پاکستان: بحرانوں کی دلدل

|تحریر: پارس جان|

پاکستان کا سماج ایک ایسا پریشر کُکر بنتا جا رہا ہے جو کسی بھی وقت ایک دھماکے کی صورت میں پھٹ سکتا ہے۔ یہاں کے دانشوروں کا سالہا سال تک سب سے مرغوب جملہ یہی رہا کہ ’یہاں کچھ نہیں ہو سکتا‘۔ اس مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے دلائل دیئے جاتے تھے، نئی نویلی اصطلاحات بروئے کار لائی جاتی تھیں۔ ثقافتی، تاریخی، تہذیبی ہر طرح کے جواز گھڑے جاتے تھے۔ کئی عشروں تک وقت کا دھارا بھی ان کی پشت پناہی کرتا رہا۔ تمام تر بکواسیات کے باوجود انہیں مہان لکھاری اور عظیم دانشور تسلیم کیا جاتا رہا۔ آج وہ سب مہان لوگ کتنے غیر متعلقہ اور ہیچ محسوس ہو رہے ہیں۔ معیشت، سیاست، ثقافت، ریاست، سفارت اور اخلاقیات سمیت سماج کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو بحرانوں میں نہ گھرا ہو۔ پالیسی سازوں کے ایک بحران سے نکلنے کے لیے کیے گئے اقدامات کئی نئے بحرانوں کے آغاز کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بالکل ایک دلدل پر کھڑے ہوئے معمر اور لاچار شخص جیسی صورتحال ہے جو دلدل سے نکلنے کے لیے ایک قدم اٹھاتا ہے تو دوسرا اور بھی زیادہ اندر دھنس جاتا ہے۔ ان تمام بحرانوں کے عوامی شعور پر نہایت گہرے اور دیرپا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ راسخ عقائد اور خیالات متزلزل ہیں۔ سماج بنیادوں سے لرز رہا ہے۔ رسوم و روایات کی ساکھ ڈانواڈول ہے۔ ہر دلعزیز قیادتیں مشکوک ہو چکی ہیں۔ مقدس گائیں بازاری اجناس کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ سب سے بڑھ کر ’خوف ‘ جس پر سارا نظام استوار ہے اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ اتنی برق رفتاری سے ہو رہا ہے کہ اس سے ہم آہنگ رہنا قدامت پسند دماغوں کے بس کی بات نہیں۔ نئی نسل اور ماضی کی فرسودگی کے مابین تعلق کی ڈوری اتنی کچی اور باریک ہے کہ اس کی کثافت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ دبلی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ڈوری کسی بھی وقت کٹ سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں انقلاب کے بیج موجود ہیں۔

