امریکہ: نسلی تعصب اور ریاستی جبر کیخلاف عوامی تحریک کے بڑھتے قدم

|تحریر: ایلن وڈز، ترجمہ: تصور ایوب|

امریکہ میں شورش کے ابھار ایلن وڈز کا تبصرہ، جس کا آغاز پولیس کے ہاتھوں جارج فلوئیڈ نامی سیاہ فام کے قتل کے بعد ہوا، جس قتل نے امریکہ میں پسے ہوئے لوگوں کے غصہ کے پھٹنے میں ایک عمل انگیز کا کردار ادا کیا، اورپوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

”اور جنہوں نے آندھیوں کے بیج ڈالے تھے، وہ طوفان کی فصل کاٹنے پر مجبور ہوں گے“ (ہوسیا8:7)

امریکہ میں ہر طرف ڈارمائی مناظر نے رائے عامہ کو ہلا کے رکھ دیا ہے جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ بہت سے امریکی شہروں کی گلیوں میں ایک بڑی تعداد میں محنت کش اور نوجوان میدان عمل میں اتر چکے ہیں،اور لوگوں میں سلگتا غم و غصہ بے قابو ہو رہا ہے۔

اس شورش کے پھوٹنے کی فوری وجہ 25 مئی کو امریکی ریاست منیا پولس میں جارج فلوئیڈ نامی ایک لاچار، خوفزدہ، نہتے شہری، جو زمین پر لیٹا اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھااور ایک پولیس والا اس کا گلا گھونٹ رہا تھا اور آہستہ آہستہ مگر قصداً اس کی سانس کی نالی دبا رہا تھا، کی ہلاکت بنی۔

اس جسمانی اذیت اور ذہنی دباؤ کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے، جو اس نے برداشت کیا اور اس کی زندگی اس سے چھین لی گئی۔ وہ (جارج فلوئیڈ) چلا رہا تھا، ”مجھے سانس نہیں آ رہا،آفیسر۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں مر رہا ہوں۔“ لیکن اس کی التجا کسی نے نہ سنی۔ اس پولیس افسر نے اس کی گردن کو دبائے رکھا۔ اس کی دہشت اور اذیت صرف آٹھ منٹ تک رہی اور پھر جارج فلوئیڈ نے فریاد کرنا بند کر دی۔۔ ہمیشہ کے لیے۔

پولیس کی وردی میں ملبوس ان قاتلوں نے پھر اس ظلم کو اپنی رپورٹ میں غلط رنگ دینے کی کوشش کی، لیکن ان پولیس والوں کی بدقسمتی کہ یہ لرزہ خیز واقعہ ایک چشم دید گواہ کے موبائل فون میں ریکارڈ ہو چکا تھا۔ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے وہ مناظر دیکھے اور امریکی عوام نے بھی دیکھا کہ اصل ماجرا کیا تھا۔

نقطۂ ابال

یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ امریکہ میں 2019ء میں پولیس کے ہاتھوں 1099 لوگ قتل ہوئے، پچھلے سال صرف 27 دن ایسے تھے جب پولیس کے ہاتھوں کوئی شہری مارا نہ گیا ہو۔ پولیس کے تشدد کا شکار ہونے والوں کی ایک بڑی اکثریت غریب، بیروزگار، نام نہاد نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے اور بلاشبہ ان کا ایک بڑا غیر سفید فام لوگوں کا ہے۔

پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والوں میں سے 24 فی صد سیاہ فام تھے جبکہ سیاہ فام لوگوں کی آبادی کا تناسب امریکہ کی آبادی کا 13 فی صد ہے۔ اور سب سے زیادہ غلیظ اور کریہہ پہلو وہ نام نہاد استثنیٰ ہے جس سے پولیس اپنا ”کام“ کرتی ہے۔ 2013ء سے لے کر 2019ء تک پولیس کے ہاتھوں قتل کے 99فیصد مقدمات میں کسی پولیس والے کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔

یہ ہے وہ پس منظر جس کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ عوامی ابھار کو دیکھنا چاہئے کیونکہ یہی اس کی اصل وجہ ہے۔ جارج فلوئیڈ کا قتل تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ اس قتل نے وہ چنگاری سلگائی جو جنگل کی آگ کی طرح چشم زدن میں پورے ملک میں پھیل گئی اور ملک گیراحتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

نچلے طبقے کے امریکی، عمومی طور پر پسے ہوئے امریکی اور بالخصوص مظلوم قومیتوں اور لسانی اقلیتوں کا مجتمع شدہ غصہ انھیں کرونا وبا کے باعث دنیا بھر کی طرح امریکہ میں لاک ڈاؤن کے باوجود گلیوں چوراہوں میں کھینچ لے آیا۔

کرونا وبا پہلے ہی ایک لاکھ سے اوپر امریکیوں کے جان لے چکی ہے۔ اس پر امریکی معیشت کے انہدام کی وجہ سے 4 کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہوچکے ہیں اور سماج کی سطح سے تھوڑا نیچے ہی ایک پنپتا ہوا غصہ ہے جو حدت سے پگھلی ہوئی زیر زمین اس چٹان سے مماثلت رکھتا ہے جو ایک لاوے کی شکل میں زمین کی سطح کو پھاڑ کر باہر آ جاتا ہے۔

امریکہ میں لاکھوں لوگوں نے گلیوں چوراہوں میں آ کر اس ناانصافی پر غصے کا اظہار کیا جو نسلوں سے وہ خاموشی سے سہتے آ رہے تھے۔

حواس باختہ ریاستی مشینری

قانون نافذ کرنے والے ادارے گلیوں محلوں اور سڑکوں پر بپھرے غم و غصے سے بالکل بے بہرہ تھے

اس قتل کے بعد ہونے والے واقعات کی مثال نہیں ملتی۔منیا پولس میں احتجاجوں کے غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے پولیس موقع سے بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔ مظاہرین نے تھرڈ پرسنکٹ تھانے کا کنٹرول سنبھال لیا اور اسے آگ لگا دی۔

اس اقدام نے، یقینا، ارباب اختیا کو ہلا کر رکھ دیا ہوگا جو اس عوامی غصے کے پھٹنے اور اس کے مضمرات کے متعلق بالکل تیار نہ تھے۔ تحریک کی شدت سے ڈرتے ہوئے منی سوٹا میں ارباب اختیار نے اقدامات اٹھاتے ہوئے قاتلوں کو نوکری سے برخاست کرنے کا اعلان کیا اور پھر قدرے تاخیر سے، دباؤ کا شکار ہوتے ہوئے پولیس افسر ڈیرک شوون کو دوسرے درجے کے قتل کے الزام اور دیگر پولیس اہلکاروں کو قاتل کے مددگار اور سہولت کاری کے الزام میں دھر لیا۔

لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ پانی سر سے گزر چکا تھا۔اب کے تحریک اپنے ابتدائی مقصد سے بہت آگے جا چکی ہے۔ یہ ایک ایسے احتجاج میں بدل چکی ہے جو نہ صرف نسل پرستی اور پولیس تشدد کے خلاف ہے بلکہ مجموعی سماجی نا برابریوں کے خلاف ہے، جنھیں موجودہ صحت اور معاشی ایمرجنسیوں نے کئی گنا بڑھا دیا ہے۔

ایک سیاہ فام نوجوان خاتون کا کہنا تھا، ”ہم یہ سب پچھلے چار سو سالوں سے جھیل رہے ہیں لیکن اب بہت ہو چکا“۔ ایک اور شہری نے پورے کے پورے عوامی مزاج کو ایک لفظ میں سمو دیا جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ مظاہرے میں کیوں شریک ہے تو اس کا کہنا تھا ”نا انصافی“۔

تحریک کا پھیلاؤ

یہ حقیقت ہے کہ راتوں رات، 29مئی کی شام تک، سارے کا سارا امریکہ افراتفری کا شکار ہو چکا تھا۔ ایسا امریکہ میں کبھی بھی نہیں دیکھا گیا۔ سڑکوں پر نکلنے والے لوگوں کی اکثریت پر امن طور پر احتجاج کر رہے تھی لیکن جواب میں ان کو ربڑ کی گولیوں، آنسو گیس اور بہیمانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر لاٹھی چارج کیا گیا، زمین پر لٹا کر مارا گیا، گولیاں برسائیں گئیں اور کچھ جگہوں پر جان سے مار دیا گیا۔

ارباب اختیار نے چالیس سے زائد شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا لیکن مظاہرین نے کرفیو توڑ کر احتجاج کیا جس کی وجہ سے ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ کولوراڈو میں سرکٹ ہاؤس کے قریب فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔لوئی وِل میں ایک احتجاج میں سات لوگوں کو گولیاں لگیں۔ لیکن کوئی بھی حربہ عوامی احتجاج کے سیلاب کو روکنے میں ناکام رہا۔

جس طرح مظاہرے جنگل میں لگنے والی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیلے، ایسے لگ رہا تھا جیسے ان کی پیچھے کوئی جادوئی ہاتھ ہو۔ فوری طور پر مظاہرین نیویارک، اٹلانٹا، کولمبس، لاس اینجلس، فنیکس، ڈینور اور واشنگٹن اور دیگر شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے۔

یہ سلگتے عوامی غصے کا ایک خودرو دھماکہ تھا۔ اس کے لیے کسی تنظیم یا منصوبے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ، بنیادی طور پر، عوامی بے چینی کا فوری ابھار تھا، جو ایسا لگ رہا تھا عدم سے پیدا ہو گیا ہو اور اپنے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کا پچھاڑتا جا رہا ہو۔

اتنے بڑے پیمانے پر تحریک کے اچانک پھیلاؤ نے سب کو بشمول بہت سے سیاسی کارکنان کو حیرت زدہ کر دیا۔ (تادم تحریر) تحریک اپنے آٹھویں روز میں داخل ہو چکی ہے اور ”قانون نافذ کرنے والے اداروں“ کے جبر کے باوجود آگے بڑھ رہی ہے۔

تشدد کا سوال
زرد صحافت مظاہرین پر تشدد کا الزام لگا رہی ہے۔ جبکہ ریاست بذات خود سوائے (ایک طبقے کے دوسرے طبقے پر) منظم تشدد کے کچھ نہیں ہوتی۔ موجودہ عوامی ابھار کی بنیادی وجہ بھی نیلی وردی میں ملبوس پولیس والوں کا جان لیوا تشدد ہے۔ حکمران طبقہ، بنیادی طور پر، اپنے منظم تشدد کو تشدد نہیں گردانتا بلکہ جب عوام اس منظم تشدد کے جواب میں مشتعل ہوتے ہیں تو اسے تشدد کہا جاتا ہے۔

صرف ریاست کو ہی قتل کرنے کا حق حاصل ہے(حکمران طبقے کے مطابق)،اور پولیس کی وردی پہنے جو بھی قتل کرتا ہے، انہیں گرفتار کرنا، جیل میں ڈالنا یا سزا دینا تو دور کی بات، ان کی مذمت بھی نہیں کی جاتی۔ بلکہ زیادہ تر ان کی تعریف کی جاتی ہے اور ریاست کی خدمت میں انھیں تمغوں سے نوازا جاتا ہے۔

ان پر تشدد واقعات کے پیچھے اصل میں کون ہے جو بعض اوقات احتجاجوں کے آخر میں وقوع پذیر ہوتے ہیں؟ اس طرح کے ہر احتجاج میں سماج کی پچھڑی ہوئی پرتوں اور جرائم پیشہ افراد کی ایک قلیل سی تعداد ہوتی ہے جو صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کرتی ہے۔

اصل مظاہرین ان پر نظر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ مظاہرین جانتے ہیں کے ان عناصر کا تحریک سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ صرف اور صرف پولیس کو احتجاجوں پر مزید تشدد کرنے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔

لیکن اس میں ان سے بھی زیادہ برے عناصر شامل ہو سکتے ہیں۔ اس امر کے بھی کافی شواہد ملے ہیں جو اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خود ریاست کی جانب سے اپنے ایجنٹ چھوڑے گئے ہیں جو اشتعال دلا کر پر تشدد جھڑپوں کا سبب بنتے ہیں تاکہ افراتفری پھیلائی جا سکے اور تحریک کو نقصان پہنچایا جا سکے۔

قتل پر اکساتا ٹرمپ

29 مئی کو اپنی پریس کانفرنس میں (جس میں ٹرمپ نے صرف ایک بیان جاری کیا اور کسی صحافی کو سوال کرنے نہ دیا نہ کسی کا جواب دیا) ٹرمپ نے ان احتجاجوں کے بارے میں کچھ بھی کہنا گوارا نہ کیا جو امریکی سماج کو اس کی جڑوں سے ہلا رہے تھے۔

