جنگیں، سرمائے کا کھیل

|تحریر: گریگ سی|
|ترجمہ: اختر منیر|

حکومتوں اور ریاستی اداروں میں موجوددفاعی عہدیداروں، دفاعی ٹھیکداروں اور سرمایہ کاری کرنے والی فرموں کی تکون نے وہ مقتل بنا رکھے ہیں جن میں پوری دنیا کے فوجیوں اور شہریوں کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔

سیاست کی سب سے بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت اور نجی صنعت کے درمیان ایک واضح تفریق موجود ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ دونوں آپس میں اس طرح جڑے ہوتے ہیں کہ انہیں علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ نجی دولت جمع کرنے کے دو اداروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے زیادہ بھیانک شکل میں کہیں اور یہ مظہر نہیں دیکھا جا سکتا۔

To read the article in English click here

18 جون کو ایران کیساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران پیٹرک شنھن، جو بوئنگ کا سابق ایگزیکٹیو اور قائم مقام وزیر دفاع تھا، خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا اس کی جگہ مارک ایسپر نے لے لی، جو ریتھیون میں حکومت کے ساتھ تعلقات کے شعبے کا نائب صدر تھا جوامیر ترین یا خوش قسمت 500 کمپنیوں میں شامل ایک اسلحہ ساز کمپنی ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایک سابق دفاعی ترغیب کار پینٹاگون کے سب سے بڑے سویلین عہدے پر براجمان ہو گیا، بلکہ اس سے ہمیں دفاع کے شعبے پر نام نہاد دفاعی صنعت کے غلبے کا اندازہ ہوتا ہے۔
کہنے کو تو وفاقی ٹیکس ادا کرنے والے محنت کشوں کے ٹیکس کا ایک بڑا حصہ قومی دفاع کے لیے مختص کیا جاتا ہے، لیکن درحقیقت عوام کا یہ پیسہ بڑے آرام سے گول گھومنے والے دروازوں میں آگے پیچھے چکر لگاتے ہوئے عہدے داروں کے ذریعے نجی منافعوں میں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ لینن نے اپنی کتاب ”سامراج: سرمایہ داری کا حتمی مرحلہ“ میں لکھا تھا، ”اجارہ داری بغیر کسی چیز کی پروا کیے اپنے لیے
راستہ بنا لیتی ہے۔ سرمایہ دارانہ اجارہ داری کا حتمی نتیجہ ریاست اور نجی کاروبار کے انضمام کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں ان دونوں کے درمیان تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پیداوار سماجی ہو جاتی ہے، مگر نفع نجی رہتا ہے“۔

