پشتون عوام کی ریاستی جبر کے خلاف تحریک؛ طبقاتی جڑت ہی آگے بڑھنے کا واحد رستہ ہے!

|تحریر: کریم پرہر|

نقیب قتل اور ریاستی جبر کیخلاف اسلام آباد میں جاری دھرنے کا منظر

اسلام آباد کے اندر گزشتہ آٹھ روز سے فاٹا کے قبائلی اور دیگر پشتون عوام نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل کے واقعے کے بعد احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ نقیب شہید کو ریاستی مشینری کے غنڈے راؤ انوار نے کراچی میں ایک جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا تھا، جو کہ تازہ ترین معلومات کے مطابق بھتہ نہ دینے کی وجہ سے پیش آیا۔ کراچی کے اندر اس طرح کے جعلی مقابلوں میں سینکڑوں کی تعداد میں معصوم جانیں ریاستی اداروں کی دہشت گردی کا نشانہ بن چُکی ہیں۔ یہ دھرنا اسلام آباد کے اندر پچھلے دھرنوں سے یکسر مختلف ہے جن کا اس دھرنے کیساتھ موازنہ کرنا ایک غلطی ہو گی۔ اس دھرنے کے شرکاء ریاستی جبر کے ایک لمبے عمل کیخلاف اکٹھے ہوئے ہیں جس کا اظہار نقیب شہید کے ماورائے عدالت قتل پر ہوا۔ دھرنے کے اندر شرکاء کے جذبات اور اس دھرنے کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے فاٹا کے اندر پاکستانی ریاست کے جبر اور اس جبر کے نتیجے میں ہونیوالی تباہ کاریوں اور عوام کی زبوں حالی کو سمجھنا ہو گا۔ 

فاٹا جو کہ پاکستان کے ان علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں پر قبائلی ہونے کا احساس سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس خطے کو برطانوی سامراج نے برصغیر کے دیگر علاقوں سے کاٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس کی واضح مثال ’’ایف سی آر‘‘ جیسا کالے قانون ہے جو کہ آج تک موجود ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اس قانون کو کسی نے نہیں چھیڑا۔ 1978ء کے افغان ثور انقلاب کو سبوتاژ کرنے کے لیے امریکی سامراج، سعودی عرب اور پاکستان نے پیٹرو ڈالر جہاد کے لیے اس خطے کو ’’سٹریٹیجک لانچنگ پیڈ‘‘ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا، اور اسی وقت سے اس خطے میں ریاستی دہشت گردی کے بیج بوئے گئے اور ساتھ ہی ساتھ ریاستی جبر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

2001ء میں امریکی سامراج کے افغانستان پر حملے کے بعد اس خطے میں نام نہاد گڈ طالبان اور القاعدہ کے دہشت گردوں کے آنے جانے میں تیزی آنا شروع ہوئی۔ اسی سارے عمل میں وہاں پر پاکستانی ریاست اور اس کے پالے ہوئے ان دہشت گردوں کے بعض دھڑوں میں تضادات کا جنم ہونا شروع ہوا۔ امریکی سامراج کی ’’ڈو مور‘‘ پالیسی کے تحت اربوں ڈالر کے ملنے کیوجہ سے 2004ء میں مشرف کی سربراہی میں باقاعدہ آپریشن کا آغاز ہوا اور اس کے بعد آج تک آپریشنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو کہ آج تک جاری ہے، یہاں تک کہ ریاست کے لئے آپریشنوں کے نام رکھنا مشکل ہو گیا۔ یوں ریاستی آپریشنز کا یہ سلسلہ فاٹا کے عوام کے لیے ایک جبر مسلسل بن گیا اور ان کی مشکلات اور تکالیف میں مزید اضافہ ہونے لگا۔ ان نام نہاد آپریشنز کی وجہ سے فاٹا کے لاکھوں عوام کو بے گھر ہونا پڑا، ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں واقع ہوئیں، بازاروں، کھیتوں، کھلیانوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں غرض زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا۔ ایسے تباہ کن حالات میں فاٹا کے عوام کو اپنے گھر، جائیدادیں اور علاقہ چھوڑ کر دوسرے صوبوں میں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا، ان مہاجروں کی ایک خاصی تعداد باجوڑ سے افغانستان کے علاقے خوست بھی منتقل ہوئی۔ ریاستی جبر کی انتہاء ہو گئی مگر فاٹا کی عوام نے ’اچھے دنوں‘ کی آس میں سب کچھ برداشت کیا لیکن اس کایہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہ اس بات سے انجان تھے کہ ان دہشت گردوں کے پیچھے کون کھڑا ہے۔ فاٹا کے عوام تو امن کے لیے ترس گئے تھے مگر ریاست نے اپنی ناکامی چھپانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں معصوم قبائیلیوں کو قتل کیا، ان کو بغیر کسی ثبوت کے جیلوں میں ڈال دیا، اور تو اور فاٹا کے پورے علاقوں میں مائنز بچھائے گئے جن کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں قبائلی عوام اپاہج ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں موت کا شکار بنے۔ 

