اداریہ ورکرنامہ: مزدوروں کی سیاست

عام انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں لیکن محنت کشوں کے مسائل پر گفتگو اور ان کے حل پر بحث کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ حکمران طبقے کی سر توڑ کوشش ہے کہ انتخابات سے پہلے ایسی کسی بھی بحث کو پوری قوت سے کچلا جائے اور ایسے ایشوز کے گرد سیاست کو گھمایا جائے جن کا مزدوروں کی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ حکمران طبقات کی باہمی لڑائی میں اب ان انتخابات کی قلعی بھی کھل چکی ہے۔ ان کے اپنے بیانات کے مطابق گزشتہ تمام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنی مرضی کے نتائج مرتب کیے۔ عمران خان نے ایک حالیہ انٹرویو میں اس حقیقت کو پھر دہرایا کہ 2013ء کے انتخابات میں فوجی افسران نے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے اور عدلیہ کے مقرر کردہ نمائندے بھی اس کاروائی میں ملوث تھے۔ آئندہ انتخابات میں بھی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے زمین تیار کی جا رہی ہے۔ عمران خان اور زرداری مقامی اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے کی گودمیں بیٹھ کر اقتدار تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ نواز شریف اور اس کے اتحادی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی سے لوٹ مار کے سلسلے کو جاری رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں کو پورا یقین ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کی ضرورت ہے یا پھر امریکی سامراج انہیں اقتدار دلانے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ چینی سامراج کے نمودار ہونے کے باعث آئندہ انتخابات میں اس کا اثر و رسوخ بھی بڑے پیمانے پر موجود ہو گا۔ مقامی اسٹیبلشمنٹ کے گماشتے امریکی سامراج کی نظر التفات سے مایوس ہو کر چینی سامراج کو رجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس کی کاسہ لیسی کے ذریعے اقتدار کی ہڈی کے لیے رالیں ٹپکا رہے ہیں۔

اس تمام عمل میں ووٹوں کا حصول، جلسے جلوس، اخباری بیانات، تقریریں اور انٹرویو دینے کا اصل مقصد آقاؤں تک پیغام پہنچانا ہے۔ عوام کے مسائل اور ان کے اکٹھ اقتدار کی اس ہوس زدہ لڑائی میں محض ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ تمام حکمران میڈیا کی طاقت کو بھی لا امتناعی سمجھتے ہیں اور ٹی وی چینلوں کو کروڑوں روپے دے کران سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کی لیڈری کو چار چاند لگا دیں گے۔ چند ہزار کے مجمع کو لاکھوں کا جم غفیر بتانا بھی اسی مکروہ دھندے کا حصہ ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی خبروں کی قیمت اشتہارات سے کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ اسی طرح تجزئیے اور ٹاک شو بھی سیکنڈوں اور منٹوں کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں۔ اس سیاسی کھلواڑ میں عدلیہ اور فوج سمیت تمام ریاستی ادارے بھی برہنہ ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس کی آنیاں جانیاں اس کی سیاست میں عملی شمولیت کا اظہار ہیں اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کی کھوکھلی پارٹیوں کے پلڑے میں وزن ڈال کر انہیں کچھ سانسیں مستعار دینے کی کوشش ہے۔ یہی کچھ فوجی جرنیلوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ تحریک لبیک کے کارکنان کو ہزار ہزار روپے وظیفہ دینے کی ویڈیو نے ’خفیہ‘ طور پر جاری رہنے والی کاروائیوں کو بھی سربازار عیاں کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کا بحران اور نظام کا زوال حکمران طبقے کی تمام گندگی اور غلاظت کو عوام کے سامنے لے آیا ہے۔ آنے والے دنوں میں سامراجی طاقتوں اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی میں مزید شدت آئے گی اور انتخابات کے مطلوبہ نتائج کے حصول کی جنگ مزید خونریز ہوتی چلی جائے گی۔ اس عمل میں پاکستانی ریاست بھی ایک منظم منصوبہ بندی اور گروہ بندی کے ساتھ موجود نہیں بلکہ مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور یہ تمام دھڑے ایک دوسرے کومسلسل شکست دینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور مفاہمت کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ آنے والے عرصے میں ان دھڑوں میں بھی اضافہ ہوگا اور ریاست کی شکست و ریخت کا عمل بھی شدت اختیار کرے گا۔

