افغان ثور انقلاب: حاصلات‘ اثرات اور ردِ انقلاب

|تحریر: عدنان خان|

آج کے کارپوریٹ اور بورژوا میڈیا میں افغانستان کو دنیا میں مذہبی بنیاد پرستی، جہاد، طالبان، وارلارڈز اور منشیات کے مرکز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ یہ بربریت افغانستان کے مظلوم عوام کو آج بھی تاراج کررہی ہے لیکن یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا ۔ آج سے اکتالیس سال قبل 1978ء میں ثور انقلاب نے افغانستان اور اس خطے کوہلا کررکھ دیا تھا ۔ اس انقلاب نے نہ صرف افغانستان کے غریب عوام کو ترقی اور خوشحالی کے رستے پر گامزن کیا اور انہیں غلامی سے نجات دلائی بلکہ یہ انقلاب پورے خطے میں ابھرنے والی بغاوتوں کے لیے مشعل راہ بنا ۔ اسی لیے عالمی سامراج کی پشت پناہی میں مذہبی بنیاد پرستی کے رجعتی ردِانقلابی وار کے ذریعے اس انقلاب کو پیچھے کی جانب دھکیل کر افغانی معاشرے کو پتھر کے زمانے میں دھکیلا گیا ۔ افغانستان اور مشرقی وسطیٰ میں ان رجعتی قوتوں کے ابھاراور آج کے صورتحال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ افغان ثور انقلاب کے عروج وزوال کو تاریخی پس منظر میں گہرائی سے سمجھا جائے ۔ 

تاریخی پس منظر 

اپنے سٹریٹجک موقعیت اور محل وقوع کے اعتبار سے افغانستان اس خطے کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ بنیادی اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ جیسا کہ فریڈرک اینگلز نے لکھا تھا: 

’’افغانستان کی جغرافیائی موقعیت اور اس میں بسنے والے لوگوں کا مخصوص کردار اس ملک کو وہ سیاسی اہمیت عطا کرتے ہیں جسے وسطی ایشیا میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ‘‘ ۔ 

افغانستان وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا سے ملاتا ہے اور اسی جغرافیائی موقعیت نے اس ملک کے سیاسی و تاریخی معاملات میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے جو آج تک مسلمہ ہے ۔ بیسویں صدی میں یہ ملک انگریز سامراج اور زار روس کے درمیان بفرزون تھا ۔ انگریز سامراج نے افغانستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں جزوی طور پر ناکام رہے جس کے نتیجے میں انگریز سامراج نے ڈیورنڈ لائن کے خونی خنجر سے ایک ہی ثقافت اور زبان بولنے والی قوم کو تقسیم کرکے افغانستان کے بڑے حصے کو برٹش انڈیا کی عملداری میں شامل کیا ۔ پشتونوں کی اس سامراجی تقسیم کے زخموں کو عالمی سامراج اور اس کی کٹھ پتلی ریاستیں کرید کرید کر کے آج بھی ناسور بنا رہی ہیں؛ خاص طور پر پچھلے چالیس سال سے امریکی سامراج اور پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کی خونی سرحد کو رد انقلاب اور رجعت کے مرکز کے طور پر استعمال کیا ہے ۔

بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں افغانستان کے سامراج مخالف اور آزادی پسند رہنما امیر امان اللہ خان نے افغان معاشرے کو جدید، سیکولر اور صنعتی بنانے کی انتہائی سنجیدہ کوشش کی ۔ امیر امان اللہ خان ترکی کے رہنما مصطفی کمال اتاترک سے شدید متاثر تھے ۔ اس نے افغانستان میں مصطفٰی کمال اتاترک کے طرز پر ریڈیکل اصلاحات متعارف کروائیں ۔ لیکن انگریز سامراج کی مسلسل جارحیت اور بعض مخصوص تاریخی اور معروضی عوامل کی بنا پر وہ ان اصلاحات کو کامیابی سے ہمکنار نہ کرسکے ۔ روس کے بالشویک انقلاب کے عظیم راہنما ٹراٹسکی نے افغانستان کی اس وقت کی صورتحال کا تذکرہ یوں کیا ہے: 

