تعلیم کی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ

|تحریر: زین العابدین|

رواں سال کے آغاز پر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے طلبہ نے کچھ سکھ کا سانس لیا جب لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کی روشنی میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے لاہور کیمپس کے طلبہ کو ملتان کیمپس میں داخلہ دینے کے احکامات جاری کئے تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں ماسوائے بی ایس ٹیکنالوجی اور فزیو تھراپی کے طلبہ کے جن کو لاہور کے کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں داخلہ دیا جائے گا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ لاہور ہائیکورٹ اور ملتان کیمپس کی انتظامیہ نے طلبہ دوستی اور عوامی ہمدردی میں خود ہی یہ فیصلہ کیا بلکہ پچھلے تین سالوں میں لاہور کیمپس کے طلبہ کے کئی احتجاجوں کی بدولت یہ ممکن ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور ہائیکورٹ نے بی زیڈ یو لاہور کیمپس کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیا کیونکہ اس کی تشکیل کی دوران ’’قانونی‘‘ تقاضے پورے نہیں کئے گئے تھے۔ مگر کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا نہ کسی کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی اور اس بات پر عدلیہ بھی خاموش ہے۔ تین سال تک سینکڑوں طلبہ انتظار کی سولی پر لٹکے رہے اور ان کے والدین نے لاکھوں روپے خرچ کرکے ’معیاری‘ تعلیم کے نام پر ذہنی اذیت مول لے لی۔ مگر یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں کیونکہ کئی اور سرکاری یونیورسٹیوں کے پرائیویٹ کیمپس بھی کام کر رہے ہیں اور وہاں بھی یہ کہانی دہرائی جا رہی ہے جو کہ عنقریب منظرعام پر آئے گی۔ یہ سب ’’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘‘ کے فضائل ہیں جس کے ہمارے حکمران گُن گاتے نہیں تھکتے مگر اس کے حقیقی فضائل عام عوام بھگت رہی ہے جس میں بی زیڈ یو لاہور کیمپس کا کیس تو بس ایک جھلکی ہے۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا نسخہ کیمیا نجی سرمائے کے دلالوں کی جانب سے سماجی انفراسٹرکچر کو تعمیر کرنے کے لئے تجویز کیا گیا تاکہ حکومتی خزانے پر بوجھ کم سے کم آئے اور عوام کو سہولیات بھی مہیا ہوتی رہیں۔ بظاہر دیکھنے میں تو یہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ معیشت تو ویسے ہی بہت نحیف ہے، بھارتی فوجوں کابھی مقابلہ ضروری ہے، حکمرانوں کے اللے تللے بھی نہیں رک سکتے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کا سود بھی ادا کرنا لازم ہے اور ایسے میں صحت، تعلیم، روزگارکی فراہمی ، سماجی انفراسٹرکچر وغیرہ کے لئے کہاں کچھ بچتا ہے۔ تو ایسے میں اگر کچھ امیر لوگ اپنی جمع کی ہوئی دولت کے ڈھیروں کو عوامی فلاح کے لئے بروئے کار لانا چاہتے ہیں تو کیا ہی برا ہے۔ ہاں اگر اس نیک کام میں وہ تھوڑا بہت منافع بنا لیتے ہیں تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے یہ تو ان کا قانونی اور شرعی حق ہے۔ نجی ملکیت تو ویسے ہی انتہائی مقدس ہے۔ اور وہ لوگ جو اس کے خلاف ہیں سخت عوام دشمن ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ نئے تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنیں، لوگ پکی سڑکوں پر سفر کریں، پینے کے لئے صاف پانی ملے،نیا روزگار پیدا ہو اور پورا ملک ایک جنت کا نمونہ پیش کرے جس میں لوگ ہر طرح کی فکر سے آزاد ایک پر تعیش زندگی بسر کر سکیں۔ ایسے لوگ سخت سزا کے مستحق ہیں۔

مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک اور مکروہ ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ لوٹ مار کا ہی ایک طریقہ ہے جس کو انتہائی خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں ’پبلک‘ تو پس دھوکہ دینے کے لئے لگایا گیا ہے حقیقت میں تو یہ بس ’پرائیویٹ پرائیویٹ‘ ہی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سرمایہ داری کی بنائی اس مقدس ریاست کی ناکامی کا ثبوت ہے کہ یہ ریاست اب اپنی رعایا کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بھی قابل نہیں رہی۔ صحت، تعلیم، روزگار اور سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مگر یہ تو ایک خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔ اور اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ عوامی فلاح کے اداروں کو نجی سرمائے کے لئے کھول دیا جائے تاکہ وہ دل کھول کر منافع بنائیں۔ اپنی مرضی کے ریٹ پر تعلیم دیں۔ بھاری منافع پر علاج بیچیں۔ سفری سہولیات فراہم کرنے کے لئے عوامی ٹیکسوں سے بنے ادارے ان کے حوالے کر دئے جائیں۔ یہ نجکاری کی ہی ایک شکل ہے جس میں عوامی ردعمل سے بچنے کے لئے اداروں کو براہ راست بیچنے کی بجائے ان کو سرمایہ کاروں کے نجی کاروبار کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ ’قانونی‘ طور پر تو یہ معاہدے کی رو سے حکومت کو طے شدہ رقم ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں مگر پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ د ارانہ ملک میں خال ہی ایسا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر اپنے منظور نظر افراد یا بڑے سرمایہ کاروں کے ساتھ یہ معاہدے کئے جاتے ہیں جو لوٹ کر خوب مال بنا کر چلتے بنتے ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ایما پر 2007ء میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا سلسلہ شروع کیا گیا اور قریباً ہر شعبے کو نجی سرمائے کے لئے کھول دیا گیا۔ اس مقصد کے لئے بھاری سرمایہ کاری سے خاص ادارے بھی تشکیل دئیے گئے اور اس نسخہ کیمیا پر عمل درآمد کے لئے موٹی موٹی تنخواہوں پر بڑے بڑے دماغوں کو بھرتی کیا گیا تاکہ سرمایہ کاروں کی لوٹ مار کے لئے آسانی پیدا کی جا سکے۔ اسی ضمن میں صوبائی اتھارٹیاں بھی بنائیں گئیں تاکہ کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ آج صحت، تعلیم، ریلویز، میونسپلٹی، انفرا سٹرکچر ڈویلپمنٹ، پینے کے پانی، ٹرانسپورٹ سمیت ہر شعبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور ان اداروں میں کتنی بہتری آئی ہے اور کتنا نیا روزگار پیدا ہوا ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہاں جن کمپنیوں اور افراد نے ان میں سرمایہ کاری کی تھی ان کی دولت قدرت کے خاص کرم کے طفیل کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اس سب کی بنیاد یہ انسانیت دشمن سرمایہ د ارانہ نظام ہے جو کہ اپنی حدوں کو پہنچ چکا ہے۔

بہاوالدین زکریا یونیورسٹی لاہور کیمپس کے طلبہ کینال روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے

بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی لاہور کیمپس بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت 2013ء میں قائم کیا گیا تھا اور پنجاب حکومت نے اس میں خاص دلچسپی لی تھی اور دلچسپی کیوں نہ لیتی کئی اہم حکومتی شخصیات کے فرنٹ مین یہ ڈیل کر رہے تھے ( جس میں زعیم قادری جو اس وقت مشیر برائے وزیر اعلیٰ پنجاب تھا بھی شامل ہے)۔ قانونی تقاضوں کے بخیے ادھیڑتے ہوئے یونیورسٹی کے اس وقت وائس چانسلر خواجہ علقمہ نے یک جنبش قلم سے لاہور کیمپس کو ایکریڈیشن عطا کردی۔ ایک دوسرا حکمران دھڑا یہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ اتنے منافع بخش کاروبار میں اسے حصہ نہ ملے۔ پہلے ہی سال یعنی 2013ء کے آخر میں ہائیر ایجوکیشن اتھارٹی نے بی زیڈ یو ملتان کو نوٹس بھیجا کہ یہ کیمپس غیر قانونی طور پر کام کر رہا ہے مگر لاہور کیمپس کی انتظامیہ نے داخلوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ فیسوں کے نام پر کروڑوں روپے طلبہ سے بٹورے گئے۔ بی زیڈ یو ملتان کے نام پر بینک اکاؤنٹ کھلوائے گئے۔ ایسے ایسے تعلیمی پروگرام شروع کئے گئے جو کہ مین کیمپس ملتان بھی نہیں کرواتا تھا۔ لاہور کیمپس میں تین پروفیسر صاحبان کی زیر نگرانی سات فیکلٹیز اور تیرہ شعبہ جات کام کر رہے تھے۔ ستمبر اکتوبر 2015ء میں یہ معاملہ پہلی بار میڈیا کی توجہ کا باعث بنا جب لاہور کیمپس کے طلبہ نے کینال روڈ بلاک کردی اور بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس دوران لاہور کیمپس کی انتظامیہ نے اپنی لوٹ مار کو تحفظ دینے کی خاطر احتجاجوں کی پشت پناہی کی مگر اس ظلم کا اصل شکار وہ طلبہ تھے جنہوں نے فیسوں کی مد میں بھاری رقوم ادا کی تھیں۔ اکتوبر 2015ء کے آخر میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر علقمہ اور لاہور کیمپس کے رجسٹرار ملک منیر کو نیب نے گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے وقت یہ بات سامنے آئی کہ لاہور کیمپس کے مالکان نے اب تک 92کروڑ 50 لاکھ روپے فیسوں اور دیگر اخراجات کی مد میں طلبہ سے اکٹھا کیا ہے اور مین کیمپس ملتان کو کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی گئی۔ نئے وائس چانسلر نے آتے ہی لاہور کیمپس کو غیر قانونی قرار دے دیا جس کے ساتھ ہی سینکڑوں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا۔ تب سے لے کر اب تک لاہور کیمپس کے طلبہ نے کئی بار احتجاج کیا۔ طلبہ کے دباؤ کے باعث حکومت نے اس معاملے کو گول کرتے ہوئے ان کو ملتان کیمپس میں منتقل کر کے اس مسئلے سے جان چھڑوائی۔ مگر کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جن لوگوں نے یہ لوٹ مار کی ان کا کیا بنا۔ کیا ان کے لئے بھی کوئی سزا ہے یا نہیں۔ جہاں تک بات رہی قانونی تقاضوں کی تو سب سے پہلے اس پر بات کی جائے کہ وہ کون سا قانون ہے جو تعلیم کے کاروبار کی اجازت دیتا ہے۔ اگر ہے تو وہ انہیں حکمرانوں کا بنایا ہوا ہے تاکہ اپنی نااہلی کو چھپا سکیں اور لوٹ مار اور منافع خوری کو تحفظ دے سکیں۔

