لنڈیکوتل: ایجنسی ہیڈکوارٹر ہسپتال کی نجکاری کا فیصلہ، عوام میں شدید غم و غصہ

|رپورٹ: اسفند یار شنواری|

فاٹا سیکریٹریٹ کی جانب سے ایجنسی ہیڈکوارٹر ہسپتال لنڈیکوتل کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے خلاف عوام، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس سٹاف میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حکومت کے اس عوام دشمن اقدام کے خلاف ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس سٹاف نے ہڑتال کے اعلان کیا ہے۔ گذشتہ روز اے ایچ کیو ہسپتال کی نجکاری کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھوک ہڑتالی کیمپ بھی جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق ہسپتال کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں عوامی ٹیکس کے پیسوں سے بنے اس ہسپتال کو کسی ٹھیکیدار کے حوالے کر دیا جائے گا۔ نجکاری کا اعلان ہوتے ہی ہسپتال سٹاف نے ڈیوٹی ادا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ فاٹا میں پہلے ہی تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تھی۔ لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس پر سونے پر سہاگہ واحد سرکاری ہسپتال کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ جیسا کہ پہلے نجکاری کا شکار ہونے والے اداروں کے محنت کشوں کو ڈاون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کے نام پر روزگار سے محرام کردیا گیا، یہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔کام کے اوقات کار بڑھا دئیے جائیں گے۔ مستقل ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر کے کنٹریکٹ پر بھرتیاں کی جائیں گی۔ اس حوالے سے ہسپتال کے ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس اور دیگر سٹاف کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی اور نجکاری کا شکار دیگر اداروں کے محنت کشوں کے خلاف جڑت بنانی ہوگی۔

یاد رہے کہ یہ ہسپتال اپنی لوکیشن کی بنیاد پر بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف لنڈیکوتل بلکہ افغانستان سے آنے والے غریب عوام کا بھی علاج ہوتا ہے۔ نظام زر کے حامی یہ حکمران طبقات ان غریب محنت کش عوام سے آخری سہولت تک چھین کر اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اے ایچ کیو ہسپتال ’بی‘ کیٹیگری  کی فہرست میں شامل ہے اور ماضی میں حکومت کی نا اہلی کے باعث اس کو ’اے‘ کیٹیگری  کا درجہ نہیں دیا گیا جو کہ دینا چاہیے تھا۔ جس سےیہاں پر ایک میڈیکل کالج کا قیام ہو سکتا تھا۔ نجکاری کے بعد ہسپتال ڈاون سائزنگ کی وجہ سے ’سی‘ کیٹیگری  میں شامل وہ جائے گا جس کا خمیازہ پھر محنت کشوں اور لاچار عوام کو بھگتنا پڑے گا۔

Comments are closed.