نظم: زینب کی مسکان

فلک خود زمیں میں دھنسا کیوں نہیں ہے
زمیں پر زمانہ رکا کیوں نہیں ہے
اگر ہے غفور و مغنی تو اب تک
خدا کا کلیجہ پھٹا کیوں نہیں ہے
وہ سچا صحیفہ، وہ قرآن لا دو
مجھے میری زینب کی مسکان لا دو

قیامت، جہنم، عقیدت، نبوت
ہے منبر پہ شعلہ بیاں کی حکومت
وہ اخلاق و تہذیب کے بت کہاں ہیں
کہاں ہے وہ دیں اور کہاں ہے شریعت
اٹھا کر دکانوں سے ایمان لا دو
مجھے میری زینب کی مسکان لا دو

’شریفوں‘ کا پتلا جلا کیوں نہیں ہے
ہول ’انصافیوں‘ کو اٹھا کیوں نہیں ہے
جیالوں کی غیرت کہاں سو رہی ہے
جو زندہ ہے بھٹو، مرا کیوں نہیں ہے
یوں جینا تو مشکل ہے آسان لا دو
مجھے میری زینب کی مسکان لا دو

یہ بیڑے، یہ ریلیں، یہ سب ساز و سامان
انہیں دیکھ کر خود خدا بھی ہے حیران
اے سائنس و حکمت کے پروردگارو!
بنا کر دکھاؤ تو زینب کی مسکان
بنی نوعِ انساں کا وجدان لا دو
مجھے میری زینب کی مسکان لا دو

مرے دوست تاجر، مرے یار افسر
تمہیں ہر سہولت یہاں ہے میسر
مرا تم سے کوئی تقاضا نہیں ہے
بہت تم اکڑتے ہو اس مال و زر پر
یہاں کوئی جینے کا امکان لا دو
مجھے میری زینب کی مسکان لا دو

نظامِ معیشت، حکومت بدل دو
ثقافت کے لچھن، طریقت بدل دو
اٹھو چھوڑ بھی دو یوں گھٹ گھٹ کے جینا
یہ وحشت، یہ دہشت، یہ حالت بدل دو
’فرشتوں‘ کو لے جاؤ، انسان لا دو
مجھے میری زینب کی مسکان لا دو

(پارس جان)

Comments are closed.