کراچی: ’’1917ء کاروس اور2017ء کا پاکستان‘‘ بالشویک انقلاب کی 100ویں سالگرہ پر سیمینار کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، کراچی|

ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کراچی کے زیراہتمام بالشویک انقلاب کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر ایک سیمیناربعنوان’’1917ء کاروس اور2017ء کا پاکستان‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار مورخہ 5 نومبر 2017بروز اتوار سہہ پہر ساڑھے تین بجے ’ارتقاء آفس‘ واقع گلشن اقبال میں منعقد ہواجس میں طالب علموں، مزدوروں اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ لیاقت کلمتی نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔

سب سے پہلے فارس نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عظیم روسی انقلاب کی 100ویں سالگرہ ایک ایسے موقع پر منائی جا رہی ہے جب دنیا 1917ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ معاشی، سیاسی، ثقافتی بحرانوں، انتشار اور عدم استحکام سے دوچار ہے۔ ان کا کہناتھا کہ بالشویک انقلاب کی سالگرہ کو منانے کا مقصد بے داغ مارکسی نظریے اور بالشویزم کی عظیم روایات کو آج کے انقلابیوں اور طالب علموں کے سامنے پیش کرنا ہے تاکہ موجودہ صورت حال میں انقلابی جدوجہد کو آگے بڑھایا جاسکے۔ انہوں نے اعداد و شمار کی مدد سے منصوبہ معیشت کی منڈی کی معیشت پر برتری کو واضح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 1917ء کے روس کے حالات اور آج کے پاکستان کے حالات میں بہت سی مماثلتیں موجود ہیں۔ پاکستان کی معیشت پر مختلف سامراجی قوتوں کے جابرانہ قبضے سے نجات ایک سوشلسٹ انقلاب سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے، اسی طرح پاکستان میں ہر روز پیچیدہ ہوتے ہوئے قومی سوال کا حل بھی سوشلزم کے تحت ہی ممکن ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم قومی حق خوداردیت کے حق کی مکمل حمایت کرتے ہیں، مگر قومی سوال محنت کش طبقے کے مفاد کے تابع ہوتا ہے۔ اگر کہیں پر کسی مظلوم قوم کے حق خودارادیت کو سامراجی قوتیں عالمی محنت کش طبقے اور اس خطے میں موجود محنت کشوں کے مفادات کے برخلاف استعمال کرتی ہیں تو ایسی صورت میں ہم پر لازم نہیں ہے کہ ہم حق خودارادیت کا راگ الاپتے پھریں۔ بلکہ ایسی صورت حال میں ہماری ذمے داری یہ ہوگی کہ سامراجی قوتوں اور اُس مظلوم قوم کے حکمران طبقے کی مکاری اور منافقانہ کردار کو اُس قوم کے محنت کشوں اور عالمی محنت کش طبقے کے سامنے بے نقاب کریں۔ اُن کا کہناتھا کہ بلوچستان، کشمیر اور دیگر مظلوم قومیتوں کی حقیقی آزادی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے، ایک سوشلسٹ فیڈریشن ہی میں تمام قومیتوں کو برابری اور رضاکارانہ بنیادوں پر شریک کیا جا سکتا ہے جس طرح عظیم سوویت یونین میں کیا گیا تھا۔ 

اس کے بعد ثناء زہری، انعم خان اور جلال جان نے بھی خطاب کیا۔ اس کے بعد کامریڈ جینی نے انقلابی ترانہ ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ پیش کیا۔ جس سے تمام شرکاء میں انقلابی سرشاری طاری ہوگئی ۔انعم خان نے روسی انقلاب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس انقلاب کا آغاز خواتین نے کیا تھا جب وہ اپنے حقوق کے لیے 8مارچ کے دن احتجاج کر رہی تھیں۔ انعم کا کہنا تھا کہ بالشویکوں نے ان تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کیا جو عورت کو مرد سے کمتر حیثیت دیتے تھے۔ انہوں تفصیل کے ساتھ سوویت سماج کی تعمیر میں خواتین کی ہر شعبے میں شرکت پر بات رکھی جس سے شرکاء نے بہت دلچسپی کے ساتھ سنا۔ 

پارس جان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ آج کے پاکستان کے حالات اور 1917ء کے روس کے حالات میں بہت سی مماثلتیں موجود ہیں اور ان کا حل بھی روسی انقلاب کے تجربے سے مل سکتا ہے مگر اس پورے عرصے میں ایک صدی کا فاصلہ طے ہو چکا ہے۔ اس لیے آج کے پاکستان کی پسماندگی بین الاقوامیت کے ساتھ حاملہ ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے پاکستان میں ہونے والے واقعات اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور پاکستان میں ہونے والا انقلاب صرف پاکستان تک محدود نہیں ہو گا بلکہ وہ پورے خطے کے محنت کشوں اور عالمی محنت کشوں کی آزادی اور نجات کاضامن ثابت ہو گا۔ آخر میں انٹرنیشنل گا کر سیمینار کا اختتام کیا گیا۔

Comments are closed.