عالمی سرمائے کے سمندر سے ابھرنے والی اس خونخوار بلا کی تمام خصوصیات سمجھنے کے لیے مالیاتی سرمائے کے کردار کو سمجھنا ضروری ہے۔ جیسا کہ لینن نے ”سامراج“ میں وضاحت کی ہے کہ بڑے مالیاتی ادارے اجارہ داری کے رجحان کی جانب لے جانے والی سب سے بڑی وجہ ہیں،”پیداوار کا ارتکاز، اس میں سے جنم لیتی اجارہ داریاں، صنعت کے ساتھ بینکوں کا گٹھ جوڑ یا انضمام، مالیاتی سرمائے کے ابھار کی یہی تاریخ ہے اور اس تصور کا نچوڑ بھی یہی ہے“۔
مثال کے طور پر وینگارڈ گروپ سرمایہ کاری کی ایک فرم ہے جو 5.2 ٹریلین ڈالر کے اثاثوں کی دیکھ بھال یا مینجمنٹ کرتی ہے۔ یہ فرم ریتھیون کے 10.9 فیصد، بوئنگ کے 10.43 فیصد اور لاک ہیڈ کے 9.76 فیصد حصص کی مالک ہے۔ یہ دنیا کی تین سب سے بڑی دفاعی ٹھیکے دار کمپنیاں ہیں۔ ایک اور سرمایہ کاری کی فرم بلیک راک بالترتیب ان کمپنیوں کے11.7، 8.83 اور 8.51 فیصد حصص کی مالک ہے۔ یہ دنیا کی دو سب سے بڑی اثاثے سنبھالنے والی فرموں کی صورتحال ہے، اور اگر سٹیٹ سٹریٹ کارپوریشن جیسی دوسری فرموں کو بھی ملا لیا جائے تو یہ سب دفاعی صنعت کے ایک بہت بڑے حصے کی مالک ہیں۔ کسی بھی فرم کے پاس اتنا حصہ تو نہیں کہ وہ انہیں اکیلی کنٹرول کر سکے، مگر اپنے حصے کی مالیت کو لے کر شیئر ہولڈرز کے طور پر ان سب کے مفادات اس طرح آپس میں جڑے ہیں کہ بات وہیں آجاتی ہے۔ اس کے امریکہ کی خارجہ پالیسی پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جس دن امریکہ نے 2017ء میں شام کے شعیرات ایئربیس پر 59 ٹوماہاک کروز میزائل داغے، اس دن ریتھیون کے سٹاک کی قیمتوں میں 2.5 فیصد اضافہ ہوا اور اس کے برعکس جب 2009ء میں عراق سے امریکی فوجوں کا ”انخلا“ شروع ہوا تو لاک ہیڈ مارٹن کے اسٹاک کی قیمتوں میں پورے سال کے دوران 9.5 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ کہاوت کہ”تمام جنگیں بینک کاروں کی جنگیں ہوتی ہیں“اب شاید یوں ہونی چاہیے کہ”تمام جنگیں سرمایہ کاری کرنے والی فرموں کی جنگیں ہوتی ہیں“۔
سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد انفرادی طور پر بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ ریتھیون میں اپنے آخری سال کے دوران تنخواہ کی مد میں مارک ایسپر کو 15 لاکھ ڈالر ملے اور اس کے علاوہ اسے 15 سے 60 لاکھ ڈالر کی مالیت کے سٹاک کی ملکیت بھی دی گئی، جس کا وہ اب بھی مالک ہے۔ یہ سوچنا حماقت ہو گی کہ وزیر دفاع کے طور پر اس کے کیے گئے فیصلوں میں اس کی ملکیت کی قیمت کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔
ان املاک کی قیمت دفاعی صنعتوں کے سربراہان اور سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کا مشترکہ مفاد بن جاتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو مختلف صنعتوں سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں کو دفاع کے شعبے میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی ”آہنی تکون“ کی شکل میں جوڑتی ہے۔ دفاعی عہدے داروں، دفاعی ٹھیکداروں اور سرمایہ کاری کرنے والی فرموں کی تکون نے وہ مقتل بنا رکھے ہیں جن میں پوری دنیا کے فوجیوں اور شہریوں کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔

طبقاتی مفادات کی عینک سے دیکھا جائے تو امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بہت سے اہم پہلو سمجھ میں آنے لگیں گے۔ 2015ء میں عراق میں امریکا کے محض 250 کرائے کے اہلکار موجود تھے۔ 2016ء تک یہ تعداد 2,028ہو گئی۔ اس کے پیچھے بہت ساری کمپنیوں کو دیے جانے والے ٹھیکے تھے، جن میں ڈائنکارپ کو عراقی ائیرفورس کے ہیلی کاپٹروں کی دیکھ بھال کے لیے دیا جانے والا 41 ملین ڈالر کا ٹھیکہ بھی شامل تھا۔ 2011ء میں جب مبینہ طور پر امریکہ کا عراق سے انخلا مکمل ہوا تو اس سال امریکی دفاع اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ٹھیکوں کی بدولت ڈائنکارپ کی آمدن میں 11.3 فیصد اضافہ ہوا۔درحقیقت عراق سے امریکی انخلا نام نہاد”دہشت گردی کے خلاف جنگ“کے نجی مرحلے کا آغاز تھا۔
اس سے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں ریاست کا کردار واضح ہوتا ہے، ایک ایسا کردار جو سامراج کے آغاز سے لے کر اب تک بہت کم تبدیل ہوا ہے۔ اس کا کام زبردستی نئی منڈیاں کھولنا، ان منڈیوں تک اپنی فرموں کو رسائی دینا اور ان فرموں کی جانب سے مہیا کی جانے والی”سہولیات“ کی مانگ پیدا کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کموڈور پیری نے قدیم جاپان کو بیرونی تجارت کے لیے کھول دیا تھا اور بالکل اسی طرح جس طرح امریکی فوج نے عراق، افغانستان اور شام جیسے ”بند“ ممالک کو عالمی سرمائے کے نوچ کھانے کے لیے زبردستی کھول دیا ہے۔


