ایران: کاخِ امرا کے درودیوار ہلنے لگے!

|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: ولید خان| 2جنوری 2018ء

ایران میں مسلسل احتجاجوں کا کل پانچواں دن تھا۔ اس دوران سیکورٹی فورسز نے مزید سخت اقدامات شروع کر دئے ہیں۔ پانچویں دن احتجاجوں کا حجم کچھ کم ہوا ہے، کچھ کریک ڈاؤن کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ ابھی تک تحریک کوکوئی مضبوط محور نہیں ملا جس کے ارد گرد منظم ہو کر تحریک بھرپور فعال ہو سکے۔ ریاست نے انٹرنیٹ اور ذرائع ابلاغ پر کریک ڈاؤن کر کے رسائی انتہائی محدود کر دی ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ کئی احتجاجوں کی خبر، خاص طور پر چھوٹے شہروں اور قصبوں سے، باہر کی دنیا تک نہیں پہنچ رہی۔

ملا ریاست کی تاریخ میں ان احتجاجوں کی مثال نہیں ملتی۔ اس سے قبل ریاست نے کبھی اتنے وسیع پھیلاؤ کی حامل تحریک نہیں دیکھی اور پہلے کبھی کسی تحریک کا اتنا ریڈیکل اور غیر متزلزل موڈ نہیں رہا۔ ہمدان جیسے انتہائی قدامت پسند شہر میں لوگوں کے نعرے تھے: ’’خامنہ ای ایک قاتل ہے، اس کی حکومت باطل ہے!‘‘۔

ایک نعرہ کئی شہروں سمیت اردبیل میں بھی مشہور ہو چکا ہے:’’ریاست کا نعرہ حسین، حسین ہے لیکن عصمت دری اس کی راحت ہے‘‘۔ یہ ملا اشرافیہ کے مذہبی دوغلے پن کی بھرپور عکاسی ہے۔

اہواز میں کئی مظاہرین کی پولیس سے اس وقت جھڑپیں ہوئیں جب پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔

کرد اکثریتی علاقے کرمانشاہ، جہاں حال ہی میں ایک تباہ کن زلزلے نے سب سے زیاہ تباہی مچائی، پچھلے چند دنوں سے ریاستی سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ زلزے کے بعد کئی اموات بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے ہوئیں اور اس تحریک میں کرد عوام کے اس غم وغصے کا یقیناً اظہار ہو گا۔ 

تہران شہر میں اور اس کے گرد و نواح میں احتجاج جاری ہیں جن کی وجہ سے شدید جھڑپیں بھی ہو رہی ہیں۔ لوگ نعرے لگا رہے ہیں:’’ختم کرو، ختم کرو، ملا ریاست ختم کرو!‘‘۔

سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری کی وجہ سے بہت زیادہ لوگ اکٹھے نہیں ہو سکتے لیکن احتجاج مسلسل جاری ہیں۔

سب سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ احتجاج تہران کے گردونواح میں موجود صنعتی قصبوں اور گاؤں میں بھی پھیل چکے ہیں۔ تہران کے باہر دیوہیکل صنعتی علاقے کرج میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر آ گئے جس کے بعد ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔

ابادان سے حاصل ہوئی ایک ویڈیو میں ہجوم ’’بے روزگاری کو موت!‘‘ کے نعرے لگاتا رہا۔

شیراز سے حاصل ہونے والی ایک ویڈیو میں مظاہرین پولیس کا پیچھا کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ پولیس سر پٹ دوڑتی نظر آ رہی ہے۔

اسی اثنا میں مسجد سلیمان سے ایک دیوہیکل مظاہرہ برآمد ہوا اور کچھ اطلاعات کے مطابق لوگوں نے کچھ وقت کے لئے پورا شہر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔

ایک ویڈیو کسی نامعلوم مقام کی منظر عام پر آئی ہے جس میں لوگ سیکورٹی اہلکاروں کے پاس جا کر کہ رہے ہیں کہ، ’’ہمارے دشمن نہ بنو‘‘۔ 

