عورت ; سرخ سویرا ہی تجھے آزاد کرے گا

تحریر :ماہ بلوص اسد:-

آج کے اس اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ دور میں پڑھائی جانے والی تاریخ میں خواتین کا کردار بس یہی بتایا جاتا ہے کہ وہ سماج کا مظلوم طبقہ ہیں اور ازل سے ان کے ساتھ ظلم ہوتا رہا ہے کیونکہ یہ’’ فطری ‘‘طور پر کمزور اور کمتر شعور کی حام ہیں۔ حکمرانوں کی تاریخ یا نصاب میں جب بھی انسانی ترقی کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس میں اہم کردار ادا کرنے والی شخصیات کا بھی ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے سائنس، فلسفہ، آرٹ، سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں کارنامے سر انجام دئیے۔ لیکن اس فہرست میں کہیں کسی خاتون کا نام نہیں آتا۔ اس کی وجہ بس یہی بتائی جاتی ہے کہ خواتین کم شعور رکھتی ہیں اور ان کو فطرت نے بس انسان کو جنم دینے کے عمل کیلئے مختص کیا ہے۔ اگر آج کے ترقی یافتہ دور کی بات کی جائے اور اس میں عورتوں کے حصے کی بات ہو تو وہ ثانوی حیثیت سے معاشرے کے مختلف شعبوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں۔ اور آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی عورتوں کو مردوں کی نسبت کم تر تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ انسانی سماج اور اس میں خواتین اور مرد کے کردار کا تناسب ہمیشہ سے ایسے ہی تھا؟ ہر گز نہیں! جب ہم ابتدائی انسانی سماج کی بنت کو دیکھتے ہیں تو صورتحال مختلف بلکہ کچھ حد تک موجودہ صورتحال کے برعکس نظر آتی ہے ۔ ابتدائی انسانی سماج جب جنگلوں میں تھا تو اسے تہذیب یافتہ سماج تک پہنچانے میں پھر سب سے اہم کردار اس سماج کی خواتین کا تھا۔ اس کا تعین اس سماج میں ’کام کی تقسیم‘ سے کیا جا سکتا ہے جس میں خواتین اور مردوں کے مابین صرف فطری تقسیم تھی۔جہاں خواتین کو بچوں کی نگہداشت کے لئے گھر میں کام سونپے جاتے ہیں اور مرد شکار کرنے کے لئے باہر کام کرتے تھے۔ اس حوالے سے خواتین کو ماں ہونے کی اور خیال رکھنے کی صلاحیت کی بنا پر قبیلے کی سردار مختص کیا جاتا تھا اور پھر جو کام خواتین گھروں میں کرتی تھیں وہ تمام اہم کام تھے جنہوں نے اس جنگلی سماج کو تہذیب یافتہ سماج بنانے میں بنیادی اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ان میں سب سے اہم کام زراعت کی دریافت تھی جس میں خواتین نے ایک عمل کو دیکھا کہ ایک پودا جہاں اپنے بیج گراتا ہے وہاں دوبارہ نیا پودا اگ آتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کی اہم دریافت تھی جس نے انسان کو شکار کے عمل سے نجات دلائی اور خوراک کے لئے زراعت کا استعمال کیا جانے لگا۔ اسکے علاوہ بے شمار ایسے فطری عوامل خواتین نے گھر پر رہتے ہوئے دریافت کئے جس میں موسم سے لڑنے کے لئے گھروں کی تعمیر کا ہنر، کھانا پکانے کیلئے آگ کا استعمال،جبکہ دوسرے تمام جانور آگ سے خوفزدہ ہوتے ہیں، ایسے میں انسان نے اسی آگ پر نہ صرف قابو پایا بلکہ اسے استعمال میں لایا اور اس سے توانائی حاصل کی۔ اس طرح اس میں آگ سے حاصل ہونے والی توانائی کے استعمال کا فن بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ علاج میں بھی خواتین نے اہم کردار ادا کیا جس میں زہر کی شناخت کرنا اور مختلف جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے کا عمل تھا۔یہ تمام وہ عمل تھے جنہوں نے انسان کو جانوروں سے مختلف کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ ابتدائی انسانی سماج تھا جس میں خواتین کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ لیکن پھر مسئلہ کب شروع ہوا؟