فی الوقت حکمران طبقے اور ریاستی مشینری کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے ایک آئندہ عام انتخابات کا انعقاد اور ان سے مطلوبہ نتائج کا حصول ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لفظ ’مطلوبہ ‘ ہی انتہائی مبہم اور ناپائیدار ہوتا جا رہا ہے۔ ماضی میں ایک حکومت کا دورانیہ ختم ہونے سے پہلے ہی ’مخفی قوتیں ‘ جو اب بالکل بھی مخفی نہیں رہیں، نئی حکومت کی تشکیل کے تمام لوازمات مکمل کر لیتی تھیں۔ ریاستی اداروں کا نسبتی استحکام اور عوامی شعور کی سست روی کے باعث پہلے سے آزمائے گئے اور پٹے ہوئے مہروں کو ہی دوبارہ ’نئی آپشن ‘ بنا کر عوام پر مسلط کر دیا جاتا تھا اور اگر اس میں کوئی تردد درپیش ہوتا تھا تو آنجناب خود ہی مسندِ اقتدار پر آ پدھارتے تھے۔ اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اگرچہ آج انتخابات میں عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہی رہ گئی ہے اور ایسی صورتحال انجینئرڈ انتخابات کے لیے انتہائی موزوں ہوتی ہے مگر اس کے باوجود انتخابات کے نتائج کے حوالے سے ریاست کے بالا حلقوں میں غیر یقینی پن اور تذبذب بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ لوگ کس کو ووٹ دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ’فرشتوں ‘ کے پاس آپشن محدود ہیں۔ اپنی داخلی انتشاری کیفیت کے باعث وہ کسی پر بھی بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ آصف علی زرداری، عمران خان، سیکولر قوم پرست اور ملاں سب ایک سے بڑھ کر ایک اپنی وفاداریاں نچھاور کرتے پھر رہے ہیں، لیکن عالی مقام کو کسی پر یقین ہی نہیں آ رہا۔ ظاہر ہے ایک ریاستی دھڑے کی پشت پناہی میں ان کے سب سے وفادار پالتو سیاسی چوپائے یعنی نوازشریف کی مبینہ ’نافرمانی‘ نے انہیں کافی پریشان کیا ہے۔ عمران خان اپنی دماغی حالت کے باعث پہلے ہی جہاں ایک طرف عوامی حمایت سے محروم ہوتا جا رہا ہے وہیں اپنے آقاؤں کے سامنے ’قابلِ استعمال ‘ ہونے کی حیثیت میں کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خاص طورپر سٹریٹیجک اہمیت کا حامل جو صوبہ اس کے حوالے کیا گیا تھا وہاں سے تاریخ کی سب سے بڑی عوامی مزاحمت کا ابھار عمران خان کے سیاسی پوٹینشل پر بڑا سوال بن کر سامنے آیا ہے۔ آصف علی زرداری نے نہ صرف گردن بلکہ ہاتھ اور پاؤں میں بھی ’خلائی مخلوق ‘ کی عقیدت کے طوق اور کڑے پہن رکھے ہیں۔ ان کی دہلیز پر سجدے کر کر کے زرداری صاحب کے ماتھے پر محراب ابھرنا شروع ہو گئے ہیں لیکن وہ بھی اس وقت ریاست کو بحران سے نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بلاول بھٹو غریب کی تنخواہ کی طرح ملنے سے پہلے ہی خرچ ہو چکا ہے۔ یہ سب مل کر حکومت بنا بھی لیں تو ہنی مون کی گنجائش اور آسائش ملنے والی نہیں۔ اور یہ اس وقت ریاست کا سب سے بڑا اور تشویشناک بحران ہے۔ ریاست کے سنجیدہ پالیسی ساز بخوبی جانتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ ریاست کو چلانے کے لیے عدلیہ، فوج، پولیس اور بیوروکریسی سے بھی زیادہ سیاسی پارٹیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ریاست کا رعایا سے سماجی و قانونی رابطہ برقرار رکھنے کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔ اس وقت وہ ’سماجی رابطہ ‘ مکمل طور پر انحطاط پذیر ہونے کی وجہ سے ریاست آئے روز ہوا میں معلق ہوتی جا رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک ’معلق پارلیمان‘ (Hung Parliament) اس بحرانی کیفیت میں کئی گنا اضافے کا موجب ہو گی۔

جمہوریت اور آمریت کا مصنوعی تضاد بے نقاب ہو چکا ہے۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ سب بوٹ پالشیئے ہیں۔ میڈیا کی آزادی کا ڈھکوسلا بھی اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ مین سٹریم میڈیا سے عوام کی بیزاری حقارت کی حد تک پہنچ رہی ہے۔ بنیاد پرستی اور سیکولرازم کے تضاد کی تصنع بھی اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ اے این پی اور پیپلز پارٹی جو سب سے زیادہ سیکولر ہونے کا ناٹک کرتی تھیں گردن تک مذہبی منافرت کے تیزاب میں دھنس چکی ہیں۔ بلاول بھٹو نے ابھی حال ہی میں دعوتِ اسلامی کی مبینہ یونیورسٹی کے قیام کے لیے کراچی شہر میں اربوں روپے کی مالیت کی15 ایکڑ اراضی وقف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اے این پی کے لیڈران نے مشال خان کے قاتلوں کی رہائی کے بعد ان کا والہانہ استقبال کر کے اپنے بھونڈے سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھوک دی ہے۔ کچھ ریڈی میڈ انقلابی دانشور نون لیگ کو بھی سیکولر اور ترقی پسند پارٹی قرار دے رہے تھے۔ وہ سب ابھی اسلام آباد میں ایک یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کا نام تبدیل کرنے کی پارلیمانی قرارداد کے بعد اپنے ناخن چبا رہے ہوں گے۔ غرضیکہ اس حمام میں سب ننگے ہو چکے ہیں۔ فوجی اشرافیہ میڈیا کے ذریعے ساری سیاسی قیادتوں کو حسبِ ضرورت ذلیل کروا کر یہ تاثر دینے میں لگی رہتی ہے کہ اس ریاست کا فوج کے علاوہ کوئی اور مسیحا ہو ہی نہیں سکتا مگر داخلی لڑائیوں میں جرنیلوں کی بدعنوانی بھی تمام تر سنسرشپ کے باوجود بورژوا میڈیا کے ذریعے ہی پھوٹ پڑتی ہے۔ معیشت کا بحران ان تمام بحرانوں کی اصل کوکھ ہے۔ عالمی معیشت کے زوال نے پاکستان جیسی بہت سی ریاستوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے۔  