’’ یہاں پر مشرق میں ایک اور قوم ہے جو خاصی توجہ کی متقاضی ہے ۔ یہ افغانستان ہے ۔ وہاں پر ڈرامائی واقعات رونما ہورہے ہیں اور ان واقعات میں انگریز سامراج براہ راست ملوث ہے ۔ افغانستان ایک پسماندہ ملک ہے ۔ آپنے آپ کو یورپنائز کرنے اور اپنی آزادی کو بلند ثقافتی بنیادوں پر استوار کرنے کی جانب افغانستان پہلا قدم اٹھا رہا ہے ۔ افغانستان میں ترقی پسند قوم پرست عناصر اقتدار میں ہیں لیکن انگریز سامراج کابل کے ترقی پسند عناصر کے خلاف ہر اس چیز کو مسلح کررہے ہیں جو نہ صرف اس ملک میں رجعتی ہیں بلکہ اس ملک کے سرحد پر واقع ہندوستان کے حوالے سے بھی رجعتی ہیں ۔ جرمنی میں اپنے احکامات کے ذریعے نہ صرف بورژوازی بلکہ سوشل ڈیموکریٹک اتھارٹیز نے یوم مئی کے تقریبات پر پابندی لگائی ہے ۔ افغانستان اور چین میں ہونے والے واقعات سے لے کر ہر جگہ ظلم و جبر کے پیچھے دوسری انٹرنیشنل کی پارٹیاں ملوث ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ کابل کی ترقی پسند حکومت کے خلاف چڑھائی برطانوی وسائل کی مدد سے میکڈونلڈ کی امن پسند حکومت کی سرپرستی میں ہورہی ہے ۔ ‘‘

افغان بورژوازی نے تاخیر کے ساتھ تاریخ کے میدان میں قدم رکھا اور اسی نامیاتی کمزوری کی وجہ سے کوئی ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہی۔

انگریز سامراج کی جارحیت کے علاوہ امیر امان اللہ خان کی جدیدیت کے راستے میں ایک بڑی معروضی رکاوٹ افغانستان کے اندر قومی سرمایہ دار طبقے کامعاشی طور پر انتہائی لاغر، نحیف اور تکنیکی طور پر پسماندہ کردار تھا جس کی وجہ سے وہ سامراج مخالف لبرل جمہوری انقلاب کا فریضہ اس طرح آزادانہ طور پر ادا نہیں کر سکتے تھے جس طرح یورپی سرمایہ دار طبقے نے 18 ویں اور 19 ویں صدی میں جاگیرداری کے خلاف سرمایہ دارانہ انقلابات کی قیادت کرتے ہوئے جدید صنعتی اور قومی سیکولر ریاستیں قائم کی تھیں ۔ 

افغانستان اور نوآبادیاتی انقلابات 

دوسری عالمی جنگ کے بعد افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں سامراجی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کیلئے بہت بڑی خلقت بغاوت کے میدان میں اتر آئی ۔ انسانی تاریخ میں مظلوم انسانوں کی اپنی آزادی کے لیے یہ بہت بڑی بغاوت تھی ۔ چین، کیوبا، ویتنام، مصر، موزمبیق، افغانستان، یمن، چلی اور سابقہ نوآبادیات کے دوسرے ممالک میں سامراجی تسلط، جاگیرداری اور سرمایہ داری کو انقلابی بغاوتوں کے ذریعے اکھاڑ پھینک کر اس کی جگہ منصوبہ بند معیشتیں قائم کی گئیں ۔ ان ممالک میں زیادہ تر انقلابات کو فوجی بغاوتوں کے ذریعے لایا گیا لیکن سابقہ نوآبادیات کے ان ممالک میں جو ریاستی اور سیاسی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا وہ نہ تو یورپ میں 17ویں اور 18ویں صدی کے دوران تشکیل پانے والے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے طرز پر تھا اور نہ ہی روس کے اندر 1917ء میں بالشویک پارٹی کی قیادت میں بننے والی مزدور ریاست کے ساتھ اس کی کوئی مشابہت تھی ۔ لہٰذا ان ممالک میں ریاستی اور سیاسی اقتدار کے حوالے سے جس ماڈل کو اپنایا گیا وہ سٹالن کی قیادت میں زوال پذیر ہونیوالا روسی ماڈل تھا جس میں معیشت اور سیاست کے اندر محنت کش طبقہ کی فعال شمولیت کے بجائے آمرانہ بیوروکریسی کے ذریعے معاشرے کے سارے معاملات کو چلایا جاتا ہے ۔ سٹالنزم کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ سوشلزم کو ایک ملک کے اندر اور قومی بنیادوں پر تعمیر کیا جاسکتا ہے جو مارکسزم کی بنیاد یعنی پرولتاری بین الاقوامیت سے مکمل طور پر متصادم تھا ۔ اسی محدود قومی تناظر کی بنیاد پر بہت سے نوآبادیاتی انقلابات برپا ہوئے جو بعد میں اپنے داخلی تضادات کی وجہ سے ناگزیر طور پر منہدم بھی ہوگئے ۔ افغانستان میں بھی اگرچہ فوجی بغاوت کے ذریعے انقلاب کیا گیا لیکن دیگر کچھ ممالک کے برعکس اس فوجی بغاوت کے پیچھے ایک سیاسی پارٹی موجود تھی جو مزدوروں ، کسانوں اور نوجوانوں میں بھی کام کرتی تھی ۔

