امریکہ: دھاندلی زدہ نظام ، ایک متبادل سوشلسٹ پارٹی کی ضرورت

تحریر: جان پیٹرسن ( سوشلسٹ اپیل، شمارہ نمبر 94 کا اداریہ)

ترجمہ: اسد پتافی

انگریزی میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

Bernie Sandersصدارتی امیدوار کے حتمی چناؤ کے عمل میں آگے بڑھتے ہوئے اس وقت کروڑوں امریکی باشندوں کے یہی جذبات ہیں کہ ’’سارا نظام ہی دھاندلی شدہ ہے‘‘۔ برنی سینڈرز اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی اس وقت لوگوں میں موجود گہرے عدم اطمینان پر دستک دے رہے ہیں، جنہیں سیاست مخالف اسٹیبلشمنٹ سے باہرکے لوگ تصور کیا جارہا ہے۔
شہرت کی وسعتوں کے اختتام پر، دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں محنت کش طبقے کے لاکھوں نئے پُرجوش ووٹرزمیں ایک ہی بنیادی پیغام گونج رہا ہے کہ ’’بینکاری، مالیاتی اور قانونی اداروں سے لے کر سیاسی جماعتوں، الیکشن کا عمل، سارا نظام ٹیٹرھا ہے اور امیروں کے حق میں دھاندلی شدہ ہے‘‘۔
دہائیوں سے جمود کا شکار تنخواہیں، قبل از بحران کی بہ نسبت آبادی کے تناسب میں کم شرح روزگار، غیر مالیاتی قرضہ جو کہ جی ڈی پی کی نسبت 3.5 فیصد کی رفتار سے بڑھ رہا ہے، تو اس صورتحال میں یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ اگر59 فیصد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ’’ معیشت بدترین ‘‘ ہوتی جا رہی ہے اور وہ بنیادی تبدیلی کے شدید خواہاں ہیں۔ گزشتہ کچھ ا نتخابات میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن کمزوریوں کے’’ درمیانی رستے ‘‘ کا امتحان لینے کے بعد اب وہ معاملات کو جھنجھوڑنے کے موڈ میں ہیں۔
bourgeois democracy cartoonسرمایہ داری نظام میں ممکنہ معاشی اور سیاسی ’’ درستگی ‘‘ پر مشتمل دوسری عالمی جنگ کے بعد کا عہد اب ٹوٹ رہا ہے۔ لیکن اس کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہ کی جائے۔ نظام صرف اب نہیں ’’ ٹوٹ ‘‘ رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام بالکل اسی طرح ہی کام کرتا ہے، لٹیرے اور لٹنے والے، ظالم اور مظلوم، امیر اورغریب، سب کچھ رکھنے والے اور کچھ نہ رکھنے والوں پر محیط ہے۔ سرمایہ داری نظام بالکل ٹھیک کام کر رہا ہے ان کے لیے جو معاشی اور سیاسی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ امیروں کے ہی نمائندے ہیں جو قوانین بناتے ہیں اور انہی کی ریاست ہے جو ان پر عمل در آمد کرواتی ہے۔ یہی اس بات کا مآخذ ہے جسے مارکسسٹ ’’ بورژوا جمہوریت ‘‘ کہتے ہیں، یعنی امیر ترین لوگوں کی جمہوریت اور باقی ہم سب کے لیے دکھاوا اور فریب ہے۔ جب تک کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھاتے رہے، تب تک، باقی لوگوں سمیت جھوٹ، کرپشن اور منافقت کو دیکھنے کے لیے ان کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ جب ہر انسان کہتا ہے ’’ اب بہت ہوگیا ‘‘۔ امریکیوں کی اکثریت نے اب معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینے کا آغاز کردیا ہے۔ یہ آنے والے انقلابی واقعات کا پیش خیمہ ہے۔
