بونیر: انقلابِ روس کی صد سالہ تقریب کا انعقاد

|رپورٹ: وقار عالم|

انقلابِ روس کے سو سال مکمل ہونے پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیر اہتمام پیر بابا بونیر میں اتوار کے روز ’انقلابِ روس کے سو سال اور عہدِ حاضر کی مزدور تحریکیں‘ کے موضوع ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں ملحقہ علاقوں سے بڑی تعداد میں مزدورں، محنت کشوں، طلبہ اور ترقی پسند لوگوں نے شرکت کی۔ تقریب کا آغاز صبح 11 بجے ہوا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ صدیق نے سرانجام دئے۔

تقریب سے اعجاز، وقار عالم، صدیق اللہ، باچاجی، آدم پال و دیگر نے خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ آج سے سو سال پہلے مزدوروں نے پہلی بار لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں روس میں ایک کامیاب مزدور انقلاب کیا۔ مزدورں نے ریاست پر قبضہ کر کے ایک مزدور جمہوریت قائم کی جس کے تحت تمام لوگوں کو مفت تعلیم، علاج، روزگار اور دوسرے بنیادی ضرورتیں بلا تفریق مزدور ریاست کی جانب سے مفت فراہم کی گئیں۔ نجی ملکیت کا خاتمہ کیا گیا اور ایک منصوبہ بند معیشت تشکیل دی گئی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی ہوئی اور چند دہائیوں میں سوویت یونین ایک بڑی عالمی طاقت بن کر ابھرا۔ پوری تاریخ میں اس تیز ترین ترقی کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن انقلاب کے روس کی سرحدوں تک محدود رہ جانے اور سخت پسماندگی کی کیفیت میں بیوروکریسی کا ابھار ہوا۔ سٹالنسٹ بیوروکریسی کے مارکسزم کے نظریات سے انحراف اور اپنی مراعات کے تحفظ میں سوویت یونین ایک مسخ شدہ مزدور ریاست بن گیا اور منصوبہ بندمعیشت کا یہ پہلا تجربہ 1991ء میں اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے اختتام کو پہنچا۔ پوری دنیا میں سوشلزم اور کمیونزم کی ناکامی ڈھنڈورا پیٹا گیا اور سرما یہ داری کو انسانیت کا حتمی مستقبل قرار دیاگیا۔ لیکن روس میں جو ناکام ہوا وہ سوشلزم نہیں بلکہ سٹالنزم تھا اور ٹراٹسکی نے سٹالنزم کا مارکسی تجزیہ کرتے ہوئے کئی سال قبل اس کے انہدام کی پیشگوئی کی تھی۔

آدم پال نے کہا کہ سوشلزم کے نظریات آج پہلے سے کئی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور صرف مارکسزم کی بنیاد پر ہی سرمایہ دارانہ نظام، اس کی سیاست، ریاست اور بحرانات کا درست تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ آج سرمایہ داری نے ساری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ سرمایہ داری اپنی تاریخ کے سب سے گہرے بحران میں ہے اور یہ بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں اور نوجوانوں پر ڈالا گیا ہے جس کے خلاف مسلسل پوری دنیا میں تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والا سٹیٹس کو ٹوٹ کر بکھر چکا ہے۔ امریکی سامراج اپنی تاریخ کی کمزور ترین سطح پر ہے۔ غربت، بے روزگاری اور جنگیں آج پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ لیکن اسی صورتحال میں ایک بار پھر سوشلزم کے نظریات لوگوں میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ آج کے عہد کا سب سے بڑا تقاضا بالشویک طرز کی ایک عالمی مارکسی پارٹی کی تعمیر ہے جو کی کسی بھی خطے میں ہونے والے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہوئے عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جانب بڑھے۔

Comments are closed.