خلق پارٹی کی تشکیل اور تقسیم 

خلق پارٹی کا نشان

یکم جنوری 1965ء میں نور محمد ترکئی کے گھر میں افغانستان خلق ڈیموکریٹک پارٹی(PDPA) کی بنیاد رکھی گئی ۔ پارٹی کے تاسیسی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نور محمد ترکئی نے پارٹی کے مقاصد اور اصولوں پر بات کی ۔

’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری جدوجہد ظالم طبقات کے خلاف مظلوم طبقات کی نجات کی جدوجہد ہے جس کی بنیاد پر ہم کچلے ہوئے طبقات کے مفاد میں ایسا معاشرہ تخلیق کریں گے جہاں پر فرد کے اوپر فرد کے استحصال کا خاتمہ ہو‘‘ ۔ (پارٹی کی پہلی کانگریس سےخطاب) 

لیکن پہلی کانگریس کے دو سال بعد 1967ء میں بادشاہت کے سوال پر پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ اس تقسیم کے نتیجے میں دو بڑے گروپ ’’خلق‘‘ اور ’’پرچم‘‘ کے نام سے سامنے آئے جن کے نام اپنے اپنے نظریاتی رسالوں سے لئے گئے تھے ۔ دونوں گروپ عمومی طور پر سوویت یونین کی نظریاتی لائن کی پیروی کرتے تھے تاہم پرچم گروپ کا نظریاتی رجحان قوم پرستی کی طرف تھا اور اس کی سیاسی و سماجی حمایت زیادہ تر شہری مڈل کلاس کے اندر تھی اور ان کا سیاسی کام زیادہ تر فوج کے اندر تھا ۔ جبکہ اس کے برعکس خلق گروپ کا نظریاتی موَقف طبقاتی تھا اور ان کی حمایت شہری محنت کشوں اور دیہی غریبوں کے اندر تھی ۔ 

یہاں پر بائیں بازو کے حلقوں میں یہ بحث مشہور رہی ہے کہ خلق پارٹی کی کوئی عوامی حمایت نہیں تھی ۔ لیکن افغان انقلاب کے سنجیدہ تاریخ دان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ۔ ان کا کہناہے کہ خلق پارٹی کی حمایت شہروں کے علاوہ دیہی علاقوں کے اندر بھی موجود تھی ۔ اس کے علاوہ یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ خلق پارٹی نے ڈیورنڈ لائن کے اس پار پاکستان کے پشتون علاقوں میں بھی سٹڈی سرکلز کا انعقاد کیا تھا ۔ 

انقلاب کا آغاز 

1973ء میں سردار داؤد نے پرچم گروپ کے حمایت یافتہ فوجی افسران کی مدد سے کُو کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ سردار داؤد نے آتے ہی بادشاہت کے خاتمہ کا اعلان کردیا ۔ گو کہ سردار داؤد کا تعلق بھی شاہی خاندان سے تھا اور جس بادشاہ کے خلاف سردار داؤد نے کُو کیا تھا وہ اس کا قریبی رشتہ دار تھا ۔ سردار داؤد کے سوویت یونین سے بھی قریبی تعلقات تھے اور اس پورے عرصے میں سوویت یونین داؤد کی حمایت کرتا رہا ۔ داوَد کے اقتدار کے پہلے سالوں میں بائیں بازو کو اپنے سیاسی کام کی مکمل آزادی تھی ۔ لیکن 1977ء میں خلق پارٹی کے دونوں دھڑے آپس میں ایک ہوگئے تو دوسری جانب خلق پارٹی کا فوج کے اندر تیزی سے بڑھتا ہوا اثر داوَد کیلئے خطرہ بن گیا ۔ 18 اپریل 1978ء کو کابل میں انتہائی افسوناک واقعہ پیش آیا ۔ اسی دن ٹریڈ یونینسٹ اور پرچم دھڑے کے مرکزی رہنما میر اکبر خیبر کو قتل کیا گیا ۔ میر اکبر خیبر کے بہیمانہ قتل نے نوجوانوں اور پارٹی کارکنوں میں بہت زیادہ اشتعال پیدا کیا ۔ اس کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ۔ میر اکبر خیبر کے قتل کے بعد خلق پارٹی اور داؤد کی لڑائی تیز ہوتے ہوئے زندگی اور موت کی شکل اختیار کر گئی ۔ میر اکبر خیبر کے قتل کے دس دن بعد 28 اپریل 1978 ء کو خلق دھڑے کے حمایت یافتہ فوجی افسران نے بغاوت کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا ۔

