دانشوروں کا المیہ یا المیے کے دانشور

تحریر:| پارس جان |
بظاہر پسماندہ اور جاہل سمجھے اور کہلائے جانے کے باوجود ہمارے معاشرے میں ’’دانشور‘‘ کھمبیوں کی طرح جگہ جگہ اُگے ہوئے ہیں۔ نام نہاد آزادی کی ساتویں دہائی بھی اب اپنے اختتامی مراحل کو پہنچ رہی ہے۔ اس پُرپیچ اور دشوار گزار سفر کے بعد اور تو حاصل وصول جو بھی رہا وہ تو خیر مملکتِ خداداد کی عوام نہ صرف بخوبی جانتی ہے بلکہ بُھگت بھی رہی ہے ،ہاں البتہ دانشوروں کے معاملے میں ہم بالآخر خود کفیل ہو ہی گئے ہیں۔میدانی ، ساحلی ، ریگستانی اور پہاڑی ہر قسم کے حدود اربع میں تمام موسموں میں یہ فصل پکتی اور پھل دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ملکی ضروریات کو بآسانی پورا کر لیا جاتا ہے بلکہ اب تو دانش ، فکر اور بصیرت کی اجناس عالمی منڈی میں برآمد بھی ہونے لگی ہیں۔ البتہ اب تو عالمی منڈی میں بھی زائد پیداوار کی علامات واضح طور پر نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ دنیا بھر میں ہر جگہ دیگر اجناس کی طرح دانشوروں کے بھی گودام بھرے پڑے ہیں۔
دانشوروں کی یہ کھیپ یکسانیت کا شکار بالکل نہیں بلکہ بیش بہا ورائٹی سے معمور ہے اور جا بجا متعدد اقسام کے دانشور پائے جاتے ہیں جو اپنے علم و ادب کے جلوے بکھیرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ان میں پیشہ ور نقاد، فلسفی، صحافی، ٹی وی اینکرز، کالم نگار،لبرلز،انقلابی ،ادیب اور فیس بُکی مجاہدین سرِ فہرست ہیں۔ ہوٹلوں ، پارکوں اور قہوہ خانوں میں بلا معاوضہ قابلِ قدرخدمات سرانجام دینے والے شرفا ان کے علاوہ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک دنیا کے کسی بھی موضوع پر اپنی مخصوص اور منفرد رائے رکھتا ہے اوران تمام خواتین و حضرات میں مختلف موضوعات پر آپس میں بے شمار اختلافات پائے جاتے ہیں مگر چند ایک مستثنیات کو نکال کر زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ باقی ماندہ آبادی کی اکثریت بالعموم اور مال برداری کے کام آنے والے محنت کش بالخصوص کم عقلی، بدتمیز ی، بد تہذیبی، بے غیرتی اور دیگر بے شمار نا قابلِ اصلاح اخلاقی اور روحانی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اس لیے ان بیماروں کو کوسنا، پیٹنا اور لعنت ملامت کرنا یہ سب اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تو شعوری طور پر اور کھلم کھلا یہ فرض ادا کرتے ہیں اور باقی لا شعوری طور پر’’حقیقت پسندی‘‘ کی آڑمیں تنگ نظری اور نامرادی کا چورن بیچتے رہتے ہیں۔ لیکن ان اعلیٰ اقدار کے دانشوروں کی فہم و فراست اور اکثریت کی ناسمجھی کے مابین تعلق اور توازن کو تاریخی عمل اور اجتماعی شعور کے طرزِ ارتقا کے ادراک کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
