سوال ۔ سرمایہ دارانہ ارتکاز کا تاریخی رجحان کیا ہے؟

جواب۔ پیداکاروں کی بے دخلی بے رحمانہ اور تباہ کن غنڈہ گردی کے ذریعے سرانجام دی جاتی ہے اور یہ جذباتی محرکات انتہائی بدنام ‘غلیظ‘گھٹیااور قابل نفرت کمینگی پر مبنی ہوتے ہیں۔ دہقان اور دستکار کی خود کمائی ہوئی نجی ملکیت کی بنیاد کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان کی خودمختاری اور انفرادی محنت کے حالات کے ملاپ پر قائم ہوتی ہے۔ اس کی جگہ سرمایہ داربہت سے محنت کشوں کا استحصال کرتا ہے۔ یہ بے دخلی بذات خود سرمایہ دارانہ پیداوار کے داخلی قانون سے وقوع پذیر ہوتی ہے‘ایک سرمایہ دار ہمیشہ بہت سوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔ اس مرکزیت یا مٹھی بھر سرمایہ داروں کے ہاتھوں بہت سے سرمایہ داروں کی بے دخلی کے ساتھ ساتھ عملی محنت کی امداد باہمی پرمبنی شکل ‘سائنس کا شعور‘ تکنیکی استعمال ‘ زمین کی منظم کاشت‘ آلات محنت کی ایسے حالات میں تبدیلی جو صرف مشترکہ طورپر استعمال ہو سکتے ہوں’تمام ذرائع پیداوار کو مشترکہ سماجی محنت کے ذرائع کے طورپر استعمال کر کے باکفایت بنانے‘تمام اقوام کو عالمی منڈی کے جال میں گرفتار کرنے اور اس کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کو بین الاقوامی کردار عطا کرنے کا کام بھی روزافزوں پیمانے پر فروغ پاتا ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی مسلسل کم ہوتی ہوئی تعداد کے پہلو بہ پہلو ‘جو تبدیلی کے اس عمل میں تمام مراعات پر غاصبانہ قبضہ اور اجارہ داری قائم کر لیتی ہے‘وسیع پیمانے پر اذیت‘جبر ‘ غلامی‘تذلیل اور استحصال بڑھتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے ‘وہ متحداور منظم ہوتا ہے جس کی وجہ سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کا اپنا میکانزم ہے۔ سرمائے کی اجارہ داری جو اس طریقہ پیداوار کے ساتھ ساتھ اور اس کے تحت فروغ پائی اب اس کے راستے کی دیوار بن چکی ہے۔ ذرائع پیداوار کی مرکزیت اور محنت کا سماجی کردار بالا آخر ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سرمایہ دارانہ خول سے ان کی مطابقت ختم ہو جاتی ہے اور یہ خول ٹوٹ جاتا ہے۔سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کی موت کا وقت آن پہنچتا ہے۔ بے دخلی کرنے والے بے دخل کر دیے جاتے ہیں۔