یہاں پر یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ خلق پارٹی کے کسی بھی دھڑے نے فوری طور پر انقلاب اور اقتدار پر قبضے کا تناظر نہیں دیا تھا ۔ سوویت یونین کا بھی ایسا کوئی پروگرام نہیں تھا ۔ بلکہ وہ تو انقلاب کے دن تک داوَد کی حمایت کررہے تھے ۔ جب خلق پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو اس نے سوویت بیوروکریسی کو حیرت میں ڈال دیا ۔ ثور انقلاب کو درحقیقت داوَد حکومت نے خلق پارٹی پر مسلط کیا تھا ۔ انقلاب خلق پارٹی کے لیےاپنے وجود کی بقا کا سوال بن گیا تھا ۔ اکبر خیبر کے قتل کے بعد داؤد حکومت نے خلق پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی تھی ۔ اس کی اگلی صبح پارٹی سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران نے بغاوت شروع کی ۔ اس فوجی بغاوت میں لگ بھگ 250 ٹینک اور مسلح گاڑیوں نے حصہ لیا ۔ شام کے 5 بجکر 30 منٹ تک آرمی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا ۔ پارٹی کے اسیر رہنماؤں کو رہا کیا گیا ۔ کابل ریڈیو، بگرام اور کابل ایئرپورٹ کو آرمی نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔ اسی شام کو ریڈیو کابل سے انقلاب کی کامیابی کا اعلان کیا گیا ۔

ثور انقلاب میں کسی مسلح عوامی سرکشی کے بنا ایک فوجی کو کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا گیا

افغان ثور انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونیوالی حکومت روس کے اندر 1917 ء میں ہونیوالے بالشویک انقلاب سے مختلف تھی ۔ روس کے اندر محنت کشوں اور کسانوں نےعوامی تحریک کے ذریعے بالشویک پارٹی کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا ۔ جبکہ افغانستان میں بالشویک انقلاب کے برعکس خلق پارٹی سے جڑے ریڈیکل فوجی افسران نے اوپر سے بغاوت کرکے اقتدار پر قبضہ کرکے خلق پارٹی کے حوالے کیا تھا ۔ اس طرح کے مظہر کے لیے برطانیہ کے مارکسی رہنما اور نظریہ دان ٹیڈ گرانٹ نے مزدور بونا پارٹسٹ کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ مزدور بونا پارٹسٹ اس ریاست کو کہتے ہیں جس میں جاگیرداری اور سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر پوری معیشت کو نیشنلائز کیا جاتا ہے لیکن ریاست کے اقتدار پر محنت کش طبقہ کے بجائے ایک پارٹی کی آمریت قبضہ کر لیتی ہے ۔ افغانستان میں ثور انقلاب کی فوجی بغاوت کو ٹیڈگرانٹ نے کچھ یوں بیان کیا ہے:

’’یہ بغاوت داؤد حکومت کی طرف سے تمام اپوزیشن کو ختم کرنے کے خلاف ردعمل ہے ۔ داؤد کا اقتدار ایک پارٹی پر مشتمل جاگیردارانہ بیوروکریٹک اقتدار تھا جس میں قلیل تعداد پر مشتمل محنت کش طبقے کی کوئی ٹریڈ یونین تنظیم نہیں تھی ۔ اگر افغان انقلاب پاپولر عوامی تحریک کی بنیاد پر صحت مند بنیادوں پر رونما ہوتا تو شاید انقلاب کا کردار مختلف ہوتا ۔

اپریل 1978ء کی بغاوت فوجی افسران، دانشوروں اور شہروں میں رہنے والی پروفیشنل مڈل کلاس کی حمایت اور شمولیت سے وقوع پذیر ہوئی ۔ یہ منظم بغاوت سب سے پہلے فوجی افسران کی طرف سے اپنے خاندان اور اپنے آپ کو بچانے کا دفاعی اقدام تھا ۔ انہوں نے یہ بغاوت اپنے آپ کو بچانے کے نقطہَ نظر سے کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے جذبات اور نظریات بھی اس میں موجود تھے‘‘ ۔ 

اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد خلق پارٹی کا سامراج اور افغانستان کے رجعتی جاگیردار طبقات سے ٹکراوَ ناگزیر تھا ۔ اس لیے انہیں شہروں میں رہنے والے قلیل محنت کش طبقے اور دیہاتوں میں رہنے والے اکثریتی کسان طبقے کی حمایت کی شدید ضرورت تھی ۔ خلق پارٹی کی نظر میں سٹالنسٹ سوویت یونین کا ماڈل بہترین ماڈل تھا جہاں پر معیشت تو منصوبہ بند تھی لیکن سیاسی اقتدار ایک پارٹی پر مشتمل آمریت کے پاس تھا ۔ 