مارکس نے وضاحت کی تھی کہ قبل اس کے کہ انسان کسی بھی تخلیقی سرگرمی میں حصہ لے ضروری ہے کہ اسے اپنی بقا کے لیے بنیادی ضروریات میسر ہوں۔ ایک طبقاتی سماج میں چاہے اسکی شکل کوئی بھی ہو؛ پیداواری قوتوں کے ساتھ ساتھ طاقت، فیصلہ سازی اور انتظامی امور ہمیشہ ایک قلیل تعداد کی دسترس میں ہی رہتے ہیں۔ تاریخ کی مادی تشریح کے مطابق ابتدائی اشتراکی معاشرے کے بعد غلام دارانہ سماج کی تشکیل بھی آگے کی طرف ایک جست کی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ پہلی دفعہ ایک اقلیتی طبقہ بقا کی جدوجہد سے بری الذمہ ہو کر صرف تخلیقی سرگرمی کے لئے فرصت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ بعد ازاں کام کی ذہنی اور جسمانی تقسیم کار کے بل بوتے پر اسی اقلیتی طبقے نے اکثریت کو اپنا مطیع بنا لیا اور پیداواری آلات کی ترقی اور ترویج کے ذریعے طبقاتی سماج کی نئی نئی شکلیں نمودار ہوتی رہیں۔ استحصال جوں جوں شدت اختیار کرتا گیا ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ قانونی درجہ بھی حاصل کرتا گیا۔ یوں سوچ وچار،اخلاقی و روحانی اقدار کی تشکیل اور سماجی فلاح و اصلاح کے معاملات سے آبادی کی بڑی اکثریت کو بے دخل ہونا پڑا۔ یہ ترقی کا وہ ہرجانہ تھا جو محنت کشوں نے ادا کیا۔ محنت کش طبقے کا کام زندگی کے اسباب پیدا کرنا قرار پایا تاکہ دوسرے لوگ یہ طے کر سکیں کہ زندگی کو گزارا کیسے جائے۔ محنت کش طبقے کو اسی سماجی ذمہ داری تک محدود رکھنے کے لیے محض طاقت اور قانون کی نکیل کافی نہیں تھی اس لیے اس کی سوچوں اور خیالات کو لگام ڈالنے کے لیے دانشوروں کی ایسی پرت ناگزیر تھی جو محنت کشوں کو یہ باور کرواتی رہے کہ ان کی سماجی حیثیت فطرت کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ یہ فریضہ ذرائع پیداوار کی ترقی کے عمل میں پیدا ہونے والے درمیانے طبقے کے ذمے آیا۔ یہ کوئی یکطرفہ میکانکی عمل نہیں تھا بلکہ بسا اوقات یہ تمام طبقات ایک دوسرے پر اثرانداز ہو کرمعینہ دائرہ کار سے تجاوز بھی کرتے رہے۔ محنت کشوں کی صفوں میں حکمرانوں کے کاسہ لیس بھی پیدا ہوئے اور مڈل کلاس کے دانشوروں میں سے محنت کشوں کی طبقاتی جنگ کے سُرخیل بھی سامنے آتے رہے۔ یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں آ ج بھی جاری و ساری ہے۔
معیشت، سیاست اور ثقافت کی طرح شعور، احساس اور دانش بھی بڑے واقعات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ساری انسانی تاریخ ان گنت عظیم واقعات سے بھری پڑی ہے اس لیے ان تمام واقعات کے انسانی شعور اور سوچ پر اثرات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں لہٰذا ماضی قریب کے اہم واقعات اور جدید طرزِ فکر کے تعلق کو زیرِ بحث لانا ہی کافی ہو گا۔ گذشتہ صدی کا دوسراعشرہ اس حوالے سے خاص طور پر توجہ کا مستحق ہے جس میں انسانی تاریخ کے دو دیوہیکل واقعات رونما ہوئے۔ پہلے تو پہلی جنگِ عظیم میں کبھی نہ دیکھی گئی بربادی دیکھنے میں آئی۔ مختلف اندازوں کے مطابق ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد انسان قتل ہوئے اور دو کروڑ کے لگ بھگ شدید زخمی ہوئے۔ اس خون خرابے نے بلاشبہ انسانی اعصاب کو معطل کر کے رکھ دیا اور مہذب سوچ اور فکر دنگ رہ گئی۔ مگر اس جنگ کی کوکھ سے جنم لینے والے بالشویک انقلاب نے یاسیت اور پژمردگی کا لبادہ چاک کر دیااورانسانیت کے پندار کو توقیر اور اعتبار سے نوازا۔ پہلی جنگِ عظیم کی تباہکاریوں کی بھیانک یادیں کسی حد تک اوجھل ہو گئیں اوردنیا کے ہر خطے میں دوبارہ ایک بہتر انسانی مستقبل کی تعمیر کی خواہش اور کوشش نے سر اٹھایا۔ دانشوروں اور ادیبوں کی بڑی تعداد نے مایوسی اور بے دلی کی سوچوں اور نظریات کو ترک کرکے مزاحمتی ادب اور نظریات کو اپنا لیا۔ محنت کش طبقے کی اس فتح نے درمیانے طبقے کی دقیانوسیت کا قلع قمع کر دیا تھا۔ مارکسزم کے نظریات لائبریریوں کے شیلفوں سے نکل کر سماج کے ہر شعبے اور ہر پرت تک پہنچے اور انسانیت کی ترقی اور معراج کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔
مقصدیت اور ترقی انسانی سوچ اور شعور کے اہم ترین اور دلچسپی کے موضوعات بن گئے تھے۔ محنت کش عوام دنیا بھر میں ایک متبادل دنیا پر ایمان کی حد تک یقین کرنے لگے تھے۔ اگرچہ دنیا کی وسیع تر آبادی ابھی تک غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہی تھی مگر زیادہ تر لوگ زندگی کی تمام تر مشکلات کو عارضی اور اسے تبدیل کرنے کی جدوجہد کو فطری اور ضروری سمجھنے لگے تھے۔ بورژوا طبقے کی طرف سے مسلط کردہ صبرو قناعت اور تقدیر پرستی کی سوچ دم توڑ رہی تھی اور انسانوں کی اکثریت اپنے زورِ بازو پر گھمنڈ کرنے لگی تھی۔ مڈل کلاس کے دانشور بھی محنت کش عوام کی اس جرات اور مزاحمت کے گُن گاتے نہیں تھکتے تھے۔ مذہبی حلقوں میں بھی ترقی پسندیت کے لئے گنجائشیں پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جانے لگا تھا۔ رجائیت، خوشی اور امید دانش اور فکر کا وطیرہ بنتے جا رہے تھے۔ مارکسی فلسفہ ایک وبا کی طرح پھیلا اور مڈل کلاس کے دانشوروں میں بھی ایک فیشن کی طرح رائج ہو گیا۔ بورژوا طبقے کو اپنے اقتدار اور بقا کا مسئلہ درپیش تھا۔انہوں نے سائنس، ثقافت اور شعور کے میدانوں میں جوابی یلغار تیز کر دی۔ یوں ایک نئی معر کہ آرائی کے لئے صف بندی ہوئی جس کے نتائج کا انحصار پھر آنے والے واقعات اور ان کے کردار پر تھا۔
1929ء سرمایہ داری کے بدترین زوال کا سال ثابت ہوا۔ اس سے قبل اور اس کے بعد دنیا کے مختلف خطوں میں انقلابات تو ابھرے مگر سٹالن ازم کی غداریوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بیورو کریسی کی جکڑبندی کے اندر بالشویک انقلاب قومی (روسی) زندان میں محبوس ہو کر رہ گیا اور ساتھ ہی ایک بہتر اور روشن مستقبل کی تعمیر کے خوابوں اور خواہشات کا دم بھی گُھٹنا شروع ہو گیا۔ سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے کے لئے کینز(Keynes)کے نظریات پر مبنی متبادل معاشی طریقہ کار اپنائے گئے مگر کوئی دوا کارگر نہ ہو سکی اور بالآخر دوسری جنگِ عظیم کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس بار سفاکیت اور درندگی کے اس کھلواڑ کے سامنے اس سے پہلے ہونے والی تمام تر تباہ کاریاں محض مذاق لگنے لگیں۔ ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد ہلاکتوں کا تخمینہ لگا یا گیا جو اس وقت دنیا کی کل آبادی کے تقریباً تین فیصد کے برابر تھا۔ جوزف اسٹالن اور اس کے کارندوں نے یکے بعد دیگرے اس درندہ صفت نظام سے مفاہمتیں اور مصالحتیں کر کے انسانی روح اور احساس کو حقیقی معنوں میں لاچار اور بے آسرا کر دیا۔ اس جنگ کی کوکھ سے اگرچہ عظیم چینی انقلاب کا جنم تو ہوا مگر یہ انقلاب اور اسکی قیادت بھی سوویت یونین کی بیہودہ نقالی تک محدود اور مسدود ہو کر رہ گئے۔ اسی لئے یہ چینی انقلاب اپنے پیشرو بالشویک انقلاب کی طرح جنگ کی ذلتوں اور اس سے پھیلنے والی کراہت کے اثرات کو زائل نہ کر سکااور دوسری طرف سرمایہ داری اپنی تاریخ کے سب سے بڑے عروج میں داخل ہو گئی۔ ان تمام واقعات نے انسانی سوچ، شعور، احساس اور ضمیر کو مجروح کر کے رکھ دیا۔