ان سارے آپریشنز میں قبائلی عوام کو بے سرو سامانی کے حالات میں دوسرے صوبو ں میں آئی ڈی پیز کی شکل میں کیمپوں میں غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اور جو لوگ دوسرے صوبوں میں اپنی مدد آپ کے تحت ہجرت کر گئے انہیں پھر نقیب محسود کی طرح ماورائے عدالت جعلی مقابلوں میں یاتو قتل کر دیا گیا یا پھر اُنہیں واپس ریاستی پشت پناہی سے چلنے والی دہشت گردی کی اس صنعت کا خام مال بننا پڑا۔ اس سارے عمل میں پاکستانی ریاست نے امریکی سامراج سے امداد کی آڑ میں اربوں ڈالر بٹورے اور وہاں پر اپنی رِٹ قائم کرنے کے لئے ہزاروں قبائل عوام کی زندگیاں چھین لی۔PAF کے ریٹائرڈ کیپٹن قمر سلمان کے مطابق فاٹا پر پاکستانی فضائیہ نے 11,600 بم گرائے جن میں دہشت گردوں سے زیادہ عام لوگوں کی ہلاکتیں ہوئیں لیکن اس کے باوجود ریاست وہاں پر امن قائم کرنے میں ناکام رہی۔

اسلام آباد میں جاری حالیہ دھرنے کا مقصد صرف نقیب شہید کے قاتل کو سزا دلوانا نہیں ہے بلکہ ایک لمبے عرصے سے جاری پاکستانی ریاست کے جبر اور بر بریت کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے خلاف عوامی غم وغصے کا ایک اظہار ہے۔ دھرنے کے مطالبات سے بھی یہ واضح ہوتا ہے جن میں شرکاء نے پاکستانی ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف اپنے غم و غصے کا بھر پور اظہار اپنے نعروں کے ذریعے کیا جن میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی اور فوج کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ جبکہ دیگر مطالبات میں فاٹا کے اندر بچھائی گئی مائنز جو کہ سینکڑوں لوگوں کی جا ن لے چکی ہیں کی صفائی، فوج کشی اور کرفیوکے نفاذ کے خلاف مطالبات شامل ہیں۔ درحقیقت یہ دھرنا پشتون عوام کے اندر سے اٹھنے والی ایک ایسی تحریک ہے جو کہ کافی حد تک حوصلہ افزاء اور بنیادی طور پر ایک بہت بڑی سیاسی ڈیویلپمنٹ ہے۔ اس دھرنے نے یہ ثابت کردیا کہ پشتون قوم پرستی کے دعوے کرنیوالی پارٹیوں کو اِن مسائل کا ادراک تک نہیں، حل تو بہت دُور کی بات ہے۔ جبکہ عمومی طور پر اس دھرنے سمیت دوسرے بڑے چھوٹے واقعات جن میں مشال شہید کا ظالمانہ قتل اور زینب قتل کیس کے بعد عوامی اشتعال نے اُن تمام سیاسی ڈھانچوں کو رد کردیا جو کہ ان کے نام پر سیاست کرتے تھے۔ ریاستی جبر کی انتہاء کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دھرنے میں شامل جو آدمی ریاست اور ریاستی اداروں پر تنقید کرتا ہے اُسے سب سے زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔ دھرنے کی قیادت کی کمزوریوں کی وجہ سے ریاست اس دھرنے کو ہائی جیک کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکی ہے۔ جس کی واضح مثال اس دھرنے میں ریاستی دلالوں کو بھجوا کر پشتون عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنا اور انہیں جھوٹی تسلیاں دینا ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کی اس دھرنے کے شرکاء نے پاکستانی ریاست کے خلاف کھلم کھلااحتجاج اور نعرے بازی کی مگر ایک بار پھر قیادت کی فقدان کی وجہ سے ریاست اپنی سازشوں میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ قیادت ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی سے شرکاء کو بار بار منع کر تی رہی اور صرف اور صرف سٹیج سے نعرے بازی کی اجازت دی گئی۔ اس سارے عمل میں جہاں ایک طرف لوگوں کے اظہار کو دبا یا جارہاتھا وہیں دوسری طرف یہ پورا احتجاج ریاست اور اُس کے د لالوں کے منہ پر طمانچہ ہے ۔ ماضی میں یہ باور کرایا جا تاتھا کہ عام لوگ اپنے اوپر کیے گئے ظلم کے خلاف کبھی بھی نہیں بولیں گے، بالخصوص ان ریاستی گماشتوں کی جانب سے جو قبائلی عوام کے اوپر ڈھائے گئے مظالم پر چپ کا روزہ رکھے ہوئے تھے۔ جبکہ آج ہم ان سب کو اس دھرنے میں’’ خطاب‘‘ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ مگر قبائلی عوام کی جانب سے جاری دھرنا ایک طرف سماج کے اندر بڑھتے ہوئے ظلم کیخلاف عوامی احتجاج کی عکاسی ہے اور عمومی طور پر سماج کے اندر اُس بڑھتے ہوئے تحرک اور ’جمود‘ کے ٹوٹ کر بکھرنے کی واضح مثال ہے۔ آنے والے دنوں کے لئے یہ تحریک ایک چنگاری ثابت ہوگی، جب بھی کہیں سے کوئی تحریک اُٹھے گی تو اس تحریک کا تجربہ عوام کو یاد رہے گا۔ لیکن یہاں پر یہ سمجھنا بھی بہت اہم ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ تحریک کامیاب ہو۔ لیکن اس تحریک سے کم ازکم سماج میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے۔ 

