پشتون تحفظ تحریک: مستقبل کے امکانات اور روایتی قیادت کا بحران!

|تحریر: خالد مندوخیل|

پشتون تحفظ تحریک جو گزشتہ دو ماہ سے منظر عام پر آئی ہے، اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ کراچی میں نوجوان نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل نے فاٹا کے عوام میں ایک طویل وقت سے پلنے والے غم و غصے میں ایک نیا ابال پیدا کیا اور عوام نے اس قتل پر ریاستی مؤقف کو ماننے سے انکار کر دیا، جس کے بعد اس تحریک کا آغاز ہوا جو اس وقت ملک کے طول و عرض میں مختلف شدت کے ساتھ موجود ہے۔ اس تحریک کی قیادت نے بلاشبہ بڑی جرأت اور دلیری سے فوج کے مظالم کے خلاف کھل کر آواز بلند کی۔ اپنی تقریروں اور بیانات میں انہوں نے طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جاری جعلی پولیس مقابلوں کی طرز پر ہونے والے فوجی آپریشنوں کو بھی بے نقاب کیا۔ اسی دلیرانہ موقف کے باعث انہیں عوام میں بے پناہ پذیرائی ملی۔ سینکڑوں سے ہزاروں اورلاکھوں تک کا سفر اس تحریک نے چند ماہ میں طے کرلیا۔ لیکن ایک طرف اس خطے کی نام نہاد قیادتیں اور دوسری طرف ریاست کے نمائندہ ادارے اسے سمجھنے سے بالکل قاصر تھے۔ کبھی بھی ان نام نہاد قیادتوں نے اس طرح کی تحریک کا تناظر پیش نہیں کیا تھا۔ اور وہ کر بھی کیسے سکتے تھے جو عرصہ دراز سے عوامی جدوجہد اور نظریاتی سیاست کو خیر آباد کہہ چکے ہیں اور ایک طویل عرصے سے نظریاتی اور سیاسی قبلہ بدلنے کے ساتھ ہی جمہوریت کا ناٹک شروع کر دیا گیا۔ ہر ایک مسئلے کا حل ان کے پاس ’’مضبوط و مستحکم جمہوریت‘‘ کے مربّے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن اس جمہوریت کی حقیقت کیا ہے، یہ پشتون عوام پر عیاں ہو چکی ہے اور وہ اس بات کا جواب بھی دے چکے ہیں۔ جمہوریت نے عوام کو کیا دیا اور کیا دے سکتی ہے، یہ پشتون عوام سمجھ رہے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر صرف اور صرف اس ملک کے سیاسی و سماجی بحران کے اوپر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ ’’اگر اس ملک میں جمہوریت ہوتو سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا‘‘ جیسے مفروضے بار بار سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن امیر اور غریب پر مبنی ایک طبقاتی سماج جس میں مسلسل معاشی، سیاسی اور سماجی بحران شدت اختیار کرر ہے ہوں وہاں جمہوریت کیسے لائی جا سکتی ہے۔ ایک ایسی ریاست جس کے ادارے اپنی ٹوٹ پھوٹ کی انتہاؤں پر ہوں، جہاں ریاستی اداروں کے مابین تضادات اور تصادم اپنی انتہاؤں پر ہو وہاں پر کونسی جمہوریت پروان چڑھ سکتی ہے۔ بجائے اس کے کہ اس سرمایہ دارانہ اور طبقاتی نظام پر بات کی جائے جس کی وجہ سے یہ مسائل موجود ہیں اور مزید سلگتے جا رہے ہیں، یہ اسی نظام کے اندر ہی حل تلاش کرتے پائے جاتے ہیں۔ اصلموضوع اور حقیقی ایشوز پر کبھی بات ہی نہیں کی جاتی۔