امریکی آبادی کے ہر حصے نے سرمایہ دارانہ نظام کا خمیازہ بھگتا ہے، سوائے ان 1 فیصد کے جو پہلے سے زیادہ امیر تر ہوگئے ہیں۔ نوجوانوں کے لیے مواقعوں کی کمی کا مطلب بہت خوفناک ہے، یعنی 50 فیصد مرد اور 45 فیصد خواتین پر مشتمل اپنے والدین کے ساتھ رہنے والے 19سے 24سال کی عمروں کے لوگ۔ ’’سنہرے سال‘‘ اب کوئی خوش آئند چیز نہیں رہے، کیونکہ چونسٹھ سال سے اوپر کے لوگوں کے لیے نا برابری تیزی سے پھیل رہی ہے اور چوہتر سال تک پہنچنے والوں کے لیے تو تباہ کن تناسب ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے ایک حالیہ آرٹیکل نے اپنے اعداد و شمار سے منشیات خاص کر ہیروئن کے پھیلاؤ پر روشنی ڈالی ہے کہ ہر دن 125 سے زائد لوگ صرف ہیروئن کو ضرورت سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں، یہ گہرائی میں پنپتے عدم تحفظ کا واضح اظہار ہے، جو معاشرے کی تمام پرتوں میں سرائیت کر چکا ہے۔ نابرابری اب واقعتا زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے یعنی امیراب 15 سال مرد اور 10سال خواتین سے زیادہ لمبی زندگی جی رہا ہے۔
New Yorkers Feel The Bern During March Through Lower Manhattanنیویارک کے ابتدائی الیکشن میں آگے بڑھتے ہوئے برنی سینڈرزنے گزشتہ 9 میں سے 8 جیت لیے ہیں جو اسے شکتی دے رہا ہے۔ نوجوان بھی سیاسی طور پر مصروفِ عمل ہیں جو کہ گزشتہ لمبے عرصے میں کبھی بھی نہیں رہے۔ لاکھوں لوگ (غیر) ڈیموکریٹک پارٹی کے حوالے سے خام خیالی کا شکار ہیں۔ وہ صرف اور صرف برنی سینڈرز کو دیکھ رہے ہیں، اس پارٹی کو نہیں جس کے بیلٹ لائن کا انتخاب اس نے چلنے کے لیے کیا ہے۔ ہیلری کلنٹن کے حق میں 2001 ء کے بعد سے، اس سوال پر ہونے والے سب سے کم اعشاریے سامنے آ رہے ہیں۔ نیویارک کے علاقے مین ہٹن میں 27000لوگ برنی سینڈرز کو وال سٹریٹ اور کلنٹن کے بڑے کاروباریوں سے تعلقات کے متعلق سننے امڈ آئے۔ حالیہ یاداشت میں نیویارک کے بروکلن میں ڈیموکریٹک پارٹی کا ہونے والا مذاکرہ بہت ہی بے ڈھنگ ساتھا کہ جس میں عوام نے جس انداز سے خوشی اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے نیویارک شہر کی خاص طاقت کو واضح کیا۔ آخر کار یہ ہیلری کلنٹن کا علاقہ تھا۔ جو دو مرتبہ نیویارک شہر کی سینیٹر منتخب ہوئی ہے جس نے 2008ء کے ابتدائی الیکشن میں بارک اوباما کو آسانی سے شکست دی تھی اور یہی شکست اسی سال برنی سینڈرز کو بھی دی۔سینڈرز کے گرد موجود اتنی گرم جوشی کے باوجود بھی وہ اسے 16 پوائنٹس سے کیسے شکست دے پائی؟
سب سے پہلے تو نیو یارک شہر میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ابتدائی الیکشن بند تھے، یعنی صرف وہی لوگ ووٹ کر سکتے تھے جو ڈیموکریٹک پارٹی کے رجسٹرڈ ممبر تھے۔ سینڈرز کو کمزورترین کامیابیاں ان مغرب میں واقع ریاستوں میں ملی ہیں جہاں ریپبلکن اور آزاد ووٹرز سمیت ہر کوئی ووٹ کر سکتا تھا اور اس نے ابتدائی الیکشن کی با نسبت امید وار سے براہ راست ملاقاتوں پر مشتمل میٹنگز میں زیادہ بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ اور سب سے اہم کہ اس نے آزاد ووٹرز میں سب سے بہترین کارکردگی دکھائی ہے۔ نیو یارک کے تیس لاکھ رجسٹرڈ آزاد ووٹرز، ابتدائی الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے سکے کیونکہ وہ کسی بھی بڑی پارٹی سے اپنی شناخت منسلک نہیں کروانا چاہتے تھے۔ اگر وہ شرکت کر پاتے تو سینڈرز جیت سکتا تھا اور خاص کر اگر ہم یہ ذہن میں رکھیں کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک لاکھ اسی ہزار ووٹرز نے ابتدائی الیکشنمیں ووٹ ڈالا ہے۔ نیو یارک ریاست اور شہر سب سے بھاری تعداد میں یونینز میں منظم ہے اور ساری بڑی یونینز ہر طرح سے کلنٹن کے ساتھ کھڑی ہیں،جنہوں نے ہر طرح سے زور لگا کر اپنے ممبرز کو اسے ووٹ دینے پر آمادہ کیا ہے۔
لیکن دھاندلی اور گھٹیا ہتھکنڈوں کے استعمال کے سوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نیو یارک شہر میں الیکشن کے دن ’’بے ترتیبیوں‘‘ کی رپورٹیں بھی نکل کر آ رہی تھیں۔ ایسی بے تحاشا رپورٹیں آرہی تھیں کہ لوگوں کو اپنی وابستگی ’’آزاد ووٹر‘‘ سے ’’ ڈیموکریٹک ووٹر‘‘ میں منتقل کرنے سے روک دیا گیا۔ صرف بروکلن میں، نومبر سے الیکشن کے دن تک، ایک لاکھ پچیس ہزار رجسٹرڈ ڈیموکریٹک پارٹی ووٹرز کو ’’مشکوک‘‘ انداز میں پارٹی لسٹ سے ہٹا دیا گیا، جبکہ صرف تریسٹھ ہزار نئے ووٹرز کا اندراج کیا گیا۔ یہاں تک کہ کلنٹن کے حامی میئر، بِل ڈے بلاسیو کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ ’’ووٹرز پر مشتمل تمام ڈھانچوں اور جتھوں‘‘ کا صفایا کر دیا گیا ہے اور شہر کے جانچ پڑتال کرنے والے دفتر نے بھی کہا کہ وہ بورڈ آف الیکشن کی چھان بین کرے گا۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آگے کیا ہوگا، اس الیکشن والے سال کی حقیقی حیران کن بات یہ نہیں ہو گی کہ سینڈرز شاید صدارتی نامزدگی نہ جیت پائے۔ لیکن اس نے آغاز سے ہی اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ لیکن اگر وہ ہار بھی جاتا ہے تو تب بھی، جس کا تعین بڑی حد تک اگلے منگل کو پنیسیلوانیا، رھوڈ جزیرے، دلاورے اور میریلینڈ میں ہو جائے گا، سینڈرز کی مہم نے عوام میں سوشلسٹ نظریات کی پذیرائی کی صلاحیت کو واضح کر دیا۔ یہ زیادہ تر لوگوں کو کچھ ماہ پہلے تک نا ممکن لگتا ہوگا۔ جولائی میں ہونے والے ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں ہارنے کے بڑھتے ہوئے امکان سے ہونے والی ممکنہ مایوسی کو پنپنے سے روکنے کی خاطر، (غیر) ڈیموکریٹک پارٹی کو ترک کرنے اور اس کی کمپئین کے گرد موجود ولولے کو سمیٹتے ہوئے نومبر میں ایک آزاد امیدوار کے طور پر چلنے کا آغاز کرنے کے لیے یہ انتہائی موزوں وقت ہے۔ نوجوانوں، آزاد ووٹرز میں موجود اس کی وسیع حمایت، کالے امریکیوں، لاطینیوں اور یونین ووٹرز میں اس کی پھیلتی ہو ئی حمایت، اس قسم کی کمپیئن کروڑوں لوگوں کو شکتی دے گی اور اس میں جیتنے کی صلاحیت بھی موجود ہے، خاص کر تین یا پھر چار اطراف کا مقابلہ ہوگا جو کہ ہیلری، ٹرمپ یا دوسرے ریپبلکن امیدوار کے خلاف ہوگا۔