سی پیک کو پاکستان میں الٰہ دین کا چراغ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ خود چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب بھی اب اس کی وکالت میں کود پڑے ہیں اور اسے سماجی و اقتصادی ترقی کی کنجی قرار دے رہے ہیں۔ باقی تمام ریاستی آقاؤں کی طرح ان کے خیال میں بھی بیرونی سرمایہ کاری تمام مسائل کا حل ہے۔ حالانکہ ملک کی اس حالت کی ذمہ داری اس بیرونی سرمایہ کاری کے سامراجی عزائم پر ہی عائد ہوتی ہے۔ 5.246 ٹریلین روپے کے وفاقی بجٹ اور 5.8 فیصد کے گروتھ ریٹ کو، جو کہ گزشتہ 13 سالوں کی بلند ترین شرح ہے، بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ گروتھ ریٹ صرف اور صرف قرضوں کے ناقابلِ کنٹرول غبارے میں بھری جانے والی ہوا کے مرہونِ منت ہے۔ کل بیرونی قرضہ 93 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر کی تشویشناک حد سے متجاوز ہے۔ باقی تمام اعشاریوں پر بھی پردہ ڈال کر عوام سے سفید جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ روپے کی قیمت کے زوال کا جو سفر شروع ہوا ہے، یہ بے لگام ہو کر کبھی نہ دیکھے گئے افراطِ زر کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسی صوتحال میں بیروزگاری، مہنگائی، غربت اور انفراسٹرکچر کی ٹوٹ پھوٹ عوامی برداشت کے پیمانے کو لبریز کر سکتی ہے۔ حکمران طبقات پہلے ہی اپنی ساری دولت بیرونِ ملک منتقل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ امارت اور غربت کی خلیج کی یہ سطح سماجی و سیاسی انقلاب کی بہترین ترکیب (recipe) ہے۔