رشت شہر میں ایک احتجاج کی ویڈیو میں موجود خاتون نے غریب محنت کشوں کی دگر گوں حالت کا اظہار کیا جو روزانہ اجرت نہ ملنے پر زندگی سے لڑ رہے ہیں۔

’’میرے بھائی کا بیٹا یہاں کام کرتا ہے۔ اسے پچھلے تین مہینوں سے اجرتیں نہیں ملیں اور پھر اسے نکال دیا گیا۔ وہ محکمۂ روزگارمیں گیا۔۔۔ایسا ہر جگہ ہو رہا ہے۔ محکمہ روزگار! اس پر مزدوروں کا حق ہے! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ریاست کو حقیقی صورتحال کا ادراک نہ ہو۔ انہوں نے سب کو نکال دیا ہے! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ریاست کو پتہ نہ ہو؟! (ایک عورت کچھ کہتی ہے) وہ ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ بات نہ کرو! ہم کیوں نہ بولیں؟! گھر میں اس کی بیوی حاملہ ہے۔ وہ کیسے سارے معاملات چلائے گا؟ آپ مجھے یہ بتا رہے ہو کہ انہیں نہیں پتہ کہ فیکٹریاں اجرتیں نہیں دے رہیں؟ انہیں نہیں پتہ؟ اور پھر وہ ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ بولو نہیں؟ ہم کیوں نہ بولیں؟‘‘۔

زنجان، تویسرکان، اراک، ساوہ، آمل، ساری اور قزوین میں بھی احتجاج ہوئے ہیں۔ یہ تمام ’’مضافاتی‘‘ علاقے ہیں جن میں بے روزگاری کی شرح ہوشربا ہے اور عام نوجوان زیادہ تر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں اس تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔

15-29 سال کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 24 فیصد ہے اور یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ یہ شہری نوجوانوں اور خواتین میں اس سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے اکثر کو روحانی حکومت سے امیدیں تھیں۔ لیکن پچھلے سال معیشت میں 4.2 فیصد کی شرح نمو کے باوجود۔۔۔کئی سالوں میں حقیقی بڑھوتری کا پہلا سال۔۔۔ بیروزگاری اور روزمرہ زندگی کے اخراجات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

ٹوئٹر پر ایک اور ویڈیو چل رہی ہے جس میں ایک غریب ایرانی عورت اور عراق جنگ کے ایک شہد کی بہن دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ لوگ پہلے ریاست کے حامی ستون تھے۔ اب حکومت الزام لگا رہی ہے کہ انہیں بیرونی قوتیں احتجاج کرنے کے لئے پیسے دے رہی ہیں۔

’’مجھے بہت برا محسوس ہوتا ہے۔ دو مرتبہ میں نے تہران جا کر اپنے مسائل بتائے۔ انہوں نے مجھ پر تھوکا تک نہیں۔ میرا بھائی گیا اور شہید ہو گیا۔۔۔(کس لئے؟)تاکہ یہ لوگ حکومت کر سکیں اور اس کی بہن جسم فروشی کر سکے؟ ایک شہید کی بہن کے پاس کیا ہے اگر اس کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں؟ بھاڑ میں جائے ایران کی عزت!، اس نے میرے لئے اور میرے جیسوں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔ ہم امریکی نہیں ہیں! میں اپنی مادری زبان بولتی ہوں! قائد! (خامنہ ای کی طرف اشارہ)ان ہاتھوں کو دیکھو! کیا میرے ہاتھ محنت کرتے ہیں یا تمہارے؟ بچے بھوکے سو رہے ہیں! (باقی ویڈیو میں نقص ہے)‘‘۔