مسئلہ تب شروع ہوتاہے جب انسانی سماج نے ضرورت سے زائد پیداوار کرنا شروع کردی اور جب اس زائد پیداوار کی ملکیت کاسوال پیدا ہواتب سے ہمیں ملکیت کے تصور کا ابھار نظر آتاہے۔ جب کہ اس سے پہلے ابتدائی سماج میں ایسی کوئی شے نہ تھی جو کسی کی ملکیت ہو۔جو چیز موجود ہوتی تھی وہ اس وقت میں سب استعمال کرتے تھے‘ وہ سب کی ہوتی تھی اور اس ابتدائی انسانی سماج کی عمر کئی ہزار سالوں پر مشتمل ہے جب انسان گن (قبائل) کی شکل میں رہتا تھا۔ لیکن پھر زائد پیداوار اور اس کی ملکیت اور اس کی اگلی نسل کو منتقلی وہ سوال تھے جنہوں نے ایک طبقاتی سماج کو جنم دیا اور زائد پیداوار کے ’مالک‘ اس کی رکھوالی کے لئے ’ریاست‘اور اس کی منتقلی کے لئے موجودہ ’خاندانی نظام‘تشکیل پاتا ہے اور اسی نقطے سے ہمیں خواتین کے کردار کی اہمیت ختم ہوتی نظر آتی ہے۔جہاں اس زائدپیداوار کی منتقلی کے لئے مرد کو مختص کیا جانا شروع ہوتا ہے ، اس لئے ایک خاندان کا سربراہ مرد بن جاتا ہے اور اس کی کوئی فطری وجہ نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف یہی اہمیت ہوتی ہے کے اس سے خاندان کی دولت اگلی نسل کو منتقل ہونی ہوتی ہے۔ اور پھر اس طبقاتی سماج کے آغاز سے لیکر آج تک ہمیں خواتین کی سماج میں کم تر حیثیت نظر آتی ہے اور ان کی یہ کم تر حیثیت دولت کی منتقلی کے عمل میں کم تر حیثیت کی وجہ سے ہے۔
اس پس منظر میں اگر پاکستا ن کی موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو اس سابق نو آبادیاتی ملک میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا ایک ملغوبہ موجود ہے۔جس میں غالب نظام سرمایہ داری ہی ہے۔ اس میں سماج کی مختلف معاشی پرتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مسائل بھی مختلف ہیں۔ دیہی علاقوں میں فرسودہ رسومات کے ذریعے جہاں عورتوں کا استحصال کیا جاتا ہے وہاں جدید شہروں میں عورتوں کی مردوں کی نسبت کم اجرت سے ان کی قوت محنت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ جبکہ خاندان جو آج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، از خود خواتین کے لئے ایک قیدخانہ ہے جہاں ان کی پرورش کے دوران ہی ان کی صلاحیتوں کو قتل کرکے‘ ان کو کم ترباور کرا کے‘ بھائیوں کو برتر بنا کے ان کی ذہانت میں غلامی کے بیج بوئے جاتے ہیں۔پھر اس سرمایہ دارانہ نظام میں ظلم ہوتا ہی نہیں بلکہ بکتا بھی ہے۔ یہاں ہر دکھ کی قیمت ہے۔ یہا ں سیلاب بھی بکتے ہیں زلزلے بھی بکتے ہیں، محرومی بھی بکتی ہے اور ظلم بھی۔ن دکھوں کی بیوپارNGOs اور میڈیا جو کہ دکھی مناظر اور داستانوں کی مشہوری کر کے ان کو ختم کرنے کے لئے باہر سے فنڈز کھاتے ہیں۔ ملک میں جب ہم فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کے نام کی فہرست دیکھتے ہیں تویہاں ملکہ موسیقی بیگم روشن آراء، ملکہ ترنم نور جہاں، سندھ کے پسماندہ علاقے سے،سب سے نام ور گلوکارہ بھی ایک عظیم خاتون ہی ہیں عابدہ پروین صاحبہ اور اسی طرح کلاسیکل موسیقی کے شعبے میں خواتین کے نام بھی نظر آتے ہیں۔