بلوچستان: سوگ کے سماں میں جشن کی ناٹک بازی!

تحریر: |سہراب بلوچ|
برصغیر پر بیرونی حملہ آوروں اور قابضین کا صدیوں پر محیط جبر و استبداد عوامی شعور پر وہ تاریخی غلامی کے نقش چھوڑ گیا جس نے غلامی کی زنجیروں سے چھٹکارا پانے اور آزادی کے احساس کو اجاگر کیا اور شاندار انقلابی بغاوتوں کو جنم دیا جس سے انگریز سامراج تک کو کو دم دبا کر بھاگنا پڑ گیا۔ مگر جیسے کہ اس وقت کے عظیم انقلابی سپاہی بھگت سنگھ کو خدشہ تھا کہ یہ آزادی ایسی نہیں ہونی چاہئے کہ جس میں ہمیں گورے حکمرانوں سے تو چھٹکارا ملے مگر انکی جگہ کالے حکمران ہم پر مسلط ہوں۔ بھگت سنگھ طبقات سے پاک برابری کی بنیاد پر سماج کی تعمیر کا جہد کار تھا مگر اسے ایسے سماج کی بنیاد رکھنے کیلئے اپنی جان کی قربانی دینا پڑ گئی اور وہی ہوا جس کا اسے خدشہ تھا۔ انگریز تو اس خطے سے چلے گئے مگر اپنی باقیات حکمرانی کیلئے چھوڑ گئے اور ساتھ ہی ساتھ برصغیر کا غیر فطری خونی بٹوارہ بھی کرتے ہوئے یہاں کی تہذیب کا بلادکار کر گئے جس کی سزا پچھلے ستر سال سے یہاں کی عوام بھگت رہی ہے۔ کبھی ہندوستان پاکستان جنگوں کے نام پر تو کبھی مذہبی جنونیت کے نام پر اور کبھی حکمرانوں کے آپسی تضادات کی چکّی میں دونوں طرف کے عوام پستے چلے آرہے ہیں۔