یہ وہ حقیقی حالات ہیں جن کا لاکھوں خواتین کو روزانہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لاکھوں ایرانی خواتین جسم فروشی پر مجبور ہیں اور ملا اشرافیہ خود ’’متاع‘‘ کے نام پر اس کاروبار کی ناصرف حمایت کرتی ہے بلکہ اس کو چلاتی بھی ہے۔ چار دہائیوں سے محنت کش اپنے سر جھکائے حالات کو قسمت کا لکھا ہوا سمجھ کر برداشت کر تے آئے ہیں جبکہ ملاؤں کے پاس سوائے حیلے بہانوں کے اور کچھ نہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب ریاست کی کسی اعلیٰ شخصیت کا کوئی بڑا کرپشن اسکینڈل سامنے نہ آئے۔ ملاؤں نے اربوں ڈالروں کی کاروباری سلطنتیں بنا رکھی ہیں اور مکروہ کن عیاشی میں زندگی گزار رہے ہیں جبکہ عوام پر انہوں نے جبری کٹوتیاں مسلط کی ہوئی ہیں۔ اس سال حکومت غریبوں کے مالی وظائف میں بھی کٹوتیاں کر نے جبکہ تیل کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافہ بھی کر نے جارہی ہے۔ 

کل ٹی وی پر روحانی کے ’’پرامن‘‘ اور ’’مصالحتی‘‘ الفاظ کے بعد کریک ڈاؤن اور بھی شدید تر ہو گیا اور اب تک 400 افراد گرفتار ہو چکے ہیں جبکہ حکومت کے مطابق 20 لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اسی دوران پاسداران نے اعلان کیا ہے کہ وہ پولیس کی جگہ تہران کی سیکورٹی سنبھال رہے ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف صدر روحانی کے دو دن پہلے کے اس اعلان کے خلاف جاتے ہیں کہ لوگوں کو احتجاج کرنے کا حق ہے بلکہ پانچ سال پہلے کے انتخابی وعدے کے بھی خلاف جاتے ہیں کہ تہران کی سڑکوں سے پیرا ملٹری فورس ہٹا لی جائے گی۔ یہ نام نہاد لبرل ’’جمہوری‘‘ دوست بالکل وہی اقدامات کر رہے ہیں جن کے مخالف ہونے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔ 

بدقسمتی سے، ’’بائیں‘‘ بازو کے کچھ دانشور طوطے کی طرح وہی سبق دہرا رہے ہیں جو لبرل کہہ رہے ہیں: ایک واضح پروگرام اور فعال تنظیم کی عدم موجودگی میں یہ تحریک اندرونی رجعتی قوتوں یا بیرونی سامراجی قوتوں کے زیر اثر آ سکتی ہے یا پھر ان عوامل کے بغیر بھی ناکام ہو سکتی ہے۔ یعنی ان کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس تحریک کی حمایت یا مکمل حمایت نہیں کرنی چاہیے۔

بنیادی طور پر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں پریشان اور بھوکے ایرانیوں کو یہ کہنا چاہیے کہ وہ واپس گھر چلے جائیں اور پہلے جیسے حالات میں زندگی گزاریں اور اسی وقت واپس باہر آئیں جب ایک ایسی تنظیم موجود ہو جو ہمارے ’’بائیں‘‘ بازو کے دانشوروں کے لئے قابل قبول ہو!۔ ہم ایک ماں سے کہیں کہ وہ جسم فروشی کرتی رہے اور اپنے بچوں کو بھوکا سلاتی رہے، اس وقت تک جب تک ایک عوامی پارٹی کے بارے میں فصیح وبلیغ دانشورانہ مضامین لکھ نہیں لئے جاتے جو کہ پاک صاف اور فرشتہ صفت ہو، یہاں تک کہ وہ عدم سے وجود میں نہ آ جائے۔ صرف اسی وقت لوگوں کو واپس سڑکوں پر آنا چاہیے۔ عوام اور ان ’’دوستوں‘‘ کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہے۔

لیکن ایران جیسی جابر ملا آمریت کے زیر سایہ ایک مکمل طور پر جمہوری عوامی تنظیم کی تعمیر کیسے ممکن ہے؟ اگر یہ ناممکن نہیں تب بھی اس کے امکانات خاصے کم ہیں۔ یہ وہی خواتین و حضرات ہیں جو کہ تنظیم سازی کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ انقلاب کے ظہور پذیر ہونے پر یقین نہیں رکھتے اور جب انقلاب رونما ہو جاتا ہے تو پھر اسے اس لئے رد کر دیتے ہیں کیونکہ کوئی تنظیم موجود نہیں۔ بہرحال وہ انقلابی عوام کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ ان پر اعتماد نہیں کرتے۔۔اور اس تمام تر بحث کا یہی حاصل ہے۔