پریس کانفرنس میں موجود معزز مرد و خواتین صحافی اس بات کا بے تابی سے انتظار کرتے رہے کہ ٹرمپ اتنے بڑے واقعات کے بارے میں بات کرے گا۔ لیکن ٹرمپ نے اپنے روایتی انداز میں عالمی ادارۂ صحت سے تعلقات ختم کرنے اور چین پر الزام تراشی پر ہی اکتفا کیا اور ایسے ظاہر کیا جیسے امریکی شہروں میں کچھ ہو ہی نہیں رہا۔

جیسے ہی صاحب صدر نے روسٹرم چھوڑا، بے تاب صحافیوں نے بے چینی میں اپنے سوالات کرنے کی کوشش کی لیکن ٹرمپ تیزی سے نکل گیا اور صحافیوں کو حیرانگی اور غصے میں چھوڑ گیا۔

شہنشاہ نیرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو وہ بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ اب جبکہ امریکہ نیرو کے وقتوں کی طرح جل رہا ہے تو شہنشاہ ٹرمپ، جو موسیقی سے کسی قسم کا کوئی شغف نہیں رکھتا، بڑی خوشی سے جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ، جو خود بھی ویسی ہی(روم جیسی) سامراجی ”عظمت“ کا خواب دیکھتا ہے، جو بخیر و عافیت وائٹ ہاؤس میں چھپا رہا اور اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے مظاہرین کو ”بدمعاش“ کے لقب سے پکارنے لگا اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ ”اگر لوٹ مار شروع ہوئی تو (جواباً) فائرنگ بھی شروع ہو جائے گی۔“

یہ بیان ٹویٹر انتظامیہ کے لیے ناقابل یقین تھا، جن کے نزدیک یہ ایک کھلے قتل عام پر اکسانے کے مترادف تھا۔ بلاشبہ ایسا ہی تھا۔ اس سے کچھ دیر بعد اس نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا کہ اس کی ایسی کوئی نیت نہ تھی۔ مگر کوئی بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔

بعد ازاں، ٹرمپ نے کہا کہ اس کی بات سے یہ مراد نہیں تھی کہ پولیس اور پیرا ملٹری واقعی گولیاں چلا دے۔ بلکہ اس کا مطلب بالکل مختلف تھا اگرچہ یہ بالکل غیر واضح تھا۔ لیکن کسی کو بھی اس بات میں شبہ نہیں ہوسکتا کہ جناب صدر نے جو کہا اس سے کیا مراد تھا۔

اس نے دھمکی دی ہے کہ وائٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کرنے والوں پر ”خونخوار کتے اور نہایت بدنام زمانہ ہتھیار استعمال کیے جائیں گے“ اور ان کے خلاف ”ہماری فوج کی لامحدود طاقت“” بھی حرکت میں آسکتی ہے۔

اس سے یہ واضح ہے کہ اس نے جان بوجھ کر وائٹ ہاؤس کے باہر موجود مظاہرین پر ایک پر تشدد حملے پر اکسایا تاکہ اس کا قریبی چرچ میں جانے کا راستہ صاف ہو سکے، جہاں اس نے انجیل ہاتھ میں پکڑ کر پریس والوں کے لیے پوز بنایا اور ہماری معلومات کے مطابق بغیر عبات کیے واپس لوٹ گیا۔

اس ساری حرکت کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ جناب صدر بڑی جرات مندانہ شخصیت کے مالک ہیں اور مزید برآں یہ کہ اپنے مذہب سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ بھاری اسلحہ سے لیس نیشنل گارڈز اور فوج کے حصار میں ایسی ”جرات“ کوئی بھی دکھا سکتا ہے۔

بنکر میں چھپا بدمعاش

ایک طرف دھمکیاں اور دوسری جانب مظاہرین کے خوف سے ٹرمپ بنکر میں جا چھپا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ٹرمپ کس قدر بہادر ہے

ٹرمپ کتنا جرات مند ہے اس کا واضح انکشاف حالیہ واقعات سے ہو جاتا ہے۔ جب بغاوت کی آگ وائٹ ہاؤس کے دروازے تک پہنچ گئی اور لوگوں کے غصیلے نعرے ٹرمپ کے کانوں سے ٹکرانے لگے تو اسے جلدی سے ایک زیر زمین بنکر میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ تقریبا ایک گھنٹہ تک رہا اور پھر اسے واپس وائٹ ہاؤس کے اوپری حصے میں منتقل کر دیا گیا۔

وائٹ ہاؤس کے اندر کے ذرائع نے سی این این کو بتایا کہ ”اگر وائٹ ہاؤس کی صورتحال بگڑ کر ”ریڈ“ کیٹگری تک پہنچ جائے تو صدر کو ایمرجنسی آپریشن سنٹر منتقل کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی میلانیا ٹرمپ اور بیرن ٹرمپ سمیت دیگر قریبی رشتے داروں کو بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔“

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ایک ذرائع اور اس معاملے سے آگاہ ایک اور ذرائع نے سی این این کو بتایا کہ خاتون اول میلانیا ٹرمپ اور ان کے بیٹے بیرن ٹرمپ کو بھی بنکر میں اس ڈر سے منتقل کیا گیا کہیں مظاہرین وائٹ ہاؤس کا حفاظتی حصار توڑتے ہوئے اندر داخل نہ ہو جائیں۔ جدید وقتوں میں امریکی تاریخ میں اس امر کی مثال نہیں ملتی۔

ڈونلڈ جے۔ٹرمپ گلی محلے کے کسی بدمعاش جیسا ہے، اور گلی محلے کے بدمعاشوں کی طرح اندرون خانہ وہ بھی بزدل ہے۔ اور وہ اپنی اس بزدلی کو ڈھیٹ ننگی دھمکیوں اور احمقانہ بڑھک بازیوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔

امریکی صدر، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کا طاقت ور ترین انسان ہوتا ہے، اس کا ایک قلیل تعداد پر مشتمل مظاہرین سے ڈر کر بنکر میں چھپ جانا ہمیں یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کس اخلاقی جرات کا مالک ہے۔ اس کا خوف اور حواس باختگی اس کے بیانات سے جھلک رہی تھی۔ حتیٰ کہ واشنگٹن کے مئیر نے بھی اس پر تشدد پر اکسانے کا الزام لگایا۔

جب لوگوں پر سے ریاست کا خوف ختم ہو جاتا ہے تو موجودہ ڈھانچے کے دفاعی برج لڑکھڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وہ امر ہے جس نے امریکی حکمران طبقے کو خوفزدہ کر دیا ہے اور قاتل پولیس والوں پر مقدمہ چلانے کے جلد بازی میں ہونے والے فیصلے کے پیچھے بھی یہی وجہ کار فرما ہے۔

