امارت اور غربت کی خلیج؛ عرصہ دہر پہ اب شام نہیں چھا سکتی!

تحریر: | فاروق بلوچ |
بزنس ڈکشنری کے مطابق غربت اس حالت کو کہتے ہیں جس میں لوگوں کو خوراک، رہائش اور لباس کی بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی ہو۔ بزنس ڈکشنری غربت کی مندرجہ ذیل دو اقسام بیان کرتی ہے:
قطعی غربت اور غیر قطعی غربت۔
قطعی غربت سے مراد کم از کم جسمانی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے درکار کم ازکم غذائی ضروریات کی عدم دستیابی، جبکہ غیر قطعی غربت سے مراد حکومتی متعین کردہ کمتر ترین معیارات زندگی کی عدم دستیابی ہوتی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اگر کسی انسان کی آمدنی تقریباً 125 روپے یومیہ سے کم ہو تو اسے انتہائی غریب اور اگر 200 سو روپے یومیہ سے کم ہو تو درمیانہ غریب تصور کیا جائے گا۔ دنیا بھر میں اس وقت ڈیڑھ ارب انسان ورلڈ بینک کی تعریف کے مطابق انتہائی غربت کا شکار ہیں اور 2ارب 80کروڑ لوگ ورلڈ بینک کی تعریف کے مطابق درمیانی غربت کا شکار ہیں۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ دنیا کے 7ارب انسانوں میں سے تقریباً 4ارب30کروڑ انسان غربت کا شکار ہیں۔
food insecurity - rich vs poorاب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ہولناک غربت کیوں پائی جاتی ہے؟ کیا دنیا کے 7 ارب لوگوں کو دینے کے لیے خوراک، رہائش اور لباس کے وسائل دستیاب نہیں ہیں؟ کیا دنیا کی آبادی کو کم از کم جسمانی ضروریات پوری کرنے کے لئے درکار کم ازکم غذائی ضروریات بھی مہیا کرنا ممکن نہیں ہیں؟ کیا دنیا کی آبادی کو کمتر ترین معیارات زندگی دینا بھی ناممکن ہے؟ کیا دنیا کی آبادی کو یومیہ 2 سو روپے مہیا کرنا بھی ناممکن ہے؟
اب آئیے اصل حقائق کی طرف، صرف 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے دنیا بھر کی بھوک کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے، جبکہ اس سے کہیں زیادہ سرمایہ انسان کو قتل کرنے کیلئے اسلحہ کی خریداری اور جنگوں پہ خرچ کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا ہر سال اتنی غذا پیدا ہوتی ہے جو دنیا کے ہر انسان کو صحت مند کر دینے کے لئے کافی ہے۔ ایک بالغ کے لئے مجوزہ روزانہ کیلوریز تقریباً 2100 ہیں جبکہ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو موجودہ زرعی پیداوار دنیا کے ہر انسان کو 2720 کیلوریز باآسانی فراہم کر سکتی ہے۔ ان کیلوریز کے علاوہ وافر مقدار میں پھل، انڈے، دودھ، سبزیاں، گوشت اور ڈرائی فروٹ فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر اتنی خوراک پیدا کی جا رہی ہے کہ ہر انسان صحتمند و توانا زندگی گزار سکتا ہے۔ پوری دنیا کی آبادی کی غذائی ضروریات سے ڈیڑھ گنا زیادہ غذا پیدا کی جارہی ہے۔ ہم اس وقت جو خوراک اگا اور پیدا کر رہے ہیں وہ 10 ارب انسانوں کی غذائی ضروریات باآسانی پوری کر سکتی ہے۔ اس کرۂ ارض پر خوراک کی مثبت ممکنات اور زرعی وسائل کی کسی قسم کی کمی نہیں ہے۔ حیران کن اعدادوشمار کے مطابق صرف افریقہ کے قابل کاشت رقبہ پہ جدید زرعی سائنس کی بدولت پوری دنیا کی انسانی آبادی کی خوراک کا بندوبست ممکن ہے۔ زرعی سائنس کے جدید طریقہ ہائے کاشتکاری ’’ہائیڈرو پونکس‘‘ کے ذریعے ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور پانی کے محلول میں پودے اگائے جاتے ہیں۔ آخری تجزئے میں ’’ہائیڈرو پونکس‘‘ کی تکنیک کی بدولت 10ارب لوگوں کی غذائی ضروریات کرۂ ارض کے صرف 0.4 فیصد خشک رقبے سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