عوامی شعور پہلے ہی بڑی جستیں لے رہا ہے۔ خواتین میں بھی تبدیلی کی خواہش اور کوشش جڑیں پکڑ رہی ہے۔ ریاست کے بحران اور معاشی زوال نے قومی سوال کو بھی پہلے سے کئی گنا بڑے پیمانے پر اجاگر کیا ہے۔ قوم پرست قیادتوں کی متروکیت کے باوجود قومی محرومی بلوچستان، پشتونخوا اور دیگر تمام مظلوم قومیتوں میں کبھی نہ دیکھی گئی سطح کو چھو رہی ہے۔ ریاست اپنے داخلی تضادات کے باعث امن اور خوشحالی دینے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ابھی حال ہی میں ہزارہ قوم کے قتلِ عام کے خلاف عوامی نفرت معیاری تبدیلیوں کے عمل سے گزرتی ہوئی ریاست کے لیے بڑا چیلنج بن کر سامنے آئی ہے۔ ابھی تو چیف آف آرمی سٹاف نے خود کوئٹہ پہنچ کر لارے لپوں کے ذریعے نفرت کی اس چنگاری کو جنگل کی آگ بننے سے وقتی طور پر روک دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی مشینری کے پاس ان مسائل کا کوئی مستقل حل ہے؟ کوئی بھی ریاستی معذرت خواہ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کو تیار نہیں ہے۔ عوامی شعور میں برق رفتار تبدیلیاں ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ (PTM) نے سارے سیاسی کینوس کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ سماج کی انتہائی پچھڑی ہوئی پرتوں کی یہ تحریک ریاست کے لیے اس لیے وبالِ جان بنی ہوئی ہے کیونکہ اسی سماجی مواد پر ریاست نے گزشتہ عشروں میں اپنی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کو ترتیب دیا ہوا تھا۔ دراصل یہ تحریک ٹھوس سماجی تضادات اور اجتماعی نفسیات پر ان کے اثرات کا سیاسی اظہار ہے۔ ریاستی پالیسی ساز اسے کنٹرول کرنے کے لیے مختلف متضاد حربے یعنی جبر، مذاکرات، پروپیگنڈا، رعایتیں، میڈیا بلیک آؤٹ وغیرہ کو بیک وقت استعمال کر ر ہے ہیں مگر ہر چال اور حربہ الٹے نتائج پیدا کر رہا ہے۔ اصل میں اس تحریک کے سماجی مواد اور قیادت کے حادثاتی اور خود رو کردار کے باعث یہ امکان موجود تھا کہ اس تحریک کی قیادت کو روایتی حربوں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا۔ اگر ریاست ایک نسبتی صحتمند اور توانا استحکام کی حامل ہوتی تو اس قیادت کو بھی شیشے میں اتار سکتی تھی مگر ریاست کی بوکھلاہٹ نے قیادت کی ریڈیکلائزیشن میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر لاہور جلسے سے قبل PTM کی قیادت پر اپنے قریبی حلقوں کی طرف سے مذاکرات اور تصفیے کے لیے شدید دباؤ تھا جس پر قیادت نے مثبت رسپانس بھی دیا تھا مگر جلسے سے قبل کی رات ہونے والی گرفتاریوں نے قیادت کو پھر بات چیت سے گریزاں کر دیا۔ اس کے بعد بھی ایک طرف مذاکرات کا راگ الاپا جاتاہے، اور دوسری طرف گرفتاریوں اور تشدد کے ذریعے تحریک کو اور بھی زیادہ مشتعل کر دیا جاتا ہے۔ سوات جلسے سے قبل بھی سوات میں جگہ جگہ پر لگائے گئے بینروں پر لکھی گئی تحریریں زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھیں۔ عام لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر اس تحریک کی قیادت را اور این ڈی ایس کی ایجنٹ ہے تو واضح ثبوت پیش کر کے اسے میڈیا کے ذریعے بے نقاب کیوں نہیں کیا جا رہا۔ تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی، حتیٰ کہ خود فوجی قیادت یہ تسلیم کر چکی ہے کہ PTM کے تمام مطالبات درست ہیں مگر ان پر عملدرآمد میں برتی جانے والی سستی سے عوامی سطح پر بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ ریاست کی یہی بوکھلاہٹ اس تحریک کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔

تمام تر ریاستی جبر کے باوجود ہزاروں افراد نے پشتون تحفظ موومنٹ کےکراچی جلسے میں شرکت کی