”فوج بھیجی جائے“

ایسا لگتا ہے کہ ریپبلکن قیادت کے کچھ حلقوں کو موجودہ واقعات کی لہر نے اس قدر جھنجھوڑ دیا ہے کہ وہ اس بات کے خواہاں ہیں کہ ٹرمپ کوئی ایسا بیان دے کہ معاملات ٹھنڈے ہو سکیں۔ لیکن ساتھ ہی ان کے سامنے یہ تضاد بھی آ جاتا ہے کہ یہ صدر اب جو بھی کہتا ہے وہ بھڑکتی آگ بجھانے کی بجائے، اسے مزید بھڑکا دیتا ہے۔

پیر سے ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے ہی واشنگٹن کے اندر اور اس کے اطراف میں ملٹری پولیس کی بھاری نفری کو تیار رکھا ہوا ہے۔

پیر کو ہی وزیر دفاع مارک ایسپر نے ٹرمپ کی جانب سے بلائی جانے والی تمام گورنرز کی میٹنگ میں بتایا کہ اس وقت 29 ریاستوں اور کولمبیا میں 17ہزار سے زائد نیشنل گارڈز تعینات ہیں۔ واضح رہے کہ 2005ء میں کترینا نامی سمندری طوفان سے نمٹنے کے لیے صرف 15ہزار نیشنل گارڈز کو طلب کیا گیا تھا، جبکہ موجودہ تعیناتی اس تعداد سے زیادہ ہے۔ جبکہ 45ہزار نیشنل گارڈز پہلے ہی کرونا وبا کے خلاف لڑائی میں مدد کر رہے ہیں۔

کسی بھی سلیم العقل انسان کے لیے اتنی بڑی تعداد کسی بھی داخلی افراتفری سے نمٹنے کیلئے کافی ہوتی، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ٹرمپ سلیم العقل نہیں ہے۔

پیر یکم جون کو ٹرمپ صاحب نے انتہائی مضحکہ خیز بیان داغا جس میں احتجاجوں پر ”غالب“ آنے کے لیے فوج کے استعمال کی دھمکی دی۔ گورنرز کے ساتھ میٹنگ میں اس نے احتجاجوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے پر زور دیا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری خواہش ہے کہ ان کے پاس ایک ”قبضہ گیر قسم کی قوت“ ہوتی۔

جس وقت وائٹ ہاؤس کے باہر ہنگامہ برپا تھا اور مظاہرین چیختے چلاتے بھاگ رہے تھے، ٹرمپ روز گارڈن میں کھڑا یہ کہہ رہا تھا کہ وہ ”واشنگٹن کی حفاظت اور دنگوں، لوٹ مار، توڑ پھوڑ، پر تشدد واقعات کو روکنے اور املاک کی تباہی کے بچاؤ کے لیے ”بھاری اسلحہ سے لیس ہزاروں فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو تعینات“ کرنے جیسے ”تیز اور فیصلہ کن اقدام“ اٹھانے کی طرف جا رہا ہے“۔

”ہم اس سب سے تیزی سے نمٹنے کی طرف جا رہے ہیں،“ ٹرمپ نے کہا۔””غلبہ“ یہی پیغام ہے۔ اگر ہم اپنے شہروں اور ریاستوں پر غلبہ نہیں پاسکیں گے تو یہ سب(مظاہرین) آپے سے باہر ہوجائیں گے۔ اور ہم یہاں واشنگٹن ڈی سی میں یہی کر رہے ہیں، ہم وہ کچھ کرنے جا رہے ہیں جو لوگوں نے پہلے نہیں دیکھا ہوگا۔۔۔مگر ہم (صورتحال) پر مکمل طور پر غلبہ پائیں گے۔“

ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس نے ”ہر گورنر کو یہ سفارش کی ہے کہ بھاری تعداد میں نیشنل گارڈز کو تعینات کیا جائے تاکہ سڑکوں پر ”غالب“ آیا جا سکے۔“اور اگر شہری انتظامیہ اور ریاستیں ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو ”میں امریکی فوج تعینات کروں گا اور تیزی سے اس مسئلے کو حل کر دوں گا۔“

اس کے بعد، جیسے ٹرمپ کی خواہش پوری کرنے کیلئے، نیشنل گارڈز نے وائٹ ہاؤس کے باہر پرامن ہجوم پر آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں برسائیں۔ لیکن نیشنل گارڈز کوئی روایتی فوج نہیں ہے۔ یہ ریٹائرڈ فوجیوں پر مشتمل ہے جو کہ اب سول نوکریاں کرتے ہیں اور پارٹ ٹائم یہ ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہیں۔ انھیں عام طور پر اپنی ہی ریاست میں گورنر یا وفاقی حکومت کی جانب سے تعینات کیا جاتا ہے اور وہ ہی ان کے مشن کی مدت کا تعین کرتی ہے۔ وہ ریاستی گورنروں کی سرپرستی میں قانون نافذ کرنے کی ذمہ داریاں بھی ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن امریکی قانون کے مطابق روایتی فوج سول معاملات میں اس وقت تک مداخلت نہیں کر سکتی جب تک امریکی صدر بغاوت کے قانون مجریہ 1807ء کو استعمال نہیں کرتا، جس کی رو سے کے امریکی صدر کسی بھی سول افراتفری کو کچلنے کے لیے امریکی فوج طلب کرسکتا ہے۔

اب یہ (فوج کو طلب کرنا) ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ کے خالی دماغ میں بہت سے منصوبوں کی بھیڑ میں سے ایک ابھرتا ہوا ایک ”عظیم خیال“ بنتا جا رہا ہے۔ اور وہ بے تابی سے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اس کی بنکر میں جانے کا واقعہ عوام کے ذہنوں میں نقش ہے جو خود ٹرمپ پر بھی بزدلی کا دھبہ لگا چکا ہے، ایسے حالات میں ٹرمپ اپنی مدد کیلئے فوج کو طلب کرنے پر ضد کی حد تک تلا ہوا ہے۔
تاہم، یہ سب کہنا بہت آسان اور کرنا بہت مشکل ہے۔

انتخابات کا انتظار؟

سابق امریکی نائب وزیر خارجہ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ یہ وقت ”تشدد کی حوصلہ افزائی“ کا نہیں ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے فلوئیڈ کے خاندان سے بات کی ہے اور امریکی عوام کا نسلی نا انصافیوں کی تاریخ کے خلاف غصہ جائز ہے۔