افغانستان کی نجات کی جدوجہد 

خلق پارٹی نے جس وقت اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت افغانستان کو شدید مشکلات کا سامنا تھا ۔ افغانستان کے سماجی مسائل انتہائی گہرے اور وسیع تھے ۔ انقلاب کے وقت افغانستان ایک انتہائی پسماندہ ملک تھا ۔ انقلاب کے وقت ملک کی آبادی ایک کروڑ اکیاون لاکھ تھی جس میں صرف چودہ فیصد آبادی شہروں میں رہتی تھی ۔ 15 لاکھ آبادی خانہ بدوشوں پر مشتمل تھی ۔ 95 فیصد آبادی ناخواندہ تھی ۔ ساحل سمندر سے کٹا ہوا ملک جس کے 16 کروڑ ایکڑ رقبے میں سے صرف 12 فیصد زمین قابل کاشت تھی ۔ اس 12 فیصد قابل کاشت زمین میں بھی 60 فیصد زمین جاگیرداری کے فرسودہ ڈھانچوں اور پانی کی قلت کے وجہ سے کاشت سے محروم رہتی ۔ سامراج اور جاگیردار طبقات کے گٹھ جوڑ پر مشتمل یہ وہ جابرانہ ڈھانچہ تھا جو افغانستان کی سماجی ترقی کے پاؤں کی زنجیریں بن چکا تھا ۔ 

خلق پارٹی کے اندازوں کے مطابق افغانستان کی قابل کاشت زمین کا 45 فیصد آبادی کے پانچ فیصد خوانین اور جاگیرداروں کے پاس تھا ۔ افغانستان کا اکثریتی کسان طبقہ بڑے بڑے جاگیرداروں کے قرضوں میں جکڑا انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا ۔ فزیکل انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ 1978ء تک افغانستان کے کسی بھی دیہات میں بجلی کی سہولت نہیں تھی ۔ تعلیم، صحت، کمیونیکیشن اور دوسرا سماجی انفراسٹرکچر نہ ہونے کے برابر تھا ۔ 

افغانستان کی صنعت بھی بہت کمزور تھی اور کل جی ڈی پی میں صنعت کا حصہ 17 فیصد تھا جو کہ صرف 10 سے 15 فیصد صارفین کی ضروریات کو پورا کرتا تھا ۔ صنعتی محنت کشوں کی تعداد 40 سے 50 ہزار پر مشتمل تھی جوکہ 3 سے 4 شہروں میں موجود تھے جس میں سب سے بڑا صنعتی شہر کابل تھا ۔ صنعتی مزدوروں کینصف سے زیادہ تعداد ایسی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے جہاں مزدوروں کی تعداد 1000 سے زیادہ تھی ۔ اگرچہ ٹریڈ یونین پر پابندی عائد تھی لیکن 1968-69ء کے ہڑتالوں کے دوران تقریباً تمام بڑی فیکٹریوں میں ہڑتالیں ہوئی جس سے مزدور طبقے کے انقلابی کردار کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے ۔ 

انتہائی پسماندگی کے باعث نئی حکومت کو بے تحاشا مشکلات کا سامنا تھا مگر اس سب کے باوجود انہوں نے کئی ریڈیکل اصلاھات کیں

اتنے کٹھن حالات کے باوجود خلق پارٹی نے اقتدار لینے کے ساتھ ہی انتہائی مخلصانہ اورجراَت مندانہ انداز میں افغانستان کی قسمت بدلنے کی جدوجہد شروع کی ۔ اسی سلسلے میں خلق پارٹی نے بہت سی ریڈیکل اصلاحات کو متعارف کرایا ۔ اس سلسلے کا اہم اقدام تمام صنعت کی نیشنلائزیشن تھی جس کے انتہائی بہترین نتاءج نکلے ۔ مثلاً 1978 ء میں پروسیسنگ اور مائننگ کا قومی آمدنی میں حصہ تین فیصد تھا لیکن 1983 ء میں یہ 10 فیصد پر پہنچ گیا ۔ اس طرح ایک اور اہم اقدام غریب کسانوں کے قرضوں کو معاف کیا گیا اور صدیوں سے جابر جاگیرداروں کے سودی قرضوں میں جکڑے کسانوں پر بہت بڑے بوجھ کا خاتمہ کیا گیا ۔ اسی طرح عورتوں کی خریدوفروخت پر پابندی لگائی گئی ۔ اجتماعی کاشت کاری کو متعارف کرایا گیا ۔ زمین کی ملکیت کی حد مقرر کی گئی ۔ سماجی اور معاشی حوالے سے یہ انتہائی اہم اقدامات تھے لیکن اس سے بھی بڑھ کر زرعی زمینوں کی غریب کسانوں میں تقسیم کی گئی جوپیداوار میں اضافہ کے حوالے سے بھی اہمیت کی حامل تھی ۔ اقتدار کے پہلے سال تقریباً 8 لاکھ 22 ہزار ایکڑ زمین کو ایک لاکھ بتیس ہزار خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ۔ پانی کی تقسیم انقلاب سے پہلے ایک فرد یا خاندان کی ملکیت تھی جس کو ریاست نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔ اسی طرح ناخواندگی کو ختم کرنے کے حوالے سے بہت سی اصلاحات کی گئیں جس میں ایک اہم اقدام پرنٹنگ کی نیشنلائزیشن تھی ۔ یہ اقدام تعلیمی اور تربیتی مواد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ چھوٹی اور علاقائی زبانوں میں تعلیمی لٹریچر کے حوالے سے بھی اہم تھا ۔ خواتین کو آئینی برابری کے ساتھ ساتھ تنخواہ سمیت زچگی کی چھٹیاں بھی متعارف ہوئیں جس کی اس پورے خطے میں مثال نہیں ملتی ۔ 