پہلی عالمی جنگ کے آغاز پر ایک امن پسند نے مبینہ طور پر لینن سے کہا،”جنگ ہولناک ہوتی ہے!“ لینن نے فوراً جواب دیا،”ہاں، ہولناک حد تک منافع بخش!“۔ جنگ صرف سرمایہ داروں کو امیر کرتی ہے۔ یہ ان کا مشترکہ مفاد ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ عمل میں آتی ہیں۔ بہرحال اس کی حتمی قیمت عالمی محنت کش طبقے کو چکانا پڑتی ہے۔ امریکی سامراج کے مختصر المیعاد اندازے عالمی سرمایہ داری کہ جمود کے باعث ہونے والے اس کے تاریخی زوال کی علامت ہیں۔ ٹرمپ کی غنڈہ گردی اور بڑھکیں مشرق وسطیٰ جیسی جگہوں پر طاقتوں کے کمزور توازن کو مزید بگاڑنے کا باعث ہیں، جن کا یہ حال دونوں سیاسی جماعتوں کے منصوبہ سازوں کی جانب سے مسلط کی گئی ایک دہائی پر مبنی جنگوں کے باعث ہوا ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراج کی پالیسیوں نے اسے اس وہم میں ڈال دیا کہ اس کے پاس لامحدود طاقت ہے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں امریکی سامراج کا نسبتاً گرتا ہوا اثر و رسوخ سب کے سامنے ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ خونخوار سرمایہ دار ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں گے۔ درحقیقت امریکی سامراج کی ”قبل از مرگ تڑپ“ سے پوری دنیا کی تکلیفوں میں اضافہ ہو گا۔ لیکن تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایک ایسی قوت وجود رکھتی ہے جو سامراج کے سامنے کھڑا ہونے اور اس سے جیتنے کی سکت رکھتی ہے، انقلابی پروگرام سے لیس ایک متحد محنت کش طبقہ۔
1918ء میں جب محنت کشوں کی نئی وجود میں آنے والی حکومت اور رد انقلابی قوتوں کے درمیان تکلیف دہ خانہ جنگی جاری تھی، تب روس پر 15 اتحادی ممالک کی 21 فوجوں نے حملہ کر دیا، جس میں امریکہ بھی شامل تھا۔ ان کے حملے کا مقصد اس جنگی قرضے کو بچانا تھا جو روس پر بیرونی بینکوں کی جانب سے مسلط کیا گیا تھا۔ فوجی قوت اور تربیت کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ ایک نا امید جدوجہد ہونا تھی۔ لیکن حملہ آور قوتوں کے برعکس مسلح محنت کش اس بات کو سمجھتے تھے کہ وہ کس مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں، اپنی بقا اور اپنے ہاتھوں میں لی گئی اپنی قسمت کے دفاع کے لیے۔ اس اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری کے احساس اور بالشویزم کے آہنی جذبے اور نظم و ضبط کی بدولت وہ گھس بیٹھیوں کو باہر پھینکنے میں کامیاب ہو گئے۔ منظم انقلابی پراپیگنڈے کی وجہ سے ہر حملہ آور فوج میں بغاوتیں ہوئیں اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں یکجہتی کے لیے ہڑتالیں بھی ہوئیں جس کی بدولت محنت کشوں کی نومولود ریاست رد انقلاب کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔
آج امریکہ کے پاس وہ دولت اور پیداواری تکنیک موجود ہے جس کے متعلق سو سال قبل روسی انقلابی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ سب کے لیے امن اور فراوانی کی مادی بنیادیں موجود ہیں۔ یکے بعد دیگرے مختلف ممالک میں انقلابی اثرات رکھنے والی عوامی تحریکیں پھوٹ رہی ہیں جو اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ہم ایک انقلابی عہد میں زندہ ہیں۔ ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب خون آشام سامراج کی منڈیوں اور تسلط کی ہوس کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکتا ہے۔ بس ضرورت ہے تو ایک ایسی قابل قیادت کی جو محنت کشوں کی تحریکوں کو انقلابی پروگرام کے ساتھ جوڑ کر فتح سے ہمکنار کر سکے۔

Tags: ×

Comments are closed.