جو بائیڈن نے نہایت عمدہ لفاظی کی لیکن جیسا کہ مشہور کہاوت ہے خالی باتوں سے بات نہیں بنتی۔ بائیڈن سکون، شانتی اور یگانگت کی اپیل کر رہا ہے۔ اس کے مطابق تمام امریکیوں کو اکٹھے ہو کر پیار محبت سے رہنا چاہیے، اس سے سب ٹھیک ہو جائے گا، یعنی بھیڑ کو بھیڑیے کے پہلو میں لیٹ جانا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک طرف امن و شانتی کی اپیلیں کی جارہی ہیں اور دوسری طرف مظاہرین پر ڈنڈے برسائے جا رہے ہیں، آنسو گیس کی شیلنگ کی جارہی ہے، ربڑ کی گولیاں اور گرم سیسہ پھینکا جا رہا ہے۔

بائیڈن کی کھوکھلی بیان بازی ہمیں انجیل کی ایک اور آیت کی یاد دلاتی ہے، ”انہوں نے آہستہ آہستہ امن، امن کا ورد کرتے ہوئے میرے لوگوں کے زخم بھر دئیے، جبکہ کہیں بھی امن نہیں تھا“ (یرمیاہ 6:14)

یہ سب یہ چاہتے ہیں کہ مظاہرین قانون کی پاسداری کریں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قانون حکمران طبقے کی جانب سے اپنے مفادات کا دفاع کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں نہ کہ آبادی کی وسیع اکثریت کے مفادات کے تحفظ کے لیے۔ قدیم ایتھنز کے سولون کا مقولہ ہے کہ قانون مکڑی کے جالے کی طرح ہوتا ہے، کمزور اس میں پھنس جاتا ہے جبکہ طاقتور اسے پھاڑ دیتا ہے۔ یہ بات تب بھی درست تھی اور آج بھی درست ہے۔

لوگوں کو صبر، بردباری اور امن و شانتی کی اپیل کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن عوام کے صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور اب وہ حد اپنے انتہا کو پہنچ چکی ہے۔

ڈیموکریٹس کہتے ہیں کہ عوام انتخابات کا انتظار کریں۔ لیکن عوام نے تو بہت سال انتخابات کا انتظار کیا ہے اور اس کے بدلے انھیں سوائے جھوٹے وعدوں کے کچھ بھی نہیں ملا، جنھیں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے نہایت منظم انداز میں توڑا.اور کچھ بھی نہ بدلا۔

ڈیموکریٹس اور ریپبلکن ایک ہی طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فرق صرف اس طریقہ میں ہے جو وہ ایک چھوٹی سی، غیر نمائندہ، بینکاروں اور بڑی مچھلیوں کی حکومت کو چلانے کیلئے اپناتے ہیں۔ دونوں ہی کھلے رجعتی اور ایک دوسرے کے فرضی مخالف ہیں۔ آخری تجزیے میں موخرالذکر (ڈیموکریٹس) اول الذکر (ریپبلکن) کی نسبت زیادہ خطرناک ہیں۔ کم از کم ٹرمپ کو لے کر کوئی ابہام تو نہیں ہے کہ عوام کہاں کھڑے ہیں۔

ٹرمپ کہتا ہے: سڑکیں چھوڑو اور گھروں کو جاؤ نہیں تو ہم تم پر گولیاں برسائیں گے۔اور ڈیموکریٹس کہتے ہیں: سڑکیں خالی کرو، گھر جاؤ، صبر کرو اور آئندہ انتخابات کا انتظار کرو۔ دونوں ایک بات پر متفق ہیں کہ سڑکیں چھوڑ دو!

ایک بار عوام غیر متحرک ہو گئے اور اپنے گھروں میں مقید ہو گئے تو یہ غصہ غیر موثر ہو جائے گا۔ وقت آ چکا ہے کہ حکمران طبقے کے دونوں دھڑوں کو اکھاڑ پھینکا جائے۔ یہ ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے موجودہ غلیظ اور ناانصافی پر مبنی نظام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شکست دی جا سکتی ہے اور اس کو اوپر سے لے کر نیچے تک تباہ کیا جاسکتا ہے اور اسے ایک نئے اور بہتر نظام سے بدلا جا سکتا ہے۔

ایک قابل قدر سبق

امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایک نفرت سلگ رہی ہے جو کہ خود اپنے آپ میں حکمران طبقے کے تمام تر ظلم، غلاظت، لالچ اور حقارت کا ایک شخصی اظہار ہے۔ ہمیں، بطور مارکس وادی، ایک چیز کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے عوام کو ایک نہایت قابل قدر سبق دیا ہے۔

دو طریقے ہیں جن سے عوام ریاست کی سرشت کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ کتابیں پڑھیں اور مارکسی مواد کو سنیں۔ لیکن سماج کی ایک چھوٹی سی پرت ہی اس تک رسائی حاصل کر پاتی ہے۔

جبکہ دوسرا، کٹھن لیکن زیادہ موثر راستہ وہ ہے جب پولیس لوگوں کے سروں پر ڈنڈے برساتی ہے،ان پر آنسو گیس کی شیلنگ ہوتی ہے اور ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں۔ اس طریقے سے حاصل کیے گئے اسباق، وہ لوگ جنھوں نے اس کا تجربہ کیا ہو یا دیکھا ہو، آسانی سے بھول نہیں پاتے۔

اس بیہمانہ تشدد کا مقصد عوام کو روکنا اور انھیں ڈرانا ہوتا ہے۔ عام حالات میں یہ حربہ نہایت موثر ہوتا ہے، لیکن ہر حربے کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ آج امریکہ میں ریاست کی جانب سے تشدد کا حربہ، اپنے الٹ میں بدلنے کے اصول کا شکار ہو چکا ہے۔

حکمران طبقے میں دراڑیں

پیر کو ٹرمپ کی ریاستی گورنروں کے ساتھ ملاقات کے اس کی توقعات کے برعکس اثرات ہوئے۔ ورجینیا حکومت کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ”گورنرز کے ساتھ بات چیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صدر صاحب صورتحال کو طول دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں، اور گورنر کا خیال ہے تھا کہ یہ کوئی ذمہ دارانہ عمل نہیں ہے۔“ اس کا مزید کہنا تھا کہ ”جب یہ واضح ہو چکا تھا کہ فوج مئیر باؤزر کی تابع نہیں بلکہ اٹارنی جنرل کے تابع ہو گی تو ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمارے حق میں یہی بہتر ہے کہ اس کا حصہ نہ بنا جائے۔“

