کیاخیرات مسائل کا حل ہے؟

تحریر: |ناصرہ وائیں، صبغت وائیں|

گذشتہ روز ایک نجی چینل پر عطیہ کو دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی کہ ایک غریب لڑکی جس کے کالج جانے کے سپنے دم توڑ چکے تھے اب اس کی زندگی میں امید پھر سے لوٹ آئی ہے۔ اس نجی چینل کے دعوئے کے مطابق ان کی اُجاگر کی گئی ایک خبر پر خادمِ اعلیٰ کی نظرِ کرم پڑی اور عطیہ کو کالج میں داخلے کے لئے خیرات دے دی گئی۔ اس کی خیرات لینے، میڈیا کے خیرات دلوانے اور خادمِ اعلیٰ کے خیرات دینے کے واقعے کو ایک اعلیٰ اخلاقی تمثیل کے طور پر پیش کیا گیا۔ عطیہ، فرد کی انفرادیت کی راکھی کا دعویٰ کرنے کے اس سرمایہ داری نظام میں مستقبل کا ایک پڑھا لکھا اور ذمہ دار سماجی فرد بننے کی خواہش مند ہے۔ اس انفرادی معرکے میں جیت کی خوشی اس کے معصوم چہرے پر چھلکتی مسکراہٹ میں واضح دیکھی جاسکتی تھی۔
اسے خوش آمدید کہنے والی کالج کی لڑکیوں کے چہرے پر بھی ایک مخیرانہ تقدس نظر آرہا تھا، بلکہ وہی تاثرات ان کے چہرے پر عیاں تھے جو کہ کسی غریب، مسکین، لاوارث اور بے سہارا کی مدد کرنے کے بعدامرا اپنے چہروں پر سجاتے ہیں۔
عطیہ کو تو داخلہ مل گیا، لیکن سرکاری کالجوں کی فیسوں میں کئے گئے اضافہ جات اور بنیادی ضروریات زندگی کی اوپر کو چڑھتی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے یہ سوچ سب سے پہلے آگھیرتی ہے کہ اس سال میٹرک کا امتحان پاس کرنے والوں میں سے کتنے فی صد طلبہ و طالبات کی یہ استطاعت باقی رہ گئی ہے کہ وہ کالج میں داخلہ لے سکیں؟ فیسوں کی شرح دیگر مہنگائی کی شرح کے ساتھ بڑھائی گئی ہے لیکن ان ’’خوش قسمت ترین‘‘ محنت کشوں کی تنخواہوں اور آمدنی میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا، جن کو روزگار کی ’’رعایت‘‘ میسّر ہے۔ سرکاری سکولوں اورگلی محلے کے چھوٹے پرائیویٹ ’دُکان سکولوں‘ میں داخلہ لینے والی اکثریت کا تعلق اسی محنت کش طبقہ سے ہے۔ ’شرفا‘ کے بچوں کو تو اشرافی بورڈنگ سکولوں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کیلئے پر فضا مقامات یا بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے جہاں سے وہ ’’صاحب‘‘ یا ’’بیگم صاحبہ‘‘ بن کر لوٹتے ہیں۔
مہنگائی اور بالواسطہ ٹیکسوں کی اس بھر مار میں جہاں حکومت کی طرف سے ہر چیز پر سبسڈی کو مسلسل کم یا ختم کیا جارہا ہے، ہر روز ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جن کو تمام تر زندگی خطِ غربت کی لکیر کے اس پار گزارنی ہے۔ آبادی کی اس وسیع تر اکثریت کے لئے یہی راستہ بچتا ہے کہ چند دن اور زندہ رہنے کے لئے معیارِ زندگی کو کچھ اور گرا لیا جائے۔ اس سلسلے میں کئی طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ دال میں تھوڑا اور پانی ملایا جاسکتا ہے۔ ایک روٹی کم کی جاسکتی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کی بجائے کام پر پیدل جایا جاسکتا ہے، سبزی منڈی کے پھینکے گئے کوڑے میں سے سبزی چُنی جاسکتی ہے، بچے کو سکول سے اُٹھوا کر کام کاج یا پھربھیک مانگنے پر لگایا جاسکتا ہے۔ غرضیکہ مسابقت کے اس ’’آزاد‘‘ معاشرے میں ممکنات کی کوئی کمی نہیں ہے۔