Poverty in Iranاگر دنیا کے ہر انسان کو 1000 مربع فٹ رہائشی جگہ دی جائے تو دنیا کے 7ارب انسانوں کو محض امریکی ریاست ٹیکساس میں آباد کیا جا سکتا ہے۔ ایک ماڈل شہر کے 45 فیصد رقبے پہ دس لاکھ لوگ اور باقی کے 55 فیصد رقبہ توانائی، پانی اور خوراک کی پیداوارکے ساتھ ساتھ تعلیم، علاج، ریسرچ اور تفریح کے لئے استعمال کیا جائے تو منصوبہ بندی سے بسائے گئے ایسے صرف 10,000 شہر 10 ارب لوگوں کو رہائش کے ساتھ ساتھ دوسری تمام تر ضروری سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ ایسے ماڈل شہر کا رقبہ 60 مربع کلومیٹر ہوگا۔ ایسے سارے اعدادوشمار اور ماڈل یہ بتاتے ہیں کہ مناسب منصوبہ بندی کی بدولت انسانی آبادی کو ایسی آرام دہ رہائش گاہیں مہیا کی جا سکتی ہیں جنکا یورپ کی سابقہ فلاحی ریاست کے عوام تصور بھی نہیں کر سکتے۔
قدرتی ذرائع اور جدید سائنس کی مدد سے انسان کی لباس کی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن نہیں ہے۔ روایتی طریقے ہی سے لباس کی ضرورت پوری کرنا بہت آسان ہے، مزید برآں اب تو ٹرانس جنیٹکس کی مدد سے بکری کے دودھ سے دنیا کا ہلکا ترین وزن والا دنیا کا مضبوط ترین ریشہ تیار ہو رہا ہے۔
accumulation of wealthرہی بات سرمائے کی تو ایک جانب دولت کا ارتکاز درحقیقت عین اسی وقت دوسری جانب بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتکاز ہے۔ ٹیلی کمیونیکیشن، اسلحے، مالیات اور خوراک سے وابستہ صرف 190 ملٹی نیشنل اجارہ داریاں 85 فیصد عالمی معیشت پر قابض ہیں۔ ناروے دنیا کی 25 ویں بڑی معیشت ہے لیکن وال مارٹ (Walmart) کی آمدن اس سے 7ارب ڈالر زیادہ ہے۔ مارگن سٹینلے کا مالیاتی حجم ازبکستان سے زیادہ ہے۔ پیپسی (Pepsi) کا مالیاتی حجم اومان کے مالیاتی حجم سے زیادہ ہے۔ اس وقت دنیا کے صرف دس بڑے سرمایہ داروں کے پاس 577 ارب ڈالر موجود ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کے 62 آدمی ایسے ہیں جنکی مجموعی دولت باقی دنیا کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ اس کرۂ ارض پر کم از کم خوراک، رہائش اور لباس جیسی بنیادی ضروریات مہیا کرنے کے لیے نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی قدرتی و مصنوعی ذرائع پیداوار کی کوئی قلت ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ دنیا کے وسائل و ذرائع پیداوار، دنیا کی ایک اقلیتی آبادی کی نجی ملکیت ہیں اور دوسری طرف دنیا کی اکثریت اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کیلئے سسک سسک کر جی رہی ہے۔