انقلاب ثور کے بعد خواتین کی آزادی کے حوالے سے کئی اہم اصلاحات کی گئیں اور ان کو مساوی حقوق دییے گئے

منصوبہ بند معیشت کے اثرات کے مختلف شعبوں پر جلد ہی نمودار ہونے لگے مثلاً 1983ء تک ایک سو نئی صنعتوں کو قائم کیا گیا ۔ اس طرح صحت کے شعبے میں ہسپتالوں کے اندر مریضوں کےلئے بیڈز کی گنجائش میں 84 فیصد اضافہ کیا گیا ۔ اسی طرح 45 فیصد نئے ڈاکٹرز کا اضافہ کیا گیا ۔ 

انقلاب کی مشکلات 

تمام تر اخلاص اور جراَت کے باوجود افغان ثور انقلاب کی اپنی مشکلات اور داخلی کمزوریاں بھی تھیں ۔ معروضی طور پر افغان انقلاب کی سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ افغانستان معاشی اور سماجی طور پر انتہائی پسماندہ ملک تھا جس کی وجہ سے افغانستان کے اندر انتہائی قلیل تعداد پر مشتمل محنت کش طبقے نے انقلاب کے اندر آزادانہ سیاسی کردار ادا نہیں کیا جو کہ کسی بھی کلاسیکل سوشلسٹ انقلاب کے لئے بنیادی شرط ہے ۔ دوسری طرف عالمی انقلاب کی غیر موجودگی میں افغان انقلاب کو تنہائی کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے انقلاب کو شدید مشکلات کا سامنا تھا ۔ تیسری بڑی خامی اور کمزوری خلق پارٹی کی تنظیمی اور نظریاتی تھی ۔ خلق پارٹی ایک یکجا لیننسٹ پارٹی نہیں تھی ۔ اقتدار کے فوراً بعد پارٹی کے اندر دھڑے بندیاں شروع ہوگئیں سوویت یونین کی بیوروکریٹک مداخلت نے دھڑے بندیوں کی کشمکش کو اور بھی شدید کردیا ۔ درحقیقت سوویت بیوروکریسی نے دھڑے بندیوں کی کشمکش میں جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی رجعتی کردار ادا کیا ۔ سوویت یونین نے خلق دھڑے کے خلاف پرچم دھڑے کی حمایت کی جبکہ خلق دھڑے نے سوویت یونین کی مداخلت کی مخالفت کی تھی اور ان کو اس کے خطرناک نتائج سے خبردار بھی کیا تھا ۔ دسمبر 1979 ء میں سوویت یونین نے فوجی مداخلت کرتے ہوئے افغانستان کے اندر اپنی فوجیں داخل کر دیں ۔ پرچم دھڑے کو ٹینکوں پر بٹھا کر اقتدار میں لایا گیا ۔ پرچم نے اقتدار میں آتے ہی خلق دھڑے کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف شدید کریک ڈاوَن شروع کیا ۔ جس کی وجہ سے پارٹی کی سیاست اور ریاست پر گرفت کمزور ہو گئی ۔

ردِانقلاب 

سرمایہ داری ایک کُل ہے جو عالمی سطح پر منسلک ہے، اس لیے کسی بھی ملک میں اگر سرمایہ دارانہ نظام کو ختم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے تو سرمایے کے ناخدا اس ملک میں سرمایہ داری کو بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں ۔ افغانستان میں بھی جاگیرداری اور سرمایہ داری کو بچانے کےلئے عالمی سامراج اور پوری دنیا میں اس کے حواریوں نے افغان انقلاب کو ناکام کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر ردِانقلاب کا آغاز کیا ۔ انقلاب کا پہلا سال نسبتاً پرامن رہا ۔

امریکی سامراج اور اس کے گماشتوں سعودی عرب اور پاکستان نے افغان جہاد کے نام پر رد انقلابی قوتوں کی خوب آبیاری کی۔ انہیں ’’مجاہدینِ آزادی‘‘ سے بعد ازاں طالبان کا عفریت ابھرا۔