ایک پرانا مقولہ ہے کہ جس جگہ فرشتے چلنے سے بھی ڈرتے ہیں وہاں احمق لوگ دوڑ لگانے لگ جاتے ہیں۔ امریکی شہروں میں فوج کی تعیناتی کے خطرات سے جرنیل بخوبی آگاہ ہیں۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق وزرات دفاع کے اہلکاروں کے مطابق پیر کو ٹرمپ کے امریکہ کے اندر صورت حال کو کنٹرول کرنے کیلئے فوج کی تعیناتی کا عندیہ دینے سے پہلے ہی پینٹاگون کے کچھ حلقوں میں ’گہری تشویش اور بے چینی“ پائی جاتی ہے۔

سی این این لکھتا ہے کہ

”بہت سے وزرات دفاع کے اہلکاروں نے سی این این کو بتایا کہ پینٹاگون کے افسران اس بارے میں بہت محتاط ہیں اور انھوں نے اپنا پیغام بھجوانے کی کوشش کی ہے کہ فی الوقت صورت حال ایسی نہیں کہ ہم اپنی حاضر سروس فوج کو اسے کنٹرول کرنے کیلئے تعینات کر دیں، جب تک ریاستی گورنر اس بارے میں واضح دلائل نہیں دیتے کہ انھیں صورت حال سے نمٹنے کیلئے فوج کی ضرورت ہے۔“

وزرات دفاع کے ایک اہلکار نے ان قوانین کا جو امریکی فوج کو امریکہ کے اندر قانون نافذ کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکتی ہے کا حوالہ دیتے ہوئے ”مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے صورت حال کو قابو کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔“ اس کا مزید کہنا تھا کہ ”سول امن و امان کے قیام کے لیے نیشنل گارڈز کے دستوں کی تعیناتی بھی قابل تشویش ہے، نیشنل گارڈز کی اتنی بڑی تعداد کو تاریخ میں کبھی امریکہ کے اندر اتنی بڑی تعداد میں متحرک نہیں کیا گیا۔“

پہلے ہی، اتوار کو فوج کے میجر جنرل اور جارجیا نیشنل گارڈ کے ایجوٹینٹ جنرل تھامس کارڈن نے اخباری نمائندوں بیان دیتے ہوئے کہا کہ

”میرا یہ خیال ہے کہ ہمیں کسی بھی قیمت پر اس چیز کا عادی نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ کسی بھی طرح کے باوردی اہلکار امریکہ کے اندر لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے استعمال ہوں۔“

اس کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ ”ہمیں ایسا کرنے میں عزت اور خوشی محسوس ہوتی ہے، یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہمیں بحیثیت ملک پہلے سے بڑھ کر معاملات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔“

کارڈن نے مقامی اتھارٹیز کو مضبوط کرنے کے مشن کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”اپنے کیرئیر کے 34 سے زیادہ سالوں میں مجھے جو کچھ بھی کرنے کو کہا گیا، یہ اس فہرست میں سب سے نیچے آتا ہے۔“ اپنے جارجیا کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے اس نے اس بات کو تسلیم کیا کہ صورت حال اس ”کا تقاضا کرتی ہے“ اور یہ بھی کہا کہ اسے یقین ہے کہ نیشنل گارڈز کی موجودگی ”ایک موثر رکاوٹ ہے اور صورت حال کو کنٹرول کرنے میں کار آمد ہے۔“

امریکی خانہ جنگی سے لے کر اب تک یہ پہلا موقع ہے جب امریکی فوجی قیادت اور وائٹ ہاؤس کے درمیان ایک واضح تقسیم دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حکمران طبقے کے نقطہ نظر سے یہ عمل نہایت خطرناک ہے۔ لینن نے اس کی وضاحت کی تھی کہ انقلاب کی پہلی شرط حکمران طبقے میں پھوٹ ہوتی ہے یعنی اس وقت مقتدر حلقے بحران میں گھرے ہوتے ہیں اور ماضی کے طور طریقوں کے مطابق حکمرانی نہیں کر پا رہے ہوتے۔
یہ وضاحت امریکہ کی موجودہ صورت حال پر مکمل طور پر صادق آتی ہے۔

انقلاب کی شرائط

تمام تر طاقت کے باوجود تحریک کو ایک درست پروگرام اور سمت درکار ہے

امریکہ جو ہو رہا ہے کیا وہ انقلاب ہے؟ واضح طور پر یہ نومبر 1917ء کا روس نہیں ہے۔ حکمران طبقے کے پاس اب بھی خاصی حمایت اور اور اپنے دفاع کے ذرائع موجود ہیں۔

حکمران طبقے کا اندرونی بحران صرف انقلاب کی پہلی شرط ہے۔ لیکن جیسا کہ لینن نے وضاحت کی تھی کہ انقلاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اور بھی لازمی شرائط ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ شرائط بلاشبہ امریکہ میں موجود ہیں لیکن نامکمل اور نوزائیدہ حالت میں۔اور تمام لازمی شرائط ابھی موجود نہیں خاص کر سب سے اہم شرط۔

انقلاب کی شرائط کیا ہیں؟ سب سے پہلی جیسا کہ ہم نے کہا کہ حکمران طبقہ بحران میں اور منقسم ہو۔جیسا کے میں نے لکھا کہ امریکہ میں یہ شرط موجود ہے۔ دوسری شرط عوام کا ابھار اور ان کا انقلاب کے لیے لڑنے کو تیار ہونا ہے۔ یہ شرط بھی امریکہ کے حالات کو دیکھتے ہوئے پوری ہوتی نظر آتی ہے۔ اس وقت لاکھوں لوگ سڑکوں پر موجود ہیں اور انتظامیہ کی حکم عدولی کر رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ظلم کا نہایت بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ ریاست کے پاس بے پناہ وسائل اور جبر کے ذرائع ہوتے ہیں، جن کو اب وہ عوامی ابھار کو شکست دینے کیلئے بروئے کار لا رہے ہیں۔ لیکن وہ ناکام ہو چکے ہیں۔ اور اس وقت عوام کے پاس، اپنی کثیر تعدادسے قطع نظر، جو سب سے بڑا ہتھیار ہے وہ ان کی اپنے مقصد کیلئے جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہ کرنا ہے۔ جب عوام پولیس اور نیشنل گارڈز کا خوف کھو دیتے ہیں تو یہ موجودہ ڈھانچے کیلئے نہایت خطرناک ہوتا ہے