greedy capitalistحقیقت میں اب دنیا کے انسانوں کے پاس دو راستے ہیں؛ پہلا راستہ یہ ہے کہ ہم اس دولت اور ذرائع پیداوار کی تقسیم کو فطری سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کر لیں یعنی جو ہمارے سماج کے غالب سوچ کا مقصد بھی ہے ہے۔ ہم اس بات پہ یقین کر لیں کہ یہ تو آزمائش ہے اور کسی کو زیادہ دے کر ’’آزمایا‘‘ جارہا ہے اور کسی کو محروم رکھ کر۔ ساتھ ساتھ ان امیروں کا انتظار کریں کہ یہ لوگ اپنے اثاثوں کا 2.5 یا 5 فیصد ہمیں خیرات دے دیں۔ اگر یہ امیر زکوۃ و خیرات نہیں دیتے تو ان کو ہمارے مذہبی علما تلقین و تنبیہ کریں گے۔ اگر وعظ و تلقین کے باوجود یہ امیر، دنیا کی مجبور و غریب آبادی کی جھولی میں کوئی خیرات نہیں ڈالتے تو ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہ تو خدائی تقسیم ہے اور خدا کے کاموں کو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ صبر کرنا چاہیے۔ عالمی سرمایہ دار طبقے کو بھی یہی پسند ہے کہ لوگ اس راستے کو چن کر اپنی زندگی یونہی گزار دیں۔ بظاہر یہ راستہ آسان بھی ہے، بظاہر پرسکون بھی ہے۔ مگر یہ راستہ درحقیقت عذابوں اور آنسوؤں سے مزین ہے۔
workers of the world uniteدوسرا راستہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے غریب اور مجبور لوگ متحد ہو جائیں، ایک دوسرے کا دست و بازو بن جائیں۔ تمام مجبور لوگ اس بات کا ادراک حاصل کریں کہ امیروں نے وسائل اور ذرائع پیداوار پہ غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ وسائل اور قدرتی ذرائع پیداوار تمام انسانوں کی ملکیت ہیں، ان تمام اثاثوں پہ دنیا کے تمام لوگوں کا مساوی حق ہے، یہ وسائل کسی اقلیت کی نجی ملکیت میں نہیں ہونے چاہیں۔ اِسی طرح سائنسی و تکنیکی ترقی کسی ایک فرد یا اقلیت کی بدولت نہیں بلکہ یہ کلی انسانیت کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا اس سائنسی و تکنیکی ترقی کے ثمرات کسی ایک فرد یا اقلیت تک محدود نہیں رہنے چاہیں۔ انسانی جدوجہد، سیاسی و سماجی، کا مقصد، وسائل اور ذرائع پیداوار کو سرمایہ دار طبقے کے قبضے سے نکال کر پوری انسانیت کی فلاح کیلئے وقف کردیا جائے۔ ایک ایسا سماج ایک ایسا نظام مرتب کیا جائے جس میں کسی کا حق نہ مارا جا سکے۔ جہاں غربت کا نام و نشان تک نہ ہو۔
موجودہ معاشی، سیاسی اور سماجی فرسودہ نظام ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے، مجبور عوام کو اس نظام کی سبھی حددو وقیود پامال کرنی ہونگی۔ یہ راستہ ایسا ہے کہ عوام کو عملی اور نظریاتی جنگ لڑنی ہو گی۔ اپنے حق کیلئے اور اپنی آنے والی نسل کے حقوق کیلئے، اس زمین کی خوبصورتی کیلئے، اس زمین کے امن کیلئے۔ مجبور و محکوم عوام کو آگے بڑھ کر ان سرمایہ داروں کو انکی دولت اور جائیدادوں سے بیدخل کرنا ہوگا۔ انہیں بتانا ہو گا کہ اقلیت، اکثریت کو زیادہ ہمیشہ غلام نہیں بنائے رکھ سکتی۔ غریب عوام کو اپنے ذہنوں سے حس غلامی تحلیل کرنی ہو گی، ایسا ہونے سے روئے زمین پر کوئی آقا باقی نہ رہے گا۔ دنیا کے تمام وسائل،ذخائر اور دولت پر سے بزدل اقلیت کا قبضہ ختم کرتے ہوئے تمام معاشرے اورخطوں کو مساوی بنیادوں پر ترقی دینی ہو گی اور انسانیت کو آج کی اس اذیتناک زندگی سے ایک خوبصورت زندگی کی طرف کا سفر کرنا ہو گا۔ آج انقلابیوں کا یہ فریضہ ہے کہ اس جدوجہد کو مربوط کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اس راستے کی آخری منزل محنت کش طبقے کی عظیم فتح ہو گی۔

Comments are closed.