اس انقلاب کے خلاف امریکی سامراج کی مداخلت کے حوالے سے ایک مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد مداخلت شروع کی تھی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی سامراج نے سوویت یونین کی فوجی مداخلت سے بہت پہلے مداخلت شروع کر دی تھی ۔ امریکی مداخلت کے وقت امریکہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سوویت یونین افغانستان کے اندر فوجی مداخلت کرے گا ۔ سوویت یونین کی فوجی مداخلت سے 9 مہینے پہلے سی آئی اے نے مارچ 1979ء کو امریکی صدر جمی کارٹر کو کلاسیفائید تار بھیجا جس میں ثور انقلاب کے خلاف ردِانقلابی آپریشن کو منظم کرنے کی سفارش کی گئی تھی ۔ امریکی سامراج نے سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ مل کر ردِانقلاب کی سٹریٹجی بنائی ۔ ڈالر اور مغربی لبرلزم نے سعودی عرب کی وہابیت اور پاکستان کے سفاک آمر کے ساتھ غیر مقدس اتحاد کے ذریعے افغانستان کے نوخیز انقلاب کے خلاف خونی ردانقلاب کو تیز کردیا ۔ جمی کارٹر انتظامیہ نے سال 1979ء کی گرمیوں میں ثور انقلاب کے خلاف رجعتی اور مذہبی بنیاد پرست قوتوں کو منظم کرنے کے لیے سی آئی اے کو پانچ لاکھ ڈالرز کی منظوری دی ۔ وقت کے ساتھ دنیا کے دیگر سرمایہ دار ممالک نے بھی ثور انقلاب کے خلاف مذہبی بنیاد پرستی کو مسلح کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ۔ آج کل مغربی میڈیا میں مذہبی بنیاد پرستی کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ سامراجیوں کا بنیاد پرستی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی مغربی سامراج کی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے ۔ 

ردِانقلاب کی بربریت اور اس کے خلاف جدوجہد 

1989ء میں سوویت یونین کے انخلاء کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت نے ردِ انقلاب اور وحشی مجاہدین سے مذاکرات کی خاطر افغان ثور انقلاب کے زیادہ تر ریڈیکل اصلاحات کو آہستہ آہستہ ختم کردیا ۔ نجیب کی یہ ایک تاریخی غلطی تھی کہ وہ عوام د شمن قوتوں کے ساتھ نام نہاد مصالحت کے ذریعے امن لانا چاہتاتھا ۔ اسی کمزوری کی بنیاد پر اسے 1992ء میں اقتدار سے استعفیٰ دینا پڑا جس کے بعد کابل پر وحشی اور درندہ صفت مجاہدین نے قبضہ کر کے افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ۔ ہر کلومیٹر پرالگ ریاست بنائی گیا اور پورے افغانستان میں ظالمانہ وارلارڈز کا جبر، وحشت اور بربریت قائم رہی ۔ بربادی کے اس گھناوَنے عمل میں سامراج اور پاکستان کے ریاستی اداروں نے 1996ء میں طالبان کے نام سے ایک اور رجعتی اور ردِ انقلابی قوت کو منظم کرکے پورے افغانستان پر قبضہ کر وایا ۔ رجعت کے ان مسلح دستوں نے کابل کے اندر داخل ہوتے ہی اقوام متحدہ کے دفتر سے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ اور اس کے بھائی کو نکال کر انتہائی بےدردی سے قتل کیا اور سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی لاشوں کو کابل کے آریانہ چوک پر لٹکایا گیا ۔ اس عمل نے وحشت اور بربریت کی ایک نئی مثال قائم کی ۔ عالمی سامراج اور ان کی کٹھ پتلی ریاستوں نے مذہبی بنیادپرست پراکسیوں کے ذریعے اس پورے خطے کو آگ اور خون میں دھکیل دیا ۔ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو عام کردیا گیا ۔ لاکھوں معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا ۔ ایک پوری نسل کو ہجرت پر مجبور کیا گیا اور پورے افغان معاشرے کے تانے بانے کو بکھیر دیا گیا ۔

تاریخ کی ستم ظریفی دیکھےں کہ عالمی سامراج نے افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں انقلابات اور تحریکوں کو کچلنے کے لیے بنیادپرستی کے جس دیوہیکل قوت کو تخلیق کیا تھا وہی ان کے گلے کا طوق بن گیا ۔ 9 ستمبر 2001ء میں سامراج کے ان پالے ہوئے بنیاد پرستوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا جس کے ردعمل میں امریکہ کی سربراہی میں نیٹو نے افغانستان پر لشکر کشی کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد سامراجی جنگ کا اعلان کر دیا ۔ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کی پاکستان کے لبرل اور پشتون قوم پرستوں نے بڑی شدت اور والہانہ جذبے کے ساتھ حمایت کی ۔ ان حلقوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ امریکہ افغانستان کو ایک مضبوط ریاست بنائے گا اور پاکستان پر دباوَ ڈال کر یہاں سے بھی بنیادپرستی کا خاتمہ کرے گا ۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ پہلے المیے کی شکل میں دوسری بار مسخرے کی شکل میں ۔ یہی کچھ ہ میں یہاں بھی نظر آیا سوویت یونین کی زوال پذیر بیوروکریٹک ریاست کی مداخلت کو خوش آمدید کرنا اگر نظریاتی دیوالیہ پن یا ایک تاریخی المیے کی شکل تھی تو امریکہ کو نجات دہندہ تسلیم کرنا اوران سے افغانستان کا امن اور استحکام منسلک کرنا تاریخ کا مضحکہ ہے ۔ امریکہ اور مغربی دنیا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں اپنے اپنے ملکوں کے اندر بھی عوام کے جمہوری حقوق پر شدید حملےکیے ۔ گزشتہ دو دہائیوں پر محیط دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ کی اگر بیلنس شیٹ نکالی جائے تو یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑکر افغانستان میں مکمل طور پر ناکام ہوچکاہے ۔ اربوں ڈالر خرچ کر کے وہ افغانستان میں امن و استحکام نہیں لاسکا بلکہ افغانستان کے ساتھ ساتھ پورے خطے کو آج عدم استحکام سے دو چار کر دیا ہے ۔ 