اسی طرح سائنسی نظریات سے عاری مختلف حلقے اس تحریک کو ایک اچانک معجزہ سمجھنے لگے جو ایک دن میں رونما ہوگیا۔ اور ان کے خوابوں کے ساتھ ان کی دکانوں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جانے کا خطرہ اپنے ساتھ لے آیا۔ اس لئے انہوں نے شروع میں ایک مبہم اور متزلزل پوزیشن اپنائی۔ لیکن پھر عوامی دباؤ میں آکر جلدی جلدی ایک ایک تقریر ٹھوکنے بھاگے چلے آرہے تھے اور اسلام آباد دھرنے میں ایک ایک تقریر کرکے یہ سمجھنے لگے کہ ان کا فریضہ ادا ہو گیا۔ مگر جب تحریک ان کی توقعات کے مخالف آگے بڑھتی چلی گئی تو ان نام نہاد قیادتوں کو پھر سے اپنی دکانیں یاد آنے لگیں اور انہوں نے اپنے کارکنوں کو اس تحریک میں حصہ لینے سے روکنا شروع کر دیا۔ اور وہ وقت دور نہیں کہ جب یہی لوگ پاکستانی ریاست کے ساتھ شانہ بشانہ اس تحریک کی مخالفت میں کھڑے ہونگے۔

حقیقی سائنسی اور عوامی نظریات اور عوامی جدوجہد پر مضبوط یقین کی یہ طاقت ہوتی ہے کہ جس کی مدد سے واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ہی تناظر تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ اور یہی کام ہے سائنسی نظریات کا کہ اس سے پہلے کہ واقعات رونماہوں، ان کا تناظر تخلیق کیا جائے اور ان میں اتار چڑھاؤ کے امکانات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کیا جائے، نہ کہ واقعات کے بعد جو کہ ایک میکانکی اور عملیت پسندانہ طریقہ کار ہے۔ سائنسی نظریات کے طریقہ کار کی مدد سے ہم مارکسسٹ بار بار اس طرح کی قومی اور محنت کش طبقے کی تحریکوں کے امکانات کو حقیقی بنیادوں پر پیش کر چکے ہیں جو کہ آج عمل کے میدان میں سچ ثابت ہورہے ہیں۔ تناظر تخلیق کرنے کیلئے ہمارے پاس جادو کی چھڑی نہیں بلکہ وہ سائنسی طریقہ کار ہے جس کی بنیاد پر سماج کے اندر آئے روز مقداری تبدیلیوں کو دیکھ کر آنے والے وقت میں ایک معیاری تبدیلی یعنی کسی واقعے یا تحریک کی پیش بینی کی جا سکے۔ 

پشتون تحفظ تحریک(PTM) کوئی ایک دن کا واقعہ نہیں ہے بلکہ تیس سالوں سے زیادہ مدت پر محیط ریاستی جبر، ظلم، محرومی، لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کی نقل مکانی، تعلیمی محرومی، بیروزگاری،طالبانائزیشن، پراکسی جنگیں، استحصال، لاپتہ افراد، غربت اور برباد انفراسٹرکچر وغیرہ تمام پشتون قوم کے بالعموم اور فاٹا کے عوام کے بالخصوص شعور پر اپنے نقش چھوڑتے چلے آرہے ہیں اور بالآخر اس کا نتیجہ ایک معیاری تبدیلی کے طور پر ایک تحریک کی شکل میں نکلتا ہے۔ PTM ابتدائی دنوں میں پھر اسی جدلیاتی قانون کے مطابق بہت کم مقداری قوتوں کے ساتھ ابھری تھی جس کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ پہلے یہ ’’محسود تحفظ تحریک‘‘ کے طور پر ابھری لیکن عملی میدان میں آکر آہستہ آہستہ تمام پشتونوں تک پھیلتی گئی اور آخر میں ’’پشتون تحفظ تحریک‘‘ ہمارے سامنے ہے۔