میڈیا کا کردار
یوں تو میڈیا کا کام اس طبقاتی نظام کے اندر صرف اور صرف حکمران طبقات کی ترجمانی کرنا ہوتا ہے اور مظلوم عوام کی مظلومیت کو کوریج دینے پر ان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ لیکن پاکستان جیسی ریاست میں یہ کردار مزید گھناؤنا ہو جاتا ہے۔ پاکستانی میڈیا چاہے الیکٹرانک ہو یا پرنٹ کسی نے بھی اس دھرنے کی کوریج نہیں کی۔ کیونکہ یہاں پر میڈیا ایک کارپوریٹ ادارے کے ساتھ ساتھ ایک ریاستی گماشتے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ حالانکہ اس دھرنے کو کوریج دینے میں بیرونی میڈیا بالخصوص الجزیرہ، واشنگٹن پوسٹ، انڈیا ٹوڈے اور بی بی سی پیش پیش رہے۔ اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ بیرونی میڈیا مکمل آزاد اور شفاف ہے۔ مگر پاکستانی میڈیا تو کھلم کھلا ریاست کی بی ٹیم بنا ہوا ہے۔ پاکستانی میڈیا مکمل طور پر ریاستی ایماء پر کام کرتا ہے ان کو ریاست کی طرف سے جو آرڈرز ملتے ہیں اُنہی کی پابندی کرتا ہے۔ میڈیا کے اس بائیکاٹ نے قومی تعصبات کو مزید ہوا دی ہے اور یہی اس حکمران طبقے اور ریاست کا مقصد تھا۔

پشتون قوم پرست قیادت کا کردار

دھرنے کی قیادت کے کمزور ہونے کیوجہ سے ریاست نے اس دھرنے کو سبوتاژ کرنے کے لیے ریاستی دلالوں جن میں عمران خان، فضل الرحمان، سراج الحق، محمود خان اور دوسری مشہور شخصیات کا استعمال کیا جس کا واضح مقصد دھرنے کے اندر موجود ریڈیکلائزیشن اور ریاست مخالف عناصر کا صفایا کرنا تھا۔ ۔ اس دھرنے میں پشتون قوم پرست قیادت کی شمولیت کے حوالے سے بہت ساری باتیں ہوئیں مگر یہ قیادت دھرنے کے پانچویں اور چھٹے روز خطاب کرنے آئی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ قیادت اس دھرنے میں جانے سے کتراتی تھی کیونکہ اُنہیں ڈر تھا کہ وہ فاٹا کے عوام کے اِن مسائل پر نہ تو سیاست کر سکتے ہیں اور نہ ہی ریاست مخالف بول سکتے ہیں۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ کہ ریاست نے اس قیادت کو دھرنے میں شمولیت کرنے سے روک رکھا تھا۔ پھر جب دھرنے کے اندر موجود قیادت نے عمران خان، فضل الرحمان، سراج الحق جیسے رجعتی رہنماؤں کو موقع فراہم کیا تو قوم پرست قیادتوں کو بھی خیال آیا کہ وہ اس دھرنے میں شامل ہو جائیں، اور یوں پشتون عوام کی نظروں میں اپنی بچی کھچی ساکھ بچا لیں۔ یہ بات بھی بہت واضح ہے کہ اس دھرنے میں قوم پرست قیادت کی شرکت میں ان کی پارٹیوں کے اندر سے ورکرز کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا بھی ایک اہم کردار تھا ۔ 

