پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت کی گرفتاری اور احتجاجی تحریک

|تحریر: زلمی پاسون|

پاکستان میں تمام سیاسی پارٹیوں کے زوا ل کے باعث گزشتہ عرصے میں بہت سی تحریکیں ابھری ہیں جنہوں نے عوام کے سلگتے ہوئے اہم مسائل کو نہ صرف اجاگر کیا ہے بلکہ ان مسائل کے حل کے لیے بھی شاندار جدوجہد کی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، اجرتوں میں کمی اور نجکاری کیخلاف آواز بلند کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی تحریکوں نے مظلوم قومیتوں پر جبر کیخلاف بھی آواز بھی بلند کی ہے اور اس کے خلاف بڑی تعداد میں عوام کو ساتھ جوڑتے ہوئے احتجاجی مظاہرے اور جلسے منعقد کیے ہیں۔ان میں پشتون تحفظ تحریک نمایاں حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس نے فاٹا کے علاقوں کے عوام کے انتہائی بنیادی مسائل کو اجاگر کیا ہے اور ان کے حل کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔دیگر تحریکوں کی طرح اس تحریک کیخلاف بھی حکمران طبقے کا رویہ انتہائی آمرانہ ہے اور اس کوروکنیکی کوشش کی جارہی ہے۔پی آئی اے کے ملازمین کی نجکاری کیخلاف جدوجہد ہو یا اپنے حقوق کے لیے آوازاٹھانے والے مظلوم عوام،جو بھی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتا ہے اسے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں جبکہ محنت کش عوام کی حالت پہلے سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور حکمران طبقہ اپنے جبر میں اضافہ کرتا جا رہا ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین کو پولیس نے پیر کی رات پشاور سے گرفتار کرلیا اور منگل کے دن چودہ دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ منظور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک تقریر کرنے پر بغاوت سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ بنایا گیا ہے۔منظور پشتین کی گرفتاری کیخلاف 28 جنوری کوبہت سے شہروں میں پُرامن احتجاجی مظاہرے اور جلسے کیے گئے۔ اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کو گرفتار کرتے ہوئے اُن کے سا تھ 30 کے قریب دیگر سیاسی کارکنان کو بھی اسلام آباد پولیس نے گرفتار کر لیا۔ بعد ازاں، محسن داوڑ کو 7 ساتھیوں سمیت رہا کر دیا گیا، جبکہ 23 سیاسی کارکنان کو مختلف جعلی اور جھوٹے مقدمات کی بنیاد پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت میں ریاستِ پاکستان کے اندر کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں اور پُرامن احتجاج کرنے کے حق کو چھیننا درحقیقت ریاست کیکمزوری کو مزید عیاں کرتا ہے، کہ وہ اب کسی بھی آواز کو برداشت نہیں کرتے جو حکمران طبقے کی عیاشیوں کیخلاف اُٹھتی ہے۔ ریاستی جبر کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ریاستی جبر کیخلاف اُٹھنے والی آواز کو ملک بھر کے مظلوم اقوام اور مظلوم طبقات سے جوڑتے ہوئے امیر اور غریب پر مبنی طبقاتی تقسیم کیخلاف جدوجہد کی جائے۔

منظورپشتین پر ڈیرہ اسماعیل خان میں درج مقدمے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ منظور پشتین نے کہا تھا کہ 73ء کے آئین کی بنیاد انسانی حقوق پر مبنی نہیں، اس وجہ سے یہ آئین نامکمل ہے، جس میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان الفاظ کی محدودیت اپنی جگہ مگر اس سرمایہ دارانہ نظام میں دنیا کے کسی بھی ملک کے آئین کا مطلب بالکل صاف اور واضح ہے کہ یہ آئین سرمایے کے مالکان حکمران طبقات کے مفادات کی نگرانی کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس کو حکمران طبقہ بوقتِ ضرورت اپنے مفادات کی نگرانی اور تحفظ کے لیے پامال کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ اور اس کا واضح اظہار پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان کے اندر ہمیں کُھل کر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس نام نہاد آئین کی پامالی حکمران طبقہ ریاستی جبر کی ہر شکل میں کرتا ہے، چاہے وہ معاشی جبر ہو یا قومی جبر ہو۔ ریاست پاکستان میں ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں جہاں پر آئین کی بالادستی پر سوالیہ نشان موجود ہیں۔ لیکن یہ واضح ہیکہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر کسی بھی ریاست کا آئین و قانون مظلوم عوام و محکوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف حکمران طبقات کے مفادات کی نگرانی کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

درحقیقت، قبائلی علاقہ جات کے عوام کی ابھرنے والی پشتون تحفظ تحریک کی وجہ بھی ایک طویل عرصے تک ان علاقوں میں جاری سامراجی جنگیں اور بدترین جبر تھا جس کیخلاف اب وہاں سے آواز بلند ہورہی ہے۔ اس تمام تر جبر کی ذمہ داری امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اسی امریکی سامراج کی پالیسیوں کے تحت اس پورے خطے کو آگ اور خون کی دلدل میں دھکیل دیا گیا اور خون کی یہ ہولی آج بھی جاری ہے۔ پاکستان کی ریاست اور اس کے تمام حکمران امریکی آقاؤں کے حکم پر ان کی پالیسیوں کو یہاں لاگو کرتے رہے۔ اسی طرح اسی سامراج کے زیر اثر عالمی مالیاتی اداروں کے سودی قرضوں کے ذریعے یہاں کی عوام کا خون اور پسینہ نچوڑ اجاتا رہا۔ اس تمام تر عمل میں جہاں کرائے کی جنگوں میں ایک طرف خون کی ندیاں بہائی گئیں وہاں دوسری طرف بھوک، بیماری اور غربت کے ہاتھوں کروڑوں لوگ ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ جبکہ یہاں کے حکمران نہ صرف پر تعیش زندگیاں گزار رہے ہیں بلکہ ان کے تمام تر اثاثے بھی مغربی ممالک میں محفوظ ہیں۔ صرف یہاں کے محنت کش عوام کو اس جہنم میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

ضرورت ہے کہ امریکی سامراج اور اس کے سرمایہدارانہ نظام کیخلاف جدوجہد کی جائے اور مہنگائی، غربت، لاعلاجی، ناخواندگی اور دیگر بنیادی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کو منظم کرتے ہوئے امیر اور غریب پر مبنی اس طبقاتی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو منظم کیا جائے۔ یہی جدوجہد حکمران طبقے کے تمام تر جبر کا خاتمہ کرے گی اورسوشلزم کے ذریعے ایسے سیاسی نظام کی بنیاد رکھے گی جس میں مظلوموں کیحقوق کی جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنان اور تحریکوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہیں کرنی پڑیں گی۔

Comments are closed.