خوش قسمتی سے، ایرانی عوام کو ان لوگوں سے کوئی سروکار نہیں۔ پچھلے 30 سالوں میں جب بھی عوام سڑکوں پر آئی ہے تو یہ لبرل ’’جمہوریت پسند‘‘ اور ان کے سماجی دم چھلے ’’اصلاحات‘‘ اور ’’معتدل مزاجی‘‘ کا پرچار کرتے نظر آئیں ہیں۔ اور اس کا حاصل کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ سخت گیر اور لبرل حکومتوں کے درمیان پچھلے 30 سالوں میں باری باری حکومت کے کھیل سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ لوگوں پر آج بھی جبر ہے اور وہ شدید استحصال، بیروزگاری اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ لیکن ایران کے غریب اور ان پڑھ تین دنوں میں وہ اسباق حاصل کر چکے ہیں جو ان خواتین و حضرات نے تین دہائیوں میں حاصل نہیں کئے: کہ صرف ایک غیر متزلزل اور دلیر انقلابی پوزیشن سے ہی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ریاست ان احتجاجوں کے عوامی موڈ سے شدید خوفزدہ ہے، اتنا شاید وہ 2009ء کی سبز تحریک سے خوفزدہ نہیں تھی۔

یہ حقیقت ہے کہ تحریک کو فتح کے لئے ایک تنظیم اور واضح انقلابی پروگرام کی ضرورت ہے۔ تحریک کی نوخیزی اور انقلابی قیادت کی عدم موجودگی کا مطلب ہے کہ تحریک کو بہت ساری رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن کی وجہ سے وہ اپنے ہدف سے بھٹک بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک خطرہ موجود ہے، خاص طور پر جب تک محنت کش طبقہ پوری قوت کے ساتھ تحریک میں شامل نہیں ہو جاتا۔ کیا یہ لائحہ عمل زیادہ منطقی نہیں کہ کہ اس تحریک کی اور بھی زیادہ پر جوش اور ٹھوس حمایت کی جائے اور اس کی ہر طرح سے معاونت کی جائے تاکہ تحریک کے ضائع ہونے سے پہلے ایک ایسی تنظیم اور پروگرام کو تعمیر کیا جائے؟

اس وقت انقلابی عمل اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ عوام کی کچھ پرتیں اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لے رہی ہیں۔ اس عمل کے ذریعے وہ آنے والے وقت کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ انہیں ابھی یہ ادراک نہیں کہ انہیں کیا چاہیے، لیکن انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ انہیں کیا نہیں چاہیے، یعنی ملا ریاست سمیت جو کچھ بھی اس ریاست سے منسوب ہے۔ یہ تحریک اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ایرانی سرمایہ داری عوام کی بنیادی ضروریات تک پوری نہیں کر سکتی۔۔۔یہاں تک کہ اپنی روایتی بنیادوں کو بھی مطمئن نہیں کر سکتی۔

جدوجہد کے عمل میں یہ حقیقت اور طبقاتی تفاوت اور زیادہ واضح ہو گا۔ انقلابیوں کا کام کھڑے رہ کرتماشہ دیکھنا اور ’’اگر ہمیں شکست ہوئی تو یہ نقصان یا وہ نقصان ہو جائے گا‘‘ بیان کرنا نہیں ہے بلکہ اس جدوجہد کو کامیاب بنانا ہی ہمارا اصل کام ہے! ہمیں ہر صورت اس تحریک میں مداخلت کرنی ہے اور صبر کے ساتھ وضاحت کرنی ہے کہ صرف طاقت اپنے ہاتھوں میں لے کر اور اقتدار پر قبضہ کر کے ہی عوام اپنے اہداف اور خواہشات کو پورا کر سکتی ہے۔

Tags: ×

Comments are closed.