تیسری شرط

انقلاب کیلئے تیسری شرط یہ ہے کہ درمیانہ طبقہ، محنت کش طبقے اور سرمایہ دار طبقے کے درمیان لرکھڑا رہا ہو۔ امریکہ میں ہونے والا ہر واقعہ اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ مجموعی عوامی شعور میں ایک بنیادی تبدیلی آ رہی ہے اور اس عمل کی رفتار کو حالیہ واقعات نے مزید تیز کر دیا ہے۔

جارج فلوئیڈ کے قتل نے عوامی شعور کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ اتوار اور پیر کو کیے جانے والے ایک نئے مارننگ کنسلٹ نامی سروے کے مطابق 54 فی صد امریکی نوجوان احتجاجوں کی حمایت کرتے ہیں، جس میں 69 فی صد ڈیموکریٹس اور 49 فی صد آزاد شامل ہیں جو احتجاجوں کی 1 کے مقابلے میں 2 کے مارجن سے حمایت کرتے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ نمایاں ریپبلکنز کا ردعمل ہے جن کی 39 فی صد احتجاجوں کی حمایت جبکہ 38 فی صد مخالفت کرتی ہے۔ یہ ایک بہت ہی غیر معمولی نتیجہ ہے! اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کے ٹرمپ کی اپنی پارٹی کی تنظیم میں ایک واضح تقسیم موجود ہے۔

منظم ہوں!

امریکہ میں انقلاب کی شرائط یا تو موجود ہیں یا تیزی سے وجود میں آ رہی ہیں، لیکن ایک مسئلہ ہے۔ موجودہ تحریک اپنے تمام تر اعلیٰ جذبے، جرات اور ولولے کے ساتھ ایک بنیادی اور اچانک ابھرنے والی انقلابی تحریک ہے، لیکن اس میں (ایک خودرو تحریک کی) تمام تر کمزوریاں بھی موجود ہیں۔

موجودہ تحریک کسی تنظیم یا فرد کے گرد نہیں بنی۔ یہ مکمل طور پر اچانک ابھرنے والی، غیر منظم تحریک ہے۔ اس میں قیادت، سمت اور ایک واضح پروگرام، حکمت عملی اور ہم آہنگ حربوں کا فقدان ہے۔ یہ ایک تباہ کن کمزوری ہے۔ جبکہ اس تحریک کا مقابلہ ایک منظم اور متحد قوت کے ساتھ ہے، جو سٹیٹس کو اور حکمران طبقے کے دفاع کیلئے آخری حد تک جائے گی۔ ایسے طاقتور دشمن کے مقابلے میں ایک غیر منظم تحریک کچھ وقت کیلئے ہی چل سکتی ہے۔ لیکن جلد یا بدیر اس (تحریک) کا مقابلہ اپنی ہی حقیقی محدودیت سے ہو گا۔

ایک ہی طرح کے طریق کار استعمال کرتے ہوئے تحریک ایک خاص حد تک ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔ صرف سڑکوں پر آجانے سے اور آئے روز قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ٹکر لے لینے سے کبھی بھی حقیقی حل کی جانب بڑھا نہیں جا سکتا۔ اس کیلئے محنت کش عوام کو اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ ایسا صرف موجودہ ریاست کی مکمل طور پر تحلیل اور موجودہ ریاست کو لوگوں کے اپنے براہ راست اقتدار سے بدلنے سے ہوگا۔ اس کے لیے عوامی مظاہروں، خواہ وہ کتنے ہی جرات مند اور طوفانی کیوں نہ ہوں، سے کچھ زیادہ درکار ہوتا ہے۔

کارل مارکس نے بہت پہلے اس کی نشاندہی کی تھی کہ ایک تنظیم کے بغیر محنت کش طبقہ، استحصال کے لیے خام مال کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک کامیاب انقلاب کی آخری اور لازمی شرط،ایک درست قیادت، رہنمائی، تناظر اور لائحہ عمل کے ساتھ ایک انقلابی پارٹی کی موجودگی ہے۔

ایسے کسی قیادت کی عدم موجودگی ہی امریکہ کی موجودہ شورش کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔

آخر کتنی بار لوگوں سے توقع کی جاسکتی ہے کے وہ کوئی بھی خاطر خواہ نتائج حاصل کیے بغیر ہی پولیس کے ڈنڈے کھانے، آنسو گیس جھیلنے، گولیاں کھانے یا مرنے کیلئے سڑکوں پر آئیں گے؟ آخر کار مظاہرین تھک کر، بیزار ہو کر واپس غیر متحرک ہو جائیں گے۔ آہستہ آہستہ مظاہریں کی تعداد گھٹتی جائے گی اور وہ (مظاہرے) زوال پذیر ہوتے ہوئے دنگوں میں بدل جائیں گے، جس سے حکمران طبقے اور اس کے دلالوں کو مزید تشدد کرنے کا جواز اور موقع مل جائے گا اور ایک بارپھرجعت حاوی ہوجائے گی۔

کیا یہ ایک ناگزیر نتیجہ ہے؟ نہیں، یہ ہرگز ناگزیر نہیں۔ لیکن اس سے بچنے کیلئے کچھ لازمی اسباق سیکھنے ہوں گے۔ جیسے مظاہرے میں ایک نوجوان چلایا ”ہم حالت جنگ میں ہیں“ یہ بات مکمل طور پر درست ہے لیکن جنگ میں کئی چھوٹی بڑی لڑائیاں ہوتی ہیں۔

موجودہ شورش اس جنگ کے محض ابتدائی دھماکے ہیں۔ یہ پہلی لڑائی ہے جسے ہم جیتنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ ایک تربیتی سکول ہے جس میں مستقبل کی جنگ کے سپاہی تربیت پا رہے ہیں،مضبوط اور تیار ہو رہے ہیں۔

مستقبل میں ہمارا پالا اس طرح کی کئی لڑائیوں سے ہوگا۔ ایسے میں ہمارا فریضہ سماج کی تمام تر قوتوں کو متحد کرنا ہے یعنی معاشرے کے تمام مظلوم اور استحصال زدہ طبقات کی ایک عظیم فوج بنانا ہے۔

اس کا کیا مطلب ہے؟

موجودہ بحران کوئی ثانوی حیثیت کا بحران نہیں ہے کہ عوام کی دیوانگی کا یہ طوفان، امریکہ کی سیاسی اور سماجی زندگی پر اپنا کوئی اثر چھوڑے بغیر عنقریب ہی اتر جائے گا۔ حقیقت میں اس تحریک نے امریکی سماج کی اندرونی توڑ پھوڑ، امیر اور غریب اور کالے اور گورے کی درمیان کے بھاری فرق اور حاکم اور محکوم کو منکشف کیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے الفاظ میں:

