2020ء: امیروں کی چاندی، محنت کشوں کی بربادی

|تحریر: مینن پاؤری، ترجمہ: یار یوسفزئی|

کریڈٹ سوِیس کی ایک نئی انکشافاتی رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سال 2020ء کے اندر کروڑ پتی افراد کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے جبکہ دولت کی نابرابری بڑے پیمانے پر شدید ہونے کی طرف گئی ہے، اس کے باوجود کہ سرمایہ داری وینٹی لیٹر پر پڑی ہوئی ہے۔ (صرف سال 2020ء میں) امریکی ریاست کے اندر 17 لاکھ 30 ہزار نئے افراد کروڑ پتی بنے ہیں، جرمنی میں یہ تعداد 6 لاکھ 33 ہزار اور آسٹریلیا میں 3 لاکھ سے زائد ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اگر یہ کروڑ پتیوں کے لیے اچھا سال تھا تو اس کا مطلب یہ ارب پتیوں کے لیے اس سے بھی زیادہ بہتر ثابت ہوا۔ پچھلے 12 مہینوں میں، 650 امریکی ارب پتیوں کی مجموعی دولت میں 1.2 ٹریلین ڈالر اضافہ ہوا ہے۔ جیف بیزوس دنیا کا وہ پہلا شخص بن چکا ہے جو 200 ارب ڈالر سے زائد دولت کا مالک ہے۔

رپورٹ میں گہرے ہوتے سرمایہ دارانہ بحران کے ریگستان کے بیچ و بیچ ہریالی کا نقشہ کھینچا گیا ہے، جس میں درج ہے کہ ”نا موافق معاشی حالات کے تحت گھریلو دولت نے شدید ثابت قدمی دکھائی ہے“۔ در حقیقت، رپورٹ نشاندہی کرتی ہے کہ 2020ء کے دوران گھریلو دولت میں 7.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کروڑ پتیوں کا میگزین، فوربز، خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا: ”ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وباء محض امیر ترین افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ کروڑ پتیوں کی اکثریت کے لیے بھی خوشخبری ثابت ہوئی“۔

مگر کیا ہم 300 سال کے بد ترین بحران اور جی ڈی پی کے دیوہیکل سکڑاؤ سے دوچار نہیں ہوئے ہیں؟ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ محنت کش طبقہ ایک دہائی سے اجرتوں کی کٹوتی، نجکاری اور آسٹیریٹی کا شکار ہے، مگر دیوہیکل معاشی سکڑاؤ کے باوجود ہمارے سماج کی دولت میں ایک سال پہلے کی نسبت بے تحاشا اضافہ ہوا ہے!

قرض، گھروں کی قیمتوں میں اضافہ، اشیاء کی قلت اور روزگار کی مقابلہ بازی سمیت طویل اوقاتِ کار پر مبنی نوکریاں سب معمول کی باتیں بن چکی ہیں، اور مسلسل لاک ڈاؤنز کے باوجود محنت کشوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع نہیں ملتا۔

غریبوں کی غربت میں مزید اضافہ ہوا ہوگا اور پیداوار منہدم ہوئی ہوگی، مگر رپورٹ کے مطابق ان سب کا امیروں کی دولت سے کوئی سروکار نہیں۔ محنت کش طبقے اور اجرتوں پر گزر بسر کرنے والی انسانیت کی اکثریت کے بر عکس، امیروں نے سرمایہ کاری اور بچت کی شکل میں بے تحاشا دولت اکٹھی کی ہوئی ہے۔

جیسا کہ رپورٹ میں درج ہے، ”امیر ترین افراد تمام معاشی سرگرمیوں کے منفی اثرات سے نسبتاً محفوظ رہے ہیں اور، اہم بات یہ کہ، انہوں نے شیئرز کی قیمتوں اور گھروں کی قیمتوں پر کم شرحِ سود سے بھی منافعے کمائے ہیں“۔

مثال کے طور پر، پراپرٹی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے والے معاشی خطرات سے قدرے محفوظ رہتے ہیں۔ امریکی ریاست کے اندر، فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود کم رکھنے کی غرض سے تیزی کے ساتھ بانڈز خریدے، اور گھریلو قرضے کم کرنے کے لیے مداخلت کی۔ امیر ممالک کی ایک مخصوص پرت بچت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، خاص کر زیادہ تنخواہوں والے، اب اس بچت کا ایک حصہ پراپرٹی کی خریداری پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ان عناصر کے باعث دنیا کے اکثر علاقوں میں گھروں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بلاشبہ نئے ’کروڑ پتیوں‘ کی اکثریت محض برائے نام کروڑ پتی ہیں کیونکہ وہ جن گھروں میں رہ رہے ہیں، ان کی قیمت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔

دیگر اثاثے بھی اسی طرز پر چل رہے ہیں، اور زیادہ تر اثاثوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ باالفاظِ دیگر، دولت رکھنے والوں کی دولت میں اس لیے مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ ان کے اثاثوں کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ جن کے پاس وباء سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا، ان کے ہاتھ اب بھی خالی ہیں۔

پہلے سے دولت مند افراد کی گھریلو دولت میں اضافے کی وجہ سماج کے ذرائع پیداوار کی بڑھوتری نہیں ہے۔ امیروں کی اہلیت ہی یہی باقی بچی ہے کہ وہ سٹے بازی کے ذریعے پیسے کما رہے ہیں۔

سٹاک مارکیٹ اور سرمایہ کاری کے غبارے، ریاست اور حقیقی معیشت سے بڑے پیمانے پر لا تعلق ہے، جس کا انحصار کار آمد اشیاء بنانے والی انسانی محنت کے اوپر ہے۔ حکمران طبقہ جب معیشت میں پیسہ پھینکتا ہے تو اس سے بس یہی ہوتا ہے کہ دولت تقسیم ہو جاتی ہے۔ افراطِ زر کے باعث غریبوں کی اجرتوں کی کوئی قدر نہیں رہتی، جبکہ اثاثوں کے مالکان اپنے اثاثوں کی قیمتوں کو مزید بڑھتا ہوا پاتے ہیں۔

جیسا کہ رپورٹ وضاحت کرتی ہے: امیر ترین 10 فیصد افراد عالمی دولت کے 82 فیصد کے مالک ہیں، اور وہ اکیلے 45 فیصد گھریلو اثاثوں کے مالک بھی ہیں۔

جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی، ”سماج کے ایک حصے میں دولت کے ارتکاز کا مطلب یہ ہے کہ اسی وقت سماج کے دوسرے حصے میں اذیتیں، سخت محنت، غلامی، جہالت، ظلم اور اخلاقی پستی پروان چڑھ رہی ہے“۔

سرمایہ دارانہ نظام انہی بنیادوں پر چلتا ہے؛ امیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے، جبکہ اس دولت کو بصورتِ دیگر سماجی ضروریات پورا کرنے اور سماجی بیماریوں کا خاتمہ کرنے کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس کی بجائے، اس کو ان کی حیثیت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؛ جبکہ انسانیت کی اکثریت کو مزید غربت میں دکھیل دیا جاتا ہے۔

امیر افراد محنت کش طبقے کی پیدا کی گئی دولت کا سہارا لے کر بحران کے اثرات سے خود کو محفوظ کر رہے ہیں، جبکہ بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ 2020ء کے دوران 4 کروڑ سے زائد امریکیوں نے خود کو بے روزگار رجسٹر کروایا، جبکہ عالمی سطح پر خواتین محنت کشوں کی 40 فیصد ان شعبوں میں کام کرتی ہیں جسے وباء سے شدید نقصان پہنچا، جیسا کہ ریستوران، پرچون کی دوکانیں اور ہوٹل۔

یہ حیرانگی کی بات نہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگانے کے مطالبے کو مقبولیت ملی ہے۔ البتہ، اس طریقے سے اقلیتی طبقے کا دولت اکٹھا کرنے اور اس پر جوا کھیلنے کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، وہ اپنی دولت سے چمٹے رہنے کے لیے کچھ بھی کر گزر سکتے ہیں، جیسا کہ ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے اثاثے بیرونِ ملک منتقل کرنا۔

سوشلزم کی ضرورت اس سے قبل کبھی اتنی واضح ہوکر سامنے نہیں آئی۔ سرمایہ داری کا تختہ خونخوار حکمران طبقے سمیت الٹنا پڑے گا۔ ایسا ذرائع پیداوار پر قبضہ کرتے ہوئے انہیں محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دے کر کیا جا سکتا ہے، تاکہ سماج کی دولت، جسے محنت کشوں نے پیدا کیا، کو منافعوں کی بجائے جمہوری منصوبہ بند معیشت کے تحت انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ عمل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ انسانیت کی اکثریت، یعنی محنت کش طبقہ، خوشحالی کے ساتھ زندگی بسر کرے۔

Comments are closed.