موسیقی کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی خواتین اہم کردار ادا کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔اس کے باوجود بھی اگریہاں خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے اور کم تر سمجھا جاتا ہے تووہ ملکیت پر مبنی سماج کی دین ہے نہ کہ کوئی فطری قانون!اسی لیے ہمیں استحصال کرنے والے طبقے میں جہاں سرمایہ دار مرد نظر آتے ہیں وہاں سرمایہ دار خواتین بھی دولت کی بنیاد پر استحصال کرتی نظر آتی ہیں،جس کی سب سے بڑی مثال گھروں میں کام کرنے والی خواتین کا مالک خواتین کے ہاتھوں استحصال ہے۔اس استحصال کی بنیاد ’جنس ‘نہیں بلکہ دولت اور طبقاتی غلبہ ہوتا ہے۔ دولت اور وسائل کی نا ہموار اور غیر مساوی تقسیم نہ صرف خواتین کے بلکہ سب مسائل کی بنیاد ہے۔سرمایہ دارانہ نظام جوکہ اس وقت شدید بحران کی لپیٹ میں ہے،ایسی کیفیت میں اس کا استحصال اور بھی بڑھ گیا ہے،سرمایہ دار اپنے بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر ڈال رہے ہیں۔یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں محنت کشوں کے معیار زندگی پر شدید حملے کیے جا رہے ہیں اور مزید کی تیاریاں کی جا رہی ہیں،کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کا یہ بحران کینسر کی طرح مختلف مراحل تو رکھتا ہے لیکن اب یہ نا قابل علاج مرض بن چکا ہے۔
لیکن پھر محنت کش طبقہ ایک زندہ قوت کا نام ہے،جس کی وجہ سے سوئی سے لیکر بڑے بڑے جہاز بن رہے ہیں اور یہ طاقت ور طبقہ اپنے اوپر ہونے والے تمام حملوں کا جواب بھی دے رہا ہے،جس سے یورپ امریکہ میں بڑی بڑی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔جس میں مرد مزدوروں اور طالب علموں کے سنگ سنگ خواتین بھی شامل ہیں اور سڑکوں پر خیمے لگا کر بیٹھی ایک انسان کے طور پر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں،جو ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور جسے ابھی مزید آگے بڑھنا ہے۔دونوں ،مرد و خواتین کا اس میں بھرپور کردار ہے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمیں مشرق وسطی میں نظر آتی ہے جہاں تیونس سے چنگاری بھڑکی اور پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،اس سارے عمل میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح خواتین نے ان تحریکوں میں بھرپور کردار ادا کیااور اپنے ملک کے حاکموں کو بھگانے میں برابر شریک رہیں۔آج پھر تاریخ ایک اہم موڑ مڑتے ہوئے نظر آرہی ہے،جس میں ایک بارپھر عالمی انقلابات کے عہد کا آغاز ہوچکا ہے۔اس میں خواتین کا بھی مردوں کے شانہ بشانہ کلیدی کردار ہے ۔پاکستان کے معاشرے میں بھی مسائل کی شدت کی حدت 99 فیصد کراس کر چکی ہے۔یہاں کسی بھی چنگاری سے کسی بھی پل تحریک کا آغاز ہوسکتا ہے اور جہاں99فیصد کی 1فیصدسے طبقاتی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔سوشلزم کے نظریات سے لیس تنظیم اور محنت کش طبقے کی جڑت سے یہاں وہ سماج قائم ہوگا جس میں منصوبہ بند معیشت کے تحت پیداوار کنٹرولڈ ہوگی۔جس میں تمام وسائل کی برابر تقسیم ہو گی۔جہاں فرسودہ خاندانی نظام کی جکڑ بندی اوراس کے موروثی قوانین کو تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک کر ایک نئے انسانی سماج کی بنیاد رکھی جائے گی۔جس میں خواتین کو ان کی حقیقی آزادی کے معنی سمجھ آئیں گے،اوروہ سماج کی اجتماعی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گی۔

Comments are closed.