سامراج کی گماشتہ ریاست پاکستان نے بھی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے سابقہ فاٹا اور پشتونخواہ میں بد ترین فوجی آپریشن کرتے ہوئے امریکہ سے خوب ڈالر کمائے ۔ ان فوجی آپریشنوں میں پورے علاقے کو قتل گاہ میں تبدیل کیا گیا ۔ لیکن ساتھ ساتھ اپنی بنیاد پرست پراکسیز کا تحفظ بھی کرتے رہے اور افغانستان میں سٹرٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کے تحت ان کی ترسیل بھی شدت سے جاری رہی ۔ 

افغانستان میں امریکہ کی ناکامی و شکست کی وجہ یہ نہیں کہ طالبان بہت طاقتورہیں اور طالبان نے امریکہ کو شکست دی ہے بلکہ امریکہ کی ناکامی کی بنیادیں آج کے شدت اختیار کرجانے والے عالمی معاشی بحران میں ہیں جس کی وجہ سے امریکہ کی عالمی سیاست پر گرفت کمزور ہورہی ہے ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی معاشی برتری کی بنیاد پر امریکہ نے عالمی سیاست پر قابض ہونے کیلئے پوری دنیا میں جیو پولیٹیکل اتحادوں ، معاشی و مالیاتی اداروں کے ذریعے جو ورلڈ آرڈر تشکیل دیا تھا وہی آرڈر 2008ء کے معاشی بحران کے بعد ٹوٹ پھوٹ کر بکھر رہا ہے ۔ 2008ء کے سرمایہ داری کے معاشی بحران کے ساتھ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں ۔ بحران، عوامی تحریکوں اور انقلابات کا ایک ایسا عہد جس میں امریکہ کے سامراجی کردار کوزوال کا سامنا ہے ۔ امریکہ کی پرانی کٹھ پتلی ریاستوں کا اپنے آقا کے مفادات کے ساتھ تصادم بڑھ رہاہے ۔ اس ٹوٹتے ہوئے ورلڈ آرڈر اور بدلتی ہوئی عالمی سیاست میں امریکہ کی کمزوری سے ایک خلا جنم لے رہا ہے جس کو نئی سامراجی طاقتیں روس اور چین پر کر نے کی کوشش کر ہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور پاکستان کی ناکامی اور کمزوری کے نتیجے میں روس،ایران،قطر اور چین کی مداخلت بڑھ گئی ہے ۔ ان قوتوں کی مداخلت نے افغانستان کو پہلے سے زیادہ پیچیدہ گریٹ گیم کا میدان بنایا ہواہے ۔

ہم مارکسسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ افغان ثور انقلاب آج بھی اس خطے کے مظلوم عوام کیلئے سامراج، بنیادپرستی اور سرمایہ داری کے خلاف جاری جدوجہد میں ایک اہم تاریخی حیثیت رکھتاہے ۔ آج کی نوجوان نسل کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ثور انقلاب سے سنجیدہ اسباق لیتے ہوئے منظم بنیادوں پر مارکسی انقلابی نظریات اور انقلابی حکمت عملی سے لیس بنیادوں پر جدوجہد کریں ۔ پچھلے چالیس سال کی بربادیوں کا سبق یہی ہے کہ افغانستان اور اس کے عوام کو نہ سامراج کی پشت پناہی میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے خوشنما فریب کے تحت لبرلزم کے ڈھانچوں میں امن و آسودگی میسر آسکتی ہے اور نہ ہی مذہبی بنیاد پرستی کے رجعتی اور عوام دشمن نظریات کی بنیاد پر افغانستان کی آزادی و خوشحالی ممکن ہے ۔ افغان عوام کی ان بربادیوں سے نجات ایران،ہندوستان،پاکستان اور چین کے عوام کی طبقاتی و انقلابی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے ۔ اس خطے میں کامیاب انقلابی جدوجہد ہی افغان عوام کو ان بربادیوں سے چھٹکارا دلاسکتی ہے ۔

Comments are closed.