پشتون قوم پرست قیادت نے امریکی سامراج کی افغانستان پر حملے کی حمایت کی تھی اورکھلم کھلا War On Terror کو سپورٹ کیا، جبکہ امریکی سامراج کی بربریت، ظلم اور سفاکیت نے افغان سماج کو مزید تباہ کیا۔ جبکہ ساتھ ساتھ وہ اِن مظالم کیخلاف مگرمچھ کے آنسو بھی بہا تے رہے جو کہ دوغلے پن اور منافقت کی انتہا ہے۔ ایک طرف آپ سامراجی جنگ کی حمایت کرتے ہو، دوسری طرف اُس جنگ کے نتیجے میں بربادیوں پر واویلا بھی کرتے ہو۔ مزید برآں فاٹا کے اندر فوجی آپریشنز کی حمایت میں یہ قوم پرست قیادت پیش پیش تھی اور ان فوجی آپریشنز کو تیز کرنے کا کہا کرتے تھے۔ آج انہی آپریشنز کے نتیجے میں قبائلی عوام دربدر کی ٹھوکریں کھا کر سڑکوں پر آگئے ہیں، تو اس قیادت کا اس دھرنے میں شرکت کرنے سے کترانا ایک لازمی امر ہے۔
غالبؔ نے کیا خوب کہا تھا۔۔۔