آنے والے ہفتے کافی پُر پیچ اور امکانات سے بھرپور ہوں گے، کیونکہ بالآخر اس سوال کا حتمی جواب مل ہی جائے گا کہ ’’سینڈرز کیا کرے گا؟‘‘ اس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ وہ کیا طے کرتا ہے، ڈیموکریٹک پارٹی کے توازن کا مقدر اس کی موجودہ بُنت کومد نظر رکھتے ہوئے ہوا میں لٹکے گا۔ کیا سینڈرز کسی طرح دباؤ کو ہٹاتے ہوئے نامزدگی جیت پائے گا؟ اگر وہ ہار جاتا ہے تو کیا وہ کلنٹن کی حمایت کرے گا یا ڈیموکریٹس سے توڑتے ہوئے اس سال آزاد امیدوارکی حیثیت سے کمپیئن کرے گا؟ کیا وہ آگے دیکھتے ہوئے 2018ء اور 2020ء کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نئی عوامی پارٹی کی تعمیر کا آغاز کرے گاجو کہ حکومت کی ہر سطح پر الیکشن لڑ سکے؟ کیا وہ مزید بائیں جانب رخ کرے گا یا امریکی سیاست کے ’’سنٹر‘‘ درمیانی راستے کی جانب جائے گا؟ ان سب جتنا ہی اہم سوال کہ منظم مزدورکیا کریں گے؟ اور ریپبلکن کی طرف، کیا ٹرمپ نامزدگی لے پائے گا یا وہ ایک مقابلہ خیز کنونشن کا سامنا کرے گا اور ممکنات میں موجود کہ کیا وہ ایک دائیں بازو کے پاپولسٹ آزاد امیدوارکے طور پر چلے گا؟
دنیا میں بہت سے نادیدہ عوامل ہوتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ سرمایہ داری کے پاس سازشیں کرنے کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ ’’آپ سب لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہیں اور کچھ لوگوں ہر وقت بنا ئے رکھ سکتے ہیں لیکن آپ سب لوگوں کو مسلسل بے وقوف بنا کر نہیں رکھ سکتے‘‘۔ ’’پانامہ پیپرز‘‘ کا اجراء، جس کے متعلق ٹائمز کا کہنا ہے کہ ’’یہ سرمایہ داری کو بڑے بحران کی جانب دھکیل سکتے ہیں‘‘ انہوں نے محض اس احساس میں اضافہ کیا ہے کہ ’’قوانین سے کھیلنا‘‘ ایک ہارنے والا کھیل ہے جب تمام پتے ان مالکان کے پاس ہوں جو آخر میں ہمیشہ ہی جیت جایا کرتے ہیں ۔ مختصراََ، سرمایہ داری کا کوئی ایک یا دوسرا پہلو نہیں جو گل سڑ چکا ہے اور جسے متبادل سے بدلنے کی ضرورت ہے بلکہ پورے نظام کی ہی یہی کیفیت ہے۔ اسی لیے ہمیں ایک نئے نظام کی ضرورت ہے، ایک سوشلسٹ نظام جس میں اکثریت سیاست اور معیشت کو کنٹرول کرے اورجمہوری طورپر وہ طے کرے کہ جس میں اکثریت کی بھلائی ہو۔
بہرحال، مجرد انداز میں سوشلزم کی ’’حمایت ‘‘ کرنا ایک بات ہے اور اس کی تیاری اور لڑائی کے لیے متحرک انداز میں خود کو وقف کرنا یکسر مختلف بات ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ محنت، پڑھائی اور تنظیم کی ضرورت ہو گی۔ محنت کش طبقے کے پاس وسیع طاقت کی صلاحیت ہے لیکن اسے موجودہ قیادت نے پیچھے دھکیلا ہوا ہے کیونکہ وہ سرمایہ داری کی حمایت کرتی ہے۔ ہمارا کام کوئی آسان نہیں لیکن یہ نا گزیر ہے کہ ایک ایسی طاقت کی تعمیر کی جائے جو ایک عوامی انقلابی پارٹی کی تعمیر میں مددگار ثابت ہوجس سے اُس قسم کی قیادت مہیا ہو سکے جو محنت کش طبقے کی ضرورت ہے اورجس کا وہ حق دار ہے۔ پوری دنیا میں ہر طرح کے ماضی کے متحمل اور ہر عمر کے لوگ عالمی مارکسی رحجان میں شامل ہو رہے ہیں اور خاص کر نوجوان۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور اس جدوجہد کا حصہ بنیں جس نے انسانیت کواجتماعی طور پر آزاد کرانا ہے اور سرمایہ داری کی وحشتوں کو ایک ہی بار میں اور مکمل طور پر ختم کر دینا ہے۔

Comments are closed.