12 مئی کو کراچی میں ہونے والے جلسے کی تاریخ تبدیل کر کے 13 مئی بروز اتوار کر دی گئی ہے جومزارِ قائد پر ہو گا۔ اس جلسے کو ناکام کرنے کے لیے بھی پالیسی سازوں کی طرف سے کیے جانے والے تمام تر اقدامات ایسے ہی نتائج کا سبب بنیں گے۔ سکیورٹی اداروں کے لوگ پشتونوں کی آبادیوں اور مارکیٹوں میں جا کر لوگوں کو جلسے میں جانے سے روکنے کے بدلے مختلف قسم کی معاونتوں کی پیشکش کر رہے ہیں۔ بہت سے پشتونوں کے شناختی کارڈز بلاک ہو چکے ہیں، انہیں نادرا اور پاسپورٹ وغیرہ کے مسائل کے فوری حل کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ انہیں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے کہ وہ کسی صورت بھی 12 مئی کے جلسے میں شرکت نہ کریں۔ مگر اس سے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ یہ سب لوگ جن تک پشتون عوام کی رسائی تصور سے بالاتر ہوتی تھی، وہ خود ان کی دہلیز تک آ رہے ہیں۔ اس سے PTM کی قیادت اور بالخصوص کراچی جلسے کی طرف تجسس اور طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مالکان اور مالدار پشتونوں کا کسی حد تک تعاون ان حربوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے مگر غریب پشتونوں میں حقیقی سیاسی متبادل کی پیاس بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے متوازی سرگرم سیاسی کارکنوں کو ڈرانا، دھمکانااور سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سب سے بڑھ کر 12 مئی کو ہی دیگر ریاستی دم چھلہ پارٹیوں کے سیاسی اجتماعات کے انعقاد کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ یہ کوئی نیا حربہ نہیں ہے۔ پشاور جلسے کے وقت بھی مولانا فضل الرحمان نے اپنا جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا جو عین وقت پر منسوخ کرنا پڑ گیا تھا۔ پہلے تو اے این پی نے کراچی میں12 مئی کو جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اے این پی کی اپنی صفوں کے اندر سے لوگوں نے اس جلسے کے بائیکاٹ اور PTM کے جلسے میں شمولیت کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد اب تحریکِ انصاف نے بھی 12 مئی کو کراچی میں جلسے کا اعلان کیا ہے۔ اپنی بوکھلاہٹ میں ریاست تمام عوام دشمن قوتوں کو ننگا کرتی چلی جا رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی کراچی کی اردو بولنے والی آبادی میں بھی تھوڑی بہت حمایت موجود ہے، اور حکمران طبقے کو یہ خوف ہے کہ کہیں پشتون قیادت اردو بولنے والوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت کراچی تاریخ کے بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ دو سے تین دہائیوں سے کراچی میں MQM نے سیاسی توازن کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھا ہوا تھا مگر الطاف حسین پر لگنے والی پابندیوں اور اسکے نتیجے میں MQM کی داخلی ٹوٹ پھوٹ کے سطح پر نمودار ہو جانے کے باعث اس سیاسی توازن کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور کراچی نئی سیاسی قیادت کی راہ دیکھ رہا ہے۔

پیپلز پارٹی MQM کی اس ٹوٹ پھوٹ سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس ضمن میں لیاقت آباد میں بلاول بھٹو نے چند روز قبل ایک جلسے سے خطاب کیا۔ دہائیوں کے بعد پیپلز پارٹی اس علاقے میں اتنے بڑے جلسے کا انعقاد کر پائی ہے۔ مگر ناقدین کا کہنا یہ ہے کہ جلسے کے شرکا کی اکثریت لیاری، ملیر اور دیگر علاقوں سے لائی گئی تھی اور مقامی اردو بولنے والی آبادی کی شرکت انتہائی محدود تھی۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے پاس ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے جس کے ذریعے وہ MQM کے سماجی مواد پر سیاسی اختیار حاصل کر سکے۔ سندھ کے تمام خون آشام وڈیروں پر مشتمل سیاسی قیادت کے گٹھ جوڑ کے ساتھ بلاول کبھی بھی کراچی کا سیاسی متبادل نہیں بن سکتا۔ جوڑ توڑ اور وفاداریوں کی خریدو فرخت میں سینیٹ کی طرح صوبائی اسمبلی میں بھی کچھ حاصلات بٹوری جا سکتی ہیں مگر اس سے سیاسی عدم استحکام کم ہونے کی بجائے اور بھی شدت اختیار کرے گا۔ پاک سرزمین پارٹی بھی کوئی خاطر خواہ مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے MQM کے گھر پر کیے جانے والے سیاسی حملے کے باعث MQM پاکستان کے دونوں ناراض دھڑے پھر ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ مگر یہ ٹوٹ پھوٹ نہ صرف وقتاً فوقتاً اپنا اظہار کرتی رہے گی بلکہ شدت بھی اختیار کرتی جائے گی۔ MQM کی بالائی پرتوں میں ہونے والی یہ اتھل پتھل ناگزیر طور پر اردو بولنے والی عوام کی اکثریت کے شعور پر اثرا نداز ہو رہی ہے۔ وہ کراچی میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری کھلواڑ سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان کا احساسِ عدم تحفظ اپنی جگہ مگر مہاجر قومیت کا نعرہ لگانے والوں کا کردار ان کے سامنے عیاں ہو چکا ہے۔ MQM ان کے لیے کسی زندان سے کم نہیں مگر اس زندان سے وہ اسی وقت فرار حاصل کر سکتے ہیں جب کوئی سنجیدہ متبادل سیاسی قیادت ان کے عدم تحفظ کو ختم کرتے ہوئے ایسا سیاسی پروگرام پیش کرے جو قومیتوں اور لسانی تعصبات سے بالاتر سیاسی جدوجہد کے آغاز کا باعث بن سکے۔ کراچی کے ساتھ ساتھ ملک کی عمومی صورتحال بھی کافی حد تک ملتی جلتی ہے۔ اس صورتحال کو کسی حد تک 60ء کی دہائی میں شدت اختیار کر جانے والے وسیع سیاسی خلا سے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے، جسے اس وقت پیپلز پارٹی نے پر کیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو نے آج کی پیپلز پارٹی کی سندھ کارڈ کی قومی شاونسٹ پالیسیوں کے برخلاف واضح سوشلسٹ پروگرام (نعروں کی حد تک )کے ذریعے تمام قوموں اور فرقوں کے لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ آج پھر اسی سوشلسٹ پروگرام کی طلب اور پیاس کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