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ 
شرم تم کو مگر نہیں آتی

اس دھرنے سے پہلے بھی ان قوم پرست پارٹیوں یا قوم پرست قیادت نے فاٹا کے اندر پاکستانی ریاست کے مظالم کے اوپر کبھی بھی کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی کبھی فاٹا کے عوام پر ڈھائے گئے مظالم پر کبھی آوازبلند کی اور نہ ہی کبھی ان قبائل کا دورہ کیا۔ ان سب باتوں کا ادراک یہاں سے ہوتا ہے کہ جب فاٹا اصلاحات یا فاٹا انضمام کی بات چل پڑی تو فاٹا کے مظلوم عوام نے اس قوم پرست قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی پالیسی پر فاٹا کے عوام نے بہت شور کیا مگر حکمران طبقات کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جو کہ محنت کش طبقے کے مفادات کے یکسر مخالف ہوتے ہیں۔ یہ قوم پرست پارٹیاں ریاستی دھڑا بندی میں ایک دوسرے کے مخالف دھڑوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کا افغانستان اور ڈیورنڈ لائن کے اوپر موقف یہ ثابت کرتا ہے کہ ان پارٹیوں کی عوام کے اندر نہ تو کوئی حمایت ہے بلکہ وہ عوامی حمایت اور سپورٹ پر اب بھروسہ بھی نہیں کرتیں۔ ان سب وجوہات کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں وہ ایک لمبی اور طویل بحث ہے مگر ایک بات واضح ہے کہ قوم پرستی بھی سرمایہ داری کی طرح تاریخی متروکیت کا شکار ہو چکی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام سے پہلے دنیا بھر میں قوم پرستی کے اندر تھوڑے بہت ریڈیکل نظریات ہوا کرتے تھے مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد قوم پرستی بھی بائیں بازو سے دائیں بازو کی طرف مڑنے لگی۔ اس بات کی واضح مثال اے این پی کا امریکہ کے کیمپ میں جانا اور افغانستان کے اندر امریکہ کے زیر نگرانی امن لانے کی باتیں کرنا جبکہ دوسری طرف اب پی میپ افغانستان کے اندر پائیدار امن کا ضامن چائنہ کو قرار دیتی ہے جبکہ دونوں پارٹیاں افغان عوام کو سرے سے نظر انداز کرتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ان پارٹیوں کا مقصد اب صر ف اور صرف پارلیمنٹ تک رسائی اور ٹھیکوں اور کمیشنوں کے ذریعے اپنی لوٹ مار کو بڑھاوا دینا ہے۔ ان پارٹیوں کے اندر سپلٹ کی وجوہات مالی اور مفادات کی بنیاد پر ہیں۔ ایک طرف اے این پی کا نعرہ ہوا کرتا تھا ’’لر اوبر یو افغان‘‘ یعنی ڈیورنڈ لائن کے اس پار اور اُس پار ایک افغان جبکہ اب یہ نعرہ ختم ہوکر اے این پی کی قیادت پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ افغانستان کے خلاف لڑنے کو تیار ہے اورپارٹی کے اندر سیکولر نظر یات ختم ہو کررجعتی پارٹی بن کر ابھری ہے جس کی حالیہ مثال مشال خان کے قتل میں اے این پی کے کارکنان کا کردار ہے۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت اب مذہبی لبادہ اوڑھ کر عوام کو ورغلانے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ ان کے پاس اب عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ دوسری طرف پی میپ کا ایک بنیادی نعرہ ہوتا تھا کہ ’’محمود خان! توپ لنگر انداز کرلو اور پنجاب کی طرف اُس کا رُخ کرلو‘‘ جبکہ آج ہم سب دیکھتے ہیں کہ یہی محمود خان اچکزئی صاحب پنجابی سامراج کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لے رہا ہے اور نوازشریف کا ساتھ نہ دینے والے پشتونوں کو بے غیرت اور غدار کہہ رہا ہے۔ جبکہ اس سے اہم بات یہ کہ پارٹی کے اندر جو سپلٹ موجود ہے وہ کوئی نظریاتی سپلٹ نہیں بلکہ مالی مفادات اور اقتدار میں مطلوبہ حصہ نہ ملنے کی وجہ سے ہے۔ لیکن پارٹی کے اندر ورکرز اور کیڈرز میں ایک انتشار اور بے چینی موجود ہے اوراس کا اظہار کسی نہ کسی صورت میں ہوسکتا ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان قومیتوں کا جیل خانہ ہے۔ یہاں پر ریاستی جبر، قومی جبرو محرومی اور قومی مظلومیت پوری شدت سے وجود رکھتی ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ ہم یہ سوال بھی کرتے ہیں کی اس ریاستی جبر اور قومی محرومی سے چھٹکارا پاناکیا ان قوم پرست پارٹیوں یا قوم پرستی کے ذریعے ممکن ہے؟ ایک اور اہم سوال ہے کہ کیا پنجابی سامراج پنجاب کے محنت کش عوام کی بھی نمائندگی کرتا ہے؟ ان دونوں سوالوں کے جواب ’’نفی‘‘ میں ہیں۔ قوم پرستی، جیسا کہ ہم بار بار کہہ چکے ہیں، اپنی تاریخی متروکیت کا شکار ہو چکی ہے تو قومی محرومی اور قومی جبرسے چھٹکارا پا ناطبقاتی جڑت اور طبقاتی جنگ کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ جبکہ دوسرے سوال کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ پنجابی قوم کے اندر اگر نواز شریف، جنرل، کرنل اور دوسرے جابر و استحصالی وجود رکھتے ہیں تو عین اسی وقت پنجاب کے اندر کارخانوں، ملوں، فیکٹریوں، کھیتوں اور کھلیانوں میں 98فیصدمحنت کش پنجابی عوام بھی وجود رکھتے ہیں جو کہ اپنے حکمران طبقے سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنا کہ دوسری محکوم اقوام کے مظلوم۔ 

فاٹا، بلوچستان، سندھ اور پشتونخوا کے اندر ریاستی جبر اور قومی محرومی سے نجات پانے کے لئے ان خطوں کے باسیوں کے پاس صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ طبقاتی بنیادوں پر تمام محنت کش عوام کی جڑت قائم کرتے ہوئے اس سرمایہ داری اور اس کی نمائندہ ریاست کو اکھاڑ پھینکا جائے اور ایک غیر طبقاتی سماج اور رضا کارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھی جائے جہاں پر سرمایہ داری کی موجودہ غلاظتوں سے کوئی بھی غلاظت وجود نہیں رکھتی ہو گی۔ طبقاتی اور قومی جبر کی وجہ یہ سامراجی ریاست اور یہ غلیظ حکمران طبقات ہیں اور جب تک یہ ریاست موجود رہے گے اس جبر کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں بننے والی ایک مزدور ریاست ہی اس طبقاتی اور قومی جبر سے نجات دلاسکتی ہے۔ 

Comments are closed.