دوسری جنگِ عظیم کو انسانیت کی حتمی شکست سے تعبیر کیا جانے لگا۔ محنت کش عوام تو کسی حد تک ڈٹے رہے لیکن درمیانے طبقے کے دانشوروں کی اکثریت یاسیت اور قنوطیت کی دلدل میں غرق ہونا شروع ہو گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ژاں پال سارتر کے فلسفہِ وجودیت کا طوطی بولنا شروع ہو چکا تھا۔ جسے معروضی تلخیوں سے فرار کا ایک موضوعی حیلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ خارجی حقیقت جو بہت تباہ کن تھی، جب اس کے خلاف مزاحمت ناکامیوں سے دوچار ہوئی تو اسے قبول کرنے کی بجائے اسے یکسر مسترد کرنے کی کوشش کی گئی۔ انسانوں کے مٹھی بھر درندہ صفت حکمران طبقات کی بد اعمالیوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی بربادی کا تمام تر ملبہ مجرد انسان پر ڈال دیا گیا۔فرد کی آزادی کے شور و غوغے کے اندر فرد کی بے بسی اور لاچاری کو دلکش بنا کر قبول کر لیا گیا۔ سارتر کا فرد آزادانہ طور پر بربادی کے راستے پر گامزن تھا۔ اس سوچ کی پذیرائی نے انسانوں کی بیگانگی میں بظاہر تو داد رسی کی مگر درپردہ اسے تقویت بخشی۔ مڈل کلاس کے دانشوروں میں اس سوچ کی خوب مدح سرائی کی گئی۔ محنت کشوں کی جرات اور مزاحمت کے گُن گانے والے دانشوروں نے ہی ان کی شکستوں کی تمام تر ذمہ داری محنت کشوں پر ڈال کر ان پر لعن طعن شروع کر دی۔ حکمران طبقات نے ایک طرف تو سٹالنسٹوں کی مو قع پرستانہ نظریاتی زوال پذیری اور دوسری طرف مڈل کلاس کی اس بدظنی اورنا امیدی کو بطورِ احسن استعمال کیا اور طبقاتی استحصال کو اخلاقی اور نظریاتی جواز فراہم کرنے کی مہم تیز کر دی۔ محنت کش بار بار تاریخ کے میدان میں اترتے رہے لیکن بار بار کی شکستوں نے مایوسی کے بادلوں کو اور بھی گھنا اور گہرا کر دیا۔
برِ صغیر اگرچہ براہِ راست تو اس جنگ کی تباہکاریوں کا نشانہ نہیں بنا تھا لیکن برطانوی فوج میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے بے شمار نوجوان لقمہِ اجل بنے۔ لیکن اس کے بعد برِ صغیر کے خونی بٹوارے میں 27 لاکھ سے زائد معصوم انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ لاکھوں خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ کروڑوں لوگوں کو گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی۔ ان المناک واقعات کی ماتمی فضا میں بلکتی انسانیت کو دیکھ کر انسان ہونے پر شرمندگی کا احساس تقویت اختیار کرتا گیا۔ اس کے بعد کا شاید ہی کوئی ادیب اور دانشور ایسا ہو جس کی تخلیقات میں اس ہولناک ماضی کی کربناک یادوں کی چیخیں نہ سنائی دیتی ہوں۔ حتیٰ کہ ترقی پسند مصنفین کے کام میں بھی اسی المیے کی چھاپ واضح طور پر نظر آتی ہے۔ بلکہ بعض نام نہاد انقلابی دانشوروں نے تو اپنے تخلیقی کام کا محور آج تک بٹوارے کے سانحے سے آگے منتقل ہی نہیں کیا۔ دنیا کا کوئی بھی موضوع زیرِ بحث ہو وہ گھما پھرا کر بات کو بٹوارے کے تاریخی جرائم تک لے ہی آتے ہیں اور ان تکلیف دہ واقعات کو بار بار دہرا کر اپنی حساسیت اور انسانیت کے لیے اپنے دل میں شدید تڑپ کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ محنت کش عوام کی اکثریت اس قتلِ عام میں براہِ راست شامل ہو گئی تھی۔ بلکہ اسی سانحے کے دوران قربانی، جانفشانی اور رحمدلی کے عظیم واقعات بھی رونما ہوئے جب لوگوں نے مذہبی تعصب اور نفرت کو دھتکار کر اور اپنی جانوں کی بلی چڑھا کر اپنے ساتھیوں کے جان، مال اور عزتوں کی رکھوالی کی۔ لیکن ان عاجزانہ سی کاوشوں پر بربریت کے آثار سبقت لے گئے اور ایک زندہ ثقافت اور معاشرت کو دو لخت کر دیا گیا۔
پھر 1968-69ء کی عظیم تحریک، ضیاء الحقی ردِ انقلاب اور افغان ثور انقلاب کی پسپائی نے صورتحال کو اور بھی تشویشناک بنا دیا۔ سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ دارانہ مراجعت نے تو جیسے ترقی پسند سوچ کا گلہ ہی گھونٹ کر رکھ دیا۔ محنت کشوں کی تمام تر حاصلات پر حملوں اور ردِ اصلاحات کی وجہ سے نفسیاتی اور موضوعی تناؤ اپنی انتہاؤں کو پہنچ گیا۔ بڑے بڑے انقلابی صوفی اور مذہبی بن گئے۔ کچھ نے این جی اوز میں پناہ لی۔ دانشوروں کی اکثریت نے فوکویاما کے تاریخ کے خاتمے کو آسمانی صحیفہ سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ چند ایک ہی بچے جو مارکسی بین الاقوامیت کا پرچم تھامے آگے بڑھتے رہے۔ مگرجمود کے دور کی طوالت اور رجعت کی وقتی برتری سے ان کے اعصاب بھی مختل ہوتے رہے اور مڈل کلاس کی بے صبری غالب آنا شروع ہو گئی۔ حالات کے جبر کے خلاف اپنی ہی مدافعت نے ان کو خود پسندی، سستی شہرت کی طلب جیسی خوفناک اور ناقابلِ اصلاح موضوعی بیماریوں میں مبتلا کر دیا۔ انانیت کا کینسر اندر ہی اندر ان کو دیمک کی طرح چاٹ گیا۔ نام نہاد انقلابی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے بھی انہیں مستقل طور پر خوشامد کے وینٹی لیٹر کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور یوں بالآخر وہ بھی اپنی ذات کی دلدل میں غرق ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
2008 ء کے عالمی سرمایہ دارانہ بحران نے ایک طویل عہد کے خاتمے کا آغاز کر دیا تھا۔ عرب انقلاب اور اس کے بعد کے واقعات نے اس عہد کے خاتمے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ جمود ٹوٹا اور سیاسی اور سماجی بھونچال نے سارے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عالمی معاشی وسیاسی بھونچال نے پاکستانی سیاست کو سطح سے اگرچہ اتنے زور دار طریقے سے نہیں جھنجوڑا مگر بنیادوں کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ ان لرزتی بنیادوں پر کھڑی عمارت کا آنے والے وقت میں دھڑن تختہ ناگزیر ہے۔ محنت کش طبقے کا تحرک رفتہ رفتہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سماج کی ہر پرت مضطرب اور متجسس ہے۔ یہ سماج بلاشبہ ایک نئی صورتحال سے حاملہ ہے۔ لیکن حاوی دانش اور فکر ایک دایہ کا کردار ادا کرنے کی بجائے اسقاطِ حمل کے درپے ہیں یا پھر امکاناتِ حمل سے ہی یکسر انکاری ہو چکے ہیں۔ بائیں بازو کے نامور قلمکار بھی اسی ابہام کے کچرے میں گل سڑ رہے ہیں۔ ایک طویل عرصے کے جمود میں اس جمود کی روٹین کے عادی ہو جانے کے باعث وہ کچھ مختلف سوچنے کی جسارت کرنے سے ہی خوفزدہ ہیں۔ کچھ تو اپنے ہی دیئے گئے تناظر کے مرتد ہو چکے ہیں۔ ایک مکمل طور پر تبدیل شدہ یا عبوری مراحل سے نمٹنے کے لیے جو نظریاتی پختگی اور رویے کی لچک درکار ہوتی ہے وہ اس سے محروم ہو چکے ہیں۔ جن معاملات میں لچک درکار ہے وہاں وہ سخت گیر ہیں اور جہاں غیر متزلزل ہونے کی ضرورت ہے وہاں وہ موم کی طرح پگھلے جا رہے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ اس عہد کو اپنی نمائندہ دانش تو ورثے میں نہیں ملی مگر وہ تمام معروضی مواد ضرور ہاتھ لگاہے جس کے توسط سے اس نئے عہد کی نئی قیادت کا جنم ہو گا۔
گزشتہ بیس برسوں میں جہاں ذرائع ابلاغ کی ترقی اور الیکٹرانک میڈیا کے مبالغہ آمیز کردار میں برق رفتار اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہیں روزمرہ زندگی کی مشکلات اور پانی، بجلی، چھت، تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات 80 فیصد کے لگ بھگ آبادی کے لیے خواب بنتی جا رہی ہیں۔ جدیدیت اور پسماندگی کی اس بھونڈی بغل گیریت نے بلا شبہ سماجی اقدار اور رویوں میں نفسا نفسی اور انتشار کو پروان چڑھایا ہے۔ مسابقت، حسد، بغض، لالچ، رشتوں کی کمرشلائزیشن، بے وفائی اور دھوکہ دہی کو مسلمہ سماجی اقدار کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔ لیکن یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے۔ اور ایسا ہر گز نہیں ہے کہ تمام طبقات میں بلا تفریق سماجی تعلقات اور روزمرہ کے معمولات کی ایک ہی جیسی کیفیت ہے۔ یہ درست ہے کہ محنت کش طبقے کی لمپنائزڈ پرتوں میں یہ رویے ضرور در آئے ہیں لیکن سارے محنت کش طبقے کی صورتحال ایسی نہیں ہے جیسا کہ یہ قنوطی دانشور ہمیں تسلیم کروانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ باہمی تعاون و انحصار، رواداری اور خوش اسلوبی یکسر معدوم نہیں ہو ئی بلکہ درمیانے طبقے کی غلاظت اور سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکیت کے ساتھ ہمیشہ برسرِ پیکار رہی ہے اور ابھی بھی ہے۔ اس کا بہترین اندازہ ہمیں گزشتہ دو دہائیوں میں آنے والے زلزلوں، سیلاب، فوجی آپریشنوں میں ہونے والی ہجرتوں اور دیگر آفات میں ہوتا ہے جہاں ایک طرف تاجروں اور آڑھتیوں نے کفن اور ادویات تک کو سونے کے بھاؤ بیچ کر زخموں اور مجبوریوں کی تجارت سے خوب مال بٹورا وہیں غریب مزدوروں، کسانوں اور دیہاڑی دارمحنت کشوں جن کے پاس ضرورت سے زائد تو ظاہر ہے کچھ بھی نہیں ہوتا، اپنی ضروریات کو کاٹ کر اپنے آفت زدہ بہن بھائیوں کے لیے بے مثال ایثار اور محبت کا ثبوت دیا۔ اس کے علاوہ محنت کشوں کے روزمرہ کے معمولات میں بھی اس طرح کی ان گنت مثالیں دیکھنے میں مل جاتی ہیں۔ مڈل کلاس اور محنت کشوں کی اقدار اور معمول میں یکسانیت کی بجائے مشترکہ اور نا ہموار ترقی نے تفاوت اور تضاد کو اور بھی گہرا کر دیا ہے۔ یوں حکمران طبقات، مڈل کلاس اور محنت کش الگ الگ سیاروں کی مخلوق لگنا شروع ہو گئے ہیں۔