بی زیڈ یو لاہور کیمپس کا معاملہ اس لئے اتنا کھل گیا کیونکہ اس کا براہ راست طلبہ اور ان کے والدین سے تعلق بنتا تھا۔ طلبہ کے احتجاجوں نے میڈیا کو مجبور کر دیا کہ وہ اس معاملے کو سامنے لے کر آئے۔ دیگر ادارے جیسے ریلوے، ٹرانسپورٹ، میونسپلٹی وغیرہ میں بھی اسی طرح لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ چند مٹھی بھر افراد غریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ مگر اس کو منظر عام پر آنے سا روکا جاتا ہے۔ ریلوے میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کئی ٹرینیں شروع کی گئیں۔ ان میں سے کچھ ابھی بھی چالو ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ثمرات کو سامنے لانے کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے جب اکتوبر 2015ء کے آخر میں پاک بزنس ایکسپریس کا کنٹرول پاکستان ریلوے نے دوبارہ سنبھالا تو اس وقت فور برادرز گروپ کے ذمے 2.2 ارب روپے واجب الادا تھے۔ 2012ء میں جب اس ٹرین کا آغاز ہواتو معاہدے کے مطابق فور برادرز گروپ روزانہ 40 لاکھ روپے ریلوے کو ادا کرنے کا پابند تھا مگر اکتوبر 2015ء تک کسی ایک بھی مہینے مذکورہ کمپنی نے 22 لاکھ روپے سے زائد کی ادائیگی نہیں کی۔ مگر کوئی ’قانون‘ حرکت میں نہیں آیا بلکہ اس کے بعد بھی کئی ٹرینیں شروع کی گئیں کیونکہ سرمایہ داری کے بحران کے حل کا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا تجویز کردہ نسخہ تو مقدس ہے ، اس کے خلاف بھلا کیسے کوئی بات کر سکتا ہے۔ لاہور میں صفائی کی سہولیات فراہم کرنے والی ترک کمپنی البراک کو ہر ماہ بغیر کسی حساب کتاب کے کروڑوں روپے کی ادائیگیاں کی جا رہی ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ در حقیقت پرائیویٹائزیشن کا ہی دوسرا نام ہے، جس پر محض محمل کی چادر لپٹی ہے اور اپنے جوہر میں دونوں ہی عوام دشمن پالیسیاں ہیں۔ سرمایہ د ارانہ نظام کے بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے سماجی بہبود کے اداروں کو نجی سرمائے کے لئے کھولا جا رہا ہے ویسے ویسے یہ سہولیات عام عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ IPPs کے آنے سے لوڈ شیڈنگ کم ہونے کی بجائے بڑھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ نجی سرمائے نے نیا روزگار پیدا کرنے کے بجائے پہلے سے موجود روزگار کا خاتمہ کیا ہے۔ نجکاری کے بعد سب سے پہلے اس ادارے کے محنت کشوں کو نکال باہر کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی سرمایہ دار عام عوام کو سستی بجلی، مفت اور معیاری تعلیم اور علاج فراہم کرنے کے لئے سرمایہ کاری نہیں کرتا بلکہ اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتاہے وہ چاہے ’قانونی‘ طریقے سے کمائے یا ’غیر قانونی‘ ذریعے سے۔ عالمی معاشی بحران کے باوجود چند مٹھی بھر طفیلیے سرمایہ داروں کی دولت میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جبکہ کروڑوں لوگ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دئیے گئے ہیں۔ صرف ایک منصوبہ بند معیشت ہی تمام انسانوں کو بغیر کسی تفریق کے زندگی گزارنے کے تمام ذرائع کی فراہمی یقینی بنا سکتی ہے اور ایسا بس ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Comments are closed.