افریقہ کو دی جانے والی غیر ملکی امداد پر ایک طنزیہ کارٹون۔ امداد کی مد میں غریب ممالک کو ملنے والی رقم سے کئی گنا زیادہ سرمایہ بین الاقوامی اجارہ داریاں ہر سال لوٹتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خیرات تو بہرحال ’خیر ‘یعنی اچھا کام ہے لیکن اس میں ایک مسئلہ ہے! خیرات کا اچھا کام کرنے کے لئے سب سے پہلے غریبوں کی ضرورت پڑتی ہے، یہ کام طبقاتی استحصال اور لوٹ مار کے ذریعے ’’بخیر و خوبی‘‘ انجام دیا جاتا ہے۔ پھر محنت کشوں سے لوٹی ہوئی دولت میں سے ان ہی کو بھیک دے کے نوازا جاتا ہے اور اس ’’نیک کام‘‘ کی تشہیر پر بھیک کی رقم سے کئی سو گُنا زیادہ سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ایسی فیاضی تو رابن ہُڈ یا سلطانہ ڈاکو کو بھی نصیب نہ تھی۔ وہ بیچارے تو ایک طبقے کی دولت لوٹ کر دوسرے طبقے کے لوگوں کو دیتے تھے۔ اصل طریقہ واردات تو ان سرمایہ دار خیراتیوں کا ہے جو محنت کش طبقے سے دولت لوٹ کر، چند ٹکڑے واپس انہی کی طرف پھینک دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فوٹو اخبار میں لگوا کر ’’حاجی صاحب‘‘ بھی بن جاتے ہیں۔
ٹی وی پر پاکستان کے ایک کھرب پتی صاحب کی شان میں گائے جانے والے قصیدے ہی دیکھ لیں۔ اس کے ان ’’نیک‘‘ کاموں کے اشتہارات روز کئی چینلوں پر چلتے دیکھتے ہیں۔ اور تو اور ان میں سے ہر اشتہار کی مالیت اتنی ہوتی ہے کہ پاکستان کے کسی بھی چھوٹے شہر کی تمام کی تمام’’ عطیات‘‘ عمر بھر مفت تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ لیکن اشتہار تو ضروری ہے نا! ایسی نیکی کس کام کی جس کا پتہ نہ چلے؟
ان باتوں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ’انسان دوست‘ نہیں ہیں یا پھر غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے عذاب جھیلتی انسانیت کی مدد نہیں کرنا چاہتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ صرف سوشلسٹ ہی اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ انسان فطری طور پر لالچی یا خود غرض نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ تمام کی تمام سرمایہ دارانہ پراپیگنڈہ کی مشینری اس حقیقت کے خلاف کام کرتی ہے، بلکہ اس دعوے کو سوشلزم کے خلاف دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سوشلزم یا ایسا نظام کیسے قائم رہ سکتا ہے جس میں انسان، انسان کے ساتھ مقابلہ نہ کرے؟ ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو مارے بغیر، کچلے بغیر آگے بڑھ جائیں؟ بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سب انسانوں کو کام کرنا پڑے؟ کیا لالچ اور چھینا جھپٹی کی خواہش فطری نہیں ہے؟ کیا یہ ہمارے خمیر میں نہیں کہ ہم خود غرض ہیں؟ کیا ہم صرف اپنی ذات کے لئے نہیں سوچتے؟ اور اس سماجی زہر کو سرمایہ دارانہ دانشور ’’انفرادیت‘‘ کی میٹھی ٹافی میں ڈال کر پیش کرتے ہیں۔ ہر فرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کی انفرادیت کی بات ہو رہی ہے حالانکہ یہ صرف سرمایہ دار کی انفرادیت ہوتی ہے۔
سوشلسٹ نہ صرف ’’انسان کی انسان کے ساتھ مسابقت‘‘ کے گھناؤنے خیال کو رد کرتے ہیں بلکہ اسے غیر فطری اور غیر تاریخی بھی مانتے ہیں۔ جدید نیورو سائنس اور انتھروپولوجی نے سوشلسٹوں کے ان نظریات کی تصدیق کی ہے۔ آسٹریلیا میں ہونے والی نیورو سائنس کی ایک تازہ تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ اگر کوئی انسان مشکل میں ہے تو دوسرے انسان کو علم ہونے پر سب سے پہلا خیال اس کی مدد کا آتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا خیال اس کی اپنی ذات کے تحفظات اور اغراض کا آتا ہے۔ یعنی اگر کوئی گرنے لگا ہے تو انسان اس کو سوچے بغیر بچانے کی کوشش کرتا ہے، یہ سوچ کہ اس کے گرنے سے میرا یہ فائدہ ہونا تھا، بعد میں آ سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو تو سب سے پہلے اس کو بچانے کا خیال آتا ہے، یہ خیال کہ اس کی فوٹو کھینچ لیتے تو کچھ کمائی ہو سکتی تھی، بعد میں پیدا ہو سکتا ہے۔ پہلا خیال فطری ہے دوسرا اس سماج کی دین ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔
اسی طرح افریقہ میں ریسرچ کرنے والے ایک انتھروپولوجسٹ نے جنگل کے چند قبائلی بچوں کو ایک مقابلے میں شرکت کروائی اور مقابلے کے آخر میں انہیں انعام کے طور پر کچھ پھل فروٹ دینے کا کہا۔ اس نے یہ دیکھا کہ جو بچہ بھی جیت لیتا وہ جیت کے کھانے کو سب میں بانٹ دیتا۔ اس کے دریافت کرنے پر بچوں نے بتایا کہ اگر ہم میں سے کوئی ایک خوش نہ ہوا تو ہم سب کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسے معاشرے کی ’فطری نفسیات‘ ہے جہاں ابھی منڈی اور سرمایہ داری کی مسابقت نامی غلاظتیں نہیں پہنچی ہیں۔
کچھ ہفتے قبل بی بی سی پر ’’نیچر کمیونیکیشن‘‘ نامی رسالے کے حوالے سے انسانی فطرت کے بارے میں ایک ’’ارتقا خود غرضوں کو سزا دیتا ہے‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشیگن سٹیٹ یونیورسٹی میں ماہرین نے مخاصمت یا تعاون کی صورتحال پیدا کرنے کے لئے مختلف کھیل وضع کئے جن میں درجنوں انسانوں کے رویوں کا سائنسی مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ’’انسانوں میں خود غرضانہ عادات پائی جاتیں تو نسل انسانی معدوم ہوچکی ہوتی‘‘ اور یہ کہ ’’خود غرضی کا وقتی فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن طویل مدت میں اس کا نقصان ہوگا اور نسل انسانی معدوم ہوجائے گی۔‘‘ یعنی انسان فطری طور پر خود غرض نہیں ہے اور اپنے ارتقا کے دوران اس نے باہمی مدد اور اشتراکیت کے ذریعے ہی فطرت پر قابو پاتے ہوئے اپنی نسل اور وجود برقرار رکھا۔ دراصل قدیم انسان کے پاس دیگر درندوں کے مقابلے میں ہتھیار ہی ’ایک دوسرے کی مدد‘ کا تھا، یعنی باہمی اشتراک اور اسی اشتراکی عمل نے اسے تمام جانداروں پر فوقیت دیتے ہوئے۔ اسی میں اس کی بقا ممکن ہوئی۔
لالچ کی جو شکل ہمیں آج نظر آتی ہے وہ سرمایہ دارانہ سماج سے پہلے انسانی سماج میں کبھی موجود نہیں رہی۔ صرف ڈیپ فریزر ہی کے آنے کے بعد ہم نے انسانوں کے رویے بدلتے دیکھ لئے ہیں، ضرورت سے زائد کھانا پہلے پڑوسی کو دے دیا جاتا تھا اور پڑوسی سالن وغیرہ مانگنے میں کوئی ہچکچاہٹ یا شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔ اب اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ڈیپ فریزر کوئی سماج دشمن چیز ہے، لیکن سرمایہ دارانہ سماجی رشتوں کے زیر اثر ہر نئی ایجاد انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کی بجائے بڑھاتی ہے۔
آج کے عہد میں خیرات دینے اور لینے والوں کے مابین معاشی فرق دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ طبقاتی خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے۔ مزدور جس قدر زیادہ محنت کرتا ہے اس خلیج میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ محنت کش کی اجرت کی نسبت سرمایہ دار کے سرمائے کی افزائش کی شرح کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یعنی سرمائے کا ارتکاز اجرت کی نسبت بہت تیزی سے بڑھتا ہے۔ ہمارا مذکورہ نجی چینل (بہت سے دوسرے چینلوں سمیت) مختلف قسم کی Success Stories دکھا کے یہ ثابت کرنے کے درپے ہے کہ محنت کر کے امیر ہوا جاسکتا ہے، دوسرے الفاظ میں غریب کام چور ہیں!