پشتونوں کے علاوہ دیگر قومیتوں بلوچ، سندھی، مہاجروں کی ایک بڑی تعداد پی ٹی ایم کے کراچی جلسے میں شریک تھی

اس سیاسی خلا میں PTM کا ابھار میڈیا کے تمام تر بلیک آؤٹ کے باوجود سماج کی وسیع تر پرتوں بالخصوص نوجوانوں کی توجہ اور امنگوں کا محور بنتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے PTM کی قیادت کی مقبولیت میں تیز ترین اضافے کو مہمیز دی ہے۔ اب بین الاقوامی میڈیا بھی اس تحریک کو ایک حقیقی عوامی تحریک کے طور پر دیکھنا شروع ہو گیا ہے۔ تحریک کی قیادت بھی مسلسل تجربات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قیادت کو اور زیادہ تنقیدی طرزِ عمل اپنانا پڑے گا۔ خاص طور پر ابھی حال ہی میں ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی ہے جس میں PTM کے کچھ لوگ اسرائیل آرمی کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ ریاستی پروپیگنڈا بھی ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ سچ ہے تو یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ اس طرح کے سامراجی ایجنٹ تحریک کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل بھی امریکہ اور انڈیا کی طرح انتہائی سفاک سامراجی قوت ہے جس کے ہاتھ ہزاروں معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ PTM کی قیادت کو تمام سامراجی قوتوں کی مذمت کرنی ہو گی اور اس طرح کے سامراجی گماشتوں جو مذموم ایجنڈے کے تحت تحریک کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں انہیں اپنی صفوں سے بے دخل کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر ملک بھر سے ترقی پسند حلقوں میں مسلسل بڑھنے والی PTMکی حمایت پسپائی کا شکار ہو سکتی ہے۔

اس تحریک کے پاؤں کی سب سے بڑی زنجیر تنگ نظر جنونی قوم پرستوں کا قیادت پر دباؤ ہے۔ یہی قوم پرست تحریک کو وسیع تر سیاسی پروگرام اختیار کرنے میں مانع ہیں