دانشوروں کی اکثریت چونکہ خود مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اس لئے ان کے اپنے اندر لالچ، دھوکہ دہی اور مسابقت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ بائیں بازو کے بھی ایسے دانشور جن کا حلقہ احباب محض صحافیوں، تاجروں، ڈاکٹروں اور اپنے ہی جیسے دوسرے دانشوروں تک محدود ہو جاتا ہے اور جو زیادہ تر وقت ٹی وی ڈراموں اور ٹاک شوز سے مستفید ہونے میں صرف کرتے ہیں وہ محنت کشوں کو بھی ڈراموں کے تمام کرداروں کی طرح چالباز اور مکار سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے وہ بھی سماج کی وہی تصویر کشی کرنے لگتے ہیں جو کہ حکمران طبقات آبادی کی اکثریت کو دکھا کر انہیں ویسا ہی بنا دینے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان دانشوروں کی اکثریت بھی چونکہ شہرت اور دولت کی ہوس اور مسابقت میں کئی یاروں کی پیٹھ میں چھرے گھونپ کر سماجی رتبے اور تشخص کی تلاش میں ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے احساسِ ندامت اور خجالت کو کم کرنے کی خاطر ان غلیظ رویوں کو ہی مروجہ اور منطقی بنا کر پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ’’تو کیا ہوا جو ہم نے مکاری اور عیاری سے کام لیا، یہی تو رواج ہے‘‘۔ یوں قارئین اور لکھاری دونوں کا کتھارسس ہوتا رہتا ہے۔ کتھارسس کا ادب اور تجزیئے سوائے غلاظت اور قنوطیت پھیلانے کے اور کوئی سماجی خدمت سر انجام نہیں دے سکتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے عہد کی نمائندہ دانش کا یہ بنیادی فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اس عہد کے انسانی المیوں کو بے نقاب کرے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ اس عہد کے کردار کا درست تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی المیے کی نشاندہی کی جائے۔ تاریخ کو پڑھنے اور ماضی کو یاد کرنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم محض لکیر کو پیٹتے رہیں بلکہ اس لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں جو ہم سے پہلی نسلوں نے کیں۔
آج کے عہد کا سب سے بڑا بنیادی المیہ یہ نہیں ہے کہ محنت کش سیاسی عمل سے خارج ہو چکے ہیں بلکہ آج دبے پاؤں وہ دوبارہ سیاسی میدان میں کھچے چلے آ رہے ہیں۔ ماضی میں دانشوروں کا سب سے مشہور مقولہ یہ رہا ہے کہ’ ’ہمارے محنت کش تو ہیں ہی بے غیرت‘‘، انکی قوتِ برداشت بہت زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کے لطیفے بنائے اور سنائے جاتے ہیں جن میں محنت کشوں عوام کی بے عملی پر شدید طنز کیا جاتا ہے۔ اب صورتحال بالکل مختلف ہے اور اس روش کو سختی کے ساتھ ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس عہد کے المیے کی طرف لیون ٹراٹسکی نے اپنے آخری ایام میں پہلے ہی نشاندہی کر دی تھی یعنی ’’قیادت کا بحران‘‘۔ اسی بحران کی طرف توجہ مبذول کرنے اور کروانے کی ضرورت ہے۔ اور عملی میدان میں ان تھک جدوجہد اور قربانیوں کے ذریعے اس بحران سے سماج کو نکالنے کی سر توڑ کوشش کرنی ہو گی۔ یہ فریضہ مارکس وادی ہی ادا کر سکتے ہیں۔ جیساکہ مارکس نے خود کہا تھا کہ’ ’آج تک فلسفیوں نے دنیا کی تشریح کی ہے ، مسئلہ اسے بدلنے کا ہے۔‘‘

Comments are closed.