جیسا کہ ہم نے کہا کہ ہم مدد کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن یہاں مدد کا مقصد اورمطلب ایک استحصالی نظام کو ’’منصفانہ‘‘ ثابت کرنا، طبقاتی تقسیم کو چھپانا اور استحصالیوں کے ’’اچھے کردار‘‘ کی تشہیر کرنا ہے۔ یہاں بھیک دینے والے کے قصیدے گائے جاتے ہیں لیکن بھیک لینے والوں کی عزت نفس، خود اعتمادی اور سماجی کردار کی اڑتی ہوئی دھجیاں نہیں دکھائی جاتیں۔ کیا اس ملک اس دنیا میں صرف ایک ہی عطیہ تھی؟ کیا مسئلہ اب حل ہو گیا ہے؟ اگر آپ کا مقصد تعلیم کو عام کرنا اور تمام ’’عطیات‘‘ کو تعلیم دلوانا تھا تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسوں میں ہونے والے اضافے کو کیوں واپس نہ لیا؟ تعلیم جو کہ ایک بنیادی انسانی حق ہے، اسے پرائیویٹائز کر کے چھیننے کے بجائے مفت کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ ہمارے محلوں میں ایک ایک گھر میں کئی عطیائیں موجود ہیں، جنہوں نے میٹرک تو کر لیا ہے لیکن کالج میں داخلے کے لئے فیس نہیں ہے۔ اگر فیس کا بندوبست کر بھی لیا جائے تو کالج آنے جانے کے کرائے بہت بڑھ گئے ہیں۔ کتابوں کا خرچہ، یونیفارم، سماجی مسائل وغیرہ وغیرہ۔
بھیک دینے سے غربت کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس سے دوسرے لوگوں کو بھی یہ ترغیب ملتی ہے کہ وہ اس غیر انسانی سماج کو بدلنے کی جدوجہد ترک کر کے مانگنا شروع کر دیں۔ محنت کشوں کو کرپٹ کرنے کا یہ بہترین نسخہ ہے جو حکمران استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران طبقات کی یہی منشا ہے کہ غریب لوگ باعزت زندگی کی سوچ چھوڑ کر، بھیک مانگنے کی ذلت بھری زندگی کو قبول کرلیں۔ وہ ان سرمایہ داروں، جاگیر داروں کو اپنا نجات دہندہ اور ان داتا مان لیں جو ان کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ تمام تر سابقہ بایاں بازو آج این جی اوز کھول کر حکمرانوں کا خدمت گزار بنا بیٹھا ہے۔ ان حالات میں مارکسسٹوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اصلاح پسندی کی انتہائی غلیظ شکل، یعنی ’’خیرات‘‘ کو ہر پلیٹ فارم پر بے نقاب کرتے ہوئے محنت کشوں کو اس نظام کے خلاف جدوجہد کا باعزت راستہ دکھائیں!

Comments are closed.