PTM کے حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ تحریک اپنے آغاز میں سیاسی طور پر اتنی باشعور اور ریڈیکل نہیں تھی جتنی کہ وہ آج ہے۔ شروع شروع میں اس تحریک کو ایک انقلابی قیادت کی ضرورت تھی جس کی غیر موجودگی میں اس خلا کو پر کرتے ہوئے پی ٹی ایم کو قوم پرست سیاست کے کچھ بچے کچے ریڈیکل عناصر کی قیادت نصیب ہوئی جو کہ قومی مزاحمتی سیاست کے متعلق تو کچھ نہ کچھ آگاہ ہے لیکن قوم پرستی کے نظریات کی محدودیت کی وجہ سے وہ اس تحریک کو تمام مظلوم طبقات کی تحریک میں بدلتے ہوئے اس کو مظلوموں کی تحریک نہیں بنا پا رہی۔

پاکستانی ریاست کی طرف سے جبر،ظلم اور استحصال پاکستان کے تمام مظلوم طبقات کو کسی نہ کسی شکل میں درپیش ہے نہ کہ صرف پشتونوں کو اور یہ پھر ریاست اور حکمران طبقے کی مرضی ہے کہ کس خطے یا علاقے کے عوام پر کیسا جبر روارکھے، نہ کہ پاکستان کے عوام کی۔ اس لئے پنجاب کے محنت کش عوام کو اس بات پر تنقید کا نشانہ بنانا یا جدوجہد سے باہر رکھنا غیر معقول ہے کہ وہ محض غربت، بیروزگاری، لاعلاجی،مہنگائی، بھوک، ننگ جیسے مخصوص استحصال کا ہی شکار ہیں جبکہ ہم پشتون اس استحصال کے ساتھ قومی جبر کا بھی۔ محنت کش اور غریب طبقے پر مخصوص جبر کا تعین ان کی مرضی کے بجائے تاریخی ارتقا، ریاست کی مرضی اور جغرافیائی حیثیت سے ہوتا ہے۔ اس لئے ریاست کے خلاف اپنے حقوق کی یہ لڑائی بھی صرف پشتونوں کی نہیں بلکہ تمام مظلوم طبقات کی لڑائی ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سے شکوہ کرنے کی بجائے اپنے پیغام کو عمومی بنایا جائے۔ اور یہی طبقاتی جڑت ہی وہ طاقت ہے کہ جس کی مدد سے اس تحریک کو مظلوم طبقات کی تحریک میں بدل کر ایک سوشلسٹ انقلاب کرتے ہوئے اس ریاست کو اکھاڑ پھینک کر ایک مزدور ریاست کی بنیاد رکھی جائے گی جس کی بنیاد پر ہر قسم کے جبر، خوا ہ قومی جبر ہو یا جنسی جبر ہو، کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک استحصال سے پاک معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔

ریاست کو بھی اگر کسی چیز سے سب سے زیادہ خطرہ ہے تو وہ یہی مظلوم طبقات کی طبقاتی جڑت ہے جس کو روکنے کیلئے ریاست کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔ اکیلے پشتونوں کی تحریک کو کچلنا ریاست کیلئے کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے بلکہ آج بھی ریاست PTM کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ریاست ان کے خلاف اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان کے باقی مظلوم و محروم طبقات میں نفرت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے، PTM کی سنجیدہ قیادت کو، اپنا پیغام پاکستان کے تمام محنت کش عوام تک پہنچانا چاہئے اور ان پر واضح کرنا چاہئے کہ یہ ہماری اور آپ کی مشترکہ تحریک ہے، آؤ مل کر اس نظام کے خلاف اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے اس مشترکہ جدوجہد کا حصہ بنیں۔ یہی وہ واحد راستہ ہے کہ جس کے ذریعے عوام کی بڑی اکثریت کو جیتا جا سکتا ہے اور اس راستے میں ہی تحریک کی قوت، بقا اور کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ 

متعلقہ: 

پشتون لانگ مارچ: ریاستی جبر کے خلاف پشتون عوام کا پھیلتا ہوا آتش فشاں

پشتونوں پرقومی جبر کیخلاف بغاوت کا آغاز!

پشتونوں پر قومی جبرکیخلاف تحریک؛ سوشلسٹ انقلاب ہی راہِ نجات ہے!

Comments are closed.