ابھی تک تحریک کے پاس کوئی واضح سیاسی پروگرام اور نظریہ نہیں ہے۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی سے لے کر دائیں بازو کی دیگر تمام پارٹیوں کے لوگ اس میں متحرک ہیں۔ سوات جلسے کے بعد سے قیادت نے تحریک کے باقاعدہ ڈھانچے تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک کو اپنے پھیلاؤ میں درپیش مشکلات کا کسی حد تک اندازہ ہوا ہے۔ مگر ڈھانچوں کی تعمیر کا سوال پھر سیاسی پروگرام سے جڑا ہوا ہے۔ واضح سیاسی پروگرام پر ممبرشپ کیمپئین کے بعد ہی حقیقی جمہوری سیاسی ڈھانچے تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ تحریک کا حالیہ سیاسی پروگرام اپنے منطقی انت تک پہنچنے والا ہے۔ بہت سی جگہوں پر فوج نے چوکیاں سول انتظامیہ کے حوالے کر دی ہیں۔ آئی جی ایف سی نے چند روز میں وزیرستان میں موبائل سروس کی بحالی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ مسنگ پرسنز کی واپسی بھی ہورہی ہے جو تحریک کی بڑی کامیابی ہے۔ مگر اس تحریک کے پاؤں کی سب سے بڑی زنجیر تنگ نظر جنونی قوم پرستوں کا قیادت پر دباؤ ہے۔ لاہور کے جلسے میں بھی اس کی ایک جھلک دیکھنے میں آئی۔ سوات جلسے میں بھی ان عناصر نے خوب زہر اگلا جس پر شدید عوامی ردِ عمل بھی دیکھنے میں آیا۔ یہی قوم پرست تحریک کو وسیع تر سیاسی پروگرام اختیار کرنے میں مانع ہیں۔ اگر تحریک اپنے آپ کو اس تنگ نظر قوم پرستی کی زنجیروں سے آزاد نہیں کرتی تو اس زندان میں گھٹ گھٹ کر مر جائے گی۔ مگر اس تحریک کی پسپائی کی صورت میں بھی اب اس سماج میں طویل سکوت خارج از امکان ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تحریک پیچھے گئی تو طلبہ یا محنت کشوں کی نئی تحریکیں جلد یا بدیر اس سیاسی خلا کو پر کرنے کے لیے میدانِ عمل میں اتریں گی۔ اگر PTM کی قیادت کراچی جلسے میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے پر مبنی مفت تعلیم، علاج، پینے کے صاف پانی، لوڈشیڈنگ اور دیگر بنیادی ضروریات کی تکمیل کے پروگرام کی طرف ہلکی سی پیشرفت کا مظاہرہ بھی کرتی ہے تو یہ ایک اہم سنگِ میل ہو گا۔ قیادت کو یہ جان لینا چاہیئے کہ وہ تعمیرات کے شعبے، ہوٹلوں، ٹرانسپورٹ، ٹیکسی و رکشہ ڈرائیور، ریڑھی والے، دیہاڑی داراور نجی مینوفیکچرنگ میں کام کرنے والے پشتون مزدوروں اور واٹر ٹینکر مافیا، قبضہ مافیا، اسمگلرز اور ٹرانسپورٹ مافیا کے مفادات کو بیک وقت تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔ اسے دونوں میں سے کسی ایک طبقے کا ہی انتخاب کرنا ہو گا۔ پشتون مالکان اور سرمایہ داروں اور مافیا کے مفادات سٹیٹس کو کی دیگر قوتوں کے مفادات سے منسلک ہیں جن کے خلاف PTM کو اتنی وسیع عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس ساری صورتحال کو اس سیارے کی عمومی صورتحال کے ایک جزو کے طور پر دیکھنے سے ہی اس کا درست ادراک ہو سکتا ہے۔ ہم بین الاقوامی سطح پر تحریکوں اور انقلابات کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس میں ردِ انقلابی رجحانات موجود نہیں ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں بھی درمیانے طبقے اور دیہی آبادی میں رجعتی سیاسی رجحانات کی حمایت موجود ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ بنیادپرستوں اور دیگر رجعتی عناصر کی سماجی حمایت مسلسل گر رہی ہے جبکہ انقلابی رجحانات کے لیے معروضی حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں۔ درست تناظر اور حکمتِ عملی سے لیس انقلابی پارٹی ان معروضی امکانات کو حقیقت کا روپ دے کر سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے خواب کو شرمندہِ تعبیر کر سکتی ہے۔

Comments are closed.