”اس ہفتے امریکہ کی مستقل سیاسی نااہلی اور نسلی نابرابری ننگی ہو گئی۔ ایک طرف کرونا وائرس سے اموات میں قابل تشویش اضافہ ہوا تو دوسری طرف ملک کو یہ یاد دلایا گیا کہ اس ملک میں کتنی بڑی تعداد میں سیاہ فام پولیس کی جانب سے ایسے بہیمانہ طریقے سے مارے جاتے ہیں۔ یہ دونوں واقعات کا پہلے سے ہی بحران میں مبتلا قوم کیلئے، جو ایک طرف پولیس تشدد کا شکار ہے اور دوسری طرف ایک مہلک مرض جو بے قابو ہوتا جارہا ہے اور معیشت کو برباد کر رہا ہے، ایک بڑا جھٹکا تھا۔“

سنجیدہ مبصرین کو صورتحال کی گھمبیرتا کا اندازہ ہو گیا ہے، اور وہ جانتے ہیں کہ یہ امریکہ کے مستقبل کے لیے کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ تاریخ دان اور رائس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈگلس برنکلے نے واشنگٹن پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”امریکی سماج کے تانے بانے ٹوٹ سکتے ہیں کیونکہ ہر کسی کے گرد زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے۔“

ایک سیاسی کارکن اور یونیورسٹی آف ایلے نوئے کی تاریخ دان باربرا رینسبے کا کہنا ہے کہ

”لوگوں کو ہر چیز پر غصہ ہے۔ تاریخ میں کئی اہم موڑ اور غیر معمولی لمحے آتے ہیں، یہ بھی ان میں سے ایک ہیں لیکن ان کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کے یہ کس کروٹ بیٹھیں گے۔“

کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر تاریخ ایرک فونر نے کہا کہ ماضی ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے لیکن کسی کے بھی اثرات اتنے گہرے نہیں پڑے جتنے اس کے لگ رہے ہیں۔ اس نے 1848ء کے یورپی انقلابات سے لے کر2005ء کے کترینا طوفان جیسی متضاد مثالیں دیں، یورپی انقلابات جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”ایک ایسا موڑ جو جدید تاریخ لینے میں ناکام رہی“ اور سمندری طوفان کترینہ جس نے جان لیوا ریاستی ناکامیوں کو ننگا کردیا تھا لیکن کسی سیاسی تبدیلی کا باعث نہیں بن سکا۔

فونر کا مزید کہنا تھا کہ ”ایک بہت بڑی قوت ہے جو ہمیں معمول کی طرف واپس دھکیل رہی ہے۔ مجھے تو ان پر حیرانی ہوتی ہے جو کہتے ہیں کرونا وائرس سب کچھ بدل کے رکھ دے گا۔“

واپسی کا کوئی راستہ نہیں

یہ واقعات اتنا تو ضرور بتا رہے ہیں کہ امریکہ میں ایک تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے۔ جن بوتل سے باہر آچکا اور اب اسے واپس بوتل میں قید کرنا آسان نہیں ہو گا۔

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان مظاہروں کے نتائج کیا نکلتے ہیں، اب صورتحال کبھی پہلے جیسی نہیں ہوسکتی۔

جو کچھ ہم نے پچھلے ہفتے امریکہ میں دیکھا وہ ایک حقیقی، اچانک ابھرنے والی عوامی تحریک ہے جس نے بغاوت کے خصائل اختیار کر لیے۔ عوام، عام طور پر، کتابوں سے نہیں بلکہ اپنے تجربے سے سیکھتے ہیں۔ انقلاب کے دوران سیکھنے کا عمل بہت زیادہ تیز ہو جاتا ہے۔ جس طرح کے طوفانی واقعات امریکہ میں ہورہے ہیں ان کے دوران عوام 24 گھنٹوں میں وہ کچھ سیکھ جاتے ہیں جو عام زندگی کے دس بیس سالوں میں بھی سیکھا نہیں ہوتا۔

جیسا کہ اس نوجوان احتجاجی نے کہا کہ یہ ایک جنگ ہے؛ متضاد طبقاتی قوتوں کے مابین ایک بے رحمانہ جنگ۔ اس جنگ میں کوئی عارضی جنگ بندی نہیں ہوتی، صرف ایک انت ہوتا ہے جس میں سب کچھ فاتح کا ہوتا ہے۔

امریکہ کی اس عوامی تحریک نے پوری دنیا پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ دوسرے ممالک کے کئی شہروں میں بشمول لندن، مانچسٹر، برلن، سٹاک ہوم، آسٹریا، اور ایمسٹرڈیم میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ یہ احتجاج محض امریکہ میں ایک نسلی بنیاد پر ہونے والے قتل کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ موجودہ سماجی ڈھانچے کے خلاف ایک مجموعی عوامی غصے اور بے چینی کی جھلک ہے، جو کرونا وائرس بحران اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اور زیادہ ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔

ہمارا مقابلہ ایک طاقتور دشمن سے ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست سر تا پا مسلح ہے۔ بادی النظر میں ہمارا فریضہ ناممکن لگتا ہے، لیکن سماج میں ایک ایسی قوت ہے جو کسی بھی طرح کی ریاست، فوج، پولیس یا نیشنل گارڈ سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ طاقت محنت کش طبقے کی طاقت ہے جو اگر سماج کو بدلنے کیلئے منظم اور متحرک ہو جائے۔

یاد رکھیں: محنت کش طبقے کی اجازت کے بغیر کوئی بلب روشن نہیں ہوتا، کوئی پہیہ نہیں گھومتا اور نہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں اس قوت کو بڑے سرمایہ داروں کی آمریت کو اکھاڑ پھینکنے اور ظلم اور تکلیفوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے استعمال میں لانا ہو گا۔

منیاپولس اور نیو یارک میں ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں جب بس ڈرائیوروں نے پولیس کے حکم پر اپنی گاڑیوں میں گرفتار مظاہرین کو لے جانے سے انکار کر دیا۔ کہنے والے کہیں گے کہ یہ تو ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ لیکن یہ چھوٹا سا واقعہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو مستقبل کی فتوحات کے راستے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں، عظیم سے بھی عظیم تر فتح یا بدترین شکست۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں۔

فرانسیسی انقلاب کے وقت ایک نعرہ لگایا جاتا تھا:

”وہ ہمیں اس لیے بڑے نظر آتے ہیں
کیونکہ ہم ان کے آگے جھکے ہوئے ہیں
ہمیں اٹھنا ہوگا!“

5جون، 2020ء

Comments are closed.