اس صورتحال میں تمام تر مسائل کا بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالا جاتا رہے گا۔ بجلی کے بحران سے لے کر مہنگائی اور بیروزگاری تک، لاعلاجی سے ناخواندگی تک، دہشت گردی سے فوجی آپریشنوں تک ہر عذاب انہی پر مسلط کیا جاتا رہے گا۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ان تمام تر مظالم کیخلاف آواز بلند کرنے پر بھی مکمل پابندی عائد رہے گی۔ عام انتخابات کے ناٹک میں مزدوروں کے مسائل پر بات کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ حکومت کی اعلان کردہ کم از کم تنخواہ میں محنت کش کیسے گزارہ کر سکتا ہے اور آنے والی حکومت اس میں کتنا اضافہ کرے گی اس پر بحث شجر ممنوعہ ہے۔ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے اور لاکھو ں بیروزگاروں کو روزگار کیسے ملے گا اس پر گفتگو کرنا منع ہے۔ مہنگائی کیسے ختم ہو گی اور نجکاری کے عذاب سے محنت کشوں کو کیسے نجات ملے گی۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا مستقل روزگار، اجرتوں میں اضافہ، یونین سازی کا حق، آٹھ گھنٹے کام کے اوقات کار کی پابندی اور دیگر مسائل کیسے حل ہوں گے اس پر بیان دینا جرم عظیم ہے۔ طلبہ یونین کے انتخابات کب ہوں گے اور فیسوں میں اضافہ کیسے ختم ہوگا۔ دوائیوں کی قیمتوں میں کمی کب ہو گی اور علاج کی قیمت اور معیار کا تعین کیسے ہو گا ان پر بات کرنا حرام ہے۔ مظلوم قومیتوں پرریاستی جبر کا خاتمہ کب ہو گا اور انہیں حقیقی آزادی اور سکھ کا سانس کب ملے گا یہ کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں بتاتی۔

عام انتخابات کے موقع پر جب کروڑوں لوگوں کوووٹ دینے کی ایک بے لذت ورزش کے لیے اکسایا جا تا ہے تو یہ خدشہ موجود ہوتا ہے کہ حقیقی مسائل پر بحث کا آغاز ہو جائے۔ سیاسی افق پر موجود بازاری سیاست سے اکتائے ہوئے لوگ حقیقی مسائل پر گفتگو کا آغاز کریں گے تو ناگزیر طور پر ایک ہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ یہ نظام اور اس کے رکھوالے ان کے دشمن ہیں اور ان کیخلاف کھلی طبقاتی جنگ کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی ایک حقیقی سیاست، مزدوروں کی سیاست کا آغاز ہو سکتا ہے جو نا گزیر طور پر عوامی تحریکوں کو جنم دے گی اور ان حکمرانوں کی سیاست کو اکھاڑ پھینکے گی۔ اس خدشے کو دور کرنے کے لیے عام انتخابات سے پہلے رجعتی قوتوں اور ان کے ایجنڈے کو سیاست پرپوری قوت سے مسلط کیا جائے گا۔ مزدوروں کی سیاست کو کچلنے کے لیے ہر قسم کے رجعتی نظریات کو سیاست کا محور بنایا جائے گا۔ اس کے لیے کسی کے خون سے بھی ہولی کھیلنا پڑے اور کتنے ہی معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنا پڑے اس کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ حکمران طبقے کے اجتماعی مفادات کے تحفظ کے لیے کسی ایک فرد کی بلی چڑھانا بھی کوئی بڑی قیمت نہیں۔ ایسا پہلے بھی کئی دفعہ ہو چکا ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ کھلواڑ زیادہ شدت کے ساتھ کھیلا جائے گا۔ اس ملک میں اقلیتیں اور مظلوم قومیتیں ویسے ہی حکمران طبقے کی تفنن طبع کے لیے قربان ہوتی آئی ہیں۔ سماج کی وسیع پرتوں میں غیر مقبول ہوتے ہوئے رجعتی نظریات کو زندہ رکھنے کی آخری کوششیں ہونا ابھی باقی ہیں۔

لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود مزدوروں کی سیاست کو کچلا نہیں جا سکتا۔ تمام تر حملوں کے باوجود حقیقی مسائل کے گرد تحریکوں کو ابھرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ آنے والا عرصہ وسیع عوامی تحریکوں کے ابھرنے کا دور ہے جو رائج الوقت بد بو دار سیاست کو اس کے اصل مقام، غلاظت کی ٹوکری تک پہنچائے گا۔ یہی تحریکیں اس ملک میں نئی سیاست کا آغاز کریں گی جو سامراجی طاقتوں اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کے گماشتوں کو رد کرتے ہوئے یہاں حقیقی عوامی نمائندوں کو تراش کر سامنے لائیں گی۔ ان تحریکوں میں صرف وہی نظریات مقبولیت حاصل کر سکیں گے جو عوام کے مسائل کا حقیقی حل پیش کر سکیں۔ آج کے اس زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام میں کسی بھی قسم کی اصلاح ممکن نہیں۔ نہ ہی موجود ہ پارلیمنٹ، آئین اور قانون کی حدود میں رہتے ہوئے کوئی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ آنے والی تحریکیں نا گزیر طور پر اس نظام اور ریاست کو چیلنج کرنے کی جانب بڑھیں گی۔ مارکسی نظریات سے لیس ایک انقلابی پارٹی ان تحریکوں میں انقلابی سوشلزم کا پیغام لے جا کر وسیع تر حمایت حاصل کر سکتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے ان مارکسی قوتوں کو خود مضبوطی سے انقلابی بنیادوں پر منظم ہونا ہوگااور اپنے تنظیمی ڈھانچوں کی تعمیر کا عمل تیز کرنا ہو گا۔ اگر ان عوامی تحریکوں کا سنگم ایک مضبوط انقلابی پارٹی سے ہوا تو اس دھرتی پر سوشلسٹ انقلاب کا برپا ہونا یقینی ہے۔

Comments are closed.