبدیلی مسلسل ہو رہی تھی، لیکن اس کے بعد ارڈیپی تھِکس(Ardipithecus) نامی مختلف انسان نما نسلیں ملتی ہیں جن کے رہن سہن میں معیاری تبدیلی آنے کے بعد اب ان میں جسمانی طور پر سیدھا کھڑے ہو کر چلنا کافی حد تک ایک مستقل خاصیت بنتی جا رہی تھی۔ اس معاملے میں قریب چالیس لاکھ سال پہلے معیاری جست ہوئی جس میں پیروں کی شکل پوری طرح سے تبدیل ہو گئی اور ایک نئی انسان نما نسل اسٹرالوپیتھِکس (Australopithecus) وجود میں آئی۔ یہ نسل بندر سے زیادہ انسان نما تھی یہاں تک کے ایک اندازے کے مطابق پتھر کے اوزار بنانے کا عمل ان ہی میں سے کسی یا کچھ نسلوں نے قریب تینتس لاکھ سال قبل شروع کیا جیسا کہ پتھر کے اوزار کینیا کی جھیل ٹرکانا کے ساحل سے ملے ہیں جو کہ تینتس لاکھ سال پرانے بتائے جاتے ہیں۔ ایسا ثابت ہونے کی صورت میں یہ نسل انسان نما کی بجائے قدیم انسان کی پہلی پرجاتی کہلائے گی۔ یہ ایک ایسا وقت تھا کہ موسمی تبدیلیاں مزید تیزی سے شروع ہوگئی تھیں اورکچھ لاکھ سال بعد یعنی تقریباً چھبیس لاکھ سال قبل زمین پر پانچویں برفانی دور(Ice Age) کا آغاز ہوا۔ تیس لاکھ سال قبل انسانی ارتقا میں ایک بہت اہم عہد کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عہد میں انسان نما نسلوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتے نظر آتا ہے جو کہ پچھلے تیس لاکھ سال میں ہونے والی مقداری اور معیاری تبدیلیوں کے نتیجہ میں ایک اور معیاری جست تھی۔ چند لاکھ سال کے اندر دو نئی نسلیں پیرینتھروپس (Paranthropus) اور ہومو (Homo) وجود میں آئیں۔ اسٹرالوپیتھِکس کی کچھ نسلیں بھی کچھ مزید عرصہ ان دونوں کے ساتھ رہتی پائی گئیں ہیں لیکن ماحولیاتی حالات کے ساتھ تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے ناپید ہو گئیں۔ تیس سے بیس لاکھ سال قبل کے درمیانی عرصہ میں جہاں موسمی تبدیلیاں تیز ہوئیں وہیں مختلف اقسام کی انسان نما اور قدیم انسانی نسلوں کی تعدادمیں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ اور یہی وہ عہد ہے جب پتھر کی اوزار سازی بھی بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس عہد میں اسٹرالوپیتھِکس کے جسم میں دو عدد معیاری تبدیلیاں نظر آتی ہیں، ایک جبڑے کا طاقتور ہونا جو کہ پیرینتھروپس نسلوں کی خصوصیت تھی اور دوسرا دماغ کے حجم میں ایک معیاری بڑھوتری جو کہ ہومو نسلوں کی خاصیت تھی۔ پیرینتھروپس نسلوں کے جبڑے کی طاقت میں اضافہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اوزار ساز نہیں بلکہ اوزار کے بغیر نئے حالات میں رہنے کی کوشش کرنے والی نسلیں تھیں۔ لیکن دوسری طرف اوزار سازی کی جانب بڑھنے والی نسلوں نے معیاری جست دماغ میں لی، کیونکہ ہاتھ سے کام کرنے (بشمول اوزار سازی) کا دماغی صلاحیت کی بڑھوتری کے ساتھ ایک جدلیاتی تعلق ہے۔ یہاں پتھر کو ایک اوزار کی طور پر استعمال کرنے اور پتھر سے ایک اوزار کو تخلیق کر نے میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسٹرالوپیتھِکس کی ابتدائی نسلوں کے پتھر کو اوزار کے طور پر استعمال کرنے کے شواہد ملے ہیں لیکن ایک وقت آنے پر سادہ پتھراوزار کے طور پر کافی نہیں رہا اس وقت کچھ نسلیں اس پتھر میں ضرورت کے مطابق تبدیلی لانے پر مجبور ہوئیں اور یہی انسانیت کی جانب ان کے پہلے قدم تھے۔ لیکن پہلی بار جب پتھر سے اوزار بنایا گیا تو وہ پوری طرح کار آمد نہیں تھا بلکہ مستقل کئی نسلیں اوزار بنانے اور استعمال کرنے کے ناکام اور کامیاب تجربے کرنے میں مصروف رہیں لیکن ہر ناکام تجربے نے آگے آنے والی نسل کو بہت کچھ سکھایا اور اس سیکھنے کے عمل کے دوران مقداری تبدیلی کا عمل چلتا رہا جو کہ ایک لمبے عرصے میں دماغی صلاحیت کی بڑھوتری میں معیاری تبدیلیوں کا باعث بنااور اس بڑھتی ہوئی دماغی صلاحیت نے مزید پیچیدہ اوزار سازی کو جنم دیا۔ اوزارسازی ایک پیچیدہ کام ہے۔ ہر پتھر اوزار بننے کی اہلیت نہیں رکھتا، لیکن یہ بات پتھر سے اوزار بناتے ہوئے سمجھ آتی ہے نہ کہ ’سمجھ میں آنے‘ کے بعداوزار بنانے کیلئے پتھر ہاتھ میں اٹھایا جاتا ہے۔ اسی طرح ابتدائی انسان نما نسلوں نے پہلے سادے پتھروں کو اوزار کے طور پر استعمال کیا، جیسے کہ آج بھی کافی بندرکرتے ہیں، لیکن بندروں کے برعکس ان کے دونوں ہاتھ محنت کرنے کے لئے آزاد تھے اور اس کے نتیجے میں پتھروں میں ضرورت کے مطابق تبدیلیاں کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ یہاں ایک چیز واضح ہونے کی ضرورت ہے کہ انسانی دماغ کے بڑے ہونے میں خوراک کا کردار بعد میں آیا ہے، کیونکہ گوشت خوری اسٹرالوپیتھِکس نے بہت پہلے شروع کر دی تھی لیکن دماغ میں میں معیاری تبدیلی اوزار سازی کے عمل کے ساتھ منسلک تھی۔ یہ مرحلہ ہومو نسل کے ارتقا پذیر ہونے کا مرحلہ تھا۔ جس کی پہلی نسل ہومو ہیبلس (Homo Habilis) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس قدیم انسانی نسل نے اوزار سازی کے ذریعے نا صرف اپنے دماغ کو مزید بڑھوتری دی بلکہ ایک وقت آیا کہ اس محنت کے نتیجے میں ہاتھ کے انگوٹھے کی وہ شکل نکلی جو آج کے انسانوں کے ہاتھ کی ہے، یعنی انگوٹھے کا انگلیوں کے مخالف سمت میں مڑجانا۔

لاکھوں سال کی انسانی محنت کے نتیجے میں ہونے والی اس معیاری تبدیلی نے آنے والی انسانی زندگی میں لا تعداد مقداری اور معیاری تبدیلیاں پیدا کیں کیونکہ انگوٹھے کی یہ نئی ساخت انسانی ہاتھ کو زیادہ پیچیدہ نوعیت کے کام کرنے کے قابل بناتی تھی۔ ہومو ہیبلس اب معیاری طور پر قدیم انسان کی ایک نئی نسل میں تبدیل ہو گیا تھا جس کا نام ہومو ایرکٹس (Homo Erectus) ہے، جس نے سب سے پہلے افریقہ کے باہر دنیا میں پھیلنا شروع کیا اور مزید لاکھوں سال کی مقداری تبدیلیوں کے بعد ہومو ہائیڈلبرگنسس میں معیاری طور پر تبدیل ہوا، اس نسل نے معیاری طور پر انسان کے مستقبل کے لئے ٹھوس بنیادیں فراہم کیں۔ اس نسل میں سے یورپ میں آباد ہونے والے ہومو نینڈرتھالنسس میں تبدیل ہو گئے اور افریقہ میں رہنے والے ہومو سیپئین یا ہومو سیپئین سیپئین (جدید انسان) میں۔ لاکھوں سال کے ارتقا کے نتیجے میں آج جدید انسان ناصرف دنیا پر حاکم ہے بلکہ دوسری دنیاؤں پر کمند ڈالنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ دنیا کی ایک انتہائی کمزور نوع (جدیدانسان) نے یہ ترقی ان لاکھوں سالوں میں خوفناک حالات میں محنت کے ذریعہ فطرت کے جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے حاصل کی ہے۔ لیکن آج انسان کا سرمایہ دارانہ نظام میں زندگی گزارنا شرم کا مقام ہے کیونکہ جس ترقی کو حاصل کرنے میں تمام انسانیت کی لاکھوں سال کی محنت شامل ہے اس ترقی کے ثمرات انسانوں کی اکثریت تک نہیں پہنچ رہے جو کہ بھوک، ننگ، بیماری اور غربت میں مبتلا ہے کیونکہ اس ترقی کی حاصلات پرآج چند افراد کا قبضہ ہے۔ انسان کو انسان ہونے کا حق صرف اور صرف ایک غیر طبقاتی نظام میں ہی مل سکتا ہے جو کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Comments are closed.