فرسٹ ایئر کے گندے رزلٹ میں پرائیویٹ کالجوں اور سرمایہ داروں کا کردار

تحریر: |صبغت وائیں|
دس اکتوبر کو فرسٹ ایئر کا رزلٹ آیا۔ رزلٹ میں ایک عجیب بات دیکھی گئی کہ سرکاری کالجوں کے نتائج انتہائی برے آئے۔ حیران کْن حد تک گندے نتیجے۔ میں نے اپنی بیٹی کے نمبر کم دیکھ کر یہی سمجھا کہ کچھ گڑبڑ ہو گئی ہو گی۔ لیکن بعد میں اس کے سارے کالج کے نتیجے دیکھے تو حیران رہ گیا۔ لیکن میری بیٹی نے مجھے ایک بات ایسی بتائی کہ میں حیران رہ گیا اور مجھے بہت سی پرانی چیزیں یاد آنے لگیں۔وہ بات یہ ہے کہ اس کی کئی دوستوں نے کالج چھوڑ کر پرائیویٹ کالج میں دوبارہ سے فرسٹ ایئر میں داخلہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کیا ہے ستر اسی ہزار فیس کے خرچنے پڑ جائیں گے نا؟ پڑھائی تو ٹھیک ہو جائے گی۔لیکن ایسا ہے نہیں۔ غور کریں سرکاری کالجوں کے سائنس ٹیچرز میں سے اکثر کی اپنی اکیڈمیاں ہیں اور وہ پرچے چیک نہیں کرتے۔
دوسری طرف پرائیویٹ کالجوں کے ٹیچر پیسے بنانے کے لئے دبا دب پرچے چیک کرتے ہیں۔ فی پرچہ بیس پچیس روپے ملتے ہیں جتنے چیک کر لیں اتنے روپے بنا لیں۔ یاد رہے کہ یہ لوگ پرچوں کی چیکنگ نہیں کرتے بلکہ اسیسمنٹ کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ گپیں ہانکی جا رہی ہیں، چہلیں کی جا رہی ہیں، گندے لطیفے سنائے جا رہے ہیں، ٹھٹھا مخول ہو رہا ہے اور پرچوں پر کاٹے لگائے جا رہے ہیں۔ جب ری چیکنگ کروائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے صرف ٹوٹل دیکھنا ہے آپ کے سوال درست ہیں اور نمبر نہیں ملے تو کورٹ میں کیس کریں۔ بندہ وکیل ڈھونڈے اور کیس کرے اس سے بہتر ہے کہ پھر سے پیپر دے دے اور بورڈ کو مزید پیسا کمانے کا موقع مل جائے جو بورڈ کے تو کسی کام نہیں آتا خادم اعلیٰ اور ان کے حواری کسی اور مد میں لے اڑتے ہیں۔
اس بار یقیناًکوئی نا کوئی سازش ضرور ہوئی ہے جو تمام بورڈز میں سرکاری کالجوں کے نمبروں پر ہاتھ صاف کیا گیا ہے۔ اور اس کے پیچھے وہی کالج مافیا ہے جو ہر مقابلے میں بے ایمانی اور نوسربازی سے کام لینے کا عادی ہے۔ اور جو ہر بندے کی قیمت لگا کر تمام پوزیشنیں لے جاتا ہے۔ ایک تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ سرکاری کالجوں سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد مایوس ہو کر نجی کالجوں کا رْخ کرے گی اور ان ٹھگوں سے لٹے گی جو تعلیم کے نام پر چھریاں تیز کئے اور برچھے کلہاڑے لے کر غریب لوگوں سے ان کی آمدنی ہتھیانے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔
دوسرے اس میں ایک اور رولا نظر آ رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے عوام کی ہر ملکیت کی سپاری لے رکھی ہے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے آس پاس کھڑے میاں منشا اینڈ کمپنی اور اسی قسم کے لوگوں کی سرکاری سکولوں اور سرکاری کالجوں کی کھربوں روپے کی اراضی پر نظریں ہیں۔ ہماری حکومت یہ سب کچھ ان سرمایہ داروں کو بیچ دینا چاہتی ہے جو غریب عوام کے مامے بن کر سامنے آ رہے ہیں۔
لیکن بیچے گی کیسے؟ یہ سب سے پہلے ان کالجوں کے معیار کو اسی طرح سے گرا ہوا اور گھٹیا دکھائے گی جیسے کہ انہوں نے پی آئی اے کے سلسلے میں کیا ہے۔ ایسا بندہ پٹرولیم کا وزیر ہے جس کی اپنی ایئر لائن (ایئر بلیو) چل رہی ہے۔ وہ پی آئی اے کے سارے طیارے کنڈم کر کے خریدنے کا خواہاں ہے۔ شاہد خاقان عباسی اس وزیر کا نام ہے۔ یہ ہر ممکن کوشش کر کے پی آئی اے میں خرابیاں کر رہے ہیں۔ بجلی کے سلسلے میں بھی انہوں نے یوں ہی کیا ہے۔ پچھلے دنوں ایک خبر کچھ دیر کے لئے آئی جو کہ بعد میں دبا دی گئی۔ سرکاری بجلی گھروں میں صلاحیت ہونے کے باوجود بجلی پیدا نہیں کی گئی اور پچھلے ماہ چوہتر ارب روپے کا پاکستان کو نقصان پہنچا دیا گیا۔ بجلی کرائے کے پاور سٹیشنوں میں پیدا کی گئی جو کہ پاکستان کے عوام کے ٹیکسوں سے بہت مہنگی خریدی گئی۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان پاور سٹیشنوں کے مالکان میں خواجہ آصف اور دیگر چند وزرا بھی شامل ہیں۔ یعنی یہ عوام کا پیسہ اپنی وزیر والی جیب سے نکال کر ذاتی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ اب یہی کام یہ ان کالجوں کے ساتھ کریں گے کہ یہ کالج بہت ہی گندے رزلٹ دیتے ہیں چلو انہیں پیف کو یا کسی اور کو بیچ دیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے جب پنجاب کالج نیا نیا ہمارے شہر میں آیا تھا تو اس نے ایسے ہی اوچھے ہتھکنڈے برتے تھے۔ فروری مارچ میں جب بچوں کو سرکاری کالجوں سے فری کر دیا گیا ہوتا تھا یہ اخباروں کی ٹیمیں لے کر پہنچ گئے اور اس ’’سکینڈل‘‘ کو خوب اچھالا کہ کالجوں میں سٹوڈنٹ کوئی نہیں ہیں اور پڑھائی نہیں ہو رہی۔
طلبہ کا اپنے حق میں کرنے والے احتجاج سے دل کو خوشی ہوئی ہے۔ اسی لئے سوچا کہ کچھ لکھ کر انہیں آگاہ بھی کیا جائے کہ ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔ صرف ایک بات پر تمام کالجوں اور سکولوں کے طلبا اور ٹیچر اکٹھے ہو جائیں کہ اپنے سکولوں اور کالجوں کو بکنے نہیں دینا۔ مرے کالج سیالکوٹ یہ بیچنے لگے تھے۔ ہزاروں طلبا نے احتجاج کیا تو حکومتی لٹیرے ڈر گئے۔ اب بھی جم کر احتجاج کریں۔ یہ مٹھی بھر سرمایہ دار آپ عوام کی طاقت سے زیادہ طاقتور نہیں ہیں۔

Comments are closed.