نظم: عارف حسین کی ماں

ماں تری تصویر دیکھی
ترے گالوں پہ ٹمٹماتا ایک آنسو
مرے سینے سے لاوا بن کے پھوٹنے لگا ہے
مرا خود سے تعلق ٹوٹنے لگا ہے
مری پوروں میں جیسے سوئیاں چبھنے لگی ہیں
کسی نے جیسے فرطِ حیرت میں لے جا کر
مرے سارے ہی ناخن کھینچ ڈالے ہیں
تری پاکیزہ آنکھوں کی سبھی چیخیں سنی میں نے
گماں گزرا کہ شاید اسرافیل نے خود سور پھونکا ہو
ماں تری چیخوں کی بولی کون سی ہے
کشمیری یا بلوچی یا پھر سرائیکی، سندھی
یا ممکن ہے کہ میر و غالب پر فخر کرتی ہوئی اردو
عجب بولی ہے ماں تری ان زرد آنکھوں کی
کہ جس میں اس سیارے کی ہر اک بولی کا حصہ ہے
زیاں کا، درد کا، لاچارگی کا قصہ ہے
ماں تجھے معلوم ہے
مجھے بھی جننے والی ماں ابھی حیات ہے
جو میری کائنات ہے
وہ اپنی عمر میں اور شکل میں تری تصویر جیسی ہے
گھٹن میں نرم جھونکے کی سبک تاثیر جیسی ہے
میں اتنے برسوں میں اس سے لپٹ کر کبھی نہیں رویا
مگر نہ جانے کیوں ماں سوچتا ہوں
کہ میں بے ساختہ تجھ سے لپٹ کر اتنا روؤں
کہ اشکوں میں ترے اور میرے سارے غم ہی بہہ جائیں
ہم دونوں ایک دوسرے کو بس دیکھتے ہی رہ جائیں
میں تجھ کو دیکھوں تو مجھے مری اپنی ہی ماں دکھائی دے
تو میرے اشک پونچھے تو تجھے عارف نظر آئے
کوئی اچھی خبر آئے

(پارس جان)

Comments are closed.