Balochistan Independence Day Celebrations amid Bereavement

15 اگست کو نام نہاد آزادی پانے والے ملکوں میں سے پاکستان اپنی آزادی 14 اگست کو اس لئے مناتا ہے کہ اسے ہندوستان کے ساتھ ایک ہی دن جشن منانا گوارا نہیں مگر دیکھا جائے تو اس دن بھی یہاں جشن کی تمام تر تیاریاں اور محفلیں مصنوعی اور لوگوں کی شمولیت محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہیں۔ بالخصوص بلوچستان جس میں شروع دن سے پاکستان اپنی رٹ بنائے رکھنے کی کوشش میں ناکام رہا ہے یہاں تو آزادی کا کوئی بھی جشن کبھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ اس کی بنیادی وجہ یہاں کی عوام پر مسلسل ریاستی جبر اور اس جبر کی بدولت محرومی میں اضافہ ہے جس کی وجہ سے ریاست کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے اور بلوچ عوام 1948ء سے جبری قبضے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں مگر اپنی نظریاتی کوتاہیوں اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے تاحال کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے ہیں۔
ویسے اگست کا مہینہ ہمیشہ سے بلوچستان میں ایک پر انتشار اور برا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ 11اگست کو بلوچ قوم بلوچستان کی برطانوی راج سے آزادی کے دن کے طور پر منانے کی کوشش کرتی ہے جسے ریاست ہر ممکن طریقے ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہے جبکہ 14 اگست کو جب ریاست اپنی آزادی کا دن منانے کی کوشش کرتی ہے تو بلوچ مزاحمت کار پوری کوشش کرتے ہیں کہ ریاستی تیاریوں کو ناکام بنائیں اور اس کے علاوہ دیگر شہداء کی شہادتوں کے دن بھی اگست ہی کے مہینے میں آتے ہیں جو اس مہینے کو مزید سوگوار اور پر انتشار بناتے ہیں۔ 8 اگست، جس دن ہسپتال میں وکلا پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں 100 سے زائد قیمتی جانوں کا نقصان بلوچستان کو اٹھانا پڑا، نے اس مہینے کی سیاہی میں مزید اضافہ کر دیا۔ ریاستی حکمران بارہا کوشش کرتے رہے کہ اس حملے کو ہندوستان کے خلاف استعمال کریں اور آرمی چیف اور وزیر اعظم نے اس حملے کو پاک چین اقتصادی راہداری پر حملہ قرار دیا اور شہید وکلا کو قوم کے لئے قربان ہونے والے عظیم سپاہی بھی قرار دیا گیا مگر عوام اور شہید وکلا کے لواحقین یہ ریاستی چورن ہضم کرنے کو کسی صورت تیار نہ ہوئے اور کوئٹہ شہر پوری طرح سوگ مناتا رہا جبکہ ریاستی کارندے اور چند لمپن دیہاڑی دار ہی گلیوں میں ڈھول پیٹتے مصنوعی جشن مناتے دکھائی دیئے جوکہ ناکام جشن آزادی کا کھلا ثبوت تھا۔ حالانکہ ریاستی مشینری پوری طرح استعمال کی گئی تھی تاکہ ایک کامیاب جشن کا ماحول پیش کیا جا سکے جس میں پشتون ایریا میں خصوصی طور پر لوگوں کو گاڑیوں اور دکانوں پر پاکستانی جھنڈا نہ لگانے پر پانچ سے پندرہ ہزار کے جرمانے بھی عائد کئے گئے مگر آزادی کا جذبہ تو زبردستی نہیں آتا۔ کوئٹہ شہر کے سوگواران ریاستی اہلکاروں کے ڈھول اور میوزک کی اونچی آوازیں سن کر اور زیادہ افسردہ اور غمگین ہورہے تھے کہ ایک طرف ریاست کے پالے ہوئے مذہبی جنونی گروہ ان کے گھر اْجاڑ گئے تو دوسری طرف ریاست نام نہاد آزادی کے جشن کے نام پر ان کے زخموں پر نمک پاشی کر رہی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ریاست اس بار اگر آزادی کے اس دن کو منانا چاہتی بھی تھی تو انتہائی احترام اور تمیز سے منا لیتی مگر نہیں!
یہاں اگر کچھ آزاد ہے تو صرف ریاست خود! اور اس کے ساتھ بھوک و ننگ کا بھوت، دہشت گردی کا جِن، انسانیت دشمن درندے، کرپشن و بدعنوانی کے ٹھیکیدار، جہالت، لاعلاجی و بیروزگاری کا کرب اور دندناتی پھرتی حکمران طبقے کے بیہودہ حکم کی لاٹھی جن سے محکوموں، محنت کشوں اور درماندہ انسانوں کی زندگیاں مسلسل لقمہ اجل بن رہی ہیں اور ان مفلوک الحال عوام کی زندگیاں تاریکیوں میں مسلسل ڈوبتی جا رہی ہیں۔ مگر انسان ایک حد تک ظلم برداشت کرتا ہے۔ ایک ایسا موڑ آتا ہے جب مزید سہنے کی سکت جواب دیتی ہے اور بغاوت کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب جب عوام نے حکمرانوں کے جبر کو سہنے سے انکار کیا ہے تو طاقت حاکموں کے ایوانوں سے نکل کر عوامی میدانوں، کھیت و کھلیانوں اور گلی کوچوں میں منتقل ہوئی ہے مگر اس طاقت کا درست استعمال اور حکمرانی اپنے طبقے کے حق میں بدلنے کیلئے پھر طبقاتی بنیادوں پر درست نظریہ اور حکمت عملی پر مبنی انقلابی پارٹی کے تشکیل کی ضرورت پڑتی ہے جو حکمرانوں کی ہر مکارانہ وار کا مقابلہ کرتے ہوئے برابری اور انصاف پر مبنی غیر طبقاتی سماج کی بنیاد رکھے۔

Comments are closed.